چھٹی سالگرہ اردو محفل کی چھٹی ( سالگرہ )

ظفری

لائبریرین
اردو محفل کی چھٹی سالگرہ کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ بادشاہ سلامت اپنے گروی شدہ محل کی بوسیدہ بالکونی پر بے چینی کے عالم میں ٹہل رہے تھے ۔
مشیر نے کہا
”عالم پناہ ! موڈریٹر کا درجہ پاؤں تو کچھ عرض کروں ”
” تم سب موڈریٹر بننے کے بعد ادھراُدھرہو جاتے ہو ۔ پھر اردو محفل کے صوبوں میں شرپسندی کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ اس سے اردو محفل پر سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے لوگ بھاگ جاتے ہیں ۔ اور سب سے زیادہ شر پسندی جنوبی صوبوں سیاست اور مذہب میں مچائی جاتی ہے ۔ ہم نے ظفری کو ان صوبوں کا موڈریٹر بنایا تھا ۔ مگر ہم نےاس کو تنخواہ صرف 22 مہینے نہیں دی تواس نے وہاں ناجائز تجاویزات لگوا دیں اور پھر ان سے بھتا بھی لینا شروع کردیا ۔ اور حد تو یہ کہ ہمیں اس میں سے کوئی حصہ بھی نہیں دیا ۔ خیر ہم تمہاری درخواست پر غور کریں گے ۔ کہو ۔۔۔ کیا کہنا چاہتے ہو مگر ذرا تمیز سے ۔۔۔ ”
”حضور آپ کا وزن وزیرِ اعظم شمشاد بھائی کے وزن کو مات کر رہا ہے ۔ اتنےاہتما م کے ساتھ اگر یہاں ٹہلیں گے تو بالکونی زمین بوس ہوجائے گی ۔”
مشیر نے بہ مشکل حدِ ادب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی ۔ بادشاہ نے کہا
” تم کو بالکونی کی پڑی ہے اور یہاں اردو محفل کی چھٹی سالگرہ قریب آرہی ہے ۔ اور ابھی تک مابدولت کو کسی نے ایک قصیدہ بھی لکھ کر نہیں دیا ہے ۔ ہم نے فہیم کو کہا بھی تھا وہ فوری طور پر ایک قصیدہ اردو محفل کی شایانِ شان لکھ کر دے ، مگر مقطع میں ہمارا نام ہونا چاہیئے ۔ مگر اتنی دیر ہوگئی اور فہیم ابھی تک نہیں آیا ۔ ”
اسی دوران بالکونی کا صبر جواب دے گیا ۔ اور بادشاہ سلامت اپنے مشیر کے ساتھ بالکونی سمیت نیچے کیفے پیالہ کی چھت سے ہوتے ہوئے زمین پر جلوہ افروز ہوئے۔ مٹی اور گرد کی وجہ سے دونوں حمام میں ایک جیسے نظر آئے ۔ اسی دوران فہیم کی آمد ہوگئی ۔ بادشاہ نے فہیم کو مخاطب کرنا چاہا ۔
بابا معاف کرو ۔۔۔۔ فہیم بادشاہ کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
بادشاہ کی دھاڑ پر فہیم نے بادشاہ سلامت کو پہچانا ۔ اور پھر فرشی سلام کچھ اس طرح کیا کہ انگرائی اور فرشی سلام میں ‌‌کوئی فرق باقی نہ رہا ۔ بادشاہ سلامت سے دوسری ملکہ شراوت دیکھی نہیں گئی اور دوسری طرف منہ کرکے بادشاہ نے سوال کیا کہ اب تک کہاں تھے ۔؟
فہیم نے مودبانہ انداز میں کہا ۔
” حضور ! گھوڑے کا پنکچر ہوگیا تھا ۔ اس لیئے آنے میں تاخیر ہوئی ۔ ‌
“ یہ تمہارا گھوڑا ہر دوسرے روز پنکچر ہوجاتا ہے ۔تم گدھا کیوں نہیں رکھ لیتے۔؟
" جناب کہاں سے لوں ، سارے تو اسمبلیوں میں براجمان ہیں ۔ "
فہیم نے عاجزی سے کہا ۔
ہاں یہ تو تم نے صحیح کہا ،خیر ۔۔۔ ہمارا قصیدہ کہاں ہے ۔ ؟ بادشاہ نے پوچھا
“ یہ رہا حضور “ فہیم نے مودبانہ انداز میں قصیدہ بادشاہ کی نظر کیا ۔
بادشاہ نے قصیدے پر نظر ڈالی اور چونک گئے ۔
“ ۔۔۔ صغراں علی ۔۔۔۔ موبائل نمبر ×××××××××× ۔۔۔ ہائیں کیا ہے ۔ ؟ بادشاہ سلامت دھاڑے ۔
“ معافی کا خواستگار ہوں جناب ۔۔۔ غلطی سے ہاتھ دوسری جیب میں چلا گیا ۔ یہ رہا آپ کا قصیدہ “
فہیم نے اپنی دوسری جیب سے ایک اور پرچہ نکال کر بادشاہ کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔
“ حضور ! اگر پہلے والا پرچہ واپس کردیں تو نوازش ہوگی ۔ “ فہیم نے عاجزانہ انداز میں بادشاہ سے درخواست کی ۔
“ اس کو بھول جاؤ ۔۔۔۔۔ آج ہی ملکہ سے چھپ کر ہم نے نیا موبائل لیا ہے ۔ موبائل کی کارکردگی دیکھنے کے لیئے آج اسی نمبر پر ہم ٹرائی کریں گے ۔ “
فہیم نے بے چارگی سے مشیرِ خاص ابن سعید کو دیکھا تو مشیرِ خاص نے آہستگی سے کہا “ ابے ۔۔۔ میری طرف کیا دیکھ رہا ہے ۔ میری تو پوری ڈائری ہی بادشاہ کے پاس ہے ۔ “
“ یہ تم نے یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔۔ اردو محفل کی جو جان ہے ‌۔۔۔۔ وہ ریما خان ہے ، ریما خان ہے “
ابے ۔۔۔ہم تم کو ریما لگتے ہیں کیا ۔۔۔ ؟ بادشاہ سلامت پھر دھاڑے
“ اور یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔۔۔ اردو محفل کے سب ہیں ہم ۔۔۔ پھر لگے دم تو مٹے غم “
“ یہ تم نے پھر سُوٹے پی کر قصیدہ لکھا ہے ۔ پورے ہی کاغذ سے ہمیں چرس کی بو آرہی ہے ۔ ہمیں تو نشہ سا چڑھنے لگا ہے ۔ “
یہ کہتے کیساتھ ہی بادشاہ نے جھومنا شروع کردیا ۔
مشیرِ خاص نے بادشاہ کے کان میں کہا
“ جناب ! اس طرح پولیس آجائے گی “
بادشاہ نے اچانک جھومنا چھوڑ کر جیب سے تسبیح نکال کر پڑھنا شروع کردیا ۔
“ اس قصیدے کو لے جاؤ اور اس کی اصلاح کرا کر لاؤ ۔ ہوسکے تو فاتح سے مدد لے لو ۔ سنا ہے آج کل وہ چھٹی پر ہے ۔ “
“ حضور فاتح جی نے شاعری چھوڑ دی ہے ۔ “
“ وہ کیوں “
“ پچھلے سال فاتح کی شادی پر وارث بھائی نے سگریٹ پیتے ہوئے بے دھیانی میں اپنا سگریٹ اس گھوڑے کی پشت میں بُجھا دیا تھا ۔ جس پر فاتح دولہا بنے سوار تھے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ۔ وہ بس یہی گاتے پھرتے ہیں کہ “ کسی دا یار کوئی ، سگریٹ نہ پی وے “ ۔
“ ہمم ۔۔۔۔۔ خیر ہم کچھ نہیں جانتے ۔ قصیدہ ہمیں فوری طور پر چاہیئے ۔ “
“ آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی ۔ “
فہیم نے کہا ۔
“ کیا بات ہے مشیرِ خاص ۔۔۔ آج وزیرِ اعظم نظر نہیں آرہے ہیں ۔ “
“ حضور وہ آج اپنا بلڈ ٹیسٹ کرانے گئے تھے ۔ “
“ اوہ اچھا ۔۔۔۔ پھر کیا ہوا ۔ “
“ حضور ! ان کے بلڈ کا گروپ پازیٹو ٹپال نکل آیا ہے ۔ “
“ ہائیں ۔۔۔ یہ کونسا بلڈ گروپ ہے ۔ “
“ جناب وہ دن میں اتنی چائے پی جاتے ہیں کہ بدن میں لہو کے بجائے اب چائے دوڑ رہی ہے ۔ بلکہ ہسپتال میں بھی اپنی دو بوتلیں گرم کروا کر پی چکے ہیں ۔ “
‌“ خیر جب وہ آئیں تو ان سے محفل کی سالگرہ کی تیاریوں کی بابت پوچھ لینا ۔ اب ہم اپنے کمرے میں سونے کے لیئے جاتے ہیں ۔ “
“ جناب آپ کے کمرے میں تو ساجد بھائی نے بھینس باندھ رکھی ہے ۔ آپ ایسا کریں کہ برآمدے میں سو جائیں ۔ ویسے بھی محل میں‌ کوئی چوکیدار بھی نہیں‌ ہے ۔ آپ کے برآمدے میں اس طرح سونے سے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔ “
مشیرِ خاص نے شوخی سے کہا
بادشاہ نے خونخوار نظروں سے مشیرِ خاص کی طرف دیکھا اور برآمدے کی طرف بڑھ گئے ۔

( تیاریاں جاری ہیں )

نوٹ : اس تحریر میں دوستوں کے نام انتہائی اعتبار اور دوستی کے حوالے سے استعمال کیئے گئے ہیں ۔ اگر کسی دوست کو معیوب لگے تو ذپ میں اس کا اظہار کردے ۔ اس کا نام حذف کردیا جائیگا ۔
اور آئندہ کی تحریروں میں کوئی دوست اس مشقت سے بچنا چاہے تو وہ بھی ذپ کرسکتا ہے ۔ ورنہ ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا ۔ ;)
 

ظفری

لائبریرین
گذشتہ سے پیوستہ
بادشاہ سلامت کے جانے کے بعد حادثاتی طور پر وجود آنا والا دربار برخاست ہوگیا ۔ مشیرِ خاص اور فہیم نے وہیں فرش پر پرانے اخبار بچھا کر ڈیرا لگا لیا ۔
” مشیرِ خاص ! اردو محفل کی تیاریاں کہاں تک پہنچیں ۔ ”
فہیم نے ایک بار پھر انگڑائی لیتے ہوئے استفار کیا۔
” یار ۔۔۔ تمہاری انگڑائی اگر حسرت موہانی دیکھ لیتے تو وہ اصل شعر کے دوسرے مصرعے کو یوں کہتے ۔

انگڑائی بھی لینے نہیں پائے تو اٹھا کر دونوں ہاتھ
جس نے دیکھا ،آنکھوں پر رکھ لیئے دونوں ہاتھ

”یہ تم عوام الناس میں اس طرح کی انگڑائیوں کا تسلسل ختم کرو۔ جانے کب کوئی خود کش حملہ ہوجائے ۔ ”
مشیرِ خاص نے فہیم کی ہوش روبا انگڑائیوں سے زچ کھا کر اس کو مشورہ دیا۔
” بس جناب ۔۔۔۔ کام کی زیادتی اور نیند کی کمی کے باعث اضطراری کیفیت پر قابو نہیں رہتا ۔ خیر میں احتیاط رکھوں گا ۔
” ضرور رکھنا ۔۔۔ کیونکہ اس دفعہ محفل کی سالگرہ میں وزیرستان سے بھی ایک گروپ آرہا ہے ۔ کہیں ان کو کسی قسم کی وڈیو بنانے کا موقع نہ مل جائے ۔ ”
” یار ایسی خوفناک باتیں تو نہ کرو ۔ میں نے کہا ناں کہ احتیاط رکھوں گا ۔ ”
فہیم نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا ۔
اسی دوران وزیرِ اعظم نے انٹری دی ۔
دونوں صاحبان بدستور احترامًا بیھٹے رہے ۔ مگر وزیر اعظم نے ان کی گستاخی کو نظر انداز کرتے ہوئے چائے کا تقاضا کر ڈالا ۔
مشیر خاص نے محفلِ چائے خانہ کی طرف منہ کر کے ایک چائے بنانے کو کہا ۔
محفل چائے خانہ سے مقدس اور ناعمہ عزیز کی کورس میں آواز برآمد ہوئی ۔
” آج کل اردو محفل کی گھمبیر صورتحال کی وجہ سے ادھار قطعی بند ہے ۔ وزیرِ خزانہ زیک نے ہر قسم کے ادھار پر پابندی لگادی ہے ۔ صرف وہ لوگ اس پابندی سے مستثنیٰ ہونگے ۔ جن کی عمریں 99 سال سے زائد ہیں ۔ اور وہ بھی ان کے والدین کے کہنے پر ان کو ادھار دیا جائے گا ”
یہ سن کر وزیر اعظم کے چہرے پر مایوسی چھا گئی ۔
یہ دیکھ کر فہیم نے کہا کہ ” جنابِ والا ! آپ فکر کیوں کرتے ہیں ۔ اللہ آپ کو آپ کے پیغامات جتنی عمر دے ۔ ایک دن تو آپ مقررہ ہدف تو پہنچیں گے ۔ ”
” مگر شرط کی دوسری شق کیا ہوگا ۔ ؟ ”
وزیرِ اعظم نے فکرمندی سے سوال کیا ۔
” ارے اس شق کیا اہمیت ہے ۔ ! جب تک منتخب صدر صاحب موجود ہیں۔ ہم شقوں میں بھی شگاف ڈلوا دیں ۔ ”
فہیم نے ایک غیر سیاسی اور غیر معروف صدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کی ہمت بندھوائی ۔
” یہ رضوان اور محب علوی بہت دنوں سے نظر نہیں آرہے ہیں ۔”
اچانک وزیرِ اعظم نے اردو محفل کے دو پرانے باسیوں کا تذکرہ کر ڈالا ۔
” رضوان تو جنگِ پلاسی کے دوران اپنے ہاتھی کے بریک فیل ہونے پر اسے ٹھیک کرانے کے لیئےگئے تھے کہ بریک فیل ہونے کی وجہ سے ہاتھی کا ریورس گئیر خودبخود لگ رہا تھا ۔ جس کی وجہ سے اردو محفل کی وہ تحریریں بھی روندیں گئیں جو رضوان کے شوخ قلم سے وجود میں آنے والی تھیں ۔ ”
” یعنی حسرت ان غنچوں پر جو بن کِھلے مرجھا گئے ” وزیرِ اعظم نے تاسف بھرے لہجے میں کہا ۔
”مگر اب تک تو ان کو آجانا چاہیئے تھا ۔ ”
وزیرِ اعظم نے پھر سوال کیا ۔
” اصل قصہ یوں ہوا جناب ۔۔۔ کہ جس ہاتھی کے وہ بریک ٹھیک کرانے گئے تھے ۔ اس کے بریکوں کے فاضل پرزوں کی ترسیل پر یہاں ڈیوٹی بہت تھی ۔ بادشاہ سلامت کی اقتصادی حالت تو آپ کو معلوم ہی ہے ۔ سو وہ پڑوسی ملک چلے گئے ۔ جہاں ان کے اپنے بھی فاضل پرزے دستیاب تھے ۔ لہذاٰ انہوں نے واپسی کا ارادہ موخر کردیا ہے ۔ ”
مشیرِ خاص نے فیس بک پر جھومتی ڈولتی ہوئی خبروں سے مستفید ہوتے ہوئے وزیرِاعظم کی معلومات میں اضافہ کیا ۔
” اور محب ۔۔۔۔۔ ؟ ”
” وہ اپنے ہیئر پلانٹیشن کے لیئے امریکہ گئے تھے ۔ مگر تجربہ ناکام ہوگیا ہے ۔ آج کل بالوں سے محروم 6 گز کی پگڑ باندھ کر اپنے محلے کی مسجد میں امامت کر رہے ہیں ۔ ہر قسم کی اسکرین کو اپنے لیئے شجرِ ممنوعہ قرار دیکر خود کوآن لائن ہونے سے دور رکھا ہوا ہے ۔ فارغ وقت میں جنید جمیشد کے پاس جاکر درس سنتے ہیں ۔ ”
” خیر ۔۔۔۔۔ ہم کو اردو محفل کی تقریب کا انتظام کرنا ہے ۔ وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ ہم نے دعوت نامے جو تم کو دیئے تھے ۔ وہ تم نے سب کو ارسال کردیئے ہیں ۔ ”
” جی حضور ! دعوت نامے ارسال ہوچکے ہیں ۔ تمام ضلع کے ناظمین کو پہلے ہی مطلع کیا جاچکا ہے ۔ کچھ موڈریٹر کو تنبہہ کیساتھ ارسال کیئے گئے ہیں کہ وہ موڈریٹر بننے کے بعد سرکاری ملازمین کی طرح اپنے فرائض سے غافل ہوکر میز کے نیچے سوتے رہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ہم نے ظفری کو ان کی میز کے نیچے سے باہر نکالا تو ان کی پتلون کی جیب سے بلی کے کئی بچے برآمد ہوئے ۔ جو ایک مستقل قیام کی غرض سے وہاں سکونت پذیر تھے ۔ ”
مشیر ِ خاص نے وزیرِ اعظم کےسامنے ذمہ داروں کی مکمل فہرست رکھ دی ۔
” ایسی ہی کاہلی اور سستی کی وجہ سے اس خداداد اردو محفل کی سلطنت میں ترقی نہیں ہو رہی ہے ۔ بڑی مشکل سے ہم نے چند مخیر افراد کو اغوا کرکے اس سلطنت کی ہوسٹنگ کے اخراجات پورے کیئے ۔ ہمہ وقت ہم اپنی تلوار نکال کر انہیں گولی مارنے کی بھی دھمکیاں دیتے رہے ۔ تب کہیں جاکر انہوں نے اپنی جیبیں ہلکیں کیں ۔ اور بادشاہ سلامت کو کبوتر بازی کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ۔ وزیرِ خزانہ چندے کے لیئے ہاتھ میں لوٹا لیکر نکلے تھے ۔ مگر ابھی تک لوٹا لیکر نہیں لوٹے ۔ البتہ ایسی خبریں ضرور ملیں ہیں کہ جگہ جگہ وہ لوٹے کو ساتھ رکھ کر بیھٹے پائے گئے ہیں ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ سلطنت کا نظام کیسے چلے گا ۔ اور اوپر سے یہ سالگرہ کی تقریب کا انعقاد ۔۔۔۔ ”
وزیرِ اعظم نے تفکر کے عالم میں اپنے سر سے ٹوپی اتارکر اپنی چُندیا پر ہاتھ پھرتے ہوئے کہا ۔
” وزیراعظم صاحب ۔۔۔ یہ آپ اپنی ٹوپی مت اتارا کریں ۔ آپ کے اس ٹکلے سر سے روشنی کا جو انعکاس ہوتا ہے ۔ وہ ہماری آنکھوں کو بہت برا لگتا ہے ۔ ”
فہیم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھتے ہوئے وزیرِ اعظم سے استدعا کی ۔
” اور تم بھی ذرا اپنی انگڑائیوں کو قابو میں رکھو ۔ آج کل وہاب خاں یہاں بہت چکر لگا رہے ہیں ۔ کہیں وہ تمہیں اپنی کسی پشتو فلم میں شوٹ نہ کرلیں ۔ ”
وزیرِ اعظم سے اپنے سر کی شان میں گستاخی سنی نہ گئی ۔
” ہم نے دیکھا ہے کہ آج کل صوبہِ شعراء کے ناظم وارث بھائی ۔۔۔۔ سگریٹوں پر سگریٹیں پیتے ہوئے پائے جا رہے ہیں ۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ شاہی شاعر فاتح کی شادی کے گھوڑے پر بھی انہوں نے اپنا سگریٹ بجھا دیا تھا ۔ ”
وزیرِ اعظم نے مشیر خاص استفار کیا ۔
” جی جناب ۔۔۔۔ مگر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ فاتح اپنی شادی کے گھوڑے پر نہیں بلکہ اپنے کسی دوست کی شادی کی شادی پر مدعو تھے کہ یہ حادثہ پیش آیا ۔ انہوں نے بھابھی کے ڈر سے نفسِ بہ نفیس خود آکر محفل پر اس شادی کے بارے میں اپنا تحریری بیان دیا ہے کیونکہ ان کے گھریلو ظہرانے اور عشایئے کے لوازمات پابندی کے خطرے سے دو چار ہوگئے تھے ۔ ایک دن کے فاقے کے فوراً بعد آکر انہوں نے اپنا بیان یہاں داغ دیا ہے ۔ ”
” ہمممم ۔۔۔ فہیم تم نے بادشاہ سلامت کو قصیدہ لکھ کر دیا ۔ ؟ ”
وزیرِ اعظم نے فہیم سے سوال کر ڈالا ۔
” جی حضور ۔۔۔ مگر بادشاہ سلامت نے اس میں بہت سی ایسی غلطیاں نکالیں ہیں کہ ان کی تصحیح ضروری ہے ۔ اس کام کے لیئے میں فاتح بھائی کو تلاش کر رہا ہوں ۔”
” تم وارث بھائی سے کیوں مدد نہیں لیتے ۔”
” جناب ان کی طرف بھی گیا تھا ۔ جب ان کے حجرے پہنچا تو ان کی سگریٹ نوشی کی وجہ سے اندر اس قدر دھواں تھا کہ ان کے ہاتھ چومنے کے بجائے ان کے ہاتھ میں دبی ہوئی سگریٹ کے اس سرے کو چوم لیا جس کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ” یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے ۔ ”
جناب پورے دو ہفتے بعد یہ منہ دکھانے کے قابل ہوا ہوں ۔ ”
فہیم نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا ۔
” خیر کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ مگر تقریب سر پر آگئی ہے ۔ جلدی قصیدہ پورا کرلو ۔”
وزیرِ اعظم نے فہیم کے چہرے کا بغور معائنہ کرتے ہوئے آہستگی سے کہا ۔
’ اچھا ہم قیلولے کے لیئے اپنی گاڑی کی چھت پر سونےجا رہے ہیں ۔ ناظمین اور موڈریٹرز پہنچ جائیں تو ہمیں اس طرح مطلع کرنا کہ ہماری نیند میں کوئی خلل نہ پڑے ۔ ”
فہیم اور مشیر ِ خاص نے کسی اور جگہ کے خلل کے شبے میں وزیرِ اعظم کو غور سے دیکھا مگر خاموش رہے ۔

( تیاریاں جاری ہیں )
 

ظفری

لائبریرین
تیسری قسط
وزیرِاعظم کے جانے کے بعد مشیرِ خاص نے فہیم سے پوچھا ۔“ تم تو محکمہِ جاسوس کے سربراہ تھے ۔ بادشاہ نے تم کو یہ کس کام پر لگا دیا ہے ۔ اس خداداد سلطنت میں تو ایک سے ایک اچھے شعراء موجود ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر استادِ محترم جناب عزت مآب اعجاز عبید صاحب ( الف عین ) کی قدآور شخصیت موجود ہے ۔ یہ بادشاہ کو تم سے قصیدہ لکھوانے کی کیا سوجھی ۔ “
“ بس کیا بتاؤں ۔۔۔۔۔ میری جاسوسی کی شہرت ملکہ تک پہنچ گئی ۔ انہوں نے مجھے بادشاہ کی جاسوسی پر خفیہ طور پر مامور کردیا ۔ جاسوسی کا نتیجہ جب سامنے آیا تو بادشاہ سلامت کے تین عدد موبائل فون ضبط ہوگئے اور نیٹ گردی پر بھی ملکہ کی طرف سے پابندی لگ گئی ۔ سزا کے طور پر بادشاہ نے ہمیں قصیدہ لکھنے کو کہہ دیا ۔ “
فہیم نے مشیرِ خاص کو صحیح صورتحال سے مطلع کیا ۔
“ اچھا تو اصل قصہ یہ ہے ۔ “ مشیر خاص نے اکلوتے بال پر مشتمل اپنی مونچھ کو تاؤ دیتے ہوئے کہا ۔
“ قصیدہ ، قصیدہ ، قصیدہ ۔۔۔۔ اپنا تو ہوگیا ہے ملیدہ “ فہیم نے ایک بار پھر منہ بسور لیا ۔
اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی ۔ برآمدے سے بادشاہ سلامت اور باہر گلی سے وزیرِ اعظم دوڑے دوڑے اندر آئے ۔
“ کیا ہوا ۔۔۔ کہیں ہماری سلطنت پر حملہ تو نہیں ہوگیا ۔ “
“ حضور ۔۔۔ ابھی دیکھ کر آتا ہوں کہ کیا ہوا ہے ۔ “
فہیم نے باہر کی جانب دوڑ لگائی ۔
تھوڑی دیر بعد فہیم واپس آیا اور اس سے پہلے وہ فرشی سلام کرتا ۔ بادشاہ نے اسے روک دیا ۔
“ سلام رہنے دو فہیم میاں ۔۔۔۔ تمہیں اس حالت میں دیکھنے کے لیئے انتہائی درجے کی اخلاقی جرات چاہیئے ۔ جو ہم میں نہیں ہے ۔ “
“حضور ۔۔۔ مجھ میں تو ہے “
وزیرِ اعظم نے شوخی سے کہا ۔
“ ہمیں خبر ہے ۔۔۔ اور ہمیں اس بات کی بھی خبر ہے کہ آپ چوری چھپے راجہ بازار کے عقب میں واقع نیٹ کیفے میں جاکر یو ٹیوب پر شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ۔۔۔ باقاعدگی سے دیکھتے ہیں ۔ اور آپ نے ان سب کو اپنے فیورٹ میں بھی ایڈ کیا ہوا ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے غضبناک نظروں سے فہیم کو دیکھا تو فہیم سیٹی بجاتے ہوئے دائیں بائیں دیکھنے لگا ۔
“ یہ کس قسم کے دھماکے کی آواز تھی “
بادشاہ نے فہیم سے پوچھا ۔
“ حضورِ اعلی ۔۔۔ آپ نے انصاف کے لیئے جو گھنٹی باہر لٹکا رکھی تھی ۔ اس کی زنجیر اتنی بوسیدہ ہوچکی تھی کہ ایک غریب فریادی نے جیسے ہی اسے کھینچا ۔ زنجیر گھنٹی سمیت اس پر آگری ۔
وہ ملکِ عدم کی روانہ ہوگیا ۔ اور آپ کا انصاف ادھورا رہ گیا ۔ “
“ انصاف ہوگا ۔۔۔۔ اور ضرور ہوگا ۔۔۔۔ باشادہ نے شبِ خوابی کے لباس میں ٹہلتے ہوئے کہا جو صرف ایک لُنگی پر مشتمل تھا ۔ “
“ جس فریادی نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے ۔ اس کی ساری املاک ضبط کرلی جائے ۔ “
“ واہ ۔۔۔ واہ کیا انصاف ہے ۔ “
مشیرِ خاص ، وزیرِ اعظم اور فہیم نے داد و تحسین بلند کی ۔
“ جناب اعلی ۔۔۔ سلطنت ِ بلاگنگ سے عمار خاں بازیابی کی اجازت چاہتے ہیں ۔ “
باہر کھڑے ہوئے ایک درباری نے اندر منہ کرکے دربارِ خاص کو مطلع کیا ۔
“ حاضر کیا جائے ۔“
عمار خاں اندر داخل ہوئے تو وزیرِ اعظم سے کہا “ یہ دودھ والا آپ لوگوں کے ساتھ کیوں کھڑا ہے ۔ ؟ “
“ گستاخ یہ ہم ہیں ۔ بادشاہ سلامت دھاڑے ۔
“ معافی کا خواستگار ہوں جناب ۔۔۔۔ میں نے آپ کو پہچانا نہیں کہ پہلے کسی بادشاہ کو لنگی پہنے نہیں دیکھا ۔ “
“ ابے ۔۔۔ ہم غریب پرور بادشاہ ہیں ۔ “
“ غربت واقعی بہت نیچے آگئی ہے ۔ “ عمار نے بادشاہ کی لنگی کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا ۔
“ کیوں آئے ہو “ ؟
“ جناب سلطنتِ بلاگنگ میں آپ کی سلطنت کی چھٹی سالگرہ کا بہت چرچا ہے ۔ وہاں سے پیغام لیکر آیا ہوں کہ ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور ہمیں خدمت کا موقع دیجیئے گا ۔ “
“ ضرور ۔۔۔ ضرور ۔ اپنی سلطنت میں جو بھی مخیر افراد ہیں ۔ ان کی فہرست بناکر وزیرِ اعظم کی حوالے کردینا ۔ تاکہ آئندہ سال کی ویب ہوسٹنگ کا پیشگی بندوبست ہوسکے ۔ “
بادشاہ نے وزیرِ اعظم کو آنکھ مارتے ہوئے کہا ۔
“ جو حکم عالی جاہ “
عمار نے واپسی کی اجازت مانگی اور دربار سے رخصت ہوگئے
زین نے اپنے اخبار میں‌‌‌‌‌‌‌‌‌ کوئی خبر اردو محفل کی سالگرہ کے حوالے سے لگائی کہ نہیں‌ ۔ ؟ “
بادشاہ نے فہیم کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔ “ تم تو پچھلے دنوں زین کے پاس کوئٹہ بھی گئے ہوئے تھے “
“ جی حضور ۔۔۔۔۔ میری واپسی پچھلے ہفتے ہی ہوئی ہے ۔ اس بابت میری زین سے بات ہوئی تھی ۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ جب وہ اپنا اخبار نکالیں گے تو اس میں ضرور اس سالگرہ کی روئیداد لکھیں گے ۔ “
یہ سن کر بادشاہ سلامت بغلیں جھانکنے لگے
“ وزیر اعظم تم نے ہمارے لیئے جس نئے شاہی لباس کا آڈر دیا تھا ۔ اس کی تکمیل کہاں تک پہنچی ۔ “
“ بس جناب ۔۔۔ اپنے تکمیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ “
“ دھیان رہے کہ اس دفعہ شاہی لباس مضبوطی کے اعلیٰ پیکر کا نمونہ ہونا چاہیئے کہ پچھلی دفعہ تم نے ہمارے لیئے جو لباس بنوایا تھا ۔ اس میں کیلے کے پتوں کی اس قدر بہتات تھی کہ ہم لالو کھیت سے محل آتے ہوئے بکریوں کے ریوڑ میں پھنس گئے ۔ اور جب وہ ریوڑ وہاں سےگذرا تو ہم شجرِ ممنوعہ بن چکے تھے ۔ اگر ہمارے ہاتھ میں اخبار نہیں ہوتا تو خدا جانے ہم محل کیسے پہنچتے ۔ اور سارے راستے ہماری رعایا ، ہمیں روک روک کر خبریں پڑھتی رہی ۔ “
بادشاہ نے دانت بھنچتے ہوئے کہا ۔
“ حضور بے فکر رہیں ۔ اس دفعہ ایسا نہیں ہوگا ۔ “
“ مشیرِ خاص ۔۔۔ تو پھر کیا طے پایا “ بادشاہ نے سوال کیا ۔
“ جی حضور ۔۔۔ ہمارے گھر پر رشتے لگانے والی آئیں تھیں ۔ مگر انہوں نے ہماری تنخواہ کی مسلسل دو سال کی عدم موجودگی دیکھتے ہوئے بات آگے بڑھانے سے انکار کردیا ۔ اس لیئے کچھ طے نہیں پایا ۔ “
مشیرِ خاص نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا ۔
“ ابے ۔۔۔ ہم تمہارے رشتے طے ہونے کی بات نہیں کر رہے ۔ بلکہ اردو محفل کی چھٹی سالگرہ کی تقریب کی تیاریوں کا پوچھ رہے ہیں جو کل منعقد ہونے والی ہے ۔ “
بادشاہ نے آگ بگولہ ہوتے ہوئے کہا ۔
“ اوہ ۔۔۔ جی حضور تیاریاں اپنے اختیام پر ہیں ۔ دعوت نامے سب کو ارسال کیئے جاچکے ہیں ۔ تمام ذمہ داران اپنے اپنے فرض سے آگاہ ہوگئے ہیں ۔ کل صبح پوَ پھٹنے پر تقریب کا آغاز کر دیا جائیگا ۔ “
“ پَو پھٹنے پر تو ہم رفع ِحاجت کے لیئے جاتے ہیں ۔ کوئی اور وقت مقرر کرو “
“ حضور ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ شام کا وقت بہت مناسب رہے گا ۔ “ ویسے بھی اس ملک خداداد اردو محفل میں کون شام سے پہلے اٹھتا ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے تقریب کا وقت مقرر کرتے ہوئے کہا ۔
“ ٹھیک ہے ۔۔۔۔ ہم پھر قیلولہ کرنے جا رہے ہیں ۔ وزیرِ اعظم تم اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر جاؤ اور شاہی درزی سے ہمارا لباس لے آؤ ۔ “
“ جو حکم عالی جاہ ۔۔۔۔ “
“ جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ۔ “ مشیرِ خاص نے ڈرتے ڈرتے بادشاہ سے درخواست کی ۔
“ امان دی ۔۔۔۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو “
“ کل صوبہ ِ سیاست سے چودھری ساجد آئے تھے ۔ کہہ رہے تھے کہ اگر بادشاہ نے بھینس کے آگے بین بجانی بند کر دی ہو تو اُسے میں لے جاؤں “
“ ابھی نہیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ ہماری بین سن کر بھینس نے گردن ہلانا شروع نہیں کیا ہے ۔ ملکہ عالیہ ہمارے سامنے سر جھکا نہیں سکتیں تو کم از کم بھینس تو اپنا سر ہلا لے ۔ “
“ حضور ۔۔ سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک جگہ سےسن کر دوسری جگہ جاکر کسی اور کو سنائیں ۔ “
“ ابے تُو پھر بولا ۔۔۔۔ یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے ۔ تُو نے ہی ملکہ سے ہماری مخبری کی تھی ۔۔۔ ہمارے تین موبائل فون بھی ضبط ہوگئے اور ہماری نیٹ گردی پر بھی پابندی لگ گئی ۔ ہائے کیسی کیسی حسینائیں نیٹ پر ہماری راہ تک رہیں ہونگیں ۔ “
“ جنابِ عالی ٰ ۔۔۔ وہ آپ کی نہیں بلکہ ان فلمی ہیروز کی راہ تک رہیں ہونگیں ۔ جن کو آپ نے اپنی تصویریں کہہ کر نیٹ پر لگایا تھا ۔ “ فہیم نے پھر لقمہ دیا ۔
“ حدِ ادب گستاخ ۔۔ ۔ اگر تمہاری کارستانیاں یونہی جاری رہیں تو ہم تمہارے ابا سے کہہ کر تمہاری شادی کروادیں گے ۔ اور پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ ایک جاسوس اور بادشاہ کی زوجہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ “
بادشاہ کی آنکھوں میں پانی بھر آیا ۔
“ حضور ۔۔۔ آپ جذباتی نہ ہوں ۔ میں آپ کو خفیہ ٹی وی کبیل لگواکر دیدوں گا ۔ پھر آپ شیلا کی جوانی اور منی بدنام ہوئی ۔ بغیر کسی تعطل کے دیکھنا ۔“ وزیرِ اعظم نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا ۔
“ وزیرِ اعظم ۔۔۔ یہ پروگرام تم اپنے لیئے بنا رہے ہو یا ہمارے لیئے ۔ ؟ “
بادشاہ نے شکی نظروں سے وزیرِ اعظم کی طرف دیکھا ۔
مشیر ِ خاص اور محکمہِ جاسوس کے سربراہ فہیم کی ہنسی نکل گئی ۔
“ جائیں بادشاہ سلامت ۔۔۔ ہم نہیں کھیلتے “
وزیرِ اعظم پاؤں پٹختے ہوئے دربار سے نکل گئے ۔
تم دونوں بھی یہیں کہیں اخبار بچھا کر قیلولہ کرلو ۔۔۔۔ کل محفل کی سالگرہ کی تقریب ہے ۔ مخیر افراد پر نظر رکھنا “ بادشاہ نے شاہی اخراجات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا ۔
دونوں نے سعادت مندی سے سر جھکا لیا ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
( چوتھی قسط )

بلآخر اردو محفل کی سالگرہ کا دن آپہنچا ۔ پنڈال میں زبردست انتظامات تھے ۔ سیکورٹی سے لیکر عشایئے تک تمام ضروری کام نمٹائے جاچکے تھے ۔۔۔۔ کیسے ؟ یہ ایک معمہ تھا ۔
بعض لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سب روحانی بابا کی کرامت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنے موکلوں سے کہہ کر یہ سب انتظامات کرائے ہیں ۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ وزیرِ جاسوس نے بھائی لوگوں کی مدد سے زبردستی یہ عیدگاہ خالی کروائی ہے ۔ جہاں آج لنگر بٹنا تھا ۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے پائے گئے کہ اس سلسلے میں بادشاہ سلامت کے خفیہ بینک اکاؤنٹس کام آئے ۔ مگر اس بات کا امکان کم ہی تھا کہ بادشاہ سلامت کے پاس اپنی لُنگی کے رفو کے لیئے پیسے تک نہیں‌ تھے ۔ ( شاید یہی وجہ تھی کہ بادشاہ سلامت اپنے دو ہاتھوں کو لنگی کے دائیں بائیں کی ملکی شورشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سوراخوں میں پتلون کی طرح ہاتھ ڈالے پھرتے تھے ! ) ۔ بعض باخبر ذرائع کے مطابق بادشاہ سلامت نے آئی ایم ایف سے پچاس سال کی معیاد پر قرضہ لے لیا تھا ۔ مشیرِ خاص کے سمجھانے کے باوجود بھی کہ حضور ۔۔۔۔ اتنی بڑی رقم آپ کیسے واپس لوٹائیں گے ۔ ؟ جس پر بادشاہ نے جواب دیا کہ “ ابے ! ہم کہاں ہونگے قرض لوٹانے کے لیئے اگلے پچاس سالوں میں ۔۔۔۔ ہم سے پہلے آنے والوں نے قرض لوٹایا ہے کیا ؟ ۔ ہم بھی غریب بادشاہ پچھلے بادشاہوں کے لیئے ہوئے قرضوں کی بدولت ہی بنے ہیں ۔ پھر ہماری رعایا کس مرض کی دوا ہے ۔ بھرتی رہے گی قرضہ ، چند دن شور کرے گی پھر اپنی روش پر لوٹ آئیگی ۔ “
قناطیں کھینچ گئیں تھیں ۔ کرسیاں رکھی جاچکی تھیں ۔ مستورات اور مرد حضرات کی کرسیوں کے درمیان میں واجدحسین کی جہادی ، ‌@ام نور العين کی اخلاقی تعلیمات کی وجہ سے خاصا فاصلہ رکھا گیا تھا ۔ اور بیچ میں ایک بڑی قنات بھی کھڑی کردی گئی تھی ۔ مگر دونوں طرف فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ فہیم اور زین کے بنائے ہوئے وہ سوراخ بھی کام میں نہ آسکے جو انہوں نے دوسری طرف جھانکنے کی غرض سے قنات میں ڈالے تھے ۔
بادشاہ سلامت بیوٹی پارلر گئے ہوئے تھے ۔ مشیرِ خاص پر آج غیر ضروری بوجھ تھا کہ وزیرِ اعظم کو گھر سے آنے میں تاخیر ہوگئی تھی ۔ فہیم کی اطلاع کے مطابق وہ اپنی ہوم منسٹر کے کپڑوں پر استری کرنے میں مشغول تھے ۔ اسٹیج سجایا جاچکا تھا ۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا ۔ بانی اردو محفل کو زبردستی جگا کر محفل پر آنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ وزیرِ خزانہ زیک اپنی پیٹ کی اس بیماری سے بہت لاچار نظر آرہے تھے ۔ جو ان کو حالیہ بیرونی دورے میں لاحق ہوگئی تھی ۔ وہ لوٹا جس میں بیرونی امداد متوقع تھی ۔ اُسے وزیر خزانہ نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا ۔ لوٹا پانی سے لبریز تھا کہ کب وزیرِ خزانہ کا صبر لبریز ہوتا اور وہ لوٹا اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر قومی خزانے میں واپس لوٹتا ۔ صوبہ محفل شعر و سخن کے وزیرِ اعلیٰ جناب @محمدوارث صاحب ، قنات کے ایک ڈنڈے سے ٹکے سگریٹ پر سگریٹ پھونکتے خلاء میں کچھ گھور رہے تھے ۔ ان پر استعراق کے عالم کا گماں ہوتا تھا ۔ @سخنور بھیا اپنی بیاض ساتھ لیکر آئے تھے ۔ اور بہت بے دلی سے گڑی ہوئی قنات کو دیکھ رہے تھے ۔ فاتح بھی اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر آئے کہ انہوں نے گھوڑے کے حوالے سے اپنی پچھلے تجربے سے شاید بہت کچھ سیکھا تھا ۔ آتے ہی انہوں نے ٹینٹ کے باہر کھڑے ہوئے ویلٹ پارکنگ بوائے کو اپنی تین پہیوں والی سائیکل کا ہینڈل پکڑواتے ہوئے کہا کہ “ جاؤ اسے پارک کردو “ ۔ اچانک دوست بھی @م عثمان کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے پنڈال میں داخل ہوئے اور آتے کیساتھ ہی بلند آواز میں سب کو سلام سائیں کہا ۔ عثمان نے کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولا ہی تھا کہ مشیرِ خاص نے التجا کی ۔۔۔۔ بھیا آج نہیں ۔۔۔ بس آج آپ کو کسی پر تنقید نہیں کرنی ۔ “ سو عثمان نے لب سی لیا ۔ راجہ صاحب بھی اپنے سنگھاسن پر تشریف لائے ۔ مگراچانک ان کے سنگھاسن سے کچھ چوہے نکلے اور خواتین کے حصے کی طرف چلے گئے ۔ جہاں سے چیخوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ۔ مورخ وہاں کی منظر کشی سے قاصر رہا کہ اس حصے میں‌ کسی مرد کا جانا ممنوع تھا ۔ بعد میں بس اتنا ہی پتا چل سکا کہ سب سے زیادہ چوہے مقدس اور زونی نے مارے
محمد صابر بھی اپنی ہری پگڑی کیساتھ آئے ۔ ان کیساتھ کچھ قوالوں کی آمد بھی متوقع تھی۔ مشیرِ خاص کے استفار پر صابر نے کہا “ مشیرِ خاص ! ہم صابر ہیں ، صابری برادران نہیں ۔ “ ۔ چناچہ اس طرح غلط فہمی دور ہوئی ۔ زین بھی محفل کی سالگرہ کی داستان رقم کرنے کے لیئے اپنے اخباری فوٹو گرافر کے ساتھ آئے اور آتے کیساتھ ہی قناتوں میں ‌بنے ہوئے سوراخوں میں کمرہ ڈال کر تصویریں لینا شروع کردیں ۔ دوسری طرف اچانک شور تھم گیا ۔ ( شاید سب نے چوہوں پر اپنا تشدد چند دیر کے لیئے روک دیا تھا ۔ جو اِن خواتین کو روایتی خواتین سمجھ کر ڈرانے گئے تھے ۔ بیچارے چوہے ۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔۔ وہ راہی جو تاریک راہوں میں مارے گئے ۔ ) ۔
ایچ اے خان ( ہمت علی ) بھی اپنی سیاسی پارٹی کے بینرز کے ساتھ محفل میں داخل ہوئے ۔ بینرز کے ایک طرف حسبِ معمول ان کی ڈبل پالیسی کے مطابق “ زرداری آوے ہی آوے اور دوسری طرف زرداری جاوے ہی جاوے “ کے نعرے کندہ تھے ۔ طالوت بھی حسبِ معمول غصے کی میں آئے ۔ انہوں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ کس پر غصہ اتاریں ۔ مشیرِ خاص نے دور سے ہاتھ جوڑ کر بیٹھنے کو کہا تو وہ خاموشی سے بیٹھ گئے ۔ اچانک ہی عسکری ڈولتے ہوئے پنڈال میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے اپنی پیشانی پر “ ٹُن “ کا سائن لگا رکھا تھا اور مسلسل گنگنا رہے تھے “ مجھے پینے کا شوق نہیں ، میں تو پیتا ہوں تپانے کے لیئے ۔۔۔ “ انہیں بڑی مشکل سے انہیں کرسی پر بٹھایا جاسکا ۔ مگر وہ بار بار ساتھ بیھٹے سخنور بھیا کے کندھے پر ہاتھ مار کر پوچھتے رہے کہ “ بھائی ! یہ بس کب چلے گی ۔ ؟ “
@ایم اےراجہ بھی اپنے ہاتھ میں غزلوں کا ایک بڑا پلندہ لیئے ہوئے نظر آئے ۔ وہ کسی مصرعے سے مسلسل تکرار کر رہے تھے “ جو کہا تھا میں نے سچ تھا ۔۔۔۔ جو سنا تھا وہ نہیں تھا ۔ “ ۔ ان کو بھی پنڈال میں ایک کرسی دیدی گئی ۔ مگر ان کی تکرار کا تسلسل ختم نہ ہوا ۔ شاہی شاعر خرم شہزاد خرم جیسے ہی پنڈال میں داخل ہوئے ۔ مشیرِ خاص تیزی سے خرم کی طرف لپکے اور کہا ۔۔۔۔ “ ابے کہاں رہ گئے تھے ۔ ؟ بادشاہ سلامت کا قصیدہ مکمل ہوگیا ۔ ؟ وہ کل سے مسلسل پوچھ رہے ہیں ۔ “
“ بس بڑی مشکل سے لکھا ہے اور ایسا لکھا ہے کہ پوری محفل عیش عیش کر اٹھے گی جناب ۔ “ خرم نے سینہ پھلاتے ہوئے کہا ۔
( فہیم کی اس یقین دہانی پر کہ فہیم بادشاہ سلامت کو اپنے خرچے پر ایک عدد نیا موبائل فون اور دس عدد حسیناؤں کے خفیہ نمبر بادشاہ سلامت کو ملکہ عالیہ سے نظر بچا کر مرحمت فرمائیں گے ۔ چنانچہ شاہی شاعر کو عہدہ خرم کو دیے دیا گیا تھا ۔)
“ ابے ۔۔ عش عش ہوتا ہے ، پتا نہیں تم نے کیسا قصیدہ لکھ مارا ہوگا ۔ مجھے تو اپنی تنخواہ کی پڑی ہے ۔ جو اس سالگرہ کے بعد متوقع ہے ۔ “ مشیرخاص نے تفکر کے عالم میں کہا ۔
‌دوسری جانب خواتین کی بھی آمد جاری تھی ۔ مگر مورخ اپنی آنکھوں کے سکھائی سے محروم رہا کہ وہاں جانے پر مسلسل پابندی تھی ۔
arifkarim اور ڈی بی ایکس گرافکس بھی ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ ڈالے نظر آئے ۔ دونوں نے ہر معاملے میں‌ یوٹیوب کا حوالہ دینے اور ٹانگ اڑانے کی مشترکہ عادت کی بناء پر گوبل اتحاد کرلیا تھا ۔ جس کا پہلا اجلاس عارف کریم کے اس نامعلوم سیارے پر ہونا منظور پایا تھا ۔ جس کے بارے میں‌ ناسا کا کہنا تھا کہ کائنات میں ایسے کسی سیارے کا وجود نہیں ۔
ساجد بھائی ، فاروق سرور خان ، خرم سنئیر تینوں ایک ساتھ پنڈال میں‌داخل ہوئے ۔تینوں کسی سیاسی نکتہ پر بحث کرتے ہوئے پائے گئے کہ اس نکتہ کو مذہب سے کیسا جوڑا جائے ۔
محمود غزنوی جیسے ہی پنڈال میں داخل ہوئے تو راجہ صاحب اپنے سنگھاسن پر لیٹ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ “ سومنات کا مندر گیا سو گیا ۔ مگر میں یہ سنگھاسن جانے نہیں دوں گا ۔ “
بڑی مشکل سے ان کو یقین دلایا گیا کہ یہ محمود غزنوی وہ غزنوی نہیں جس نے اپنی سستی کی وجہ سے ہندوستان پر سترہ حملے کیئے تھے ۔
ڈاکٹر افتخار راجہ نے آتے کیساتھ ہی دواؤں کے نسخے پنڈال میں ‌بانٹنا شروع کردیئے ۔ ساتھ ایک پمفلٹ بھی تھا ۔ جس پر درج تھا ۔ “ مطب کے دو وزٹ پر ایک وزٹ فری “ ۔
ابوشامل بھی اپنی مصروفیت میں سے کچھ دیر کے لیئے وقت نکال کر آئے ۔ کیونکہ انہوں واپس جاکر دوبارہ سونا بھی تھا ۔
محفل کی محترم ہستوں میں جناب اعجاز عبید( الف عین ) ، جناب شاکر القادری بھی داخل ہوئے ۔ ان کے درمیان غالب کی کسی شعر کے بارے میں بحث چل رہی تھی ۔ جس کے بارے میں انہیں یہ شبہ تھا کہ یہ شعر غالب نے بہادر شاہ ظفر کو ایک بوتل کے عوض فروخت کردیا تھا ۔
میم نون بھی اپنے سیاحتی مقالے کے ساتھ حاضر ہوئے ۔ ان کی سیاحت پر مبصرین کو صرف یہ اعتراض تھا کہ یہ سیاحت ویزے کے بغیر کیسے ممکن ہوئی ۔
@محمدبلال بھی ہمیشہ کی طرح اپنی کسی تحریر ہاتھ میں لیئے نظر آئے کہ بادشاہ کی منظوری کے بعد وہ اس کو محفل کو حصہ بنا سکیں ۔

( مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
( پانچویں قسط )

مہمانوں کی آمدو رفت کا سلسلہ جاری تھا ۔ مشیرِ خاص ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی بار بار دیکھتے ہوئے وزیرِ اعظم کی راہ تک رہے تھے ۔ سلطنت کے اموری کاموں کے علاوہ رعایا سے زیادہ تر رابطے کی ذمہ داری وزیرِ اعظم کی سپرد تھی ۔ مگر فہیم کی اطلاع کے مطابق وہ گھر پر اپنی ہوم منسٹر کے جوڑوں پراستری کرنے میں مشغول تھے ۔ مہمانوں کی آمد و رفت میں قدرے اضافہ ہوچکا تھا ۔ مگر وزیرِ اعظم کی آمد کے آثار ابھی تک نمودار نہیں‌ ہوئے تھے ۔ مہمانوں کی نظریں قنات کے سوراخوں پر جمی ہوئیں تھیں یا پھر طعام کی اس میز پر جہاں خوردو نوشت کا سامان سجایا جانا تھا ۔
اچانک ہی محفل میں محسن حجازی کی آمد ہوئی ۔ وہ حسبِ معمول اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے نظر آئے ۔ وہ سلطنتِ محفل کے اس ادارے سے تعلق رکھتے تھے ۔ جس کے بارے بادشاہ سلامت کا فرمان تھا کہ وہ ایک دن یہ ادارہ ضرور بنائیں گے ۔ ( خدا جانے وہ کونسا ادارہ تھا ) مگر محسن حجازی کی فکری تنہائی کا سدِباب کا تدارک فلحال ممکن نظر نہیں آرہا تھا ۔
آبی ٹوکول اور باذوق بھی ایک ساتھ محفل میں داخل ہوتے نظر آئے ۔ اندورنی اور بیرونی سازشوں کی وجہ سے گو کہ انہوں‌ نے سلطنت ِاردو محفل کے دربار میں حاضری بہت کم کردی تھی ۔ مگر صوبہِ مذہب پر ہونے والی ہر گفتگو پر انہوں نے کڑی نظر رکھی ہوئی تھی ۔ اور جب بھی کوئی روشن خیال اپنی کوئی بات کہنے کی کوشش کرتا ۔ وہ وزیرِ اعظم کو ووٹ نہ دینے کی دھمکی دیکر اس روشن خیال کو پچھلی صفوں‌ میں بھیج دیتے ۔ مجبوراً وزیراعظم کو اس دھاگے پر قفل لگانا پڑ جاتا ۔
فیصل عظیم فیصل بھی کافی دنوں بعد نظر آئے ۔ اردو محفل میں حاضری کے لیئے ان کی ہوم منسٹری کا اجازت نامہ ان کی جیب میں صاف نظر آرہا تھا ۔
کاشفی بھی اپنی کئی بیاضوں سمیت محفل میں داخل ہوئے ۔ مگر اس بار ان کے ہاتھ میں ایک سابق حکمران کے نئی پارٹی میں شمولیت کے لیئے رجسٹریشن کے فارمز بھی نظر آئے ۔
سعود الحسن ، نایاب جی اور ابو کاشان ایک ساتھ داخل ہوئے ۔ معلوم ہوا کہ وہ ڈبل سواری کی پابندی کے باعث ایک ہی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر آئے ۔ راستے میں پولیس نے صرف یہ دیکھ کر انہیں چھوڑا کہ وہ ڈبل نہیں ٹرپل تھے ۔
پپو اور چاند بابو بھی اپنے اپنے گلوں میں‌ بستہ ڈالے پنڈال میں داخل ہوئے ۔ لگتا تھا اسکول کی چھٹی کے بعد وہ سیدھا اس سالگرہ کی تقریب میں چلے آئے ہیں ۔
اچانک ہی وزیرِ اعظم عجلت میں تقریباً دوڑتے ہوئے آئے ۔ انہیں‌ دیکھ کر مشیر ِ خاص نے سکون کا سانس اندر لینے کے بجائے غلطی سے باہر نکال دیا ۔ جس کہ وجہ سے ان کے پیٹ پر بندھا ہوا پاجامہ ڈھیلا ہوکر رکوع کے حالت میں آگیا ۔ اس سے پہلے پاجامہ سجدے میں جاتا اورکوئی نیا فروعی مسئلہ کھڑا ہوتا ، مشیرِ خاص نے کمالِ تیزی سے پاجامے کو رکوع سے اٹھا کر دوبارہ قیام کی حالت میں کردیا اور اسی حالت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے پاجامے کو پکڑے ہوئے مشیر ِ خاص نے کہا ۔ “ "جناب ! آپ نے بھی حد کردی ۔ تقریباً سارے مہمان آچکے ہیں ۔ اور آپ کا پتا ہی نہیں ۔ بادشاہ سلامت کسی بھی وقت تشریف لاسکتے ہیں ۔ آپ کو تو ان کے آنےسے پہلے سب کے سامنے تمہید بھی باندھنی ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے ہانپتے ہوئے کہا ۔ “ کیا بتاؤں مشیرِ خاص ۔۔۔۔ ہوم منسٹر کا حکم تھا کہ تقریب میں جانے سے پہلے ان کے عید کے جوڑوں پر استری کر جاؤں ۔ بصورتِ دیگر مجھے رات کو ڈنر میں وہ مرغی کھانے کو نہیں ملے گی جو پچھلے دنوں ایک پڑوسی کے گھر سے اغوا ہوئی ہے ۔ سو اس لیئے دیر ہوئی ۔ مگر تم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پاجامے کو پکڑ کر ٹخنوں تک کیوں اٹھایا ہوا ہے، کیا کہیں بارش ہو رہی ہے ۔ “
“ جناب ۔۔۔۔ آپ اس قصے کیوں چھوڑیں ۔ اپنی ذمہ داری سنبھالیں ۔ میں اپنے پاجامے میں دائیں بائیں سلائیاں لگوا کر آتا ہوں ۔ “
یہ کہتے ہی مشیرِ خاص یہ جا وہ جا ۔
مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا ۔
وزیرِ اعظم نے محکمہ جاسوس کے سربراہ فہیم کو بلایا اور محفل کے انتظامات کے بارے میں پوچھا ۔
“ جناب فکر کی کوئی بات نہیں ۔ میں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر کسی بری صورتحال سے نمٹنے کے لیئے ہر کرسی کے نیچے ایک ایک بم نصب کردیا ہے کہ کوئی بھی دہشت گرد اگر یہاں داخل ہو تو اسے دہشت گردی بپا کرنے میں کوئی دقت نہ ہو ۔ “ فہیم نے فخریہ انداز سے وزیرِ اعظم کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
“ ابے ۔۔۔ سٹھیا گیا ہے کیا ۔۔۔۔ !!! “ وزیرِ اعظم نے سر پیٹ لیا ۔ “ تو کہیں دہشت گردوں سے تو نہیں ملا ہوا ۔ میں نے تو کہا تھا کہ ایک ایک بم سب سپاہیوں کو دیدینا کہ جب کوئی دہشت گرد یہاں اندر داخل ہونے کی کوشش کرے تو وہ اس کو صدر دروازے پر ہی بم مار کر روک لیں ۔ “
فہیم نے دانت نکال کر سر کجھانا شروع کردیا ۔
“ یا تو تم سر کجھا لو یا پھر دانت نکال لو ۔ تم پر یہ دونوں کام ایک وقت میں اچھے نہیں لگتے ۔ “ وزیرِ اعظم نے برہمی سے کہا ۔ ‘ مگر اب خیال رکھنا کہ کسی مہمان کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کی کرسی کے نیچے کیا چھپا ہوا ہے ۔ ورنہ یہاں وہ افراتفری برپاہو گی کہ ساری تقریب غارت ہوجائے گی ۔ “
“ آپ بے فکر رہیں جناب ۔۔۔ میں ابھی جاکر فرداً فرداَ سب سے کہہ دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کی کرسیوں کے نیچے کوئی بم نصب نہیں ہے ۔ “ فہیم نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔
“ ابے ۔۔۔ خاموش ہوجا ۔۔۔۔ کسی سے کچھ نہیں کہہ ۔ بس چپ چاپ جاکر ادھر بیٹھ جا ۔ “
وزیرِ اعظم نے عاجزی سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
وزیرِ اعظم نے ناظمِ خاص @محمدوارث سے پوچھا “ آپ کے زیرِ نگرانی علاقوں کی کیا صورتحال ہے ؟ ۔ “
ناظم ِ خاص نے سگریٹ کا ایک بھرپور کش لیتے ہوئے قنات کے کسی سوراخ سے دوسری جانب دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
“ مجھ کو نہ اپنا ہوش نہ دنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوں مست ہوکے تمہارے خیال میں “
“ جناب ۔۔۔۔ ہوش میں آجایئے ۔ بادشاہ سلامت ، ضیاءالحق کے دور میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہوں نے اُس دور میں کچھ سزاؤں کا نفاذ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ مجھے تو ڈر ہے کہ آپ اور ظفری کی وجہ سے اُن سزاؤں کا اطلاق کہیں یہاں نہ ہوجائے ۔ “
“ دنیا کو علم کیا ہے، زمانے کو کیا خبر
دنیا بھلا چکا ہوں تمہارے خیال میں “
ناظم خاص نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے پھر ایک اور شعر پڑھا ۔
“ میں آپ کے لیئے شاہی معالج افتخار راجہ کو بھیجتا ہوں ۔ مگر خدارا بادشاہ سلامت کے آنے سے پہلے ٹھیک ہوجائیے گا ۔ “
“ ہاں خرم ۔۔۔ تمہارے قصیدہ کہاں تک پہنچا ۔۔۔ کیونکہ آج اگر یہ قصیدہ نہ سنایا گیا تو یقین جانو قیامت آجائے گی ۔ “
وزیرِ اعظم نے شاہی شاعر کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔
“ یہ قیامت کون ہے جناب ۔۔۔۔ کچھ ہمیں بھی تو معلوم ہو ‘ شاہی شاعر نے بےقراری سے پوچھا ۔
“ ابے ۔۔۔۔ اس قیامت کا تعلق صنفِ نازک سے نہیں ، بلکہ بادشاہ کے جلال سے ہے ۔ “
وزیرِ اعظم نے ایک بار پھر سر پکڑ لیا ۔
“ اوہ ۔۔۔۔ سوری جناب ۔ ویسے قصیدہ مکمل ہے ۔ بادشاہ سلامت کے حکم پر پیش کردیا جائے گا ۔ “
“ شاباش ۔۔۔۔ “ وزیرِ اعظم نے کہا اور پھر پنڈال میں مہمانوں کی خیریت پوچھنے چکے گئے ۔
مشیر ِ خاص اپنے پاجامے میں سلائیاں لگوا کر واپس آچکے تھے ۔ وزیرِ اعظم مہمانوں سے محو گفتگو تھے ۔ سربراہ محکمہِ جاسوس سب پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے ۔ ناظمِ خاص بدستور قنات کے ڈنڈے سے ٹکے اور @ایم اے راجہ کے مصرعے سے مسلسل تکرار کر رہے تھے ۔ “ جو کہا تھا میں نے ، سچ تھا ، جو سنا تھا وہ نہیں تھا ۔ “ ۔
بادشاہ سلامت کی آمد کسی بھی وقت متوقع تھی ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ )

مشیرِ خاص اپنے پاجامے میں سلائی لگوا کر آچکے تھے ۔ مگر بادشاہ سلامت کا کہیں پتا نہیں تھا ۔ بادشاہ سلامت کی آمد میں تاخیر کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہونے لگی تھی۔ وزیراعظم کے چہرے پر تفکرات کے آثار واضع طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔ وزیرِ اعظم، وزیرِمحکمہِ جاسوس فہیم کے پاس جا پہنچے ۔ جوگڑی قناعت کے سوراخوں سے دوسری طرف دیکھنے کی کوششوں میں بدستور مصروف تھے ۔ وزیرِ اعظم نے پاس آکر جب گلا کھنکھارا تو فہیم چونک گئے اور پھر جھنپ کر جیب سے ماچس کی تیلی نکال کر کان میں ڈال کر اس کو کھجانے لگے ۔
“ فہیم میاں ! ذرا احتیاط سے ، ماچس کی تیلی کہیں دوسری طرف سے نکل جائے ۔ “
وزیرِاعظم نے فہیم کے دونوں کے کانوں کے درمیان موجود خلاء کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فہیم کو مشورہ دیا ۔
فہیم نے حفظِ ماتقدم کے طور پر جھٹ سے تیلی پھینک دی ۔
“بادشاہ سلامت ابھی تک نہیں لوٹے ہیں ۔ خدا کرے کہ سب خیریت سے ہو ۔ سمجھایا بھی تھا شیوکرکے صابن سے منہ دھولیں ۔ مگر بضد تھے کہ چندے کی رقم سے کچھ پیسوں کی بچت ہوئی ہے ۔ کسی اچھے بیوٹی پارلر جاکر فیشل کرانا ہے ۔ پتا کس بیوٹی پارلر گئے ہیں ۔ کچھ پتا ہی نہیں ۔ “
وزیراعظم نے پریشانی کے عالم میں کہا اور ہاتھ بڑھا کر سر سے ٹوپی اتارنے ہی والے تھے کہ فہیم کو دیکھ کر رک گئے ۔
“ واقعی یہ فکر کی بات ہے ۔۔۔۔ سب مہمان آچکے ہیں ۔ تقریب کی شروعات کا متعین کردہ وقت بھی حد سے گذرنے لگا ہے ۔ بادشاہ سلامت کو بھی گئے ہوئے تقریباً آٹھ ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے ۔ اب تو محفل کی ساتویں سالگرہ بھی آپہنچی ہے ۔ “
وزیرِ اعظم کے سر سے اخراج ہونے والی ممکنہ مُضر شعاعوں کے پیشِ نظر فہیم نے ہاتھوں کو آنکھوں کے قریب لاتے ہوئے تفکر کے عالم میں کہا ۔
“ تم جاسوس ہو ۔ معلوم کرو کہ بادشاہ سلامت کی آمد میں تاخیر کا کیا سبب ہے ۔ اس دفعہ ہم نے انہیں شاہی لباس بھی بہت پختہ بنوا کر دیا ہے ۔ کاپر اور دھات کا وہ امتزاج ہے کہ جو بھی دیکھے گا دنگ رہ جائے گا ۔ ہم نے خود وہ لباس پچیس آدمیوں کی مدد سے بیل گاڑی پر چڑھایا تھا ۔ تاکہ شاہی محل تک پہنچایا جاسکے ۔ “
وزیرِ اعظم نے نئے شاہی لباس کی افادیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ۔
شاہی مشیر قریب ہی کھڑے یہ سب سن رہے تھے ۔ وزیرِ اعظم کی بات کا آخری فقرہ سنتے کیساتھ ہی بلا کی تیزی سے آگے لپکے ۔ مگر خود پر قابو پا نہ سکے ۔ اس سے پہلے وہ گڑی ہوئی قناعوں کا تقدس پامال کرتے ۔ فہیم اور وزیرِ اعظم نے انہیں سنبھال لیا ۔
“ مشیرِ خاص ! تم بغیر بریک کی ڈبلیو 11 کی ویگن کی طرح کیوں بے قابو ہو رہے ہو۔ ؟
وزیرِ اعظم سے پریشانی کے عالم میں مشیرِ خاص کی Drifting دیکھی نہیں گئی ۔
“ حضورِ والا ! آپ کیا فرما رہے ہیں ۔ اگر پچیس آدمیوں سے اس شاہی لباس کا بوجھ ڈھویا نہیں گیا تو پھر بادشاہ سلامت اس بوجھ کو کیسے سہہ سکتے ہیں ۔ “
مشیرخاص نے اپنی مشاورتی کھوپڑی کے برقی تاروں کو صحیح جگہ استعمال کرتے ہوئے کہا ۔ اور پھر تینوں ایک خدشے کے تحت بادشاہ کے کمرے کی طرف بھاگے ۔
کمرے میں پہنچ کر جو منظر سامنے آیا اسے دیکھ کر سب کے ہوش اڑ گئے ۔
بادشاہ سلامت شاہی لباس کے بوجھ تلے کچھ اس طرح کی پوزیشن میں تھے کہ جیومیڑی کے صحیح زاویوں کے تعین کرنا بہت مشکل تھا ۔ ان کے سر اور دھڑ کا قبلہ عام حالت کے قبلے سے قدرے مختلف تھا ۔ اور دونوں ٹانگیں ، آسمان کی طرف اس حالت میں تھیں جیسے اپنی حالتِ زار پر ترس کھانے کے لیئے دعائیں مانگ رہیں ہوں ۔ دونوں ہاتھ اس طرح پھیلے ہوئے تھے کہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان ہاتھوں پر کشکول رکھا جائے یا ہاتھ مصافحہ کیا جائے ۔
تینوں کو دیکھتے ہی بادشاہ سلامت نے انہیں جن کلمات سے نوازنا شروع کیا ۔ اس کا تذکرہ سلطنتِ خداداد اردو محفل کے مروجہ اخلاقی قانون کی عہد شکنی کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔
تینوں کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بادشاہ سلامت کو کہاں سے ترتیب دینا شروع کریں ۔ اعضائے رقص کے سارے کلیئے بھی یہاں خاموش تھے ۔
“ بدبختوں ۔۔۔۔ میں یہاں آٹھ ماہ سے پڑا ہوں ۔ اور تم لوگ باہر اپنی خوش گپیوں میں مصروف ہو ۔ یہ کیسا نیا شاہی لباس ہے ۔ ان پچیس آدمیوں نے مجھے اس لباس میں اتارنے کے بعد مڑ کر دیکھا تک بھی نہیں کہ میرا کیا حال ہوا ان کے پیچھے ۔ بلکہ یہ شعر دہراتے ہو ئے رفوچکر ہوگئے کہ :

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا، تیرے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا، میرے آگے

بڑی مشکل سے بادشاہ سلامت کو شاہی لباس سے نکالا گیا ۔ شاہی لباس سے نکالنے کے بعد بھی ان کی قدرتی فٹنگ بدستور اس شش و پنج میں تھی کہ کس اعضاء کا تعلق جسم کے کس حصے سے جوڑا جائے ۔ تینوں کو بھی اس مسئلے کا سامنا درپیش تھا ۔ فہیم نے تو کئی بار غلطی سے بادشاہ سلامت کا چہرہ چھونے کے بجائے ان کا گُھٹنا چھو لیا ۔ جسے بادشاہ نے معافی کی درخواست سے تعبیر سمجھا ۔
“ فہیم میاں ۔۔۔ ہمارے اجزائے ترکیبی کےمقام کا صحیح تعین ہونے دو ۔ ہم تمہارے ساتھ وہ انصاف کریں گے کہ فریادی والا حشر بھول جاؤگے ۔ “ بادشاہ سلامت نے تکلیف سے کراہتے ہوئے کہا ۔
فہیم کی ہنسی نہیں رک رہی تھی ۔ وزیرِ اعظم اور مشیر ِ خاص بھی اپنی مسکراہٹوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ۔
بمشکل بادشاہ سلامت صرف اس حالت میں آسکے جسے دیکھ کر دو لاکھ قبل مسیح کے انسانوں کی یاد تازہ ہوگئی ۔ نقاہت اور تکلیف کی بناء پر تخلیئے کا حکم صادر کردیا ۔
بادشاہ کے کمرے سے باہر آکر تینوں اپنی ہنسی پر قابو پا نہ سکے اور بری طرح قہقے مار کر ہنسے لگے ۔
“ اچھا ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ تقریب میں آئے ہوئے مہمانوں کو کیا بتایا جائے "
وزیرِاعظم نے بے تحاشہ ہنسی کے باعث اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے پانی کو صاف کرتے ہوئے سوال داغا ۔
“ اس میں پریشانی کی کونسی بات ہے ۔ جب ہم کرپٹ حکمرانوں کو کرسیوں پر بٹھا نے سے پہلے بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کرپٹ ہیں ۔ یہ تو بیچارے معصوم مہمان ہیں ۔ ان کو مدت کی طوالت سے کیا غرض ۔ اور ویسے بھی اب اتنا عرصہ ہوگیا کہ سلطنتِ خداداد اردو محفل کی ساتویں سالگرہ بھی سر پر آپہنچی ہے ۔ کیوں ناں اس چھٹی تقریب کو ساتویں تقریب میں ضم کردیا جائے ۔اور پھر ساتویں کو آٹھویں میں ۔۔۔ اس دوران آپ اپنی تمہید کے بعد باری باری مختلف مہمانوں کو دعوتِ خطاب بھی دیتے رہیں ۔ جس سے معاملہ طول کھینچ سکتا ہے ۔ اس دوران بادشاہ سلامت کے اعضاء بھی اپنے صحیح مقام کو پہچان لیں گے ۔ اس کے بعد محفل کی سالگرہ پر ان کا خطاب کا بھی اعلان کردیا جائے گا ۔ “
مشیرِ خاص نے ایک بار پھر عمدہ مشورہ پیش کیا ۔
“ بلکل صحیح کہا تم نے مشیرِ خاص ۔۔۔۔۔ اب ہمیں ان خطوط پر ہی کام کرنا ہوگا ۔ “
“ سوچ لیں حضور۔۔۔۔ ظفری کے خطوط پر یہاں کوئی انتشار نہ پھیل جائے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس کےخطوط پر سوچنا چھوڑ کر کوئی اور ہی ترکیب سوچتے ہیں “
فہیم نے اپنے زرخیز دماغ کا بےدریغ استعمال کرتے ہوئے کہا ۔
“ ابے ! میں ظفری کے خطوط کی بات نہیں کر رہا ۔ اور ویسے بھی تم جن خطوط کی بابت کہہ رہے ہو ۔ وہ پکڑے جا چکے ہیں ۔ “ محفلین کی کہانی ۔۔۔۔ محفلین کی زبانی “ میں وہ موصوف آج کل چہرہ چھپائے ہوئے پھر رہے ہیں ۔ تم نے پڑھا نہیں کیا ۔ اور خطوط وہ ہی صرف نہیں ہوتے جو لکھے جاتے ہیں ۔ کچھ خطوط ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جو صرف ہم اور مشیرِ خاص ہی جانتے ہیں ۔ “
وزیرِ اعظم نے مشیرِخاص کو آنکھ مارے ہوئے کہا ۔
فہیم نے کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں دانت نکال دیئے ۔
“ میں اب باہر جاتا ہوں ۔ اعلان کرتا ہوں کہ بادشاہ سلامت جلد ہی جلوہِ افروز ہونگے ۔ پھر اپنی تمہید کیساتھ تمہارے خطاب کا بھی اعلان کرتا ہوں ۔ پھر جس مہمان کو ڈائس پر آکر کچھ کہنا ہو تو اس کی بھی اجازت کا شاہی حکم نامہ جاری کرتا ہوں ۔ اس دوران امید ہے کہ بادشاہ سلامت کی قدرتی فٹنگ ، قدرتی تقاضے ادا کرنے کی بھی قابل ہوجائے گی ۔ اور سالگرہ کا وقت بھی آپہنچے گا ۔ “
یہ کہہ کر وزیرِ اعظم باہر پنڈال کی طرف بڑھ گئے ۔
“ مشیرِخاص ! اگر اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں “
فہیم نے اپنی جاسوس طبعیت کی لاچاری کی وجہ سے مشیرِخاص سے سوال کیا ۔
“ ہاں ۔۔۔ ضرور پوچھو “
مشیرِ خاص نے بغیر پیئے ترنگ میں آکر کہا ۔
“ یہ آپ ہر کسی کو بِٹیا بِٹیا کیوں کہتے ہیں‌ ۔ اب آپ ایسے بھی گئے رسیدہ ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ عمر رسیدہ نہیں‌ لگتے ۔ “
مشیر ِ خاص نے پہلے تو غور سے فہیم کو دیکھا اور پھر قدرے نارمل ہوکر کہا ۔
“ بس کیا بتائیں فہیم میاں ۔۔۔۔ یہ حکم محکمہِ گھرداری سے موصول ہوا ہے ۔ سو اس کی پاسداری کرنا ہم پر لازم ٹہرا ۔ ہمارا جی تو پتا نہیں کیا کیا کہنے کو چاہتا ہے ۔ ایک ،دو دفعہ غلطی سے ہم بٹیا کہنے سےقاصر رہ گئےتو اس دن کی محفل کی سنسر شپ کا عمل جب محکمہِ گھرداری میں ہوا تو ہمیں دو روز تک پیاز اور ڈبل روٹی پر گذارا کرنا پڑا ۔ “
مشیر خاص نے اپنی آنکھوں میں‌ آتے ہوئے پانی کو بمشکل روکا ۔
“ ہمم۔۔۔ آپ ، بادشاہ سلامت اور وزیرِ اعظم کے حالات کافی مُلتے جلتے ہیں “
فہیم نے گویا کڑیاں سے کڑیاں ملاتے ہوئے کہا ۔
“ ارے بھائی ۔۔۔ ہمارے کیا ! سارے شادی شہداء کے حالات ہی ملتے جلتے ہیں ۔ “
“ واقعی شادی شہداء ہونا بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔ “
فہیم نے مختصر سا تعزیتی تبصرہ کیا ۔
اچانک بادشاہ سلامت لُنگی پہنے اور جھاڑو سے اپنی کمر کجھاتے ہوئے اندر سے نمودار ہوئے ۔
“ تم دونوں بیٹھے کیوں ہوئے ہو ۔ ہماری شان میں کھڑے نہیں‌‌‌ ہوئے ۔ “
بادشاہ نے حیرت اور غصے کے ملے جلے رحجان میں پوچھا ۔
“ جناب ۔۔۔ آپ کو بھی چین نہیں‌ ہے ۔لُنگی پہن کر کبھی اندر جاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد پھر باہر نکل آتے ہیں ۔ اتنی اٹھک بیھٹک تو ہمارے استادوں نے بھی نہیں‌ کرائی ۔ اور ابھی آپ کی قدرتی فٹنگ پختہ نہیں ہوئی ہے ، تھوڑی دیر آرام کرلیں ۔ وزیرِ اعظم پنڈال جا چکے ہیں ۔ وہ صورتحال سنبھال لیں گے ۔ مگر خدارا آپ اندر جائیں ۔ آپ کو بھی بار بار شجرِ ممنوعہ بننے کا بہت شوق ہے۔“
فہیم سے بادشاہ سلامت کی مغربی اقدار کی مسلسل تقلید دیکھی نہیں گئی ۔
“ ہم کیا کریں ۔۔۔۔ لوڈ شیڈنگ نے تنگ کیا ہوا ہے ۔ گرمی سے برا حال ہے ‌‌۔ خیر ہم جاتے ہیں ۔مگر ہمیں آرام درکار ہے ۔ اگلی سالگرہ آنے تک ہمارے تخلیے میں خلل ڈالنے سے اجتناب کیا جائے ۔ “
“ جو حکم آپ کا حضور ۔۔۔۔ “
مشیرِ خاص اور فہیم نے عاجزی سے کہا ۔
بادشاہ سلامت اندر پدہار گئے ۔ اور فہیم اور مشیرِ خاص اگلی سالگرہ تک مہمانوں کو مصروف رکھنے کے لیئے کسی مشورہ میں مصروف ہوگئے ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
وزیرِ جاسوس اور مشیرِخاص دورانِ مشورہ کچھ اس طرح منہمک رہے کہ ان کے خراٹوں کی آواز محل سے باہر جا پہنچی ۔ بلکہ محل سے نکل کر ملکِ خداداد اردو محفل کی سرحدوں سے ہوتی ہوئی خلاء میں کہیں گم ہوگئی ۔اگلے روز ناسا کے کچھ سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مریخ پر موجود تجرباتی شیٹل نے کچھ بکروں کے ذبح ہونے کی آواز ( جو بہت حد تک واضع تھی ) اُسے ریکارڈ کیا ہے ۔ مگر وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان آوازوں کا منبع کہاں تھا ۔
مہمانوں‌کی آمد کا سلسلہ ہنوز جاری تھا ۔ سالگرہ کے پروگرام کی منظر کشی میں‌ معمولی سے تعطل ( تین سال ) کی وجہ سے کچھ نئے مہمانوں نے بھی گیسٹ لسٹ میں اپنی جگہ بنا لی تھی ۔ زبیر مرزا اپنی شگفتہ طبعیت کی بناء پر محفل پر اپنی جگہ بناچکے تھے ۔ شاعری کا انتہائی درجے شوق تھا مگر ذوق کا یہ عالم تھا کہ محفل کے ایک ناموزوں شاعر ظفری کے اوزان سے خطا شعروں کو تصویری شکل دیکر شاعروں کی برادری سے پنگا لے بیٹھے تھے ۔ کچھ عرصہ فراموش رہنے کے بعد سالگرہ کے موقع پرایک بار پھر جلوہ افروز ہوئے تھے ۔ اس موقع پر سالگرہ سے متعلق چند تجاویز اور دھاگوں کے پلندے بھی ان کے ہاتھ میں نظر آئے ۔ سیکورٹی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے وہ بغیر کسی دقت ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئے ۔
انیس الرحمن ، میر انیس ، محمد احمد اور محمد امین بھی ایک ساتھ پنڈال میں داخل ہوئے ۔ ان محفلین کا تعلق “ بھائی “ کے شہر تھا ۔ چنانچہ انہوں نے آتے ہی پنڈال میں پرچیاں بانٹنا شروع کردیں ۔ پرچیوں پر درج رقم کو تمام محفلین نے ملکِ خداداد اردو محفل کی ویب ہوسٹنگ کے اخراجات سے متعلق جانا ۔ اور دل کھول کر عطیات دیئے ۔ عسکری نے بھی اپنی خالی بوتل جمع کرادی ۔ ( بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پرچیاں نہیں بلکہ محمد احمد کی شاعری مجموعے کی کاپیاں تھیں ، جن کی اشاعت چندے سے مشروط تھی ) ۔ محمد امین اردو محفل کی سالگرہ کی تعطل سے زیادہ اپنی شادی کے تعطل کے باعث فکرمند نظر آئے ۔
باباجی کے آتے ہی روحانی بابا جلال میں کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک نیام میں ایک تلوار ہی رہ سکتی ہے ۔ محفل پر صرف ایک ہی بابا ہوگا اور وہ بھی روحانی بابا ۔۔۔۔ ۔ اس سے پہلے وہ اپنے موکلوں کو بلاتے ، وہاں جائزے غرض سے آئے ہوئے وزیرِ اعظم نے مداخلت کی اور بتایا کہ یہ کوئی روایتی بابا نہیں ہے بلکہ اپنے گھر میں سب سے لاڈلے ہیں اس لیئے ان کو بابا کہتے ہیں ۔ پھر وزیرِ اعظم نے ٹی وی پر ایک مشہور کمرشل کی نقل کرتے ہوئے ڈانس کیا اور گنگنانے لگے “ بونیزا کے سوٹ ، بے بی کے لیئے اور بابا کے لیئے بھی “ ۔ اسی دوران وزیر اعظم کے ڈانس پر محفل کے چند منچلوں نے ان پر نوٹ لٹانا شروع کردیئے ۔ وزیرِ اعظم نے اگلے سال کی ویب ہوسٹنگ کے پیسے جمع ہوتے ہوئے دیکھے توانہوں نے ڈانس روکنا مناسب نہ سمجھا ۔ مگر بعد میں بکھرے ہوئے نوٹ جمع کرتے ہوئے انہوں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ سارے نوٹوں پر “ عید مبارک “ لکھا ہوا تھا ۔
محترم محمد یعقوب آسی بھی پنڈال میں داخل ہوئے ۔ وہ ملکِ خداداد اردو محفل پر شاعری کے حوالے سے ایک مفید اضافہ تھے ۔ بہت سے محفلین ان کے تجربے اور علم سے اکثر فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آئے۔ وزیرِ اعظم نے خاص کر انہیں خود کرسی پیش کی ۔ محمدعلم اللہ اصلاحی بھی تشریف لائے ۔ علمی حوالے سے اپنے نام کی طرح پائے گئے ۔ ان کی گفتگو میں مصلحت اور مفاہمت حد درجے پائی جاتی تھی ۔ مشیر ِخاص نے بادشاہ کے سامنے اردو محفل کے وزیرِ خارجہ کے عہدے کے لیئے خاص طور پر انہیں پیش کیا کہ وہ اس عہدے کے لیئے بیحد موزوں تھے ۔
حسان خان بھی حسب معمول چہرے پر مسکراہٹ سجائے خراماں خراماں چلتے ہوئے پنڈال میں داخل ہوئے ۔ وہ ملکِ خداداد اردو محفل پر انجمن نوجوانانِ فلاح و بہود کے صدر تھے ۔ جنہوں نے نوجوانی کے ادوار کی تصاویر محفل پر متعارف کرانے کا آئیڈیا دیا تھا ۔ ان کے دیکھا دیکھی بہت سے محفلین کو بھی جوش آیا اور اپنی تصاویر ایک دھاگے پر متعارف کرادیں ۔ مگر ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے جذبات میں آکر اپنی وہ تصاویر بھی اردو محفل پر ارسال کر دیں جنہیں دیکھ کر لبوں پر بے ساختہ یہ مصرع مچل جاتا کہ “ کبھی ہم بھی خوبصورت تھے “ ۔
بھلکڑ بھی محفل پر ایک نیا اضافہ تھے ۔ زیادہ تر اپنی شوخیوں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے ۔ مگر بھلکڑ ہونے کی وجہ سے یہ بھول جاتے تھے وہ یہ وہ پچھلے دھاگے میں کیا فرما گئے تھے ۔
محترم محمد خلیل الرحمٰن بھی پنڈال میں داخل ہوئے ۔ اپنی متانت اور شفقت کی وجہ سے خاصے مقبول تھے ۔ شاعری میں پیروڈی کے ماہر تھے ۔ اور محفل پر نئے شعراء کی حوصلہ افزائی کیساتھ اصلاح بھی فرماتے تھے ۔ ملک ِ خداداد اردو محفل کے دربار کا ایک اہم ستون گردانے جاتے تھے ۔ بادشاہ سلامت نے کئی بار ان سے اپنا قصیدہ لکھوانے کا سوچا مگر ان کی پیروڈی کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے ارادہ ترک کردیا ۔ عسکری نے ڈولتے ہوئے انہوں اپنی کرسی پیش کی مگر انہوں نے حسبِ معمول شائستگی سے انکار کرتے ہوئے جواب دیا کہ “ بھائی ہمیں جھومنے کا کوئی شوق نہیں ہے “ ۔ چنانچہ وزیرِ اعظم نے آسی صاحب کے ساتھ انہیں کرسی پر بیٹھا دیا ۔
اچانک وزیرِ اعظم کو یاد آیا کہ وہ وزیرِ اعظم ہوتے ہوئے استقبالیہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے محل کے دروازے پر نظر ڈالی تو مشیرِ خاص اور وزیرِ جاسوس کہیں نظر نہیں آئے ۔ غصے کے عالم میں محل میں داخل ہوئے جہاں مشیرخاص اور وزیرِ جاسوس ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھے، بے خبر سو رہے تھے ۔ وزیرِ اعظم نے اپنی لات کی خودی بلند کیا اور ایک مشہور فٹبالر کی طرح دونوں کے جسموں کے اس حصے کو کمالِ پھرتی سے نشانہ بنایا جو عموماً تشریف رکھنے کے لیئے استعمال ہوتی ہے ۔ دونوں فٹبال کی طرح زمین سے بلند ہوئے اور برآمدے میں بندھی ہوئی ساجد بھائی کی بھینس کے پہلو میں جا گرے ۔ بھینس نے سینگ مار کر مشیر خاص کو دوبارہ وہیں بھیج دیا جہاں سے وہ بلند ہوئے تھے مگر وزیرِ جاسوس کو اپنے قبیلے کا سمجھتے ہوئے چاٹنا شروع کردیا ۔ وزیرِ جاسوس سے بھینس کی شفقت دیکھی نہیں گئی اور ایک چیخ مارتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے ۔وزیرِ اعظم اور مشیر ِ خاص نے انہیں بمشکل پنڈال میں جانے سے روکا کہ وہ عمران ہاشمی کے ظلم کا واضع شکار نظر آرہے تھے ۔ وزیرِ جاسوس کے حواس بحال ہونے پر وزیرِ اعظم نے نئے مہمانوں کی آمد کا قصہ سنایا اور انہیں وہاں جاکر اپنے فرائض ِ منصبی سنھبالنے کا عندیہ دیا اور خود بادشاہ کی خدمت میں جاکر مر د و خواتین کے درمیان موجود دیوارِ برلن گرانے کا اجازت نامہ طلب کیا کہ اب ان میں اپنی آنکھوں کی روشنی زائل ہونے کا خدشہ پیدا ہو چلا تھا ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
مہمانوں کی آمد بدستور جاری تھی ۔ نیرنگ خیال ، @محمد اسامہ سرسری ، سید ناصرشہزاد صاحب ، عمر اعظم ، مہدی نقوی حجاز اور عمر سیف ایک ساتھ پنڈال میں داخل ہوئے ۔ان کی مشترکہ آمد کی وجہ ،" چنچی " میں ایک فرد کے ہمراہ دوسری سواری کی مفت سہولت تھی ۔ مگر پنڈال میں تاخیر سے داخل ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ہر کوئی اس بات پر بضد تھا کہ وہ دوسری سواری ہے ۔ ہنگامہ آرائی سے بچنے کے لیئے مشیرِ خاص نے اپنی جیب سے پیسے ڈھیلے کیئے اور معاملے کو رفع دفع کیا ۔ فہیم نے خاص طور پر ناصر شہزاد صاحب کو ایک کرسی پیش کرتے ہوئے کہا " سر ! اس پر بیٹھ جایئے ، یہ محفوظ ہے کہ میں اسکے نیچے کوئی بم نہیں ہے ۔ " اس سے پہلے کہ فہیم کچھ اور تفصیل میں جاتا ۔ مشیرِ خاص ، فہیم کو تقربیا ً کھینچتے ہوئے وہاں سے لے گئے ۔ ناصر شہزاد صاحب کسی خدشے کی پیشِ نظر جھک کر کرسی کے نیچے جھانکنے لگے ۔
" تم کو کیا پڑی ہے ہر جگہ اپنی قابلیت کا ذکر کر رہے ہو ۔ اگر کسی کو تمہارے کارنامےکی بھنک پڑگئی تو یہ ساری سالگرہ بھگڈر کی نذر ہوجائے گی ۔ "
مشیرِ خاص نے فہیم کو ڈانٹتے ہو ئے کہا ۔
فہیم نے منہ بسور لیا ۔
" اچھا ! اب ایسا بھی منہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لگ رہا ہے کہ کسی نیم حکیم کے جعلی جلاب کا شکار ہوگئے ہو ۔ نہ اگُل رہے ہو نہ نگل رہے ہو "
مشیرِ خاص نے فہیم کی شکل کو دیکھ کر تبصرہ کیا ۔

اسٹیج سجایا جاچکا تھا ۔ اور ڈائس پر مائیک بھی لگ چکا تھا ۔
بانیِ محفل اور دیگر سنئیر اراکین بھی وہاں تقریباً ساتویں بار براجمان ہوچکے تھے ۔ موسیقی کا بھی انتظام تھا اور ہلکی آواز میں علن فقیر کا گانا " ہما ہما کر بھیا ۔۔۔ اللہ ہی اللہ کر بھیا " چل رہا تھا ۔ جس پر عسکری نے ڈولتے ہوئے اور بھی جھوما ۔ طالوت نے انہیں بمشکل کرسی پر بٹھایا ۔ مگر انہوں نے طالوت سے ادھار کا تقاضا کرتے ہوئے بلیک لیبل کی بوتل لانے کو کہا ۔ طالوت نے بھی ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی مانگی کہ وہ پہلے بھی عسکری کے چکر میں یہ حرکت کرکے دو بار اندر ہوچکے تھے ۔ اور کئی دُروّں کے واضع نشانات کے ساتھ ہمیشہ باہر آئے ۔

محمد وارث بدستور استغراق کے عالم میں تھے اور مسلسل سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہے تھے ۔ فہیم ان کے پھینکے ہوئے ٹوٹے اس غرض سے جمع کر رہا تھا کہ بعد میں انہیں واپس بیچنا بھی مقصود تھا ۔ اس کی معلومات کے مطابق بادشاہ سلامت جلد ہی سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے والے تھے ۔

نئے مہمانوں کی بھی ایک غفیر تعداد پنڈال میں پہنچ چکی تھی۔ کرسیاں کم پڑنے لگیں تھیں ۔ چنانچہ برابر والے مدرسے سے دریاں منگوائیں گئیں ۔ جن پر بیٹھتے ہی کئی مہمانوں نے گاؤ تکیئے کا بھی تقاضا کر ڈالا ۔ بڑی مشکل سے مشیرِ خاص نے اپنے خاص انداز میں سمجھایا کہ موسیقی کا پرواگرام صرف ریکارڈنگ تک ہی محدود ہے لہذا حد سے تجاویز کرنے سے گریز فرمائیں ۔ جس سے کئی مہمانوں کے چہرے پر مایوسی چھا گئی ۔ ادھر مشیرِ خاص اور فہیم مہمانوں کو سنبھالنے میں مصروف تھے اور محل کے اندر وزیرِ اعظم ، بادشاہ سلامت کے سامنے اپنی درخواست لیئے عاجزی کیساتھ مخاطب تھے ۔
“ بادشاہ سلامت ! یقین مانیئے کہ کوئی بدنظمی نہیں ہوگی ۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے ۔ محفلین نے صرف اندازوں پر قیاس آرائیاں کیں ہیں کہ محفلِ مستورات کیسی ہونگیں ۔ آپ ان کی خواہش پوری ہونے دیں ۔ ان کے بھی دل کی بھڑاس نکل جائے گی ۔اور میرا دعویٰ ہے کہ آئندہ کی سالگرہ میں وہ اپنے حصے کی قنات خود ہی لیکر آئیں گے ۔ “
“ تم اتنے وثوق سے یہ بات کیسےکہہ سکتے ہو وزیرِ اعظم ؟ “
بادشاہ سلامت نے استفار کیا ۔
“ بادشاہ سلامت ! بس یہ مت پوچھیں ۔کچھ محفلِ مستورات سے ملاقات کے بعد یہ تجربہ سامنے آیا ہے ۔اب تو میں اپنی ہوم منسٹر سے کھانے میں تاخیر کی بھی شکایت نہیں کرتا ۔ “
وزیرِ اعظم میں کچھ بلاواسطہ ملاقاتوں کے بعد ہونے والے تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے بادشاہ سلامت سے گوشوار کیا ۔
“ ہہم ۔۔۔۔۔تو ایسی صورت میں ہم تمہیں اجازت دیتے ہیں کہ وہ قنات جو محفلین کے لیئے دیوارِ گریہ بن چکی ہے ۔ اُسے ہٹا دی جائے ۔ “
بادشاہ سلامت نے فیصلہ صادر فرما دیا ۔
“ اور ابھی تک ہماری سواری کا بندوست کیوں نہیں کیا گیا ۔ ہم پنڈال تک کیا فاتح کی تین پہیوں والی سائیکل پر جائیں گے ۔ “
“ حضور ۔۔۔۔ آپ کی سواری کا انتظام ایک ہاتھی پر کیا گیا تھا مگر وہ ہاتھی ابھی تک خود کو “ بے بی ہاتھی “ کہلوانے پر مصر ہے ۔ یہ کیفیت آٹھ سالوں سے قائم ہے ۔ شاہی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہاتھی کے سر بھی ایک تاج رکھنے کا منصوبہ تھا ۔ مگر موصوف کے بالوں نے جس تیزی سے سر سے جدا ہونے کا سلسلہ جاری رکھا ہے ۔ اس کے پشِ نظر اتنا بڑا تاج اس کے سر پر رکھنا کسی خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ اگر چلتے ہوئے یہ تاج پھسل کر گرگیا تو آگے چلنے والے کو لپٹ کر اٹھانا پڑے گا ۔ اور عموماً آگے مشیرِ خاص ہوتے ہیں ۔ “
وزیرِ اعظم نے تفصیلی بیان دیا ۔
“ بے بی ہاتھی کو حاضر کیا جائے “
۔بادشای سلامت نے حکم جاری کیا ۔
دوراغہ نے باہر آواز لگائی ۔ “ بے ہاتھی حاضر ہوں “
جواب میں فہیم محل میں داخل ہوئے اور مودبانہ عرض کیا کہ “ بادشاہ سلامت ! قیصرانی صاحب کی آمد ابھی نہیں ہوئی ہے ۔ “
“ یہ کیا مذاق ہے ۔ سارے مہمان پنڈال میں پہنچ چکے ہیں اور ہماری سواری کا کچھ پتا نہیں ۔ “ بادشاہ سلامت جلال میں آگئے ۔
“ حضور میں جاکر دیکھتا ہوں ۔ آخری بار وہ عندلیب صاحبہ کے ٹوٹکوں کے دھاگے پر “ زیتون اور کالے زیرے “ کے امتزاج سے بننے والے تیل کی خریداری کرتے ہوئے پائے گئے تھے کہ جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ کھوئے ہوئے بال واپس لا سکتا ہے ۔ بال تو واپس نہیں آئے مگر لگتا ہے کہ وہ کہیں کھو گئے ہیں ۔ “
فہیم واپسی کے لیئے جیسے ہی مڑا ۔ بادشاہ سلامت نے کہا “ تم محفل کے آداب بھول گئے ہو ۔ ہمیں سلام کیئے بغیر ہی پشت ہماری طرف کرلی ۔ “
“ حضور والا ! آپ نے خود ہی تو فرشی سلام سے منع فرمایا ہے “ فہیم نے عاجزی سے کہا ۔
“ آج تم کو اس کی اجازت دی جاتی ہے ۔ کمبخت لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہماری کیبل بھی بند ہے ۔ ملکہ شروات کو دیکھے ہوئے زمانہ گذر گیا ۔ آج اُس کی ایک جھلک دیکھنے کو جی چاہ رہا ہے ۔ “
فہیم نے کھیسیا کر روایتی سلام مارا اور قیصرانی کی تلاش میں محفل سے باہر نکل گیا ۔
خواتین اور مرد حضرات کے درمیان قنات اٹھائی جاچکی تھی اور نصف سے زیادہ محفلین اسٹیج کے بجائے خواتین کے حصے کی جانب منہ کیئے ہوئے بیٹھے تھے ۔
خواتین جو قنات کی شرط کے پیشِ نظر عجلت اور بیزاری میں واجبی طور پر تیار ہوکر آئیں تھیں ۔ اب خود کو بناؤ سنگھار میں مصروف رکھا ہوا تھا ۔
مورخ کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ تاریخ پہلے لکھے یا خاکہ نگاری کا کام انجام دے کہ تاریخ اور خاکہ نگاری میں کوئی تعلق پیدا کرتے ہوئے مورخ خاصی الجھن کا شکار تھا ۔ کیونکہ میک اپ سے پہلے جسے وہ رضیہ سمجھ رہا تھا وہ میک اپ کے بعد سلطانہ لگ رہی تھی ۔ اور یہی حال لگ بھگ سبھی مستورات کا تھا ۔
( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
کچھ دیر بعد فہیم ، قیصرانی کو دوست کے ہمراہ لیئے بادشاہ کے دربار میں لے آئے ۔ بادشاہ سلامت اور وزیرِ اعظم فہیم کی جاسوسی کی چابکدستی پر حیران رہ گئے ۔
" کمال ہے وزیرِ جاسوس آپ نے انتہائی کم مدت میں نہ صرف قیصرانی کو دریافت کرلیا بلکہ ساتھ ساتھ دوست کو بھی بازیاب کرالیا ۔ ہم تو سمجھے تھے کہ دوست کو بازیاب کرانے کے لیئے ایمانیان کو بھاری تاوان دینا پڑے گا ۔ کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق دوست ایک عرصے سے " ایمانیان " کی تحویل میں ہیں ۔ "
" حضور والا ! آپ کا اقبال بلند ہو ۔ قیصرانی تو پنڈال کے دوازے کے پیچھے چھپ کر کھڑے تھے مگر قنات اٹھتے ہی اپنے تمام گلے شکوے پسِ پشت ڈالتے ہوئے خود ہی پنڈال میں آگئے ۔ میرا خیال ہے کہ حضوروالا ! ملکِ خداداد میں اب منادی کرادی جائے کہ ایک لڑکا شادی کے لیئے تیار ہے ۔ مگرصرف مستحق لوگ رجوع کریں " ۔
فہیم نے اپنی تنہائی سے گھبرا کر قیصرانی کی تنہائی کو گھیر لیا ۔
" ہاں بھئی ۔ خاصا وقت بیت چکا قیصرانی ! تمہیں اب شادی کرلینی چاہیئے ۔ "
بادشاہ سلامت نے لقمہ دیا ۔
" ابے ! بادشاہ سے کہہ ۔۔۔۔ میں تو تیار ہوں ۔ کوئی مجھ سے ہی شادی کے لیئے تیار نہیں ہوتا ۔ "
قیصرانی نے چپکے سے فہیم کے کان میں دکھڑا رویا ۔
" یہ تم دونوں بادشاہ سلامت کے سامنے کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ۔ "
وزیرِ اعظم نے دونوں سے دریافت کیا ۔
" کچھ نہیں حضور والا ! کہہ رہے ہیں بادشاہ سلامت چاہیں تو پورے ملک میں منادی کراکے میرے ہاتھ پیلے کراسکتے ہیں ۔ "
فہیم نے بات بنائی ۔
" ہم آج ملکِ خداداد اردو محفل کی سالگرہ میں اپنی تقریر میں تمہاری بات چلائیں گے ۔ اس کام کے لیئے فیس ایڈوانس میں مشیرِ خاص کے پاس جمع کرادینا ۔ "
بادشاہ سلامت نے قیصرانی کے سر پر لہراتے ہوئے چند بالوں کی طرف دیکھ کر کہا جو اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہے تھے ۔
قیصرانی نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے فہیم کی طرف دیکھا مگر فہیم نے آنکھ مار کر کچھ نہ کہنے سے منع کیا ۔
" اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ تھا دوست ۔ کہاں رہے اتنا عرصہ ۔ "
بادشاہ سلامت نے دوست سے استفار کیا ۔
" حضورِ والا ! ایمانیان کو اپنے سسٹم میں ایک نئی وینڈو انسٹال کروانی تھی ۔ مگر وینڈو کے مسلسل ورژن سے تنگ آکر انہوں نے لینکس کا انتخاب کیا ۔ بدقسمتی سے ایک دن محفل پر میں لینکس سے متعلق کچھ سوالوں کے جوابات دے بیٹھا ۔ جس پر نظر کچھ ایمانیان کی پڑگئی ۔ پھر انہوں نے مجھے ایک نئی شرٹ کا لالچ دیا اور امیرستان آنے کو کہا ۔ بس جی ۔۔۔ اس دن سے ان کے ہر سسٹم میں لینکس انسٹال کرتے کرتے میری مت ماری گئی ۔ پتا نہیں کون سے پہاڑوں کے کس کس سے غاروں سے لاکر سینکڑوں سسٹم مجھ پر دے لادے ۔بہتوں نے تو ویڈیو وار گیمز بھی مجھ سے انسٹال کرائے ۔ گیمز کھیلتے ہوئے جب وہ اپنے فرضی اسلحے سے فارغ ہوجاتے تو اپنے اصل ہتھیاروں سے اسکرین پر شروع ہوجاتے ۔ جتنی میں نے اسکرینس لگائیں اُتنی لینکس بھی نہیں لگائیں ہونگیں ۔ "
دوست نے اپنی داستانِ غم بادشاہ سلامت سے بیان کی ۔
" پھر تمہاری وہاں سے رہائی کیسے ممکن ہوئی "
بادشاہ نے سوال کیا ۔
" بس جی ! کچھ دن پہلے انہوں نے مجھ سے شرٹ کے سلسلے میں معذرت کی مگر سردیوں کے لیئے نئی جیکٹ ضرور دیدی اور کہا اسے پہن کر جاؤ کہ اردو محفل کی سالگرہ ہے ۔ عین تقریب کے وسط میں جب سردی لگے تو بس کالر پر لگا یہ فیتہ کھینچ لینا ۔ "
دوست نے بڑی معصومیت سے اپنی رہائی کا قصہ سنایا ۔
قصہ مکمل ہوتے ہی بادشاہ نے چھلانگ لگا کر اپنے تخت کے پیچھے پناہ لی ۔ قیصرانی پنڈال کی طرف نکل لئے ۔ وزیرِ اعظم اپنے وزن کے باعث اپنی کرسی میں پھنسے رہ گئے ۔ فہیم اور دوست ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے ۔
" ان سب کو کیا ہوا ۔ "
" کچھ نہیں میرے دوست ۔ اچھا یہ تو بتاؤ کہ تم کو شرٹ میں کون سا رنگ اچھا لگتا ہے ۔ "
فہیم نے کمالِ ہوشیاری سے بات بدلتے ہوئے صورتحال کو سنگین ہونے سے بچانے کے لیئے اپنی کھوپڑی کی آخری زیرو وولٹیج والے بلب کا استعمال کیا ۔
" پرپل " دوست نے اشتیاق سے کہا ۔
" ارے ایسی شرٹ تو میرے پاس بلکل نئی پڑی ہے ۔ پچھلے ہفتے ہی ابن سعیدنے امریکہ سے خاص کر بھجوائی ہے ۔ میں تمہیں گفٹ کردیتا ہوں ۔ مگر یہ جیکٹ مجھے دیدینا کہ مجھے نمونیا ہوگیا ہے ۔ یہ میرے زیادہ کام آئے گی ۔"
فہیم نے بڑی احتیاط سے جیکٹ اتروائی اور انتہائی نزاکت سے لیکر وزیرِ اعظم کی طرف بڑھا ۔
" ابے میری طرف کہاں لا رہا ہے ۔ تُو مجھے میری تقریر پڑھنے کے قابل چھوڑے گا کہ نہیں ۔ "
وزیرِ اعظم نے کرسی کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
" اس جیکٹ کو ہمارے اسپیشل اسکواڈ کے حوالے کیا جائے ۔
بادشاہ سلامت نے تخت کے نیچے آواز لگائی ۔
فہیم احیتاط سے جیکٹ محل کے پچھلے حصے میں لے گیا ۔ جہاں " بمب " ڈسپوزل کا محکمہ قائم تھا ۔
مطلع صاف ہوتے ہی بادشاہ سلامت تخت کے نیچے سے نکل آئے ۔ وزیرِ اعظم نے خود کو بڑی مشکل سے کرسی سے نکالا ۔
" ہمیں تخلیہ درکار ہے "
بادشاہ سلامت نے اپنی بےقابو سانسوں پر قابو پاتے ہوئے حکم صادر فرمایا ۔
وزیرِ اعظم اور دوست بھی دربار سے نکل گئے ۔
" دیکھو ! جو ہوا سو ہوا ۔ پنڈال میں کسی جیکٹ کا تذکرہ نہیں کرنا ۔ "
وزیرِ اعظم نے دوست کو تنبیہ کی ۔
دوست نے بلآخر سارا معاملہ سمجھتے ہوئے حامی بھر لی ۔
پنڈال میں قنات کے اٹھنے کے بعد بڑی گہما گہمی کا عالم تھا ۔ ناعمہ عزیز اپنے قد سے بھی بڑا ایک آئینہ لیکر عائشہ عزیز کے سامنے کھڑی تھیں ۔ اور عائشہ بار بار کہہ رہی تھیں ۔ ذرا دائیں طرف ہوکر کھڑی ہو ۔ میری کانوں کی بالیاں صحیح طور پر نظر نہیں آرہیں ہیں ۔ ناعمہ حیرانی کے عالم میں قد آور آئینے کی طرف دیکھ رہیں تھیں ۔ جس میں سارا پنڈال نظر آرہا تھا ۔ زونی بھی اپنی سینڈلوں پر اس گرد کو صاف کر رہیں تھیں ۔ جو قنات کو ادھر ادھر کرنے کی وجہ سے ان کی سینڈلوں پر آ بیٹھیں تھیں ۔
" ہائے زونی ! یہ تم نے کالے اور سفید رنگ کی سینڈلیں کیوں پہن رکھیں ہیں ۔ "
مقدس نے تعجب سے سوال کیا ۔
" ہائے کیا بتاؤں بہن ! ایسی ہی ایک اور جوڑی گھر میں پڑی ہے ۔ سوچا کہ یہی پہن لوں ۔"
زونی نے صفائی پیش کی ۔
مرد حضرات کے حصے میں بھگڈر کچھ کم نہیں تھی ۔
پنڈال میں غبارے پیچنے کی غرض سے آئے ہوئے خان صاحب کی نسوار کی ڈبیا ( جس پر ایک چھوٹا سا آئینہ نصب تھا ) ۔ محفل میں مرد حضرات کے ہاتھوں ادھر اُدھر گھوم رہا تھا ۔ عمار ابن ضیا نے تو باقاعدہ جیب سے ایک چھوٹی سی قینچی نکال کر اپنی مونچھیں بھی تراشنا شروع کردیں تھیں ۔ کئی حضرات ایک ساتھ اس چھوٹے سے آئینے میں اپنی شکل کا جائزہ لینے کی کوشش میں مصروف تھے ۔ مگر ہر کسی کے منہ کا حجم ، آئینہ کے دائرے سے بہت بڑا تھا ۔ لہذا جس کی نظر ایک لمحہ کے لیئے آئینے پر پڑجاتی ۔ وہ ان اللہ مع الصابرین کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ۔

( جاری ہے )
 

سیما علی

لائبریرین
کئی حضرات ایک ساتھ اس چھوٹے سے آئینے میں اپنی شکل کا جائزہ لینے کی کوشش میں مصروف تھے ۔ مگر ہر کسی کے منہ کا حجم ، آئینہ کے دائرے سے بہت بڑا تھا ۔ لہذا جس کی نظر ایک لمحہ کے لیئے آئینے پر پڑجاتی ۔ وہ ان اللہ مع الصابرین کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ۔

( جاری ہے )
ظفری آجائیے اور مکمل کیجیے 🥰🥰🥰🥰🥰
 

سیما علی

لائبریرین
چھٹی سال گرہ کی مناسبت سے کوئی دس ایک سال لیٹ نئیں ہوگئیں
ظفری کو ہم ایسے ہی بلاتے ہیں اُنکے پرُانے مراسلے پڑھتے ہیں ۔۔بہت اچھا لگتا ہے جب پرُانے مراسلے پڑھتے ہیں ۔۔کیا خوبصورت دور تھا اُردو محفل کا ۔۔۔
 
ظفری کو ہم ایسے ہی بلاتے ہیں اُنکے پرُانے مراسلے پڑھتے ہیں ۔۔بہت اچھا لگتا ہے جب پرُانے مراسلے پڑھتے ہیں ۔۔کیا خوبصورت دور تھا اُردو محفل کا ۔۔۔
ہر گزرا دور خوبصورت ہوتا ہے۔ ساتھی، ماحول اور محبتیں بانٹنا ہر لمحے کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔ ظفری جب آئے تو ماوراء بٹیا سے کافی قریب تھے۔ مجھے کچھ کچھ شک ہو رہا ہے آپ پر بھی باقی اللہ جانے
 

سیما علی

لائبریرین
پنڈال میں غبارے پیچنے کی غرض سے آئے ہوئے خان صاحب کی نسوار کی ڈبیا ( جس پر ایک چھوٹا سا آئینہ نصب تھا ) ۔ محفل میں مرد حضرات کے ہاتھوں ادھر اُدھر گھوم رہا تھا ۔ @عمار ابن ضیا نے تو باقاعدہ جیب سے ایک چھوٹی سی قینچی نکال کر اپنی مونچھیں بھی تراشنا شروع کردیں تھیں ۔ کئی حضرات ایک ساتھ اس چھوٹے سے آئینے میں اپنی شکل کا جائزہ لینے کی کوشش میں مصروف تھے ۔ مگر ہر کسی کے منہ کا حجم ، آئینہ کے دائرے سے بہت بڑا تھا ۔ لہذا جس کی نظر ایک لمحہ کے لیئے آئینے پر پڑجاتی ۔ وہ ان اللہ مع الصابرین کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ جاتا ۔
کیا خوبصورت انداز یوں محسوس ہوتا ہے سب کچھ آپ کے سامنے ہورہا ہے ۔۔یہ بہت بڑی خوبی ہے لکھنے والے کی کہ آپکو ایسا لگے جیسے ابھی کی بات ہے اور انسان اُن الفاظ میں گم ہوجائے ۔۔جیتے رہیے ظفری !بہت ڈھیر ساری دعائیں 🥰
 

ظفری

لائبریرین
کیا خوبصورت انداز یوں محسوس ہوتا ہے سب کچھ آپ کے سامنے ہورہا ہے ۔۔یہ بہت بڑی خوبی ہے لکھنے والے کی کہ آپکو اسیا لگے جیسے ابھی کی بات ہے اور انسان اُن الفاظ میں گم ہوجائے ۔۔جیتے رہیے ظفری !بہت ڈھیر ساری دعائیں 🥰
آپا ! آپ نے اتنی مستقل مزاجی سے بارہا مجھے محفل پر آنے کا کہا ہے ۔ لگتا ہے آپ کی مستقل مزاجی کے سامنے مجھے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ :)
 

سیما علی

لائبریرین
آپا ! آپ نے اتنی مستقل مزاجی سے بارہا مجھے محفل پر آنے کا کہا ہے ۔ لگتا ہے آپ کی مستقل مزاجی کے سامنے مجھے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ :)
یہ ہوئی نہ بات اچھے بچوں والی ۔جیتے رہیے شاد و آباد رہیے ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا جب تک آپ سے بات نہ ہو اور سب سے بڑی بات آپ کے لفظوں سے اپنائیت کی خوشبو آتی ہے ۔پروردگار اپنی امان میں رکھے آمین 🥰
 

سیما علی

لائبریرین
شمشاد بھائی ۔۔۔ چلیں ایک بار پھر محفل سیما آپا کی مدد سے بیٹھک لگاتے ہیں ۔ مگر آپ دونوں کوشش کرنا کہ میں سیاست اور مذہب کے فورمز سے دور رہوں ۔ :censored:
ہماری کوشش ہوگی کہ آپکو سیاست اور مذہب سے دور رکھیں پر ہم آپ اور شمشاد بھیا کے لئے بہت مشکل ہے کہ ان دونوں موضوع سے بچا جاسکے دونوں ہی کو زندگی سے نکالا نہیں جاسکتا نہ ہی 🤫رہا جاسکتا کہیں نہ کہیں جیسے کل احسن اقبال صاحب نے بیچارے مہنگائی اور غربت سے پسے ہوئے لوگوں کو چائے کم کرنے کا مشورہ دے دیا 🤭🤭🤭🤭🤭
 
Top