اردو کا فارسی اور عربی سے جاودانی رشتہ - سید مسعود حسن رضوی

حسان خان

لائبریرین
"اردو ادب تاریخی حالات کے نتیجے میں ابتداء ہی سے فارسی کے سانچے میں ڈھلتا رہا ہے۔ اُردو نے معنی، بیان، بدیع، عروض، شاعری کی صنفیں، شعر کا معیار، شاعرانہ تخیل، شاعرانہ بیان، اصطلاحیں، تشبیہیں، استعارے، تلمیحیں اور بعض صرفی اور نحوی صورتیں فارسی سے لے لی ہیں اور اردو کے ہزاروں فقرے، محاورے، مثلیں وغیرہ فارسی کا ترجمہ ہیں۔ اردو کے نثر نگار ایک مدت تک فارسی نثر کو اپنے لیے نمونہ قرار دیتے رہے ہیں اور اردو کے بے شمار شاعر اب تک فارسی کے شاعروں کے نقشِ قدم پر چلتے رہے ہیں۔ اردو نے ہزارہا لفظ فارسی سے لیے ہیں اور چونکہ فارسی زبان میں عربی کے ہزاروں لفظ شامل ہو کر اُس کا جز بن چکے تھے اس لیے بہت سے عربی لفظ بھی فارسی کی راہ سے اردو میں آ گئے۔ اردو کو اپنی پیدائش سے لے کر آج تک فارسی سے بلاواسطہ اور عربی سے بالواسطہ جو تعلق رہا ہے اُس نے اُس کو ایک جاندار اور طاقتور زبان بنا دیا ہے اور اب بھی ان زندہ اور پائندہ زبانوں سے رشتہ قائم رکھنا اُس کی زندگی اور تنومندی کا ضامن ہے۔​
ادھر چند سالوں سے زندگی کے ہر شعبے میں نئے نئے نظریے قائم ہو رہے ہیں اور نئے نئے تصورات پیدا ہو رہے ہیں۔ اُن کے اظہار میں ہم کو جب کوئی دقت پڑی تو فارسی اور عربی لفظوں کی بروقت امداد نے اس دقت کا احساس تک نہ ہونے دیا اور ابھی تو ہم کو دنیا بھر کے علوم و فنون اپنی زبان میں منتقل کرنا ہیں۔ اس کام میں عربی اور فارسی سے ہم کو بڑی مدد ملے گی۔ عربی اور فارسی اپنے لفظی ذخیروں، اشتقاقی اور ترکیبی خصوصیتوں اور دوسری لسانی خوبیوں کی بدولت دنیا کی عظیم تریں زبانوں میں ہیں۔ اُن سے قطع تعلق کرنا اردو کی رگِ حیات قطع کرنے کے برابر ہے۔ جس چشمے سے وہ ہمیشہ سیراب ہوتی رہی ہے اُس کو بند کر دینا اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔"​
(حوالہ: اردو زبان اور اُس کا رسم الخط، ۲۰-۲۱)
 
Top