اردو شاعری منظوم معراج ناموں کی ضرورت ہے

خرم انصاری

محفلین
نغمۂ رسالت
از شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن
ہیں عرشِ بریں پر جلوہ فگن محبوبِ خدا سبحان اللہ
اک بار ہوا دیدار جسے سو بار کہا سبحان اللہ

حیران ہوئے بَرْق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کا سفر
راکب نے کہا اللہ غنی مَرْکَبْ نے کہا سبحان اللہ

طالب کا پتہ مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف
پردے میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اللہ

ہے عبد کہاں معبود کہاں معراج کی شب ہے راز نہاں
دو نور حجابِ نور میں تھے خود ربّ نے کہا سبحان اللہ

جب سجدوں کی آخری حدوں تک جا پہنچا عبودیت والا
خالق نے کہا ما شآء اللہ حضرت نے کہا سبحان اللہ

سمجھے حامد انسان ہی کیا یہ راز ہیں حسن والفت کے
خالق کا حبیبی کہنا تھا خلقت نے کہا سبحان اللہ
-------------بیاضِ پاک------------​
 

خرم انصاری

محفلین
بیان معراج فوق السماء ذات الابراج
مولانا محمد عبد السمیع بیدل رام پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ......تلمیذ مرزا غالب ومصنف انوارِ ساطعہ

جاتے ہیں معراج کو وہ شاہ عالیجاہ آج
اور ہی شانِ رسول اللہ ہے واللہ آج

کس تجمل سے چلی بنکر سواری آپکی
ہین فرشتے مشعلیں نوری لئے ہمراہ آج

کسقدر اللہ اکبر ہے ملائک کا ہجوم
پانو دہرنے کو نہین بطحا مین ملتی راہ آج

کاش بنتی آج وہ نعل براقِ مصطفےٰ
سر ٹپکتے پھرتے ہین گردونپہ مہر و ماہ آج

چرخ ہفتم پر رہے جبریل و چارم پر مسیح
جا کے چمکا عرش پر نجم رسول اللہ آج

عام کیسے دخل وہان روح القدس تک کو نہین
خاص اُس مخلص کے خلوت کو کہلی درگاہ آج

چین سے خلوت مین جا دیکھا خدای پاک کو
دیدۂ حادث قِدم کا ہے تماشاگاہ آج

چشم بد دور آج کیا اخلاص کیا انعام ہے
لیتے وہ جو کچھ ہین دیتا جائ ہے اللہ آج

دم مین کیا کیا کچہ کیا اس جزر و مد کو دیکہنا
بنگیا لمحہ سمٹ کر طولِ سال و ماہ آج

کل اُسئ روز شفاعت یاد رکہئے گا حضور
ہے جو مداح آپ کا یہ بندۂ درگاہ آج

خاتمہ کامل ہو گر دین رسول اللہ پر
موت کا پھر کچھ نہین غم خواہ کل ہو خواہ آج

دیکہنا محشر مین کیا کیا لونگا جب ہو گا یہ حکم
لے غزل کا اپنے اے بیدل صلہ دلخواہ آج
............نورِ ایمان............​
 

خرم انصاری

محفلین
ہیں
پاؤں
دھرنے
چہارم
دیکھنا
دراصل یہ اور اس جیسے دیگر الفاظ پرانی اردو املا کے مطابق لکھے گئے ہیں۔ ایک تو بندہ ہر کتاب کو اس کے محرر کی املا وغیرہ میں پڑھنا پسند کرتا ہے اور دوسرے یہ کہ اوزانِ شعر سے بھی جاہل ہے ولہٰذا کسے تبدیل کرنے سے وزنِ شعر برقرار رہے گا اور کس کے ساتھ بگڑ جائے گا اس سے بھی لاعلم قرار پایا۔ بنا برایں ومعدودے چند دیگر وجوہات بندے نے ہو بہو نقل کا ارادہ کر لیا البتہ لفظِ "ہے" کی املا تبدیل کرنا پڑی کیونکہ پرانی املا کے مطابق کسی "کی" کا علم نہ ہو سکا۔ سمجھنے میں دشواری پیش آئے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(خالی جگہ آپ اپنی مرضی کے مطابق خود بہتر طور پر پُر کر سکتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بیان معراج فوق السماء ذات الابراج
مولانا محمد عبد السمیع بیدل رام پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ......تلمیذ مرزا غالب ومصنف انوارِ ساطعہ

جاتے ہیں معراج کو وہ شاہ عالیجاہ آج
اور ہی شانِ رسول اللہ ہے واللہ آج

کس تجمل سے چلی بنکر سواری آپکی
ہین فرشتے مشعلیں نوری لئے ہمراہ آج

کسقدر اللہ اکبر ہے ملائک کا ہجوم
پانو دہرنے کو نہین بطحا مین ملتی راہ آج

کاش بنتی آج وہ نعل براقِ مصطفےٰ
سر ٹپکتے پھرتے ہین گردونپہ مہر و ماہ آج

چرخ ہفتم پر رہے جبریل و چارم پر مسیح
جا کے چمکا عرش پر نجم رسول اللہ آج

عام کیسے دخل وہان روح القدس تک کو نہین
خاص اُس مخلص کے خلوت کو کہلی درگاہ آج

چین سے خلوت مین جا دیکھا خدای پاک کو
دیدۂ حادث قِدم کا ہے تماشاگاہ آج

چشم بد دور آج کیا اخلاص کیا انعام ہے
لیتے وہ جو کچھ ہین دیتا جائ ہے اللہ آج

دم مین کیا کیا کچہ کیا اس جزر و مد کو دیکہنا
بنگیا لمحہ سمٹ کر طولِ سال و ماہ آج

کل اُسئ روز شفاعت یاد رکہئے گا حضور
ہے جو مداح آپ کا یہ بندۂ درگاہ آج

خاتمہ کامل ہو گر دین رسول اللہ پر
موت کا پھر کچھ نہین غم خواہ کل ہو خواہ آج

دیکہنا محشر مین کیا کیا لونگا جب ہو گا یہ حکم
لے غزل کا اپنے اے بیدل صلہ دلخواہ آج
............نورِ ایمان............​
خرم انصاری ! بہت خوب مولانا محمد عبد السمیع بیدل رام پوری کے اس کام کا ماخذ کیا ہے اگر ساتھ ہی کتاب کا حوالہ لکھ دیا کریں تو شکر گزار ہونگا
 

خرم انصاری

محفلین
مولانا محمد عبد السمیع بیدل رام پوری کے اس کام کا ماخذ کیا ہے اگر ساتھ ہی کتاب کا حوالہ لکھ دیا کریں تو شکر گزار ہونگا
"............نورِ ایمان............"
یہ مآخذ اور کتاب کا حوالہ ہی ہے۔ غالباً مآخذ ذکر کرنے کا یہ طریقہ عام اسلوب سے ہٹ کر رہا اسی لیے آپ کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوا، اس کے لیے یہ بندہ معذرت خواہ ہے۔ بہرحال "نورِ ایمان" مولانا محمد عبد السمیع بیدل رام پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مجموعہ کلام کا نام ہے۔ فقیر کے پاس اس کا جو نسخہ موجود ہے اسے لاہور کے ایک مطبع "دار الاسلام" نے شایع کر کے استفادہ کا موقع بہم پہنچایا۔ یہ بھی کسی پرانے نسخے کا عکس معلوم ہوتا ہے۔
 

خرم انصاری

محفلین
لیجئے پیارے آقا ﷺ کے معجزہ معراج شریف سے متعلق مولانا مذکور کا ایک اور کلام ملاحظہ کیجئے

ذکر معراج صاحب اللواء والتاج


اس سید الرسل پہ ہے اپنا سلام خاص
بلوائے جسکو عرش پہ رب الانام خاص

آئے براق برق روش لیکے جبرئیل
دربار خاص حق کا سنایا پیام خاص

آئے فرشتے نور کی شمعین لئے ہوئے
اللہ رے روشنی کا تھا کیا اہتمام خاص

جاتے تھے ہمرکاب فرشتے پرے بندھے
اس شاہِ انبیا کا تھا یہ احتشام خاص

آئے فرشتے مسجد اقصےٰ مین اور رسل
سب مقتدی تھے آپ کے اور آپ امام خاص

دولہا پہ جیسی ہوتی ہے ہر ایک کی نظر
محبوب حق پہ محو تھے حق کے تمام خاص

سدرہ پہ جبرئیل تو بس جا کے رہگئے
آگے بڑھے رسول علیہ السلام خاص

افلاک طے کئے طبقاً عن طبق تمام
پھر جا لیا دنٰی فَتَدَلّٰی مقام خاص

راز ونیاز کا جو ہوا سلسلہ دراز
جی بھر کے پھر ہوا کیا باہم کلام خاص

خالق سے کی شفاعتِ امت مین گفتگو
یاد آئے وہان بھی آپکو اپنے غلام خاص

افسوس ہم خطا کرین اور بخشوائیں وہ
وہ انکا فیض عام اور اپنا یہ کام خاص

قربان جان و دل سے ہو ایسے شفیع پر
بھیجو درود لیکے محمد کا نام خاص

آنکھون کو آج عشق نبی مین کرو سبیل
لینا ہے کل جو دستِ مبارک سے جام خاص

خاصون سے بھی عوام کا درجہ ہو خاص تر
ہو مہربان جو شافع یوم القیام خاص

زاہد نکر غرور یہ قدرت سے کب ہے دور
گھٹ جایں خاص عام سے ہو جائین عام خاص

بیدل کو ان لبونکی شفاعت ہو ایخدا
ہے جن لبونمین مایۂ یحی العظام خاص
............نور الایمان، صفحہ۳۲، طبع شدہ دار الاسلام لاہور............​
 
یہ وہی بیدل تو نہیں خرم انصاری اور شاکرالقادری بھائی جن کے بارے میں غالب نے بھی تذکرہ کیا ہے۔
اسد، ہر جا سخن نے طرحِ باغِ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگِ بہار ایجادی بیدل پسند آیا

طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد االلہ خان قیامت ہے
مجھے راہِ سخن میں خوفِ گمراہی نہیں غالبؔ
عصائے خضرِ صحرائے سخن ہے ، خامہ بیدلؔ کا

مطربِ دل نے مرے تارِ نفس سے غالبؔ
ساز پر رشتہ، پے نغمۂ بیدل باندھا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
یہ وہی بیدل تو نہیں خرم انصاری اور شاکرالقادری بھائی جن کے بارے میں غالب نے بھی تذکرہ کیا ہے۔
اسد، ہر جا سخن نے طرحِ باغِ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگِ بہار ایجادی بیدل پسند آیا

طرز بیدل میں ریختہ کہنا
اسد االلہ خان قیامت ہے
مجھے راہِ سخن میں خوفِ گمراہی نہیں غالبؔ
عصائے خضرِ صحرائے سخن ہے ، خامہ بیدلؔ کا

مطربِ دل نے مرے تارِ نفس سے غالبؔ
ساز پر رشتہ، پے نغمۂ بیدل باندھا
غالب کے ممدوح:ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل ہیں
تفصیلات کے لیے
https://ur.wikipedia.org/wiki/مرزا_عبدالقادر_بیدل
 

خرم انصاری

محفلین
معراج شریف سے متعلق مولانا موصوف کا ہی ایک عربی کلام نظر نواز کیا جاتا ہے، ملاحظہ کیجئے:

معراج سيدنا محمد
قد كان في رجب مكرم

حين اتي ايليا محمد
جبريل قال له تقدم

صار اماما هنا محمد
صلي بالانبيا و آدم

فوق السماء علا محمد
الله شرفه و كرم

فاز وراء الورا محمد
مولاه قربه و كلم

لا نسال عن علا محمد
لا ندري والله اعلم

يشكو اليك يا محمد
عبد السميع و قد تهيم

ما لي شفيع سوي محمد
يا كهف الفقر ترحم

واشفع للعيش المخلد
ثم التبعيد من جهنم

واكشف دجانا يا محمد
بالوجه كالبدر المتمم
............نور الایمان، صفحہ٤٥............​
 

خرم انصاری

محفلین
یہ وہی بیدل تو نہیں خرم انصاری اور شاکرالقادری بھائی جن کے بارے میں غالب نے بھی تذکرہ کیا ہے۔
پتا نہیں۔۔۔شعر، شاعری اور شعراء کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات نہیں۔
محترم شاکر القادری صاحب کے معلومات بہم پہنچنانے کے لیے یہ بندہ شکر گزار ہے۔
 

خرم انصاری

محفلین
شب معراج حکم حق
از سلطان الواعظین ابو النور محمد بشیر کوٹلوی

حکم ہے میرا میرے فرشتوں
نارِ جہنم آج بجھا دو
جنت کے دروازے کھولو
صلی اللہ علیہ وسلم

امت کو بخشانے والا
جنت میں لیجانے والا
آج ہے اوپر آنے والا
صلی اللہ علیہ وسلم

حور و غلماں اور فرشتے
ان کے استقبال کو آئے
پڑھ رہے تھے مل کر سارے
صلی اللہ علیہ وسلم
............جبل نور، صفحہ۱۴۸............​
 

خرم انصاری

محفلین
معراج شریف کے موضوع پر پنجابی زبان میں کلام
از سلطان الواعظین ابو النور محمد بشیر کوٹلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

شب معراج لائی اے بہاراں یارسول اللہ
خدا نے سدّیا کول پیاراں یارسول اللہ

ترے معراج دے منکر ہوئے نیں عقل دے بندے
دلوں منیاں ایں پر ایمان داراں یارسول اللہ

ایہہ جان و مال ملیا اے خدا کولوں ترے صدقے
ایہہ جان و مال تیرے توں میں واراں یارسول اللہ
............جبل نور، صفحہ۱۹۴............​
 

خرم انصاری

محفلین
گنجینہ پنہاں
کلامِ محدثِ اعظم ہند سید محمد اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
بے پردہ تھا گنجینہ پنہاں شبِ معراج
اللہ کی قدرت تھی نمایاں شبِ معراج

بس واقعہ اتنا تھا میری جاں شب معراج
جاناں سے ملا جلوۂ جاناں شب معراج

مِنْ اَیْن مَتٰی کَیْف اِلٰی سبکو تھی حیرت
ادراک تھا انگشت بدنداں شب معراج

تھا شانِ خدائی کا گزر بزم قدم میں
کس اوج پہ تھا رتبہ امکاں شب معراج

اللہ کو ان آنکھوں سے خود دیکھ کے آیا
انسانونکی آنکھوں کا اک انساں شب معراج

یہ کسکے قدم آئے کہ اب اوج پہ پہونچی
خوش بختی تعمیر سلیماں شب معراج

انکار کا حق کس کو پہونچتا ہے جو پہنچا
قرآں کے قریں صاحب قرآں شب معراج

تا طور گئے موسیٰ تو تا چرخ مسیحا
تا عرش گئے شاہِ رسولاں شب معراج

بارانِ کرم دیکھ کے سید بھی ہے آیا
ہاتھوں میں لئے دفترِ عصیاں شب معراج
............از مجموعۂ کلام بنام "فرش پر عرش"............​
 

خرم انصاری

محفلین
مناجات کی رات
از تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان دامت برکاتہم العالیہ


آج کی رات ضیاؤں کی ہے بارات کی رات
فضل نوشاہ دو عالم کے بیانات کی رات

شب معراج وہ اَوْحی کے اشارات کی رات
کون سمجھائے وہ کیسی تھی مناجات کی رات

چھائی رہتی ہیں خیالوں میں تمہاری زلفیں
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات

رند پیتے ہیں تری زلف کے سائے میں سدا
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات

رخ تابان نبی زلف معنبر پہ فدا
روز تابندہ یہ مستی بھری برسات کی رات

دل کا ہر داغ چمکتا ہے قمر کی صورت
کتنی روشن ہے رخ شہ کے خیالات کی رات

ہر شب ہجر لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی
کوئی موسم ہو یہاں رہتی ہے برسات کی رات

جس کی تنہائی میں وہ شمع شبستانی ہو
رشک صد بزم ہے اس رند خرامات کی رات

بلبل باغ مدینہ کو سنا دے اختر
آج کی شب ہے فرشتوں سے مباہات کی رات
............مجموعہ کلام بنام: سفینہ بخشش، صفحہ۲۲............​
 

خرم انصاری

محفلین
ہیں صف آرا سب حور و ملک اور غلماں خلد سجاتے ہیں
از امیر اہلسنت، بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ


ہیں صف آرا سب حور و ملک اور غلماں خلد سجاتے ہیں
اک دھوم ہے عرشِ اعظم پر مہمان خدا کے آتے ہیں

ہے آج فلک روشن روشن، ہیں تارے بھی جگمگ جگمگ
محبوب خدا کے آتے ہیں محبوب خدا کے آتے ہیں

قربان میں شان وعظمت پر سوئے ہیں چین سے بستر پر
جبریل امیں حاضر ہو کر معراج کا مژدہ سناتے ہیں

جبریل امین براق لئے جنت سے زمین پر آ پہنچے
بارات فرشتوں کی آئی معراج کو دولہا جاتے ہیں

ہے خلد کا جوڑا زیب بدن رحمت کا سجا سہرا سر پر
کیا خوب سہانا ہے منظر معراج کو دولہا جاتے ہیں

ہے خوب فضا مہکی مہکی چلتی ہے ٹھنڈی ٹھنڈی
ہر سمت سماں ہے نورانی معراج کو دولہا جاتے ہیں

یہ عز و جلال اللہ اللہ یہ اَوْج و کمال اللہ اللہ
یہ حسن و جمال اللہ اللہ معراج کو دولہا جاتے ہیں

دیوانو! تصور میں دیکھو! اسریٰ کے دولہا کا جلوہ
جھرمٹ میں ملائکہ لیکر انہیں معراج کا دولہا بناتے ہیں

اقصیٰ میں سواری جب پہنچی جبریل نے بڑھ کے کہی تکبیر
نبیوں کی امامت اب بڑھ کر سلطانِ جہاں فرماتے ہیں

وہ کیا حسیں منظر ہو گا جب دولہا بنا سرور ہو گا
عشاق تصور کر کر کے بس روتے ہی رہ جاتے ہیں

یہ شاہ نے پائی سعادت ہے خالق نے عطا کی زیارت ہے
جب ایک تجلی پڑتی ہے موسیٰ تو غش کھا جاتے ہیں

جبریل ٹھہر کر سدرہ پر بولے جو بڑھے ہم ایک قدم
جل جائیں گے سارے بال و پر اب ہم تو یہیں رہ جاتے ہیں

اللہ کی رحمت سے سرور جا پہنچے دنا کی منزل پر
اللہ کا جلوہ بھی دیکھا دیدار کی لذت پاتے ہیں

معراج کی شب تو یاد رکھا پھر حشر میں کیسے بھولیں گے
عطار اسی امید پہ ہم دن اپنے گزارے جاتے ہیں
............مجموعہ کلام بنام: وسائل بخشش، صفحہ۲۸۶............​
 

خرم انصاری

محفلین
ترانۂ معراج
استاد الشعراء حضرت ضیاء القادری بدایونی

نیا منظر دکھایا جا رہا ہے
جہاں مسرور پایا جا رہا ہے
زمین پر عرش چھایا جا رہا ہے
دو عالم کو سجایا جا رہا ہے
کوئی دولہا بنایا جا رہا ہے

یہی ہے رفعت واعزاز و اکرام
بڑھائی جا رہی ہے شانِ اسلام
فلک سے لائے ہیں جبریل احکام
ہے سبحٰن الذی اسریٰ کا پیغام
جو دنیا کو سنایا جا رہا ہے

حرم سے تا فرازِ عرشِ اعظم
ہے بزمِ کن فکاں نورِ مجسم
ہیں ضو افشانیاں تاروں کی پیہم
شبِ اسریٰ ہے جلووں کا یہ عالم
جہاں پر نور چھایا جا رہا ہے

ہے ذوق دید کی مقصود تکمیل
فلک سے آئے کعبہ میں بہ تعجیل
ہے فرمانِ الٰہی کی یہ تعمیل
لگاتے ہیں قدم آنکھوں سے جبریل
شہِ دیں کو جگایا جا رہا ہے

دکھانی شان ہے روح الامیں کو
ہے کرنا مفتخر عرشِ بریں کو
امینِ کعبہ ختم المرسلیں کو
حرم سے اپنے محبوب حسیں کو
قریب اپنے بلایا جا رہا ہے

حجابِ دید جو رازِ نہاں تھا
پسِ آئینہ کون ومکاں تھا
پئے گفتن بقدرِ دو کماں تھا
جو محبوب و محب کے درمیاں تھا
وہ پردہ اب اٹھایا جا رہا ہے

زہے پیوستگیٔ نگہت و گل
ہے اک آئینہ میں عکسِ جز و کل
ہیں خود جلووں میں گم با ایں تجمل
ہے اللہ جمیل کا تخیل
جمال اپنا دکھایا جا رہا ہے

ہیں محبوب و محب مائل بخلوت
ہے صرف جامہ زیبی دستِ قدرت
شہا نہ نور کا تاجِ شفاعت
سرِ اوجِ دنیٰ بخشش کا خلعت
شہِ دیں کو پہنایا جا رہا ہے

نہ تھی معراج کی حد ایک شب تک
رہے گا ذکر یہ دنیا ہے جب تک
سنیں نغمے خدا جانے یہ کب تک
ضیا معراج کے دولہا کا اب تک
جہاں میں گیت گایا جا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کلام سلطان الواعظین ابو النور محمد بشیر کوٹلوی صاحب کی کتاب "آنا جانا نور کا" سے نقل کیا جا رہا ہے کیونکہ باوجود کوشش ضیاء القادری بدایونی صاحب کا مجموعہ کلام دست یاب نہ ہو سکا۔​
 
Top