اردو زبان - سیاست اور فروغ کی کوششیں

تعمیر

محفلین
جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی کے شعبہ اردو کے پروفیسر شہزاد انجم کا ایک مضمون تعمیر نیوز کے حوالے سے پیش خدمت ہے۔
***

اردو زبان نہ صرف ہندوستان کی بلکہ دنیا کی مقبول ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ پوری دنیا میں اردو کے شیدائیوں اور عاشقوں کی ایک بڑی تعدادہے ۔ زمانے کے تغیر و تبدل کے اثرات سے بھی یہ زبان نہ صرف محفوظ رہی بلکہ اس کی داخلی قوت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اردو زبان کی ابتدا سے اب تک لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں اس کے چاہنے والے ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ غالب و مومن کے عہد میں تو یہ زبان ہندوستان کی پسندیدہ زبانوں میں سے ایک شمار کی جاتی تھی۔ باد مخالف کے اثرات سے یہ زبان نہ صرف محفوظ رہی بلکہ اپنی گھلاوٹ ، شیرینی اور رس کی وجہ سے دلوں میں جذب ہوتی چلی گئی۔

ہندوستان اردو کا اپنا گھر اور مرکز و منبع رہا ہے۔ یہیں یہ زبان پیدا ہوئی، پلی بڑھی اور فروغ پائی۔ کبھی اسے قلی قطب شاہ ملے تو کبھی ولی، کبھی اس کی ملاقات میر و غالب سے ہوئی تو کبھی مومن و مصحفی سے۔ اس زبان کو کبھی داغ، شاد، حسرت، جگر، اصغر، جوش اور فیض جیسے متوالے ملے تو کبھی اقبال ، اکبر، نظیر، حالی، شبلی جیسے عشاق ۔ ہندوستان میں آزادی سے پہلے کے حالات اور بعد کے حالات میں فرق ہونا لازمی تھا۔ چند قوم کے احباب ایسے بھی تھے جو اس زبان کی شہرت سے خائف تھے اور اسے خاص فرقے اور طبقے کی زبان سمجھتے تھے۔ لیکن چند اس زبان کے عاشق ایسے بھی ہیں جو اس زبان کی شیرینی اور حسن پر سر دھنتے تھے۔ اس زبان کو ہندوستان کی مقبول ترین زبانوں میں ایک سمجھتے تھے۔

موجودہ عہد میں اردو زبان کے فروغ کے روشن امکانات ہیں۔ میرا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ سرکاری خزانوں کے دہانے کھول دینے سے زبان عروج پاتی ہے۔ چاندی کے پتروں پر سونے کے حروف سے اردو زبان کے بورڈ اور پلیٹس آویزاں کردینے سے بھی اردو زبان ہر گز فروغ نہیں پا سکتی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ سرکاری سرپرستی میں زبان کو قوت حاصل ہوتی ہے۔
اردو زبان ہندوستان میں ایک زمانے سے گھروں میں بولی جاتی ہے۔ آج بھی لاکھوں گھروں کی مادری زبان اردو ہی ہے اور اردو کے رسائل و جرائد اور اخبارات کے قارئین کی ایک بڑی تعداد ہے ۔ مگر حالات میں تبدیلی بھی آئی ہے ۔ اب سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہے۔ روزگار حاصل کرنے کے لیے دوسری زبانوں اور علوم کی طرف عام رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ پروفیشنل اور ٹیکنیکل تعلیم کی طرف تیزی سے نئی نسل کی توجہ ہوئی ہے۔ اس کی لازمی وجہ یہ ہے کہ انھیں سماج میں باعزت زندگی بسر کرنے کے لیے جوانی کی حدوں میں قدم رکھتے ہی ایک نوکری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پہلے تو گھروں میں اردو زبان اور فارسی و عربی کے ساتھ ساتھ دیگرعلوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ پہلے فارسی کا رواج اور اس طرف رجحان لوگوں کا کم ہوا۔ اس کے بعد عربی زبان مدارس تک محدود ہو گئی اور پھر آہستہ آہستہ اردو مخصوص لوگوں کی زبان بن کر رہ گئی۔

اردو زبان کے تعلق سے کئی غلط فہمیاں ہیں۔ انھیں سمجھنا اور جاننا ضروری ہے۔ اردو داں حضرات کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ان کا مطالعہ کیا جانا چاہیے اور اقدام اٹھانے چاہیے۔

پہلے طبقے میں وہ افراد ہیں جو اردو زبان و ادب سے بے پناہ محبت کرتے ہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ عقیدت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ اردو اور اردو والوں کی قدر افزائی میں بھی کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ لیکن یہ اردو پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتے۔

دوسرے طبقے میں وہ حضرات ہیں جو اردو کی معمولی شُد بُد رکھتے ہیں۔ کسی طرح کٹر مٹر کچھ پڑھ تو سکتے ہیں لیکن لکھنا نہیں جانتے۔

تیسرے طبقے میں وہ افراد شامل ہیں جو اردو بولتے ہیں پڑھتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ انھیں اردو کا عام قاری کہہ سکتے ہیں۔ ان کی دنیا اخبارات کے مطالعے تک محدود ہے۔

چوتھے طبقے میں وہ افراد شامل ہیں جن کا اردو اوڑھنا بچھونا ہے وہ اخبارات و رسائل اور مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی عام موضوع پر کوئی مضمون بھی لکھ لیتے ہیں۔ لیکن اردو شعرو ادب ان کا میدان نہیں۔

پانچواں طبقہ ان افراد کا ہے جن کی عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔ وہ اردو کے شاعر، ادیب،صحافی اور فن کار ہیں۔ ان کے خون میں اردو شعرو ادب شامل ہے۔ وہ اساتذہ اور اردو کے ریسرچ اسکالرز اور طلبا ہیں جو ہمہ وقت اردو شعروادب اور تحقیق و تنقید کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی ، علمی وصحافتی مضامین لکھتے ہیں اور شعری و نثری تخلیقات سے اردو کے سرمائے میں بیش بہا اضافہ کرتے ہیں۔ اردو زبان اور ادب کے یہ سچے خدمت گار ہیں۔ تخلیق ، تحقیق اور تنقید سے جن کا گہرا رشتہ ہے جو بصیرت وبصارت کے دروازے وا کرتے ہیں۔

سماج میں ایک طبقہ اردو کے ان نام لیواؤں ، تماشہ گروں اور مسخروں کا ہے جو اردو زبان سے ہر گزمحبت نہیں کرتے۔ اس زبان کے سینے پر قدم رکھ کر سرکار میں عہدہ، منصب اور اعزازات و انعامات حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ اردو کے نام پر جو بھی ، جہاں بھی اور جس طرح کا بھی جلسہ ہو وہاں پہنچ کر اچک کر کوئی اونچی جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ اخبارات کے مدیران سے دوستی گانٹھتے ہیں ۔ سرکاری دعوتوں میں پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔ اپنی تصویریں اور خبریں بار بار فون کرکے اصرار کر کے ترکیبوں سے نمایاں طور پر چھپواتے ہیں اور دوسرے دن ان اخبارات کے تراشے لے کر راجدھانی کی سڑکوں پر وزرا اور چھوٹے موٹے نیتاؤں کے دروازے پر جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اردو کے حقیقی شاعرو ادیب، ناقد و محقق، صحافی اور اساتذہ خاموشی سے اپنے علمی کاموں میں مصروف ہیں اور اردو شعرو ادب کی زلفیں سنوا ررہے ہیں ۔ جبکہ مسخرے شہرت و منصب حاصل کرنے کے تماشہ گر سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ حکومت میں بھی انھیں کفش برداروں کی پوچھ ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلی اقدار کے حامل اردو کے تہذیبی روایت کے پاسدار تخلیق کا ر اور فن کار، صحافی ارو اساتذہ کی قدر کی جائے۔ سنجیدہ باوقار ، بردبار، اردو کے عالموں کے ہاتھوں میں اُردو کی باگ ڈور دی جائے ۔ ان کی ہمت افزائی کی جائے۔ مشوروں میں انھیں شامل کیا جائے تاکہ اردو سے سچی محبت کرنے والے اس زبان کو محفوظ رکھ سکیں اور اس زبان کے فروغ میں نمایاں کرداد ادا کرسکیں۔غیر سنجیدہ ، ابن الوقت اور پھکڑ قسم کے افراد سے اداروں کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔

ان دنوں ایک دوسرے قسم کی وبا پھیلتی جارہی ہے۔ اردو زبان اور ادب سے دور ہٹ کر انھیں Skilled Education کی طرف مائل کیا جارہا ہے۔ یعنی اردو کمپورزنگ، اردو کی طباعت، ڈیزائننگ، انفارمیشن ٹکنالوجی اور کمپیوٹر تعلیم کے مختلف نکات سے انھیں واقف کرایا جارہا ہے۔ روزگار حاصل کرنے اور کرانے کا یہ ایک طریقہ تو ہو سکتا ہے لیکن اردو زبان کے فروغ میں یہ ہرگز کارگر نہیں ہے بلکہ اس کے لیے نقصاندہ ہے۔ جب تک کہ کوئی شخص اردو زبان اچھی طرح لکھنا پڑھنا نہیں جانتا ہے وہ اردو کا جانکار نہیں کہلا سکتا ہے۔

آپ کمپیوٹر ، انٹر نیٹ، موبائل میسج پر اردو کے لاکھ نئے پرانے فونٹ اور طریقے ڈال دیں ۔ اس کی تعلیم عام کر دیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کہ انھیں اردو پڑھنا اور لکھنا نہیں سکھایاجاتا ہے یہ اردو کیسے پڑھ سکتے ہیں۔ کس طرح کمپیوٹر اور موبائل پر اردو کا متن پڑھیں گے۔ صحیح تلفظ اور صحیح لکھنا یہ کس طرح سیکھیں گے؟ ظاہر بات ہے کہ اس کا کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے۔
اردو زبان کے فروغ کے لیے میری ذاتی رائے میں چند نکات یہ ہیں۔۔
  1. پورے ہندوستان میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے کیونکہ ہندوستان میں اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔
  2. اردو زبان و ادب میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کو سرکاری سطح پر نوکری کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔
  3. مدارس میں اردو پڑھنے والے طلبا اور اردو پڑھانے والے اساتذہ کو خصوصی وظیفہ دیا جائے۔
  4. پرائمری سطح سے لے کر ہائر سیکنڈری سطح تک پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکولوں میں اردو ایک اختیاری زبان کی حیثیت سے لازمی طور پر پڑھانے کا انتظام کیا جائے۔
  5. اقلیتی اداروں میں اردو ایک مضمون کی حیثیت سے لازمی طور پر پڑھایا جائے۔
  6. اردو پڑھنے والوں کو پرائمری سطح سے لے کر ریسرچ کی سطح تک معقول اسکالر شپ اور فیلو شپ دی جائے۔
  7. اردو کتابوں اور رسائل کی اشاعت کا معقول انتظام کیا جائے تاکہ بروقت یہ اداروں تک پہنچ سکیں۔
  8. اردو کے اخبارات اور رسائل کو زیادہ سے زیادہ مالی مدد کے طور پر اشتہارات دیے جائیں تاکہ یہ اخبارات و رسائل پابندی سے نکلتے رہیں اور اردو کے قارئین میں اضافہ ہو۔
  9. اردو کے سرکاری و غیر سرکاری اداروں سے سیاسی مزاج، ذہن ، اور پھکڑ قسم کے لوگوں کو دور رکھا جائے۔
  10. اردو کے ادارو ں میں اردو شعر وادب کے حقیقی خدمت گاروں کو رکھا جائے تاکہ وہ نئی سوچ کے ساتھ اردو کے فروغ کا کام کرسکیں۔
  11. پورے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی راجدھانیوں میں قومی اردو کونسل کے ریجنل سنٹر قائم کیے جائیں تاکہ اردو زبان و ادب کے لیے حکومت ہند کی پالیسیوں سے واقف ہوسکیں اور مختلف اسکیموں کے تحت آسانی سے مالی امداد حاصل کر سکیں۔
  12. ہر صوبے کی راجدھانی میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اردو اکادمی کا قیام عل میں لایا جائے۔
  13. مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی طرح شمالی ہند میں اردو یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں اسکول کی سطح سے اعلیٰ سطح تک اردو میڈیم تعلیم کا بند و بست ہو۔
میں نے درج بالا سطور بے حد دردمندی کے ساتھ لکھا ہے۔ مجھے اس بات کا شدّت سے احساس ہے کہ اردو زبان آہستہ آہستہ سیاست کی جکڑ میں آتی جارہی ہے۔ اُردو کے ادارے اردو کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے چشم پوشی کر رہے ہیں اور سیاست دانوں کی خوشنودی کے لیے اردو زبان کے فروغ کی کاوشوں کو پس پشت ڈال رہے ہیں ۔ رسائل کو تماشہ گروں اور مسخروں کی تصویروں اور خبروں سے بوجھل سے بوجھل تر بناتے جا رہے ہیں۔ حقیقی شعرا و ادبا اور صحافیوں کی آوازیں اور سنجیدہ کاوشوں کو ہر ممکن دبانے کی کاوش کر رہے ہیں ۔ تاریخ ان اداروں کی غلطیوں کو ہر گز معاف نہیں کرے گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور ادب کے نام پر ہو رہے تماشے کو بند کیا جائے۔
 
Top