تلمیذ

لائبریرین
فرخ صاحب، یہ دھاگہ آج ہی نظر سے گذرا ہے حالانکہ کافی پرانا ہے۔ تمام مراسلات کوپڑھنے سےبہت لطف آیا ۔ بہت شکریہ۔
 

سیما علی

لائبریرین
پچھلے دنوں گلزار صاحب کی ایک غزل پڑھی ریختہ پر -ان کا شمار بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے مگر ان کی اس غزل میں میرے نزدیک ایطائے جلی در آیا ہے جس کی وجہ سے سوائے مطلع کے پوری غزل میں قافیہ قائم نہ ہوسکا -غزل کچھ یوں ہے :
دن کچھ ایسے گزارتا ہے کوئی
جیسے احساں اتارتا ہے کوئی
دل میں کچھ یوں سنبھالتا ہوں غم
جیسے زیور سنبھالتا ہے کوئی
آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
پیڑ پر پک گیا ہے پھل شاید
پھر سے پتھر اچھالتا ہے کوئی
دیر سے گونجتے ہیں سناٹے
جیسے ہم کو پکارتا ہے کوئی
گلزار


اور میں نے ایک مرتبہ فارسی غلط یا صحیح کچھ یوں بگھاری تھی :
چہ چیز است آورد چہ چیز است آمد
غزل غزل نباشد چوں قافیہ ندارد
تفصیل اس قضیے کی ہے کہ غزل میں الفاظ :گزارتا ،اتارتا،سنبھالتا ،جانتا ،اچھالتا ،پکارتا بطور قوافی باندھے گئے ہیں اور مجھےاس سے اختلاف ہے - میں یہی کہتا ہوں کہ گزارتا ،اتارتا قوافی ہیں -آگے اگر سنوارتا ،مارتا ،ہارتا وغیرہ جیسے الفاظ ہوتے تو قوافی کی فہرست ٹھیک ہوتی مگر فی الحال نہیں -میرے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ غزل کی ردیف ہے <ہے کوئی>اور ردیف کہتے ہیں غزل میں ہر شعر کے آخر میں ہوبہو آنے والے الفاظ لہٰذا سمجھنے کے لیے ردیف کی تعریف کی رو سے <تا> کو بھی ردیف میں داخل سمجھیں یعنی ردیف ہو گئی <تا ہے کوئی > اب بقایا قوافی کچھ یوں ہو گئے :گزار ،اتار،سنبھال ،جان ،اچھال ،پکار-اب بتائیے کیا یہ قوافی ہیں ظاہر ہے سوائے گزار ،اتار ،پکار کے نہیں-

ثابت ہواکہ غزل میں ایطائے جلی کا عیب ہے-
 

سیما علی

لائبریرین
میں نماز پڑھ رہا تھا، لاحول نہیں
ایک روز داغؔ دہلوی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک صاحب ان سے ملنے آئے اور انہیں نماز میں مشغول دیکھ کر لوٹ گئے ۔اسی وقت داغؔ نے سلام پھیرا۔ ملازم نے کہا ’’فلاں صاحب آئے تھے واپس چلے گئے ۔‘‘
فرمانے لگے ۔’’دوڑ کر جا،ابھی راستے میں ہوں گے ۔‘‘ وہ بھاگا بھاگا گیا اور ان صاحب کو بلا لایا ۔
داغؔ نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ آکر چلے کیوں گئے ؟ ‘‘
وہ کہنے لگے ۔’’آپ نماز پڑھ رہے تھے ، اس لیے میں چلا گیا ۔‘‘
داغؔ نے فوراً کہا۔
’’حضرت! میں نماز پڑھ رہا تھا ، لاحول تو نہیں پڑھ رہا تھا جو آپ بھاگے۔‘‘
 
Top