رئیس امروہوی اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

کہیں پڑھا تھا کہ یہ نظم اس وقت لکھی گئی تھی جب سندھی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا جس کے بعد لسانی فسادات سندھ میں پھیل گئےتھے۔
 
میں تو سمجھا تھا کہ میں نے مکمل نظم پوسٹ کی ہے مگر ایک جگہ کچھ اضافہ دیکھا تو مناسب سمجھا مکمل نظم مکرر پوسٹ کر دوں
 
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب محروم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم قلعہ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے ارض وطن فائدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

سایہ تو ہوا اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

بد ذوقی احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلی کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ہیں مرثیہ خواں قوم میں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم
جنت سے دبیر آکے پڑھیں نوحہ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کردے
پہلے کوئی سر سید اعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح جو موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اردو کے جنازے کی یہ سچ دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ڈوبے ہوئے اسرار خودی میں نہ نظر آئیں
اقبال بھی فردوس معلیٰ سے اتر آئیں
اردو کی یہ میت ہے یہ ماتم ہے ادھر آئیں
شکوہ نہ لب شاعر معصوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ہیں بس کہ بہت تنگ دل و تنگ نظر ہم
للہ بتا دیجیے اے قائد اعظم
اردو کو کہاں دفن کرے ملت پُرغم
جب روح حزیں اس تن مسموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اب فاش ہوئی سب پہ بد اقبالئ اردو
اردو میں نہ ہو شرح زبوں حالئ اردو
سندھی میں لکھو نوحۂ پامالی اردو
اور مدح نہ الفاظ نہ مفہوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

خطرہ ہے کہ جہاں کوئی ظلم نہ ڈھائیں
خدام وطن شان تغافل نہ دکھائیں
اس خاک سے یوں لاشۂ اردو کو اٹھائیں
جس طرح کہ بلبل قفس بوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
 
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے
اے قلعہ شاہی ! یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاک اودھ !فائیدہ کیا شرح ستم سے
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو اردو کے جنازے پہ ولی کا
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بدذوق احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہیں مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دوکہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم
جنت سے دبیر آ کے پڑھیں نوحہ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سر سیداعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کےجنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے


درج ذیل ناراضگی، ہلکی پھلکی ہے، اس کو ہلکا پھلکا ہی لیں :)

اردو ایک زندہ زبان ہے۔

زندہ زبانوں کی یہ نشانی ہے کہ وہ آس پاس کی دوسری زبانوں کو کھا جاتی ہیں اور ان مدقوق زبانوں کی جگہ یہ زندہ زبانیں لے لیتی ہیں۔ دوسری زبانوں کے الفاظ ، تصریف و نحو ، زندہ زبانوں کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور یہ بیرونی الفاظ اور اصول ، کچھ اس طرح زندہ زبان میں شامل ہو جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ یہ نئے الفاظ ، یہ نئے اصول، اس زندہ زبان کا ہی حصہ ہیں۔ اردو ایک زندہ زبان ہے۔ یہ ہندی بھی کھا گئی، اور پشتو، پنجابی، سندھی، سرائیکی، بلوچی کو آہستہ آہستہ کم اثر کرتی جارہی ہے۔ اس مظبوط اور طاقتور زبان کے اثرات عربی اور فارسی پر بہت ہی نمایاں ہیں ۔ آج آپ کو دبئی میں عرب بھی اردو بولتے نظر آئیں گے اور ہندوستان میں سنسکرت کے ڈسے ہوئے بھی اردو کا سہارا لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ میں جب دوسرے ممالک میں جاتا ہوں تو مزے سے اردو ریڈیو سٹیشن سن کر خوش ہوتا ہوں۔ ہالینڈ میں ، برطانیہ میں ، امریکہ میں ، ناروے اور سوئیڈن میں اور استرالیا میں مقامی اردو ستیژن کی کمی نہیں۔ یہ زبان دیوناگری اور نسخ ، نستعلیق دونوں میں لکھی جاتی ہے ۔ دنیا کی کوئی دوسری زبان دو طرح کے خط میں لکھی جاتی ہے تو بتائیے۔ کوئی وقت نہیں جاتا کہ اردو ، ایک زندہ زبان ، عربی، فارسی، کو بھی پنجابی ، سندھی، پشتو، سرائیکی، بلوچی کی طرح کھانا شروع کردے گی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بڑھتی، پھولتی ، پھیلتی، جیتی ، جاگتی زبان کا جنازہ نکالنے کے نعرہ لگانے والے کے ساتھ میں کچھ ایسا سلوک کرنا چاہتا ہوں کہ سات سے ستارا نمبر کے لتروں کی عید پرسعید ہو جائے۔ :)

اس زبان کو میں بہت ہی اچھی طرح پہچانتا ہوں ۔ اس کے نشیب و فراز، اس کی قوس و قزح، اس کی گولائیں اور اٹھانیں، اگر فاروق سرور خان نہیں پہچانتا تو پھر کون یہ دعوی کرسکتا ہے۔ :)
ہم اس اردو میں انگریزی کی مارفولوجی بھی استعمال کریں گے اور عربی کے "قَوَاعِد اَللُّغَة اَلْعَرَبِيَّة "، تصریف، نحو، اَلاشْتِقَاق اور اَلْبَلَاغَة بھی استعمال کریں گے۔ روک سکتے ہو تو روک لو :)
یہ اردو، اردو ہی رہے گی اور سر چڑھ کر بولے گی :)

چلو بھاگو ادھر سے، بڑے آئے اردو کا جنازہ نکالنے والے۔ :)
 
Top