اردو سیکھنے کے لیے ماں کی بیٹے کو نصیحت

خرم انصاری

محفلین
%20_zps6lg8hgj7.jpg

ماخذ : گم گشتہ
 
اس وقت حال یہ ہے کہ والدین جب بچوں کو انگریزی میڈیم میں پڑھاتے ہیں تو وہ اردو بولنا تو جانتے ہیں مگر اردو پڑھ نہیں سکتے۔ میں نے خود ذاتی طور پر ایسے والدین کو دیکھا ہے جنہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے بچے اردو پڑھ نہیں سکتے۔
 

تہذیب

محفلین
انگریزوں کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے ۔ وہ فکرمند ہیں کہ ان کے بچے انگریزی بولتے تو ہیں لیکن سلینگ بولتے ہیں ۔ ان کی گریمر خراب ہے۔ لکھتے ہیں تو سپیلنگ ٹھیک نہیں۔
بہرحال اس ماں کو داد دینی چاہئے کہ خود تو کسی وجہ سے اردو پر اس کی مکمل گرفت نہیں لیکن زبان سے محبت کی وجہ سے چاہتی ہے کہ اس کی اولاد اردو پر مکمل توجہ دیں اور اس پر عبور حاصل کریں۔
 

arifkarim

معطل
انگریزوں کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے ۔ وہ فکرمند ہیں کہ ان کے بچے انگریزی بولتے تو ہیں لیکن سلینگ بولتے ہیں ۔ ان کی گریمر خراب ہے۔ لکھتے ہیں تو سپیلنگ ٹھیک نہیں۔
ہاہاہا۔ ہمارے بچوں کی اردو مغربی انگریزی کلچر کی وجہ سے خراب ہو ئی تو انکے بچوں کی انگریزی ہمارے دیسی خارجی بچوں نے خراب کر دی۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی!
 
ہاہاہا۔ ہمارے بچوں کی اردو مغربی انگریزی کلچر کی وجہ سے خراب ہو ئی تو انکے بچوں کی انگریزی ہمارے دیسی خارجی بچوں نے خراب کر دی۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی!
سلینگ اس چیز کو نہیں کہتے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
پراپر انگریزی اور سلینگ میں وہی فرق ہے جو ہمارے ہاں کتابی اردو اور بولنے والی اردو میں ہوتا ہے :) ایسا ہر زبان کے ساتھ ہوتا ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کی اردو زبان خود خراب کی ہے۔ اپنی ہر برائی مغربیوں پر ڈالنا کوئی عقلمندی کا کام نہیں ہے۔ :)
 

arifkarim

معطل
سلینگ اس چیز کو نہیں کہتے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
سلینگ مکس بولیوں کو کہتے ہیں۔ اسے ہم یہاں نارویجن میں ’’کباب نوشک‘‘ کہتے ہیں۔ مطلب ایسی بولی جو خارجیوں کی سمجھ بوجھ کے مطابق مکس ہو کر بنی ہو۔ ظاہر ہے یہ زبان کا قدرتی ارتقاء نہیں کہلاتا بلکہ نئی زبان پر مکمل عبور نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
 
slang
slaŋ/
noun
  1. 1.
    a type of language consisting of words and phrases that are regarded as very informal, are more common in speech than writing, and are typically restricted to a particular context or group of people.
    "grass is slang for marijuana"​
 
یہ ایک بالکل ہر جگہ پایا جانے والا مظہر ہے کہ کتابی زبان اور عام بول چال کی زبان میں فرق ہوتا ہے ایسا ہر زبان کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ چاہے تو استاد محترم سے رائے لے لیں۔
محمد یعقوب آسی
گستاخی معاف جناب لئیق احمد صاحب۔ اولین گزارش وہی کہ کہاں یہ بے مایہ فقیر اور کہاں منصبِ استاد! انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کے کوئی صاحبِ ذوق عالم ہوں تو آپ کی علمی پیاس بجھانے کا کچھ سامان کریں، میری تو دعا ہے کہ آپ کی یہ پیاس بڑھتی رہے۔ اس فقیر پر تو سوال بھی نہیں کھلا ہے۔
 
کتابی زبان اور عام بول چال کی زبان میں فرق ہوتا ہے ایسا ہر زبان کے ساتھ ہوتا ہے۔
انگریزی کو انگریزی والے جانیں؛ اردو اور پنجابی میں تو زبان کے طبقات ہیں، بالکل ہیں۔ عرب ملکوں میں رہنے والے (بالخصوص پاکستانی) جانتے ہیں کہ عربی میں بھی ہیں۔ سو، آپ کی یہ بات دل کو بھاتی ہے۔
من حیث المجموع زبان کو ہم کسی ایک طبقے تک محدود نہیں کر سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مثلاً: "جناب زبان وہ ہے جو اشرافیہ میں رائج ہو"، "زبان وہ ہے جو ادباء میں محبوب ہے"، "زبان وہ ہے جو عام آدمی بولتا ہے"، "زبان تو گھسیاروں کی زبان ہے"؛ وغیرہ وغیرہ۔
زبان تو سب کی ہے صاحب! اس میں ادب بھی آئے گا، ادبِ عالیہ بھی، عدالتی زبان بھی، علمائے عُظام کی زبان بھی، اہلِ منطق کی بھی، لسانیات سے متعلق لوگوں کی بھی، سیاست دانوں کی بھی، بھتہ خوروں اور اٹھائی گیروں کی بھی، دفتری زبان بھی، راج مزدوروں کی بھی، ورکشاپ والوں کی بھی، چھاپہ خانوں کی بھی، ڈاکٹروں اور وکیلوں کی بھی، گلی محلوں، میلوں ٹھیلوں کی زبان بھی، بھانڈوں کی زبان بھی، گلہ بانوں اور کاہ کشوں کی زبان بھی، زنان خانے کی بھی، لچھے دار بھی، سادہ بھی، اجڈ بھی، حتیٰ کہ گالم گلوچ بھی زبان ہے۔ جتنے شعبے فوری طور پر ذہن میں آ گئے، لکھ دیے اور بھی سینکڑوں رہے ہوں گے۔
ایک موٹا اصول یہاں سے اخذ ہوتا ہے کہ: جتنے طبقات انسانوں کے ہوں گے، اتنے ہی زبان کے بھی ہوں گے اور اس سب میں کچھ نہ کچھ مشترک بھی ہو گا، کہ جہاں کوئی اشتراک نہ رہا، زبان ہی الگ ہو گئی۔ دوسرا بہت بڑا عنصر علاقائی لہجے اور مقامی لفظیات ہیں؛ میں نے خاص طور پر پنجابی میں علاقائی لہجوں کا بہت تنوع دیکھا ہے (یہاں تک کہ کچھ لوگ ہندکو، سرائیکی اور پوٹھوہاری کو پنجابی سے الگ زبانیں قرار دیتے ہیں)۔ بات اردو کی ہو رہی ہے سو ادھر چلتے ہیں۔

۔۔۔۔ جاری ہے۔
 
۔۔۔۔ جاری
بات اردو کی ہو رہی ہے سو ادھر چلتے ہیں۔

مرزا غالب کا وہ کہنا بہت معروف ہے کہ: "جاؤ میاں کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں"۔ مرزا کا مقصود یہ ہرگز نہیں تھا کہ گھسیارے کی زبان اردو نہیں یا قلعے کی زبان اردو نہیں۔ مرزا نے اردو زبان کے دو نمایاں طبقات کا ذکر کیا تھا، اور مقصود یہ تھا کہ ان طبقات میں لسانی بعُد قابلِ لحاظ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ زبان کا علم رکھنے والوں (زبان دان) اور زبان کو ادب بنانے والوں (ادیب) کی ذمہ داریوں کے میدان اہم تر ہیں۔ آپ کوئی واضح حدِ فاصل تو قائم نہیں کر سکتے، بہ این ہمہ یہ محسوس ضرور کر سکتے ہیں کہاں جا کر زبان ادب کا درجہ پا لیتی ہے اور کہاں اس درجے سے گر جاتی ہے؛ اسی نہج پر زبان کے دوسرے طبقات ہیں۔ زبان ایک معاشرتی مظہر ہے اور اس کی بنیاد میں دین و مذہب، عقائد و روایات، رسوم و عادات، تاریخ، لوک داستانیں، لوک گیت، شاعری، رزمیے، معاشرتی نفسیات، پیشے، معاشرتی مناصب، عالمی منظر نامے اور کتنا کچھ بشمول شخصی ترجیحات ایسا شامل ہے جسے ہم حتمی قطعیت کے ساتھ نہ پرکھ سکتے ہیں اور نہ اس کی حدود کا قطعی تعین کر سکتے ہیں۔
قوسِ قُزح کی مثال لے لیجئے۔ اس میں رسماً سات رنگوں کو نمایاں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ترتیب: بنفشی، اُودا، نیلا، سبز، زرد، نارنجی، سُرخ۔ نیلا کس خاص نقطے تک نیلا ہے اور سبز کس خاص نقطے تک سبز ہے اور ان دونوں کے درمیانی مراحل کو ہر نقطے پر کیا کیا نام دئے جائیں؟ یہ قطعیت کے ساتھ لفظاً طے نہیں ہو سکتا، مگر محسوس ضرور کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ زبان کا ہوتا ہے۔ طبقات اس میں بہر حال پائے جاتے ہیں۔
یہ کام علمائے لسانیات و مدنیات پر چھوڑتے ہیں کہ انگریزی والا سلینگ (یا اسے اردو میں جو بھی نام دیجئے) ہمارے ہاں کہاں کہاں پایا جاتا ہے۔ سلینگ سے لفظی تأثر یہ بنتا ہے: ایسا عوامی لہجہ جو شستگی، ملائمت اور قواعد کی چنداں پروا نہ کرے؛ آپ عوامی لہجہ کہہ لیجئے۔ ہر اچھے اور چابک دست ادیب کے پاس یہ فن ہوتا ہے کہ وہ عوامی لہجے سے کرخت الفاظ اور اظہاریوں کو اٹھا کر انہیں ادب میں یوں کھپا دے کہ جمالیات متأثر نہ ہونے پائے۔
 
آخری تدوین:
اس وقت حال یہ ہے کہ والدین جب بچوں کو انگریزی میڈیم میں پڑھاتے ہیں تو وہ اردو بولنا تو جانتے ہیں مگر اردو پڑھ نہیں سکتے۔ میں نے خود ذاتی طور پر ایسے والدین کو دیکھا ہے جنہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کے بچے اردو پڑھ نہیں سکتے۔
انتہائی افسوسناک
 

خرم انصاری

محفلین
بہت خوب۔ خرم بھائی یہ گم گشتہ کیا ہے؟

گُم گَشْتَہ {گُم + گَش + تَہ} (فارسی)

فارسی زبان سے ماخوذ صفت گم کے ساتھ فارسی مصدر گشتن سے اسم صفت گشتہ لگانے سے مرکب گم گشتہ بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ 1673ء کو "دیوان سلطان" میں مستعمل ملتا ہے۔
صفت ذاتی

معانی

1. کھویا ہوا، بھٹکا ہوا، راستہ بھولا ہوا۔
"اس بلیک آؤٹ میں وہ آنکھوں کے گم گشتہ گہر کو ڈھونڈ رہے ہیں۔"، [1]

حوالہ جات
  1. ↑ ( 1988ء، آج بازار میں پابہ جولاں چلو، 84 )
از اردو لغت
 

خرم انصاری

محفلین
ماسٹر جی میری مراد یہ تھی کہ وہ گم گشتہ کیا ہے جس سے آپ کی پوسٹ ماخوذ ہے۔ کیا یہ کسی کتاب کا نام ہے؟ بہر حال معلومات میں اضافہ کرنے کا شکریہ۔
آہ! میری نافہمی!!
عرصہ دراز سے یہ تصویر میرے لیپ ٹاپ میں موجود تھی کہاں سے آئی یاد نہیں اس طور پر اسے باعتبارِ مآخذ گم گشتہ قرار دیا۔
 
Top