اساتذہ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے، شکریہ۔ '' پڑی ہے کن کے پہلو میں مری بھی التجا محسؔن''

پڑی ہے کن کے پہلو میں مری بھی التجا محسؔن
مرے غم کا یہ پہلو تو بہت ہے نارسا محسؔن

-

یہ دل ہے گھر تمنا کا، یہاں بے حد اذیت ہے
یہ گھر تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تو سر اٹھا محسؔن

-

کبھی ساحل، کبھی ساگر، کبھی صحرا، کبھی گلشن
کبھی رکھ کے ترے در پہ جبیں اپنی چلا محسؔن

-

ہوا ہے حادثہ پھر سے مرے ہی آشیانے میں
اڑا تھا جو بلندی کو زمیں پہ آ گرا محسؔن

-

پہنچی پیرِ کنعاں تک محبت کی وہ بُو جیسے
پتہ اُس کا مجھے دینے چلی ایسے صبا محسؔن

-

عجب اس خونِ دل میں پھر ہوئے ہیں وسوسے پیدا
عجب اس سازِ رو نے پھر کیا ہے تذکرہ محسؔن

-

خلش دل کی مٹا کر بھی اگر حاصل نہیں کچھ تو
مرا پہلو جلا کر تم مری کر دو دوا محسؔن

-

سحر دم چھوڑ کر جانا بہت دشوار ہوتا ہے
سحر دم ہی تڑپتی ہے ستاروں کی ضیاء محسؔن

-

غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ ہو کوئی محسؔن
کجا ساحؔر، کجا ساغؔر، کجا ناصؔر، کجا محسؔن

-

محسؔن احمد
 

الف عین

لائبریرین
خوش آمدید محسن۔ ماشاء اللہ طبیعت تو موزوں ہے۔ لیکن خیالات پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ے۔
پڑی ہے کن کے پہلو میں مری بھی التجا محسؔن
مرے غم کا یہ پہلو تو بہت ہے نارسا محسؔن
÷÷÷کِن یا کُن۔ زیر یا پیش، دونوں معنوں میں شعر سمجھ نہیں سکا۔
’مری بھی‘ کی ضرورت؟ غم کا پہلو کی نارسائی۔ کون سا پہلو؟ یہ سب سوالات جواب طلب رہ گئے ہیں۔

یہ دل ہے گھر تمنا کا، یہاں بے حد اذیت ہے
یہ گھر تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تو سر اٹھا محسؔن
÷÷÷ٹھیک ہے۔


کبھی ساحل، کبھی ساگر، کبھی صحرا، کبھی گلشن
کبھی رکھ کے ترے در پہ جبیں اپنی چلا محسؔن
÷÷÷ جبیں چھوڑ کر بھٹکنے کے لئے کیسے چل دئے محسن؟

ہوا ہے حادثہ پھر سے مرے ہی آشیانے میں
اڑا تھا جو بلندی کو زمیں پہ آ گرا محسؔن
÷÷÷بلندی سے اڑ کر زمین پر اور سیدھا آشیانے میں گرا؟

پہنچی پیرِ کنعاں تک محبت کی وہ بُو جیسے
پتہ اُس کا مجھے دینے چلی ایسے صبا محسؔن
÷÷غالباً ’نہ پہنچی‘ کا ’نہ‘ کاپی پیسٹ کرنے سے رہ گیا ہے۔ شعر درست ہے، لیکن ’جیسے‘ کے بغیر۔ یہاں ’شاید‘ کیا جا سکتا ہے۔

عجب اس خونِ دل میں پھر ہوئے ہیں وسوسے پیدا
عجب اس سازِ رو نے پھر کیا ہے تذکرہ محسؔن
÷÷÷’سازِ رو‘ سمجھنے سے قاصر ہوں

خلش دل کی مٹا کر بھی اگر حاصل نہیں کچھ تو
مرا پہلو جلا کر تم مری کر دو دوا محسؔن
÷÷÷بظاہر کوئی خامی نہیں۔ مگر پہلو جلانے سے ہی دوا کیوں ممکن ہے، یہ سمجھنے کا قرینہ نہیں کوئی۔

سحر دم چھوڑ کر جانا بہت دشوار ہوتا ہے
سحر دم ہی تڑپتی ہے ستاروں کی ضیاء محسؔن
÷÷÷درست

غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ ہو کوئی محسؔن
کجا ساحؔر، کجا ساغؔر، کجا ناصؔر، کجا محسؔن
÷÷÷پوری غزل ہی مقطع ہے، اس لئے پہلے مصرع میں تخلص کی چنداں ضرورت نہیں۔ یوں با معنی ہو سکتا ہے۔
غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ، صنف ہو کوئی
 
خوش آمدید محسن۔ ماشاء اللہ طبیعت تو موزوں ہے۔ لیکن خیالات پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ے۔
پڑی ہے کن کے پہلو میں مری بھی التجا محسؔن
مرے غم کا یہ پہلو تو بہت ہے نارسا محسؔن
÷÷÷کِن یا کُن۔ زیر یا پیش، دونوں معنوں میں شعر سمجھ نہیں سکا۔
’مری بھی‘ کی ضرورت؟ غم کا پہلو کی نارسائی۔ کون سا پہلو؟ یہ سب سوالات جواب طلب رہ گئے ہیں۔

یہ دل ہے گھر تمنا کا، یہاں بے حد اذیت ہے
یہ گھر تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تو سر اٹھا محسؔن
÷÷÷ٹھیک ہے۔


کبھی ساحل، کبھی ساگر، کبھی صحرا، کبھی گلشن
کبھی رکھ کے ترے در پہ جبیں اپنی چلا محسؔن
÷÷÷ جبیں چھوڑ کر بھٹکنے کے لئے کیسے چل دئے محسن؟

ہوا ہے حادثہ پھر سے مرے ہی آشیانے میں
اڑا تھا جو بلندی کو زمیں پہ آ گرا محسؔن
÷÷÷بلندی سے اڑ کر زمین پر اور سیدھا آشیانے میں گرا؟

پہنچی پیرِ کنعاں تک محبت کی وہ بُو جیسے
پتہ اُس کا مجھے دینے چلی ایسے صبا محسؔن
÷÷غالباً ’نہ پہنچی‘ کا ’نہ‘ کاپی پیسٹ کرنے سے رہ گیا ہے۔ شعر درست ہے، لیکن ’جیسے‘ کے بغیر۔ یہاں ’شاید‘ کیا جا سکتا ہے۔

عجب اس خونِ دل میں پھر ہوئے ہیں وسوسے پیدا
عجب اس سازِ رو نے پھر کیا ہے تذکرہ محسؔن
÷÷÷’سازِ رو‘ سمجھنے سے قاصر ہوں

خلش دل کی مٹا کر بھی اگر حاصل نہیں کچھ تو
مرا پہلو جلا کر تم مری کر دو دوا محسؔن
÷÷÷بظاہر کوئی خامی نہیں۔ مگر پہلو جلانے سے ہی دوا کیوں ممکن ہے، یہ سمجھنے کا قرینہ نہیں کوئی۔

سحر دم چھوڑ کر جانا بہت دشوار ہوتا ہے
سحر دم ہی تڑپتی ہے ستاروں کی ضیاء محسؔن
÷÷÷درست

غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ ہو کوئی محسؔن
کجا ساحؔر، کجا ساغؔر، کجا ناصؔر، کجا محسؔن
÷÷÷پوری غزل ہی مقطع ہے، اس لئے پہلے مصرع میں تخلص کی چنداں ضرورت نہیں۔ یوں با معنی ہو سکتا ہے۔
غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ، صنف ہو کوئی
سر بے حد شکر گزار ہوں آپ کا۔ آپ نے اُن زاویوں کی طرف میری توجہ مبزول کرائی ہے جنہیں میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ میں درستی کی کوشش کرتا ہوں اور دوبارہ حاضر ہوتا ہوں۔ شکریہ :)
 
خوش آمدید محسن۔ ماشاء اللہ طبیعت تو موزوں ہے۔ لیکن خیالات پر کچھ کام کرنے کی ضرورت ے۔
پڑی ہے کن کے پہلو میں مری بھی التجا محسؔن
مرے غم کا یہ پہلو تو بہت ہے نارسا محسؔن
÷÷÷کِن یا کُن۔ زیر یا پیش، دونوں معنوں میں شعر سمجھ نہیں سکا۔
’مری بھی‘ کی ضرورت؟ غم کا پہلو کی نارسائی۔ کون سا پہلو؟ یہ سب سوالات جواب طلب رہ گئے ہیں۔

یہ دل ہے گھر تمنا کا، یہاں بے حد اذیت ہے
یہ گھر تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تو سر اٹھا محسؔن
÷÷÷ٹھیک ہے۔


کبھی ساحل، کبھی ساگر، کبھی صحرا، کبھی گلشن
کبھی رکھ کے ترے در پہ جبیں اپنی چلا محسؔن
÷÷÷ جبیں چھوڑ کر بھٹکنے کے لئے کیسے چل دئے محسن؟

ہوا ہے حادثہ پھر سے مرے ہی آشیانے میں
اڑا تھا جو بلندی کو زمیں پہ آ گرا محسؔن
÷÷÷بلندی سے اڑ کر زمین پر اور سیدھا آشیانے میں گرا؟

پہنچی پیرِ کنعاں تک محبت کی وہ بُو جیسے
پتہ اُس کا مجھے دینے چلی ایسے صبا محسؔن
÷÷غالباً ’نہ پہنچی‘ کا ’نہ‘ کاپی پیسٹ کرنے سے رہ گیا ہے۔ شعر درست ہے، لیکن ’جیسے‘ کے بغیر۔ یہاں ’شاید‘ کیا جا سکتا ہے۔

عجب اس خونِ دل میں پھر ہوئے ہیں وسوسے پیدا
عجب اس سازِ رو نے پھر کیا ہے تذکرہ محسؔن
÷÷÷’سازِ رو‘ سمجھنے سے قاصر ہوں

خلش دل کی مٹا کر بھی اگر حاصل نہیں کچھ تو
مرا پہلو جلا کر تم مری کر دو دوا محسؔن
÷÷÷بظاہر کوئی خامی نہیں۔ مگر پہلو جلانے سے ہی دوا کیوں ممکن ہے، یہ سمجھنے کا قرینہ نہیں کوئی۔

سحر دم چھوڑ کر جانا بہت دشوار ہوتا ہے
سحر دم ہی تڑپتی ہے ستاروں کی ضیاء محسؔن
÷÷÷درست

غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ ہو کوئی محسؔن
کجا ساحؔر، کجا ساغؔر، کجا ناصؔر، کجا محسؔن
÷÷÷پوری غزل ہی مقطع ہے، اس لئے پہلے مصرع میں تخلص کی چنداں ضرورت نہیں۔ یوں با معنی ہو سکتا ہے۔
غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ، صنف ہو کوئی

سر تھوڑی بہت کوشش کی ہی، ایک بار پھر آپ کو زحمت دینا چاہوں گا، شکریہ :)

پڑی ہے کُن کے پہلو میں مری بھی التجا محسؔن
الہٰی تُو کرم کر دے، بہت ہے نارسا محسؔن
(شاید اب معنی کچھ حد تک واضح ہے)

یہ دل ہے گھر تمنا کا، یہاں بے حد اذیت ہے
یہ گھر تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تو سر اٹھا محسؔن
(بغیر کسی تبدیلی کے)

کبھی ساحل، کبھی ساگر، کبھی صحرا، کبھی گلشن
تجھے پانے کی چاہت میں کبھی نہ گھر گیا محسؔن
("چاہت" کی جگہ "الجھن" بھی کہا جا سکتا ہے ؟)

ہوا ہے حادثہ پھر سے غرورِ سر بلندی میں
اڑا تھا جو بلندی کو زمیں پہ آ گرا محسؔن
(شاید اب معنی کچھ حد تک واضح ہے)

نہ پہنچی پیرِ کنعاں تک محبت کی وہ بُو شاید
پتہ اس کا مجھے دینے چلی ایسے صبا محسؔن
(کی گئی اصلاح کے مطابق)

عجب اس خونِ دل میں پھر ہوئے ہیں وسوسے پیدا
عجب اس سازِ رو نے پھر کیا ہے تذکرہ محسؔن
(سازِ رو۔۔۔ بہتے ہوئے خون کی آواز کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ اس کا متابدل بھی نہیں ڈھونڈ پایا۔۔۔ اس شعر کو حذف کیے دیتا ہوں)

خلش دل کی مٹا کر بھی اگر حاصل نہیں کچھ تو
مرا دل ہی مٹا کر تم مری کر دو دوا محسؔن
(ذرا تبدیلی کی ساتھ، امید ہے اب قدرے بہتر ہے)

سحر دم چھوڑ کر جانا بہت دشوار ہوتا ہے
سحر دم ہی تڑپتی ہے ستاروں کی ضیاء محسؔن
(بغیر کسی تبدیلی کے)

غزل ہو، نظم ہو یا پھر قصیدہ، صنف ہو کوئی
کجا ساحؔر، کجا ساغؔر، کجا ناصؔر، کجا محسؔن
(کی گئی اصلاح کے مطابق)

آپ کی رائے اور مزید اصلاح کا منتظر ہوں، بے حد شکریہ :)
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یوں کہو تو مزید واضح ہو جائے
پڑی ہے کُن کی گٹھری میں یہ میری التجا محسؔن
الہٰی تُو کرم کر دے، بہت ہے نارسا محسؔن
پہلو میں التجا تو بیٹھی ہو گی، پڑی کیسے ہو گی؟

تجھے پانے کی چاہت میں کبھی نہ گھر گیا محسؔن
÷÷ کبھی نہ یہاں ’کبھی نا‘ تقطیع ہوتا ہے۔ نہ کے معنوں میں یہ محض یک حرفی درست ہونا چاہیے۔
تجھے پانے کی چاہت میں نہ اب تک گھر گیا محسؔن
درست ہو جائے گا۔
باقی درست ہیں اشعار۔ بس یہ
مرا دل ہی مٹا کر یوں کرو میری و دوا محسؔن
کو میں یوں کہوں گا۔
مرا دل ہی مٹا دو، یوں کرو میری دوا محسؔن
 
سر آپ کا بے حد شکریہ۔ بس ایک
یوں کہو تو مزید واضح ہو جائے
پڑی ہے کُن کی گٹھری میں یہ میری التجا محسؔن
الہٰی تُو کرم کر دے، بہت ہے نارسا محسؔن
پہلو میں التجا تو بیٹھی ہو گی، پڑی کیسے ہو گی؟

تجھے پانے کی چاہت میں کبھی نہ گھر گیا محسؔن
÷÷ کبھی نہ یہاں ’کبھی نا‘ تقطیع ہوتا ہے۔ نہ کے معنوں میں یہ محض یک حرفی درست ہونا چاہیے۔
تجھے پانے کی چاہت میں نہ اب تک گھر گیا محسؔن
درست ہو جائے گا۔
باقی درست ہیں اشعار۔ بس یہ
مرا دل ہی مٹا کر یوں کرو میری و دوا محسؔن
کو میں یوں کہوں گا۔
مرا دل ہی مٹا دو، یوں کرو میری دوا محسؔن

سر بے حد شکریہ۔
آپ نے کہا کہ
"کبھی نہ یہاں ’کبھی نا‘ تقطیع ہوتا ہے۔ نہ کے معنوں میں یہ محض یک حرفی درست ہونا چاہیے۔"
میں تقطیع کے معاملے میں کافی کمزور ہوں۔ اپنی اس بات کی ذرا وضاحت کر دیجیے۔
ایک بار پھر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ :)
 

عاطف ملک

محفلین
سب سے پہلے تو اردو محفل میں خوش آمدید۔
امید ہے آپ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملے گا۔
آپ کی غزل اچھی لگی۔
خصوصاً "پیر کنعاں" والا شعر.
"کبھی نہ یہاں ’کبھی نا‘ تقطیع ہوتا ہے۔ نہ کے معنوں میں یہ محض یک حرفی درست ہونا چاہیے۔"
میں تقطیع کے معاملے میں کافی کمزور ہوں۔ اپنی اس بات کی
اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ "نہ" اگر نفی کیلیے استعمال کیا جا رہا ہو تو یک حرفی تقطیع ہوتا ہے۔
مثال
"پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی"
اور اگر کسی بات پر زور دینے کیلیے یعنی مثبت معنی میں استعمال ہو رہا ہو تو دو حرفی تقطیع ہوتا ہے۔
مثال
شعر تو ذہن میں نہیں آ رہا لیکن عام بول چال میں
"یہ غزل تمہاری ہے نا؟؟ ٹھیک ہے نا؟؟"
وغیرہ۔
اس کے برخلاف کیا جائے تو غلط ہے۔
سلامت رہیں
 
سب سے پہلے تو اردو محفل میں خوش آمدید۔
امید ہے آپ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملے گا۔
آپ کی غزل اچھی لگی۔
خصوصاً "پیر کنعاں" والا شعر.

اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ "نہ" اگر نفی کیلیے استعمال کیا جا رہا ہو تو یک حرفی تقطیع ہوتا ہے۔
مثال
"پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی"
اور اگر کسی بات پر زور دینے کیلیے یعنی مثبت معنی میں استعمال ہو رہا ہو تو دو حرفی تقطیع ہوتا ہے۔
مثال
شعر تو ذہن میں نہیں آ رہا لیکن عام بول چال میں
"یہ غزل تمہاری ہے نا؟؟ ٹھیک ہے نا؟؟"
وغیرہ۔
اس کے برخلاف کیا جائے تو غلط ہے۔
سلامت رہیں

سمجھ گیا، حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بہت شکریہ :)
 
آخری تدوین:
سب سے پہلے تو اردو محفل میں خوش آمدید۔
امید ہے آپ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملے گا۔
آپ کی غزل اچھی لگی۔
خصوصاً "پیر کنعاں" والا شعر.

اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ "نہ" اگر نفی کیلیے استعمال کیا جا رہا ہو تو یک حرفی تقطیع ہوتا ہے۔
مثال
"پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی"
اور اگر کسی بات پر زور دینے کیلیے یعنی مثبت معنی میں استعمال ہو رہا ہو تو دو حرفی تقطیع ہوتا ہے۔
مثال
شعر تو ذہن میں نہیں آ رہا لیکن عام بول چال میں
"یہ غزل تمہاری ہے نا؟؟ ٹھیک ہے نا؟؟"
وغیرہ۔
اس کے برخلاف کیا جائے تو غلط ہے۔
سلامت رہیں

ایک اور بات بھی بتا دیجیے۔ ایسے الفاظ جن میں "آ" آئے، اٗن کو ہم کیسے تقطیع کریں گے۔
 
Top