اساتذہ پر تشدد کی مذمت

احسن جاوید

محفلین
حکومت کو جب ضرورت تھی تو ان کو عارضی بھرتی کیا اور جب معلم اور ایج ہوگئے تو لاٹھیوں سے مارے. شیم یار
پروفیسر صاحب گورنمنٹ نے ان سب کو گھر سے زبردستی اٹھا کر گن پوائنٹ پہ بھرتی نہیں کیا تھا۔ گورنمنٹ کو ان کی ضرورت تھی اور ان کو کام کی ضرورت تھی۔ دونوں ہی اپنی اپنی ضرورت کو پورا کر رہے تھے۔ کنٹرکٹ سائن کرتے وقت اگر ایسی کوئی شق تھی تو گورنمنٹ کو فی الفور عمل کرنا چاہیے اور اگر نہیں تھی تو زور زبردستی دھونس کو زور زبردستی دھونس ہی کہا جائے گا، حق نہیں کہا جائے گا۔ جذباتی بیانیے سے ہٹ کر منطقی اور انصاف کی بنیادوں پہ کیس لڑنا چاہیے۔
اگرچہ لاٹھی چارج بہت غلط عمل ہے اور کسی صورت نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ کے مراسلے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے گورنمنٹ سکولوں میں جا کر پڑھاتے ہوئے اوورایج اساتذہ پہ لاٹھی چارج کر رہی ہے کہ آپ اوورایج کیوں ہو گئے ہیں۔
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
پاکستان میں اساتذہ کو وہ ادب و احترام ہے ہی نہیں جو کہ ان کا حق ہے۔ اس میں کسی حد تک قصور ہمارے اساتذہ کا بھی ہے۔
کچھ بھی ہے لیکن اساتذہ کے ساتھ مارپیٹ قابل مذمت ہے۔ اور میں اس پر بھرپور احتجاج کرتا ہوں۔
 
پروفیسر صاحب گورنمنٹ نے ان سب کو گھر سے زبردستی اٹھا کر گن پوائنٹ پہ بھرتی نہیں کیا تھا۔ گورنمنٹ کو ان کی ضرورت تھی اور ان کو کام کی ضرورت تھی۔ دونوں ہی اپنی اپنی ضرورت کو پورا کر رہے تھے۔ کنٹرکٹ سائن کرتے وقت اگر ایسی کوئی شق تھی تو گورنمنٹ کو فی الفور عمل کرنا چاہیے اور اگر نہیں تھی تو زور زبردستی دھونس کو زور زبردستی دھونس ہی کہا جائے گا، حق نہیں کہا جائے گا۔ جذباتی بیانیے سے ہٹ کر منطقی اور انصاف کی بنیادوں پہ کیس لڑنا چاہیے۔
اگرچہ لاٹھی چارج بہت غلط عمل ہے اور کسی صورت نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ کے مراسلے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے گورنمنٹ سکولوں میں جا کر پڑھاتے ہوئے اوورایج اساتذہ پہ لاٹھی چارج کر رہی ہے کہ آپ اوورایج کیوں ہو گئے ہیں۔
23 اکتوبر 2019 کو کیا ہوا تھا:
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے 23 اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں اساتذہ کے پُرامن احتجاج کو مُنتشرکرنے کے لیے پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔ ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بتایا گیا کہ پولیس کی بھاری نفری نے احتجاجی کیمپ پر دھاوا بولا اور عورتوں سمیت 200 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا۔ ٹیم کو یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس بعض عورتوں کے ہمراہ اُن کے بچوں

کو بھی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی۔
مظاہرین جن میں سے زیادہ تر بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سسٹم کے تحت دوردراز علاقوں کے اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اُنہیں آٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے جس سے اُن کا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ کئی اساتذہ کی تنخواہ میں گذشتہ دو برسوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا؛ اور اس سے بھی بڑی زیادتی یہ کہ انہیں گذشتہ دس ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ ان کو مستقل ملازم کا درجہ نہیں دیا گیا جس کا مطلب ہے کہ انہیں ہروقت روزگار کھونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ جب 2018 میں اُنہوں نے دھرنا دیا تھا تو وفاقی وزیرِتعلیم اور جوائنٹ سیکریٹری تعلیم نے اُنہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ ایک برس کے اندر اُن کی ملازمت کو مستقل کردیا جائے گا مگریہ وعدایفا نہیں کیا گیا۔ ملک کے 137 اضلاع میں جاری اس منصوبے کے تحت سات لاکھ طالبعلم تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ 12,000اساتذہ زیرِملازمت ہیں

ریاست نے اساتذہ کے احتجاج کے ردِعمل میں تشویشناک حد تک زیادہ طاقت استعمال کی ہے۔ مظاہرین کی شکایت ہے کہ پولیس نے عورتوں کو یہ کہہ کر کنٹینرز کے اندر بند کردیاکہ وہ وہاں محفوظ رہیں گی اور اس دوران دیگر مظاہرین کو مُنتشر کرنے کے لیے واٹرکینن اور لاٹھیاں استعمال کرتی رہی ۔ اگرچہ گرفتار شدہ لوگوں کی ضمانت منظور ہو گئی ہے مگر کئی مظاہرین کا کہنا ہے کہ اُن کا سامان پولیس نے ضبط کرلی تھیں اور ان کے پاس ضمانت کے لیے درکار پیسے نہیں ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے اُسے طاقت استعمال کرنا پڑی۔

ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ عوام کے پُرامن اجتماع اور مناسب معاوضے کے حق کا احترام کیا جائے، اور انہیں مستقل روزگار کی فراہمی کے لیے فی الفور اقدامات کیے جائیں۔ ایک ایسی ریاست جو اساتذہ کے مہذب روزگار کے حق کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتی اپنے عوام کی مایوسی کا سبب بنتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پروفیسر صاحب گورنمنٹ نے ان سب کو گھر سے زبردستی اٹھا کر گن پوائنٹ پہ بھرتی نہیں کیا تھا۔ گورنمنٹ کو ان کی ضرورت تھی اور ان کو کام کی ضرورت تھی۔ دونوں ہی اپنی اپنی ضرورت کو پورا کر رہے تھے۔ کنٹرکٹ سائن کرتے وقت اگر ایسی کوئی شق تھی تو گورنمنٹ کو فی الفور عمل کرنا چاہیے اور اگر نہیں تھی تو زور زبردستی دھونس کو زور زبردستی دھونس ہی کہا جائے گا، حق نہیں کہا جائے گا۔ جذباتی بیانیے سے ہٹ کر منطقی اور انصاف کی بنیادوں پہ کیس لڑنا چاہیے۔
اگرچہ لاٹھی چارج بہت غلط عمل ہے اور کسی صورت نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ کے مراسلے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے گورنمنٹ سکولوں میں جا کر پڑھاتے ہوئے اوورایج اساتذہ پہ لاٹھی چارج کر رہی ہے کہ آپ اوورایج کیوں ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں اساتذہ کو وہ ادب و احترام ہے ہی نہیں جو کہ ان کا حق ہے۔ اس میں کسی حد تک قصور ہمارے اساتذہ کا بھی ہے۔
کچھ بھی ہے لیکن اساتذہ کے ساتھ مارپیٹ قابل مذمت ہے۔ اور میں اس پر بھرپور احتجاج کرتا ہوں۔

23 اکتوبر 2019 کو کیا ہوا تھا:
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے 23 اکتوبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں اساتذہ کے پُرامن احتجاج کو مُنتشرکرنے کے لیے پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔ ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بتایا گیا کہ پولیس کی بھاری نفری نے احتجاجی کیمپ پر دھاوا بولا اور عورتوں سمیت 200 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا۔ ٹیم کو یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس بعض عورتوں کے ہمراہ اُن کے بچوں

کو بھی اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئی۔
مظاہرین جن میں سے زیادہ تر بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سسٹم کے تحت دوردراز علاقوں کے اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اُنہیں آٹھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے جس سے اُن کا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ کئی اساتذہ کی تنخواہ میں گذشتہ دو برسوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا؛ اور اس سے بھی بڑی زیادتی یہ کہ انہیں گذشتہ دس ماہ سے تنخواہ نہیں ملی۔ ان کو مستقل ملازم کا درجہ نہیں دیا گیا جس کا مطلب ہے کہ انہیں ہروقت روزگار کھونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ جب 2018 میں اُنہوں نے دھرنا دیا تھا تو وفاقی وزیرِتعلیم اور جوائنٹ سیکریٹری تعلیم نے اُنہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ ایک برس کے اندر اُن کی ملازمت کو مستقل کردیا جائے گا مگریہ وعدایفا نہیں کیا گیا۔ ملک کے 137 اضلاع میں جاری اس منصوبے کے تحت سات لاکھ طالبعلم تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ 12,000اساتذہ زیرِملازمت ہیں

ریاست نے اساتذہ کے احتجاج کے ردِعمل میں تشویشناک حد تک زیادہ طاقت استعمال کی ہے۔ مظاہرین کی شکایت ہے کہ پولیس نے عورتوں کو یہ کہہ کر کنٹینرز کے اندر بند کردیاکہ وہ وہاں محفوظ رہیں گی اور اس دوران دیگر مظاہرین کو مُنتشر کرنے کے لیے واٹرکینن اور لاٹھیاں استعمال کرتی رہی ۔ اگرچہ گرفتار شدہ لوگوں کی ضمانت منظور ہو گئی ہے مگر کئی مظاہرین کا کہنا ہے کہ اُن کا سامان پولیس نے ضبط کرلی تھیں اور ان کے پاس ضمانت کے لیے درکار پیسے نہیں ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے اُسے طاقت استعمال کرنا پڑی۔

ایچ آر سی پی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ عوام کے پُرامن اجتماع اور مناسب معاوضے کے حق کا احترام کیا جائے، اور انہیں مستقل روزگار کی فراہمی کے لیے فی الفور اقدامات کیے جائیں۔ ایک ایسی ریاست جو اساتذہ کے مہذب روزگار کے حق کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتی اپنے عوام کی مایوسی کا سبب بنتی ہے۔
حکومتی موقف وہی ہے جو احسن جاوید نے پیش کیا ہے
 
اگرچہ لاٹھی چارج بہت غلط عمل ہے اور کسی صورت نہیں ہونا چاہیے لیکن آپ کے مراسلے سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے گورنمنٹ سکولوں میں جا کر پڑھاتے ہوئے اوورایج اساتذہ پہ لاٹھی چارج کر رہی ہے کہ آپ اوورایج کیوں ہو گئے ہیں۔
روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، روزگار اور انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، روزگار اور انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
نہیں جناب، یہ محض ایک سیاسی جماعت کا ووٹ لینے کیلئے جھوٹا نعرہ ہے۔ اگر یہ حق ہوتا تو اندرون سندھ میں جو پیپلز پارٹی ۱۹۷۰ سے حکومت کر رہی ہے، وہاں یہ سب عام عوام کو اب تک مل جاتا۔ جیسا کہ ہر شہری کو ووٹ دینے کا حق ملا ہوا ہے۔ اب اس خود فریبی سے باہر آجائیے۔ روٹی کپڑا مکان حقوق نہیں ہیں صرف ووٹ لینے کیلئے جھوٹے نعرے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، روزگار اور انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
ہاہاہاہا. ان کے علاوہ باقی تو بنیادی حقوق ہیں.
ترقی یافتہ ممالک میں یہ سب حقوق ہیں لیکن ان کو حاصل کرنے سے قبل کچھ فرائض بھی ہیں جن پر وہ سختی سے عمل پیرا ہیں۔ مثلا:
ہر شہری اپنی آمدن کے حساب سے کم از کم ۳۶ فیصد اور زیادہ سے زیادہ ۵۰ فیصد ٹیکس ادا کرے۔ مارکیٹ میں بکنے والی ہر چیز اور سروس پر ۲۵ فیصد ٹیکس ادا کرے۔
اوپر موجود ٹیکسز کے علاوہ ہر شہری وراثت میں ملنے والے اثاثوں، خرید و فروخت کے وقت ملکیت تبدیل کرنے والے اثاثوں، کاروباری حصص میں ملنے والے منافع سے بھی کچھ فیصد حصہ حکومت وقت کو ادا کرے گا۔
جب ہر پاکستانی ڈنڈی مارے بغیر اتنا زیادہ ٹیکس ادا کرنا شروع کر دے تو پھر حکومت سے ترقی یافتہ ممالک والے حقوق مانگنے پر آپ حق بجانب ہوں گے۔ اس سے پہلے نہیں۔
 

احسن جاوید

محفلین
روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، روزگار اور انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
انصاف کے علاوہ یہ سارے بنیادی حقوق ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہیں۔ گورنمنٹ کا کام صرف فیسیلیٹیٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں کسی فرد کے ساتھ ناانصافی نہ ہو اور کوئی طبقہ دوسرے طبقے کا استحصال نہ کرے اور شہریوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ روٹی کپڑا مکان بھی انسان نے اپنے لیے خود کمانا ہوتا ہے اور تعلیم اور روزگار بھی۔ گورنمنٹ تعلیم کو صرف اس لیے سپورٹ کرتی ہے کہ ہر بندے میں شعور اجاگر ہو اور وہ اپنی ذمہ داریاں پہچان لے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انصاف کے علاوہ یہ سارے بنیادی حقوق ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہیں۔ گورنمنٹ کا کام صرف فیسیلیٹیٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں کسی فرد کے ساتھ ناانصافی نہ ہو اور کوئی طبقہ دوسرے طبقے کا استحصال نہ کرے اور شہریوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ روٹی کپڑا مکان بھی انسان نے اپنے لیے خود کمانا ہوتا ہے اور تعلیم اور روزگار بھی۔ گورنمنٹ تعلیم کو صرف اس لیے سپورٹ کرتی ہے کہ ہر بندے میں شعور اجاگر ہو اور وہ اپنی ذمہ داریاں پہچان لے۔
یہ تو ٹیکس آمدن پر منحصر ہے کہ حکومت عوام کو کتنے حقوق دے سکتی ہے۔ جیسے ادھر ناروے میں تعلیم و صحت بالکل مفت ہے۔ اگر کام کاج نہ ہو تو حکومت کی جانب سے پھر بھی اچھے اسٹینڈرڈ کا روٹی، کپڑا، مکان مفت مہیا کر دیا جاتا ہے۔
البتہ انصاف کا حصول تو یہاں بھی مفت نہیں کیونکہ وکلا ٹھیک ٹھاک فیس لیتے ہیں۔ لیکن یہ سہولت بہرحال ہے کہ اگر وکیل کی فیس نہیں دے سکتے تو حکومت خود اپنی طرف سے وکیل کر دیتی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
نون لِیگ سے نِکلو ڈار صاحب۔ مُجھے اب بھی لگتا ہے کہ نُون لیگ مجموعی طور پر موجودہ حکُومت سے بدرجہا بہتر رہی۔
ابھی تحریک انصاف کو پورے ۲۳ سال نہیں ملے۔
B932-B345-9-AD8-4-E06-8-D8-B-34-B1-BB45-FBE1.jpg
 
انصاف کے علاوہ یہ سارے بنیادی حقوق ہر انسان کی اپنی ذمہ داری ہیں۔ گورنمنٹ کا کام صرف فیسیلیٹیٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں کسی فرد کے ساتھ ناانصافی نہ ہو اور کوئی طبقہ دوسرے طبقے کا استحصال نہ کرے اور شہریوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ روٹی کپڑا مکان بھی انسان نے اپنے لیے خود کمانا ہوتا ہے اور تعلیم اور روزگار بھی۔ گورنمنٹ تعلیم کو صرف اس لیے سپورٹ کرتی ہے کہ ہر بندے میں شعور اجاگر ہو اور وہ اپنی ذمہ داریاں پہچان لے۔
ائین پاکستان میں کیا لکھا ہے؟
 
Top