اردو دنیا کا، برصغیر کا سب سے بڑا غزل گو

فاتح

لائبریرین
دوستو! آخر کار یہ فیصلہ تو ہو گیا کہ اردو دنیا کا، بر صغیر کا سب سے بڑا غزل گو کون ہے۔

ظفر اقبال سے بی بی سی اردو کے ایک انٹرویو سے اقتباس:
"۔۔۔ شمس الرحمٰن فاروقی اور گوپی چند نارنگ ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں، خون کے پیاسے ہیں، لیکن وہ دونوں بہ یک زبان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ظفر اقبال ہی اس وقت اردو دنیا کا، برصغیر کا سب سے بڑا غزل گو ہے۔ میں اپنے بارے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں، حالانکہ میں نے کبھی اپنے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ میں اپنی شاعری کے بارے میں کچھ نہیں کہتا لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جتنا کشٹ میں نے اٹھایا ہے اس پیش نظر شعر وہ ہو گا جسے میں کہوں گا کہ یہ شعر ہے اور جس کو میں کہوں کہ شعر نہیں ہے وہ شعر نہیں ہو گا۔۔۔" (ظفر اقبال)

مکمل انٹرویو پڑھیے
انٹرویو کی آڈیو سنیے

انٹرویو کا یہ حصہ پڑھ کر دلاور فگار کی نظم "شاعر اعظم" یاد آ گئی۔ آپ بھی پڑھیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ظفر اقبال کے یہ "دعٰوے" پڑھ کر ہنس ہی سکتے ہیں۔ یہ موصوف ایسے ہی بڑ بولے ہیں، جنگ وغیرہ میں میں نے انکے انٹرویو پہلے بھی پڑھے تھے اور کچھ اسی قسم کی بے سر و پا باتیں کی تھیں انہوں نے۔

اردو شاعری کی تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو ہر دور کا ایک نمائندہ شاعر ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے، جیسے میر، پھر غالب، پھر اقبال، پھر فیض۔ ان تمام شعراء کرام اور انکے دور کے ساتھ ایسے شاعر بھی منسلک ہوتے ہیں جو ہوتے تو باکمال ہیں لیکن قبولِ عام کی وہ سند حاصل نہیں کر پاتے جو کہ ایک شاعر کو "اول نمبر" شاعر بنا دیتی ہے جیسے سودا میر کے ساتھ، مومن اور ذوق غالب کے ساتھ، جگر وغیرہ اقبال کے ساتھ اور جوش، ناصر کاظمی وغیرہ فیض کے ساتھ بلکہ قاسمی مرحوم گو فیض کے دوست تھے لیکن اسی "اول نمبر" کی وجہ سے ان سے گریزاں ہی رہے۔ اور یہ مزے کی بات ہے کہ ہر دور میں ان شعرا کی آپس میں چشمک بھی رہی ہے۔

موجودہ عہد میں، جب کہ منیر نیازی اور قاسمی صاحب بھی نہیں رہے، میرے خیال میں یہ "اعزاز" فراز کو حاصل ہے، گو امجد اسلام امجد بھی دعٰوی کرتے ہیں کہ وہ اس وقت سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں (یہ بات میں نے انکے ایک ٹی وی انٹرویو میں سنی تھی)۔ ظفر اقبال تو شاید کسی شمار میں ہی نہیں۔

دلاور فگار کی آپ نے خوب یاد دلائی، اسی قسم کی باتیں سن کر انہوں نے "شاعرِ اعظم" کہی ہوگی۔

۔
 

فاتح

لائبریرین
ظفر اقبال کے یہ "دعٰوے" پڑھ کر ہنس ہی سکتے ہیں۔ یہ موصوف ایسے ہی بڑ بولے ہیں، جنگ وغیرہ میں میں نے انکے انٹرویو پہلے بھی پڑھے تھے اور کچھ اسی قسم کی بے سر و پا باتیں کی تھیں انہوں نے۔

اردو شاعری کی تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو ہر دور کا ایک نمائندہ شاعر ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے، جیسے میر، پھر غالب، پھر اقبال، پھر فیض۔ ان تمام شعراء کرام اور انکے دور کے ساتھ ایسے شاعر بھی منسلک ہوتے ہیں جو ہوتے تو باکمال ہیں لیکن قبولِ عام کی وہ سند حاصل نہیں کر پاتے جو کہ ایک شاعر کو "اول نمبر" شاعر بنا دیتی ہے جیسے سودا میر کے ساتھ، مومن اور ذوق غالب کے ساتھ، جگر وغیرہ اقبال کے ساتھ اور جوش، ناصر کاظمی وغیرہ فیض کے ساتھ بلکہ قاسمی مرحوم گو فیض کے دوست تھے لیکن اسی "اول نمبر" کی وجہ سے ان سے گریزاں ہی رہے۔ اور یہ مزے کی بات ہے کہ ہر دور میں ان شعرا کی آپس میں چشمک بھی رہی ہے۔

موجودہ عہد میں، جب کہ منیر نیازی اور قاسمی صاحب بھی نہیں رہے، میرے خیال میں یہ "اعزاز" فراز کو حاصل ہے، گو امجد اسلام امجد بھی دعٰوی کرتے ہیں کہ وہ اس وقت سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں (یہ بات میں نے انکے ایک ٹی وی انٹرویو میں سنی تھی)۔ ظفر اقبال تو شاید کسی شمار میں ہی نہیں۔

دلاور فگار کی آپ نے خوب یاد دلائی، اسی قسم کی باتیں سن کر انہوں نے "شاعرِ اعظم" کہی ہوگی۔

۔

درست فرمایا کہ موجودہ عہد میں اگر کسی کو یہ اعزاز دیا جا سکتا ہے تو وہ فراز ہی ہے۔
اور فراز کا یہ عالم ہے کہ وہ لکھتا ہے:
"مجھے اپنے بارے میں یا اپنی شاعری کے بارے میں نہ کوئی زعم ہے نہ دعویٰ۔ ایک بات ضرور ہے کہ میرے پڑھنے والوں نے مجھے ہمیشہ محبت دی"۔
 

الف عین

لائبریرین
ظفر اقبال کی اہمیت اپنی جگہ پر۔ مگر ان کا یہ دعویٰ پسند نہیں آیا۔
فراز اور امجد اسلام امجد کا جہاں تک سوال ہے، یہ ہر دل عزیز ضرور ہیں، لیکن پاپولر شعراء کو اردو کے ناقدین اکثر اہمیت نہیں دیتے۔ یا اسی لمحے دینا بند کر دیتے ہیں جب وہ پاپولر ہو جاتے ہیں۔ اور اخچر اس قسم کے پاپولر شعراء کو اس قسم کا زعم زیادہ ہو جاتا ہے۔ مثال۔۔ بشیر بدر۔ وہ واقعی اہم شاعر تھے، لیکن ان کو بھی یہی زعم ہو گیا، اور اسی زعم نے ان کی لٹیا ڈبو دی کہ ان کے ہم جیسے دوست بھی کنارہ کش ہو گئے۔
ظفر اقبال کو میں بھی اب تک اہم ترین غزل گو سمجھتا تھا (اوراس کے ساتھ عرفان صدیقی کو، جن کو بہت کم اہمیت دی گئی)، لیکن اس بیان سے ان کا یہ احترام کم ہو گیا۔ افسوس۔
 
ظفر اقبال کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی ہی کھینچی ہوئی لکیر کو دوبارہ اسی طرح نہیں کھینچ سکتا جو اسکی پہلی لکیر کے برابر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر بھی ایک ایسا ہی شخص ہوتا ہے اسکا ہر شعر با لمثل ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ضروری نہیں کہ ہر شخص اچھی لکیر کھنچنا جانتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بچہ ، بڑے کے مقابلےمیں اچھی لکیر کھنچ لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری کسی کی میراث نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top