الف نظامی
لائبریرین
اردو زبان و ادب کی ترقی اور ذخیرہ الفاظ میں پاکستانی زبانوں کا کردار عمل
اشفاق احمد
ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ لاہور
اشفاق احمد
ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ لاہور
**یہ مضون "رپورٹ پاکستانی زبانوں میں تراجم کی قومی ورکشاپ" منعقدہ لاہور 24 تا 28 اگست 1986 شائع شدہ نیشنل بک کونسل آف پاکستان سے لیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نہ تو ایک مقالہ ہے اور نہ ہی میں لیکچر دوں گا کیونکہ یہ دونوں نوعیتیں اپنی طرز کی دہلا دینے والی ہوتی ہیں۔ میں جو کچھ بیان کروں گا وہ میری "اوبزوریشن" ہیں جو اپنی گفتگو میں بار بار دہراتا رہا ہوں۔ یہ موضوع بجائے خود ایک طویل تھیسس کا متقاضی ہے جس پر ابھی کام ہوگا اور یقینا کام کیا جائے گا۔ میں اس مضمون میں صرف چند ضروری باتوں کی طرف آپ کی توجہ دلاوں گا۔ لہذا اگر میں اصل موضوع سے کہیں ہٹ جاوں تو اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔
اس عنوان سے میری پہلی مراجعت تو یہ ہے کہ پاکستانی زبانوں سے اردو زبان و ادب میں ابھی تک (1986 تک) کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی اور اردو ادب نے اپنے مزاج کی واضح تبدیلی کے باوصف پاکستان کی علاقائی اور منطقاتی زندگی کو وہ خواہ فردی ہو خواہ گروہی ، اپنے وجود کا ایک حصہ نہیں بنایا۔ جس طرح اردو زبان نے ، خاص طور پر اردو نثر نے اور نثر میں بھی اردو فکشن نے مغربی فکشن اور فکشن کے انداز کو جس طرح اپنے وجود کا عضو رئیس بنایا ہے اسی طرح اردو نے پاکستان کی دوسری زبانوں کے ادب سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس سے میری مراد الرغم ہے ، یعنی ابھی تک تو اس سے فائدہ نہیں اٹھایا ، آگے چل کر اس کی طبیعت میں کچھ تبدیلی آئے اور یہ اپنے فکر کی کھیتی کو دوسری پاکستانی زبانوں سے سیراب کرنے لگے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ حالانکہ جغرافیائی قربت کے باعث ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں تھا۔
زبانوں کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ یہ انسانوں کی طرح لے پالک بچے اتنی آسانی سے گود نہیں لیتیں۔ گود لینا تو دور کی بات ہے یہ ان پر اپنے دروازے بھی بڑی مشکل سے کھولتی ہیں کہ کہیں چور سپاہی کھیلتے کھیلتے محلے کے دوسرے بچے ان کے بچوں پر اثر انداز نہ ہو جائیں اور ان کی شرافت طعنوں کی زد میں آ جائے ، لیکن کچھ الفاظ ایسے میٹھے اور من موہنے ہوتے ہیں کہ اصیلوں اور خواصوں کی گود سے ہو کر بیگمات کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر اس خاندان کا ایک فرد بن جاتے ہیں۔ ماہرین لسانیات نے اس کی کئی تھیوریاں وضع کر رکھی ہیں لیکن حتمی طور پر کوئی بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ زبان دانشمند اور ترقی یافتہ قوموں کو بام عروج پر لے جانے والی کمند ہوتی ہے اور نا سمجھ اور کم ترقی یافتہ قوموں کے لئے فتنے اور فساد کا باعث۔ہمارا ملک اس اعتبار سے بڑا ہی خوش نصیب ہے کہ ہمارے ہاں دانش مند اور ترقی یافتہ گروہ اپنی اپنی زبانوں کو محبت اور یگانگت کے لئے استعمال کرتے ہیں ، تنفر یا کراہت کے لئے نہیں۔
میں ادیب ہونے کے ناطے اپنی ایک پرانی بات کو دہرائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہمارے ملک کے ادب کو مزید صحت مند ہونے کے لئے ہر زبان سے بھر پور استفادہ کرنا ہوگا۔ یہ کلیہ صرف اردو زبان کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ہمارے ملک کی دوسری زبانیں بھی شامل ہیں۔ اور نہیں تو کم از کم ذخیرہ الفاظ کی حد تک ملک کے تمام باشندوں کو ان الفاظ و معنی سے ضرور روشناس کرانا چاہیے جو ان کی اپنی بولی کی قدیم خلاوں کو پر کرسکیں۔ میرا مطلب ہے کہ ہماری علاقائی زبانیں ایک دوسرے کے ذخیرہ الفاظ کو اپنا مال سمجھ کر آزادانہ استعمال کریں اور یہاں کی ہر شے کو اپنی ہی سمجھیں۔
ایک زمانے میں اردو میں یہ صلاحیت ہوتی تھی کہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ کسی سے اجازت طلب کئے بغیر بے دریغ اپنے استعمال میں لے آتی تھی لیکن اب کئی سال سے اس کی بھی یہ صلاحیت ماند پڑ گئی ہے اور وہ سمیٹنے کے بجائے کسی حد تک سمٹنے لگی ہے۔ یہ درست ہے کہ اردو اور یہاں کی دوسری زبانوں نے اپنے ہاں انگریزی کے الفاظ کی دل کھول کر آباد کاری کی ہے اور گفتگو میں تو اپنی زبان کا ڈھانچہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔میں انگریزی کے زبردست حامیوں میں سے ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حفظ مراتب کا بھی قائل ہون۔ میں اپنی ماوں ، ماسیوں کے ہوتے ہوئے کسی اور کو "آنٹی" بنانے کے لئے تیار نہیں ہوں۔میرے پاس اپنا گھر ہے ، اپنا خاندان ہے، اپنا پروار ہے۔ میں اس کے ساتھ رہ کر ترقی کرسکتا ہوں اور اس کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہوں۔
اگر میں کہیں اردو کا بڑا نامی گرامی ادیب ہوتا تو صوبائی زبانوں سے بغیر پوچھے اور ان کا مشورہ لئے بغیر آنے والی کل کے لئے اردو زبان میں "صبحانے" کا لفظ ضرور لیتا تاکہ آنے والی کل اور جانے والی کل کے درمیان کوئی جھگڑا ہی نہ رہتا۔ آنے والے کل کو سندھی زبان میں "صبحانے" کہتے ہیں اور گزری ہوئی کل کو "کل" کہتے ہیں۔ مثلا
"سائیں ، آج آیا تھا "صبحانے" پانچ بجے والی فلائیٹ سے چلا جاوں گا ، انشاء اللہ پھر ملاقات ہوگی"
ہمارے پاس سوکھے ہوئے میوے کے لئے کوئی خاص لفظ نہیں ہے۔ لیکن سوکھے میوے کے لئے پشتو کا"بگوا" ہے۔ اسی طرح "سرسی" بلوچی زبان کا لفظ ہے اور انسان کی اس حالت کو کہتے ہیں جب وہ بازی جیت لے۔ فتح مندی حاصل کر لے اور برتری کی ترنگ میں ہر وقت مست رہے۔ مثلا
"بیوروکریسی کی "سرسی" کے آگے اس کی ایک نہ چل سکی اور وہ اسلام آباد سے خالی ہاتھ لوٹ آیا"
"بہادر خان کی موت کے بعد اس کی زندگی کلوچ کی مانند ہوکر رہ گئی تھی ، بے کار ، بے مصرف۔ نہ اسے کوئی چاہتا تھا اور نہ کوئی اس کی طرف توجہ دیتا تھا"
"کلوچ" پشتو زبان کا لفظ ہے اور کلوچ اس روٹی کو کہتے ہیں جو تندور میں لگاتے ہی گرم دیوار سے چھٹ کر نیچے جاگرے اور اس پر کوئلے ، راکھ اور بھوبل چمٹ جائے اور وہ بد ہیت ہو کر اوپر سے جل جائے اور اندر سے کچی رہے اور کسی بھی کام کی نہ ہو۔۔۔۔
بہادر خان کی موت کے بعد اس کی زندگی "کلوچ" کی مانند ہوکر رہ گئی تھی ، بے کار ، بے مصرف۔۔۔
۔
ہم اردو میں جسے عمارتی لکڑی فراہم کرنے والا درخت کہتے ہیں "ٹمبر"۔ سندھ میں اسی درخت کو "باہن" کہتے ہیں اور یہ ایک تکنیکی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
بلوچی زبان میں "دوراجی" اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو مقبول عام بنانے کے لئے ہر ایک کا خیر خواہ بنتا پھرے اور ہر حلقے میں پسندیدہ بننے کا خواہشمند ہو۔ سچ مچ نہ ہو لیکن زور لگائے۔
مقبول کا نام مقبول تھا اور "دوراجی" ہونے کی وجہ سے دلوں میں گھر نہیں کر سکا تھا۔ اس کی نیت خدمت کرنے کی نہیں تھی صرف لوگوں کے دلوں میں ہر دل عزیز ہونے کی تھی"
یا بس یہ اس کا کمال تھا کہ ہر شخص اس کے قمار کی لپیٹ میں آّگیا اور آرزوں کی پینگ میں لمبے لمبے "جھلارے" لینے لگتا۔
قمار بلوچی زبان میں لفٹ کرانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلا
کیا بات ہے سائیں ۔ آجکل ہماری "قمار" ہی نہیں کراتے
یعنی یہ لفظ محبت کی توجہ دلانے کے لئے بولا جاتا ہے
مشرق کی عورتوں نے اپنی زندگیاں "دھریاڑے" کے اندر ہی گزار دی تھیں۔ دھریاڑ یہ پنجابی زبان کا لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ رسہ ہوتا ہے جو مویشی کی تھوتھنی پر کس کر باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کی وجہ سے سر اوپر نہ اٹھا سکے۔
مشرق کی عورتوں نے اپنی زندگیاں "دھریاڑے" کے اندر ہی گزار دی تھیں اور آزادی کی فضا میں سانس نہیں لیا تھا۔
اسی طرح سردار نے کہا کہ دیکھو اس کو اسطرح مارو کہ بدن پر "لاس" نہ پڑے۔ یہ بھی پنجابی زبان کا لفظ ہے اور اس سے مراد کوڑے یا چھڑی کی ضرب کا نشان ہے۔
ہمارے ٹی وی نیوز کاسٹر ایسے الفاظ کا تو بڑی آسانی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو ہماری زبانوں میں پہلے سے موجود ہیں اور جن کے لئے موسم کا حال بیان کرنے والے لمبے لمبے فقرے جوڑ کر مفہوم ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلا:
شمالی علاقوں میں مزید برف باری کی توقع ہے۔ برف باری سے پہلے تیز "پھانڈا" اسی طرح چلتا رہے گا اور بہت ممکن ہے کہ اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوجائے۔ "پھانڈا" کے لئے انہیں جو لمبے لمبے فقرے بنانے پڑتے ہیں آپ ان سے واقف ہیں۔
تیسری دنیا کے سارے ملکوں کو اپنی زندگی بہ امر مجبوری "کوڈے" ہو کر گزارنی پڑتی ہے اور یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا لیکن ویت نام میں امریکہ کی طرح اب روس بھی افغانستان کے "کھوبے" میں پھنس گیا ہے۔ کوڈا اور کھوبہ دونوں الفاظ بھی آپ کے جانے پہچانے ہیں۔
"ڈوزئی" ۔ لوری کی ایک قسم ہوتی ہے جو بچے کو جاگتے میں سنائی جاتی ہے۔ اس سے بچے کو بہلانا مقصود ہوتا ہے ، سلانا نہیں۔ یہ ایک قسم کا مقفی بیان ہوتا ہے جو اپنے ہاتھ کی حرکات کے ساتھ ساتھ خاص انداز میں کیا جاتا ہے۔ وہ آرام سے صوفے پر بیٹھی اپنے چھوٹے بھائی کو "انگریزی ڈوزئی" سنا رہی تھی۔
twinkle twinkle little star
how i wonder what you are?
ہمارے ہاں بھی صوفی تبسم مرحوم نے اردو میں اردو ڈوزئی کی اصل داغ بیل ڈالی اور ان سے پہلے حفیظ جالندھری نے بچوں کے لئے کمال کی ڈوزئیاں لکھیں۔ چھٹی حس sixth sense کے لئے ہمارے پاس ایک ہی لفظ "تربھاو" ہے ۔ یہ کشف سے نیچے اور دانش سے ذرا اوپر کی بات ہے۔ جس طرح کھوجی اپنے "تربھاو" سے رسہ گیر کا راستہ معلوم کرلیتے ہیں اسی طرح عورتیں بھی تربھاو کے زور پر اپنے خاوندوں کا رخ اور ان کی میلان طبع کا محفلوں میں بہت اچھی طرح جان جاتی ہیں۔how i wonder what you are?
میں کوئی سکالر نہیں ہوں کہ اس موضوع پر آپ کے ساتھ چل سکوں۔ میں تو ایک متجسس طالب علم ہوں اور تجسس کے طور پر بہت سے موضوعات کو ادھر اُدھر سے "ٹھونگتا" رہتا ہوں۔ اپنی زبانوں کے ذخیرہ الفاظ سے لطف اندوز ہوتے وقت یہ چند الفاظ تھے جو مجھے یاد رہ گئے اور جن کا میں نے سرسری طور پر آپ کے سامنے ذکر کر دیا ہے۔ ان کے تلفظ کی ادائیگی میں شاید صحیح طور پر نہ کرسکا ہوں گا۔
اصل میں جب یہ الفاظ ہماری دوسری زبانوں یا اردو کا حصہ بنیں گے تو ان کا تلفظ مختلف ہوگا اور کچھ ایسا ہی ہوگا جیسا کہ اس وقت ان الفاظ کو ادا کرتے ہوئے میرا تھا۔
اس وقت جس طرح انگریزی زبان خاص طور پر امریکی انگریزی غیر زبانوں کے الفاظ اور غیر انگریزی معاشرتوں کے اسلوب کو اپنے اندر کھینچ رہی ہے اگر اردو زبان بھی اپنے ملک کی دوسری زبانوں سے فوری استفادہ کرے تو یہ ایک بہت ہی موثر اور مفید زبان بن کر ابلاغ کے بہت سے مسائل حل کرسکتی ہے اور یوں اپنے لٹریچر کو اُن ان پڑھ عوام کے لئے بھی مفید بنا سکتی ہے جو چوپالوں اور حجروں میں بیٹھ کر صرف oral tradition کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں۔
جس طرح آغاز میں عرض کرچکا ہوں کہ ابھی تک اردو زبان و ادب نے پاکستان کی دوسری زبانوں سے اتنا استفادہ نہیں کیا جتنا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح میں یہ بات بھی آخر میں دہراتا ہوں کہ ماسوا ابلاغ کی زبان کہ جس میں علاقائی اور منطقاتی زبانوں کے الفاظ اور لہجے کو بڑے سبھاو کے ساتھ اپنے صحن خانہ میں جگہ دی ہے لیکن اس کے آثار زبان و ادب میں ، لٹریچر یا فکشن کی زبان میں بہت کم نظر آتے ہیں۔
ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں بالخصوص اور اخبارات کے کالموں میں بالعموم آپ کو قصر اردو کے دالانوں میں علاقائی پچی کاری کے کچھ نمونے ضرور مل جائیں گے لیکن وہ بھی اتنے زیادہ نہیں ہیں کہ ہم ان پر انحصار کرکے یہ کہہ سکیں کہ ہماری اردو میں علاقائی زبانوں کے پانیوں کا عمل جاری ہے اور اس زبان کے دھارے کا رنگ بتدریج تبدیل ہو رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی بد دلی بھی نہیں کہ ہماری زبانوں میں پہلے کی نسبت تفاوت پیدا ہوگئی ہو۔
آپ کو یہ سن کر حیرانی بھی ہوگی اور خوشی بھی کہ پاکستانی زبانیں کروٹیں بدل بدل کر اور اپنی گزر گاہوں میں تبدیلیاں پیدا کرکے ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں۔ کچھ تجارتی اغراض کی وجہ سے ، کچھ باہمی نقل مکانی کی بنا پر ، کچھ کیسٹوں ، گیتوں ، عرسوں ، فقیروں کے زور پر اور کچھ غیر ممالک میں یکجا محنت مزدوری کی بنا پر۔