سیما علی
لائبریرین
اردو کا ایک نام جادو بھی ہے
رضا علی عابدی
07 مئی ، 2021
میرے پچاس برس کے کاغذوں سے آب دار موتی نکلنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس بار جو کاغذ ہاتھ لگا ہے اس نے تو میرے دونوں ہاتھ موتیوں سے بھر دیے ہیں۔ لطیف الزماں خاں، جنہیں اہلِ علم ملتان کی شان کہا کرتے تھے، جب اردو لکھتے تھے تو ہمارے رسم الخط میں موتی ٹانکتے تھے۔ ان کا جو خط میں یہاں قارئین کی نذر کررہا ہوں، چوتھائی صدی پہلے لکھا گیا تھا۔ لطیف الزماں خاں غالب کے عاشق اور رشید احمد صدیقی کے شیدائی تھے۔ انہوں نے غالبیات کے موضوع پر کتابیں جمع کرنے میں پوری عمر لگا دی۔ علم سے اور اردو زبان سے ان کی وابستگی کی اسی کیفیت کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آگہی سے عشق اور جن پر دانش فریفتہ ہے۔
میں سنہ 82میں جب دیوانِ غالب کے اس نسخے کی حقیقت جاننے کی کوشش کررہا تھا جس کے بارے میں ایک رائے تھی کہ اصلی ہے اور دوسری رائے یہ تھی کہ جعلی ہے۔ اُس وقت اس کا ایک عکس لطیف الزماں صاحب کے ہاتھ لگا۔ میرا ان دنوں لطیف الزماں صاحب سے رابطہ ہوا اور انہوں نے میری مدد کے لئے اپنا پورا کتب خانہ کھول دیا۔ ہزارہا کتب چنی ہوئی تھی۔ ہر ایک پر بےحد سلیقے سے براؤن کاغذ چڑھایا گیا تھا اور خاں صاحب کی مشہور سخت گیری کی وجہ سے نہ کوئی کتاب مستعار دی گئی اور نہ چوری ہوئی۔ اسی وقت سے میرے دل میں ان کے لئے بےپناہ عقیدت اور احترام پیدا ہوا۔ پھر ان سے خط و کتابت ہونے لگی اور انہی دنوں کا ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ خط مجھے ملا جسے میں حرف بہ حرف یہاں نقل کر رہا ہوں۔ ملاحظہ کیجئے:
لطیف الزماں خاں
بی 149۔غالب نما۔ حالی روڈ
گل گشت۔ ملتان
ہفتہ14 جنوری1995
عابدی صاحب مکرّم و محترم، السلام علیکم
آپ کا 3جنوری کا نامہ محبت 10کو قطعی غیرمتوقع طور پر ملا۔ نعمت یوں ملے تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ شکر گزار ہوں کہ آپ نے یاد فرمایا۔ کتنا زمانہ گزر گیا غالب نے کہا تھا: ’’اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے‘‘ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت سے اب تک کبھی اچھا سال نہیں آیا۔ جو نیا سال آیا وہ جاتے جاتے نئے زخم دے گیا۔ کلیجہ چھلنی ہو گیا۔ نئے سال کا نیا زخم اور سہی۔
میں 15دسمبر کو کراچی پہنچا تھا۔ 30کو واپس آیا۔ صرف تین بار گھر سے نکل سکا، اس میں بھی دو بار ایسا ہوا کہ گھر گیا۔ ایک دن تو ہمدرد ناظم آباد میں ہم دم دیرینہ علی حسن کے پاس بیٹھا رہا۔ قریب میں فائرنگ ہوتی رہی۔ شام کو ساڑھے چھ سات بجے جب نکلے تو قبرستان کا سا سناٹا تھا اور ہر چہار طرف تاریکی تھی۔ معلوم نہیں آپ کراچی کب آئے۔ ٹیلیفون پر احباب سے رابطہ رہا اور اگر معلوم ہو جاتا تو میں تمام خطرات کے باوجود آپ کو تلاش کر لیتا۔ میں گزشتہ اکتوبر میں ادیبوں اور دانشوروں کی کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد گیا۔ جو کچھ وہاں ہوا وہ افسوس ناک ہی نہیں، بہت تکلیف دہ تھا۔ لاہور تو اب جانا ہوتا ہی نہیں۔ اگر آپ دسمبر کے آخری ایام میں تشریف لاتے تو ملاقات ممکن نہ تھی۔ آئندہ کبھی پروگرام بنے تو ضرور آئیے گا۔ اہلیہ کے انتقال کو چار سال ہو گئے تاہم آپ کو کھانے کی تکلیف نہ ہوگی۔ البتہ آپ کے آنے تک ایک کمرہ خالی ہو جائے گا۔ میں نے اپنا ذخیرہ کتب Donateکرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نصف کتب و رسائل تو ملتان یونی ورسٹی کو اور بقیہ نصف مدینۃ الحکمت کراچی کو۔ دونوں جگہ گوشہ رشید (احمد صدیقی) کا قیام عمل میں آئے گا۔ میں اپنے پاس صرف غالبیات اور رشید صاحب کی کتابیں رکھوں گا۔ امید ہے آپ غالبیات کا ذخیرہ دیکھ کر خوش ہوں گے۔
ڈاکٹر اعجاز حسین صاحب نے اپنی کتاب ’ اردوادب کی مختصر تاریخ‘ میں کہا ہے کہ محمد اسمٰعیل صاحب میرٹھی نے اردو کی پانچ درسی کتابیں لکھی ہیں ،ان سے بہتر نصابی کتب نہیں لکھی گئیں۔ امید کرتا ہوں کہ مغرب میں رہنے والے بچوں اور نو جوانوں کے لئے آپ بھی ایسا نصاب تحریر فرمائیں گے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میں ایک طویل مدت سے بی بی سی سن رہا ہوں ۔اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اخبارات ، ریڈیو ٹی وی حسب استطاعت سب جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک دن آپ کا پروگرام سن رہا تھا ،معلوم ہواایک صاحب چالیس ممالک میں رہنے والے ایشیائیوں کے لئے نصاب مرتب کر رہے ہیں۔ اردو جہاں پیدا ہوئی ،پل کر جوان ہوئی ، اُسے گھر سے نکال دیا گیا۔یہاں کا حال یہ ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں دانشوروں نے اسلام آباد میں یہ قرارداد منظور کی کہ ملک میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قومی زبان قرار دیا جائے اور مادری زبان میں تعلیم دی جائے، اس لئے کہ اردو کسی علاقے کی زبان نہیں ہے۔میں اس پہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اردو کا ایک نام جادو بھی ہے اور یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ عرب ممالک میں ، یورپی ممالک میں کینیڈا او رامریکہ میں اردو بولی جارہی ہے لکھی جارہی ہے او رآپ جیسے مخلص لوگ نصاب تیار کررہے ہیں، تو میں کیوں اس کے مستقبل سے مایوس ہونے لگا۔
کبھی علی گڑھ جانا ہو تو لائبریری میں گوشہ رشید ضرور دیکھئے گا۔آئندہ ستمبر یااکتوبر میں لندن جاؤں گا بشرطیکہ ویزا مل گیا۔ میں تو صرف برٹش میوزیم لائبریری دیکھنا چاہتا ہوں۔ مصیبت یہ ہے کہ سچ بولو تو ویزا نہ ہندوستان کا ملتا ہے نہ انگلستان کا اور جھوٹ میں بولنا نہیں چاہتا۔ ہندوستان اس لئے جانا چاہتا ہوں کہ بعض عزیز ترین دوست دلی، علی گڑھ اور بمبئی میں ہیں۔ انگلستان میں آپ سے ملنا اور لائبریری دیکھنا ہے۔ آپ مشورہ دیجئے کیا کروں؟
مخلص:لطیف الزماں خاں
رضا علی عابدی
07 مئی ، 2021
میرے پچاس برس کے کاغذوں سے آب دار موتی نکلنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس بار جو کاغذ ہاتھ لگا ہے اس نے تو میرے دونوں ہاتھ موتیوں سے بھر دیے ہیں۔ لطیف الزماں خاں، جنہیں اہلِ علم ملتان کی شان کہا کرتے تھے، جب اردو لکھتے تھے تو ہمارے رسم الخط میں موتی ٹانکتے تھے۔ ان کا جو خط میں یہاں قارئین کی نذر کررہا ہوں، چوتھائی صدی پہلے لکھا گیا تھا۔ لطیف الزماں خاں غالب کے عاشق اور رشید احمد صدیقی کے شیدائی تھے۔ انہوں نے غالبیات کے موضوع پر کتابیں جمع کرنے میں پوری عمر لگا دی۔ علم سے اور اردو زبان سے ان کی وابستگی کی اسی کیفیت کے بارے میں کہا کرتا ہوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آگہی سے عشق اور جن پر دانش فریفتہ ہے۔
میں سنہ 82میں جب دیوانِ غالب کے اس نسخے کی حقیقت جاننے کی کوشش کررہا تھا جس کے بارے میں ایک رائے تھی کہ اصلی ہے اور دوسری رائے یہ تھی کہ جعلی ہے۔ اُس وقت اس کا ایک عکس لطیف الزماں صاحب کے ہاتھ لگا۔ میرا ان دنوں لطیف الزماں صاحب سے رابطہ ہوا اور انہوں نے میری مدد کے لئے اپنا پورا کتب خانہ کھول دیا۔ ہزارہا کتب چنی ہوئی تھی۔ ہر ایک پر بےحد سلیقے سے براؤن کاغذ چڑھایا گیا تھا اور خاں صاحب کی مشہور سخت گیری کی وجہ سے نہ کوئی کتاب مستعار دی گئی اور نہ چوری ہوئی۔ اسی وقت سے میرے دل میں ان کے لئے بےپناہ عقیدت اور احترام پیدا ہوا۔ پھر ان سے خط و کتابت ہونے لگی اور انہی دنوں کا ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ خط مجھے ملا جسے میں حرف بہ حرف یہاں نقل کر رہا ہوں۔ ملاحظہ کیجئے:
لطیف الزماں خاں
بی 149۔غالب نما۔ حالی روڈ
گل گشت۔ ملتان
ہفتہ14 جنوری1995
عابدی صاحب مکرّم و محترم، السلام علیکم
آپ کا 3جنوری کا نامہ محبت 10کو قطعی غیرمتوقع طور پر ملا۔ نعمت یوں ملے تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ شکر گزار ہوں کہ آپ نے یاد فرمایا۔ کتنا زمانہ گزر گیا غالب نے کہا تھا: ’’اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے‘‘ تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت سے اب تک کبھی اچھا سال نہیں آیا۔ جو نیا سال آیا وہ جاتے جاتے نئے زخم دے گیا۔ کلیجہ چھلنی ہو گیا۔ نئے سال کا نیا زخم اور سہی۔
میں 15دسمبر کو کراچی پہنچا تھا۔ 30کو واپس آیا۔ صرف تین بار گھر سے نکل سکا، اس میں بھی دو بار ایسا ہوا کہ گھر گیا۔ ایک دن تو ہمدرد ناظم آباد میں ہم دم دیرینہ علی حسن کے پاس بیٹھا رہا۔ قریب میں فائرنگ ہوتی رہی۔ شام کو ساڑھے چھ سات بجے جب نکلے تو قبرستان کا سا سناٹا تھا اور ہر چہار طرف تاریکی تھی۔ معلوم نہیں آپ کراچی کب آئے۔ ٹیلیفون پر احباب سے رابطہ رہا اور اگر معلوم ہو جاتا تو میں تمام خطرات کے باوجود آپ کو تلاش کر لیتا۔ میں گزشتہ اکتوبر میں ادیبوں اور دانشوروں کی کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد گیا۔ جو کچھ وہاں ہوا وہ افسوس ناک ہی نہیں، بہت تکلیف دہ تھا۔ لاہور تو اب جانا ہوتا ہی نہیں۔ اگر آپ دسمبر کے آخری ایام میں تشریف لاتے تو ملاقات ممکن نہ تھی۔ آئندہ کبھی پروگرام بنے تو ضرور آئیے گا۔ اہلیہ کے انتقال کو چار سال ہو گئے تاہم آپ کو کھانے کی تکلیف نہ ہوگی۔ البتہ آپ کے آنے تک ایک کمرہ خالی ہو جائے گا۔ میں نے اپنا ذخیرہ کتب Donateکرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نصف کتب و رسائل تو ملتان یونی ورسٹی کو اور بقیہ نصف مدینۃ الحکمت کراچی کو۔ دونوں جگہ گوشہ رشید (احمد صدیقی) کا قیام عمل میں آئے گا۔ میں اپنے پاس صرف غالبیات اور رشید صاحب کی کتابیں رکھوں گا۔ امید ہے آپ غالبیات کا ذخیرہ دیکھ کر خوش ہوں گے۔
ڈاکٹر اعجاز حسین صاحب نے اپنی کتاب ’ اردوادب کی مختصر تاریخ‘ میں کہا ہے کہ محمد اسمٰعیل صاحب میرٹھی نے اردو کی پانچ درسی کتابیں لکھی ہیں ،ان سے بہتر نصابی کتب نہیں لکھی گئیں۔ امید کرتا ہوں کہ مغرب میں رہنے والے بچوں اور نو جوانوں کے لئے آپ بھی ایسا نصاب تحریر فرمائیں گے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میں ایک طویل مدت سے بی بی سی سن رہا ہوں ۔اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اخبارات ، ریڈیو ٹی وی حسب استطاعت سب جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک دن آپ کا پروگرام سن رہا تھا ،معلوم ہواایک صاحب چالیس ممالک میں رہنے والے ایشیائیوں کے لئے نصاب مرتب کر رہے ہیں۔ اردو جہاں پیدا ہوئی ،پل کر جوان ہوئی ، اُسے گھر سے نکال دیا گیا۔یہاں کا حال یہ ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں دانشوروں نے اسلام آباد میں یہ قرارداد منظور کی کہ ملک میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قومی زبان قرار دیا جائے اور مادری زبان میں تعلیم دی جائے، اس لئے کہ اردو کسی علاقے کی زبان نہیں ہے۔میں اس پہ کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اردو کا ایک نام جادو بھی ہے اور یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ عرب ممالک میں ، یورپی ممالک میں کینیڈا او رامریکہ میں اردو بولی جارہی ہے لکھی جارہی ہے او رآپ جیسے مخلص لوگ نصاب تیار کررہے ہیں، تو میں کیوں اس کے مستقبل سے مایوس ہونے لگا۔
کبھی علی گڑھ جانا ہو تو لائبریری میں گوشہ رشید ضرور دیکھئے گا۔آئندہ ستمبر یااکتوبر میں لندن جاؤں گا بشرطیکہ ویزا مل گیا۔ میں تو صرف برٹش میوزیم لائبریری دیکھنا چاہتا ہوں۔ مصیبت یہ ہے کہ سچ بولو تو ویزا نہ ہندوستان کا ملتا ہے نہ انگلستان کا اور جھوٹ میں بولنا نہیں چاہتا۔ ہندوستان اس لئے جانا چاہتا ہوں کہ بعض عزیز ترین دوست دلی، علی گڑھ اور بمبئی میں ہیں۔ انگلستان میں آپ سے ملنا اور لائبریری دیکھنا ہے۔ آپ مشورہ دیجئے کیا کروں؟
مخلص:لطیف الزماں خاں