اردو تنقید کے لیجنڈ پروفیسر احتشام حسین

نوید صادق

محفلین
اردو تنقید کے لیجنڈ پروفیسر احتشام حسین
(رضوان احمد)
Professor Ehtisham Hussain
پروفیسر احتشام حسین کا شمار اردو کے نام ور نقادوں میں ہوتا ہے، خاص طور پر ترقی پسند تنقید کا ذکر ان کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔ لیکن وہ صرف نقاد ہی نہیں تھے، بلکہ استاد، افسانہ نگار، سفر نامہ نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر بھی تھے۔ ان کے نامور شاگر د بر صغیر ہند و پاک میں پھیلے ہوئے ہیں، جنھوں نے ہر جگہ احتشام حسین کے نام کو سر بلندرکھا۔

اگرچہ پروفیسر احتشام حسین تمام اصناف پر حاوی تھے، لیکن انہوں نے بعد میں خود کو دو ہی تک محدود رکھا۔ ایک تو درس تدریس، جس کا تعلق روزی روٹی سے تھا اور دوسرے تنقید۔ شروع میں انہوں نے شاعری کی اور ان کا تخلص ’حیراں‘ تھا لیکن شاعری انھوں نے جلد ہی ترک کر دی تھی۔ اسی طرح انھوں نے افسانے بھی لکھے جنہیں داد و تحسین سے بھی نوازا گیا۔

امریکہ اور انگلستان کا سفر نامہ ساحل اور سمندر تحریر کیا، جس کو بے حد پذیرائی ملی۔مگر کافی کچھ لکھنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ان سب چیزوں میں ان کی تنقیدی صلاحیت ضائع ہو رہی ہے۔ اس لیے انہوں نے بقیہ ربع صدی تنقید پر ہی صرف کی اور نہ صرف تنقید کے میدان میں اپنا منفرد مقام بنایا۔بلکہ روایتی تنقید سے الگ اپنی علاحدہ راہ نکالی۔ پروفیسر احتشام حسین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ان پر مارکسیت کا غلبہ تھا، مگر انہوں نے اعتدال کی راہ اختیار کی تھی۔

سید احتشام حسین کی پیدائش اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ ماہل میں 21 اپریل سنہ 1912کو ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنی بستی کے ہی اسکول میں پائی اور ہائی اسکول اعظم گڑھ سے پاس کیا۔ پھر انٹر میڈیٹ بی اے اور ایم اے الہ آباد سے کیا۔ عملی زندگی کی شروعات لکھنئو یونیورسٹی سے کی۔ جہاں وہ شعبہٴ اردو میں لکچرر ہوئے اور بعد میں الہ آباد یونیورسٹی میں پروفیسر ہوئے۔

انہوں نے ایک درجن سے زائد کتابوں کی تصنیف، ترتیب اور تدوین کی۔ ان کی تنقیدی کتابیں تنقیدی جائزے، روایت اور بغاوت، ادب اور سماج، تنقید اور عملی تنقید اور ذوق ادب، شعوراوراعتبار نظر کے نام سے شائع ہوئیں۔ افسانوں کا مجموعہ ”ویرانے“کے نام سے شائع ہوا تھا اور شعری مجموعہ ”روشنی کے دریچے“ کے نام سے چھپا۔ ڈرامہ ”اندھیری راتیں“بھی شائع ہوا۔ ان کے علاوہ انہوں نے کئی اہم کتابوں کی تدوین بھی کی تھی۔ امریکہ اور انگلستان کا سفر نامہ ’ساحل اور سمندر‘ 1955میں چھپا تھا۔ اس وقت تک اردو میں امریکہ کا کوئی سفر نامہ شائع نہیں ہوا تھا کیوں کہ اردو کے ادیبوں کے وہاں جانے کے مواقع ہی حاصل نہیں ہوئے تھے۔

احتشام حسین مارکسی تنقید نگار ضرور تھے لیکن ادب کے بارے میں وہ ایک وسیع نظریہ رکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

”جب ہم لفظ تہذیب استعمال کرتے ہیں تو اسے کسی قوم یا ملک کے داخلی یا خارجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد ہو تی ہیں جنہیں اس ملک کے لوگ عزیز رکھتے ہیں اور جن کے حوالے سے وہ دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ انسان قدروں کے بنانے اور محفوظ رکھنے کی جدو جہد میں اپنی قومی تہذیب پیدا کرتا ہے۔ وہ تہذیب اس کے ماضی سے ہم آہنگ ہو تی ہے اور دنیا کی عام رفتار ترقی سے نسبت رکھتی ہے۔ تہذیب قومی زندگی کی ساری جذباتی، روحانی او رمادی امنگوں اور خواہشوں کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اس کو بناتی اور سنوارتی ہے، اسے ایک ایسا نصب العین بخشتی ہے جو زمانے کی ضروریات کا ساتھ دے سکے۔ وہ ان ساری طاقتوں کو سمیٹے ہوئے آگے بڑھتی ہے جو ماضی نے اسے عطا کی ہیں۔ میرے خیال میں تہذیب سے عام طور پر یہی باتیں مقصود ہو تی ہیں۔“ (ادب اورتہذیب)

حالانکہ احتشام حسین ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن وہ لادینیت کو فروغ دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ترقی پسندی کے سلسلہ میں بھی اپنا واضح نظریہ پیش کیا تھا۔ اور خود اسے اپنے پر بھی نافذ کرتے تھے اس سے سر منہ تجاوز نہیں کرتے تھے۔ لکھتے ہیں:

”ترقی پسندی ایک تاریخی حقیقت ہے اسے معاشی یا معاشرتی تبدیلیوں کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ان تغیرات کے باہر اس کا صرف ایک مابعد الطبعیاتی مفہوم رہ جائے گا اور یہ مفہوم تغیرات کے سمجھنے میں مدد نہیں دیتا۔ ویسے تو ہر ملک اورہر زمانے کا ادب اس عہد کے رحجانات کا شعوری اور غیر شعوری طور پر پتہ دیتا ہے اس کے تجزیے میں معاشی یا معاشرتی حالات کا اثر ضرور دکھائی دے گا لیکن اردو ادب میں غدر سے پہلے ترقی کی واضح روایتیں نہیں ملتیں۔ زبان کی عہد بہ عہد ترقی کو چھوڑ کر اردو ادب میں نصف 19ویں صدی تک ایک طرح کی یکسانیت ملتی ہے۔ وجہ کے لیے کہیں دور نہیں جانا ہے۔ ادب کا درباری زندگی سے تعلق، امرا کی سرپرستی، جاگیردارانہ نظام میں اونچے طبقہ کی زندگی اور خواہشات کا اظہار اس وقت تک یکسانیت اور یک رنگی پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔ جب تک یہ حالات ہندوستان میں موجود تھے۔ یہ حالات حقیقتاً بہت کم لیکن روایتی حیثیت سے اب بھی موجود ہیں۔ اس لیے بہت سے لوگ تاریخی طور سے نہیں بلکہ جذباتی طور سے آج بھی انہیں کے اظہار میں تسکین پاتے ہیں اور ان کا رواج چلا جا رہا ہے ورنہ تاریخی حیثیت سے ان کا دور ختم ہو چکا ہے۔“
(اردو میں ترقی پسندی کی روایت)

حالانکہ پروفیسر احتشام حسین کا شعری سرمایہ مختصر ہے۔ لیکن وہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ پروفیسر سحر انصاری ان کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”احتشام حسین کا لہجہ ایک مفکر شاعر کا لہجہ ہے۔ جو اندر ہی اندر کرب آگہی کا عذاب سہ رہا اور دھیمے دھیمے سلگ رہا ہے یہ کیفیت کسی ذاتی غم کی نسبت سے بھی ہو سکتی ہے لیکن اس میں اپنے عہد، اپنے نصب العین اور انسان نواز آفاقیت کی موج تہہ نشیں کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ احتشام حسین کی شاعری غالب، اقبال، جوش، فراق، مجاز اور فیض کے خاندان سخن سے تعلق رکھتی ہے۔ اس شاعری کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ ہر استاد سے فیض حاصل کرنے کے باوجود اپنی انفرادیت کواجاگر کرنے اور اپنے ذاتی لب و لہجہ کو متشکل کرنے کا ہنر بھی سکھاتی ہے اور یہ وصف احتشام حسین کی شاعری میں موجود ہے۔ “

ان کی غزلوں کے چند اشعار:

رگوں میں غم کا لہو بن کے جو مچلتے ہیں
وہ گیت ہیں کہ مری شاعری میں ڈھلتے ہیں
وہ راہ جس پہ کئی بار بچھ چکی لاشیں
اسی پہ روز نئے کارواں نکلتے ہیں
تری نگاہ جگاتی ہے شوق کا جادو
جو اک چراغ بجھا سو چراغ جلتے ہیں

حصارِ عہد سے باہر بھی گونج جاتے ہیں
حدودِ وقت میں لکھے گئے جو افسانے

آساں راہِ فکر حریفوں نے ڈھونڈ لی
میرے جنوں کی منزلِ دشوار دیکھ کر

یا پھر ان کا یہ مشہو رشعر:

روشن نہ سہی صبحِ وطن اے دلِ پرشوق
بے رونقیِ شامِ غریباں تو نہیں ہے

پروفیسر احتشام حسین کا یکم دسمبر سنہ 1972کو الہ آباد میں انتقال ہو گیا اور وہیں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ ان کے انتقال کے بعد ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہندو پاک کے کئی ادبی رسائل نے ان پر خصوصی نمبر شائع کیے۔ ان کے شاگردوں میں ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر افضال احمد،ڈاکٹر عالیہ امام، ڈاکٹر احراز نقوی، ڈاکٹر شمیم نکہت، ڈاکٹر شارب ردولوی ڈاکٹر شمیم حنفی،ڈاکٹر نسیم بانو،ڈاکٹر قدسیہ بیگم اور ڈاکٹر مجاور حسین رضوی نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا۔ ان کے ایک شاگر د حسن عابد نے 11,12فروری سنہ 1993کو کراچی میں پروفیسر سید احتشام حسین بین الاقوامی سیمنار کا انعقاد کیا تھا اور پھر ارتقا کا احتشام حسین نمبر بھی شائع کیا تھا۔ جس کی دستاویزی حیثیت ہے اور یہ یاد گاری نمبر احتشام شناسی میں بے حد معاون ہو سکتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ یاد دلا دوں نوید کہ احتشام صاحب اپنے نام سے شاعری نہیں کرتے تھے. شاعری میں ان کا قلمی نام ا.ح. نورِ ازل تھا.
 
Top