ادبی لطائف

پطرس بخاری سے عبد المجید سالک نے کہا کہ آپ اپنے مجموعہ کا نام ’’بخاری شریف‘‘ رکھ دیجئے گا کافی پسند کی جائے گی پطرس بخاری نے برجستہ جواب دیا اور آپ اپنے مجموعہ کا ’’کلام مجید ‘‘رکھ دیجئے گا ۔۔:jokingly:
 
عہدِ حاضر کے خاکہ نگاروں میں ایک اہم نام سلمان باسط کا ہے۔ اُن کی کتاب ’’خاکی خاکے‘‘ خاصی مقبول ہوئی۔

ایک خاکہ ’’کالا چٹا پہاڑ‘‘ میں لکھتے ہیں:

رؤف امیر صرف شاعری میں ہی بلند آہنگ نہیں رکھتا، خیر سے آواز بھی صورِ اسرافیل سے کم نہیں۔ جب وہ آواز کی تمام تر دھمک کے ساتھ ’’صریرِ خامہ‘‘ کے اجلاسوں میں گفتگو کرتا ہے تو غالب، شیفتہ اور اقبال بھی قبروں سے اٹھ کر جھٹ اپنے اپنے نامہء اعمال جھاڑنے لگتے ہیں کہ شاید ان کو پیش کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ (صفحہ 56)

رؤف امیر خوش مزاج ہو نہ ہو خوش خوراک ضرور ہے۔ جیب میں مرغ کڑاہی کے لئے پیسے ہوں تو اس کو کسی نہ کسی دوست کے ہمراہ کھانا کھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خیال رہے کہ جیب کا اپنا ہونا شرط نہیں، کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی شاعری میں جو عدو کا ذکر ہے تو وہ در اصل کھانا ہے جس سے وہ حسبِ توفیق خوب خوب نبرد آزما ہوتا ہے۔ اپنی اسی بسیار خوری کی عادت کی وجہ سے وہ پیٹ کی جملہ بیماریوں میں مبتلا بھی رہتا ہے مثلاً ’’پیٹ کا ہلکا ہونا‘‘ دوسروں کی شاعری دیکھ کر ’’پیٹ میں مروڑ اٹھنا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب ان بیماریوں کا علاج کرنے سے تو ڈاکٹر وحید احمد تک قاصر ہے۔ (صفحہ 58 )۔

۔۔۔۔
 
یہاں کے ادبی حلقوں میں ایک لطیفہ کئی سال سے گردش میں ہے۔

ایک شاعر نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اور اولین تبلیغ اپنے ادیب دوستوں سے شروع کی۔ کئیوں نے سمجھایا بجھایا، کئیوں نے لعن طعن کی، مگر وہ اپنے دعوے سے باز نہ آئے۔ اپنے جاننے والوں میں ایک بڑے شاعر اور نقاد کو اپنی امت میں شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی۔ نقاد نے کہا: ’’میں تمہیں نبی مان ہی نہیں سکتا۔‘‘، بولے: ’’کیوں نہیں مان سکتے؟‘‘ کہا: ’’تم نبی کیسے ہو سکتے ہو، جب کہ میں نے تمہیں بھیجا ہی نہیں۔ ‘‘
کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے کسی اور کو اپنی امت میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ حضرتِ نقاد سے پوچھا گیا: ’’یہ تم نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا؟‘‘۔ کہا: ’’نہیں یار! در اصل اُس بد دماغ کا یہی علاج سوجھا تھا مجھے!‘‘
 
سلمان باسط اسی کتاب میں ’’عروضیا‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:۔

یعقوب آسی کو قرآنِ پاک، علامہ اقبال ور خطاطی سے محبت ہے۔ اس نے اپنی خطاطی کے ’’نادر‘‘ فن پارے اپنے ڈرائنگ روم میں سجا رکھے ہیں، جن میں اس نے تختی لکھنے کے انداز میں پورنے ڈال کر خامہ فرسائی کی ہے۔ اگرچہ یہ خطاطی رشید دہلوی اور خورشید رقم کے فن سے اور خطاطی کے فنی اصولوں سے حیرت انگیز بُعد رکھتی ہے لیکن اس کے مسلمان اور ’’اہلِ حدیثِ دل‘‘ ہونے کی دلیل ہے۔
اس کی شخصیت اور گفتگو میں عجیب سا ڈھیلاپن ہے۔ اس کی گفتگو سے سردیوں کے موسم میں اونگھتی ہوئی دوپہر کا احساس ہوتا ہے۔ شاید علمِ عروض کا اثر اس کے بات کرنے کے اندا پر بھی پڑا ہے لہٰذا وہ ایک مخصوص بحر میں بات کرتا ہے اور اس کا یہ گفتگو کا انداز اتنا ڈھیلا ہوتا ہے کہ سننے والے کو جمائیاں آنے لگتی ہیں۔ (صفحہ 103)

۔۔۔۔ ’’خاکی خاکے‘‘ از سلمان باسط 1999۔​
 
مزید لکھتے ہیں:


’’کیا تنقیدی جملہ ہے‘‘ غالباً اس کا تکیہء کلام ہے۔ کسی ادیب کا مضمون پڑھ رہا ہو، کوئی دوست گفتگو کر رہا ہو، کسی کے بے ہنگم قہقہے جاری ہوں، یعقوب آسی صرف ایک ہی بات کہے گا ’’واہ! کیا تنقیدی جملہ ہے!‘‘۔ سنا ہے آسی ہماری بھابھی کی ڈانٹ پھٹکار کو بھی ’’کیا تنقیدی جملہ ہے‘‘ کہہ کر سہار جاتا ہے۔ شاعر بچارا اور کر بھی کیا سکتا ہے اور شاعر بھی ایسا جو سر تا پا آسی ہے۔ آس ہی آس۔ کہ شاید کسی دن سورج اس کے بام پر بھی چمکے، سنہرے دن اس کے آنگن میں بھی اتریں اور مسرتوں کی کہکشائیں اس کے آسمان پر بھی نمودار ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے نام کے دوسرے حصے کے پہلے حرف کو ’’صحیح‘‘ طریقے سے نہیں لکھے گا اور ع سے عاصی لکھ کر اپنے تمام جلی و خفی گناہوں کا اقرار نہیں کرے گا۔ (صفحہ 103، 104)

۔۔۔ ۔ ’’خاکی خاکے‘‘ از سلمان باسط 1999۔
 
سلمان باسط اسی کتاب میں ’’عروضیا‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں:۔

یعقوب آسی کو قرآنِ پاک، علامہ اقبال ور خطاطی سے محبت ہے۔ اس نے اپنی خطاطی کے ’’نادر‘‘ فن پارے اپنے ڈرائنگ روم میں سجا رکھے ہیں، جن میں اس نے تختی لکھنے کے انداز میں پورنے ڈال کر خامہ فرسائی کی ہے۔ اگرچہ یہ خطاطی رشید دہلوی اور خورشید رقم کے فن سے اور خطاطی کے فنی اصولوں سے حیرت انگیز بُعد رکھتی ہے لیکن اس کے مسلمان اور ’’اہلِ حدیثِ دل‘‘ ہونے کی دلیل ہے۔
اس کی شخصیت اور گفتگو میں عجیب سا ڈھیلاپن ہے۔ اس کی گفتگو سے سردیوں کے موسم میں اونگھتی ہوئی دوپہر کا احساس ہوتا ہے۔ شاید علمِ عروض کا اثر اس کے بات کرنے کے اندا پر بھی پڑا ہے لہٰذا وہ ایک مخصوص بحر میں بات کرتا ہے اور اس کا یہ گفتگو کا انداز اتنا ڈھیلا ہوتا ہے کہ سننے والے کو جمائیاں آنے لگتی ہیں۔ (صفحہ 103)

۔۔۔ ۔ ’’خاکی خاکے‘‘ از سلمان باسط 1999۔
ہم محفلین کا اصرار ہے کہ سلمان باسط کی کتاب سے خاکہ ’’ عروضیا‘‘ مکمل ، محفل میں پیش کردیا جائے۔
 
منشا یاد پر ’’حسبِ منشا‘‘ کے زیرِ عنوان سلمان باسط کا اندازِ تحریر دیکھئے :۔

کبھی کبھی تو وہ اپنے چہرے مہرے سے ایک بھرے پرے دیہاتی خاندا کی ’’بے بے‘‘ نظر آتا ہے جو گاؤں کے آبائی مکان کے صحن کے ایک کونے میں بنے ہوئے گرمائی باورچی باورچی خانے میں ہنڈیا کے پاس بیٹھ کر آنکھوں سے ممتا کی پھوار برسانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو اور اُن کے بچوں کو آلو گوشت رکابیوں میں ڈال ڈال کر دینے میں مصروف ہو۔ ہاں البتہ اس کی آنکھوں پر سجی عینک اسے تھوڑی دیر کے لئے دانشوری کا تڑکا لگا دیتی ہے مگر عینک اتارنے کے بعد وہی شیخوپورے کا دیسی محمد منشا نکل آتا ہے جس کی آواز میں گھر کے دودھ سے نکلے ہوئے مکھن کی ملائمت ہے۔ (صفحہ 96)

۔۔۔ ۔ ’’خاکی خاکے‘‘ از سلمان باسط 1999​
 
سلمان باسط خود اپنے خاکے ’’ڈھول کے پول‘‘ میں لکھتے ہیں:

شلوار قمیض اس کا پسندیدہ لباس ہے۔ بہت زیادہ تکلف کرنا مقصود ہو تو اور ویسٹ کوٹ بھی پہن لیتا ہے جس کے لئے بہت سا کپڑا ویسٹ کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار سکارف یا مفلر کی مدد سے حسبِ توفیق فیشن بھی کر لیتا ہے۔ اس کے آگے نہ وہ جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے جانے کی گنجائش ہے۔ شلوار قمیض کا پہناوا غالباً اس کی ’’فربہانہ‘‘ مجبوری ہے۔ ایک زمانے میں وہ کوٹ پتلون اور فیشن کے دیگر اجزائے ترکیبی کے استعمال میں خاصا ڈھیٹ تھا مگر پھر اس کے parabola بنے ہوئے پیٹ نے اس کی پینٹ اتروا دی۔ اب بھلا ہو کھلے ڈلے پاکستانی لباس کا کہ ستر بھی ڈھانپ رہا ہے اور پاکستانی بنو، پاکستانی لباس پہنو کا پرچار فخر سے کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے۔ (صفحہ 107)

۔۔۔ ۔ ’’خاکی خاکے‘‘ از سلمان باسط 1999۔​
 
عروضیا
یعقوب آسی سے پہلی بار ملتے ہی احساس ہوتا ہے کہ آپ کسی شاعر سے مل رہے ہیں۔ چہرے پر وہی مخصوص بیزاری، لہجے میں تھکن اور گفتگو میں اکتاہٹ۔ وہ شاعروں کی اس لڑی سے پرویا ہوا دکھائی دیتا ہے جو دلی اجڑنے کے بعد بھی جڑ نہیں پائی۔ اسے جاننا مشکل ہے ہی نہیں۔ اسے نہ جاننا مشکل ضرور ہے۔ جو شخص شاعری، افسانہ، تحقیق، عروض اور دیگر اصنافِ سخن میں ٹھیک ٹھاک منہ مارتا ہو، ایک متحرک حلقے کا متحرک جنرل سیکریٹری ہو، ہر ہفتے ادبی صفحوں پر اس کی رپورٹیں چھپتی ہوں آپ اس کو جانے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔ پھر اپنی شخصیت کے سارے خطوط تو اس نے دکانوں پر لٹکے نرخناموں کی طرح اپنے باہر آویزاں کر رکھے ہیں۔
۔۔۔۔ جاری ہے​
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آویزاں کر رکھے ہیں۔​
دکانوں سے یاد آیا کہ موصوف نے ایک دکان بھی کھول رکھی ہے۔ وہ عفیفہ چونکہ غیر محرموں سے زیادہ میل ملاپ پسند نہیں کرتی اس لئے زیادہ تر پردے میں ہی رہتی ہے اور اپنا گھونگٹ صرف تب اٹھاتی ہے جب آسی کے گھر آئے ہوئے کسی مہمان کے لئے باسی بسکٹوں کے ڈبے یا گھر کے لئے ماچس کی ڈبیوں کی ضرورت پڑے۔ دکان کا نام ’’ملٹی سٹور‘‘ ہے۔ ظاہر ہے نام دکان کے متنوع مقاصد کی چغلی کھاتا ہے۔ یار لوگ اس دکان کی آڑ میں کسی اور طرح کے کاروبار کے بارے میں موشگافیاں کرتے رہتے ہیں مگر میری معلومات کے مطابق دکان کے نہ چلنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ بھی شاعر ہے اور شاعر اسی طرح ایک کامیاب بزنس مین نہیں بن سکتا جس طرح ایک کامیاب کاروباری شخص باذوق نہیں ہو سکتا۔​
۔۔۔۔۔ جاری ہے​
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باذوق نہیں ہو سکتا۔

یعقوب آسی نے چہرے پر ملا نصرالدین جیسی داڑھی رکھ ڈالی ہے۔ داڑھی میں سفیدی ڈال کر وہ کچھ معتبر سا دکھائی دینے لگا ہے۔ لوگ اپنے سر کے بالوں اور آدھی داڑھی کو سیاہ رنگ کر کے جوان دکھائی دینے کی کوششِ ناتمام کرتے ہیں اور آسی غالباً اپنے انہی بالوں کو سفید رنگ کر کے بزرگ بننے کی کوشش کرتا ہے، حالانکہ بزرگی کا تعلق تو بہر حال عقل سے ہوتا ہے۔
آسی ایک خوبصورت آدمی ہے۔ ستواں ناک، چمکیلی آنکھیں، گوری رنگت، بالوں کی چاندی اور بدن کا چھریرا پن اس کی خوبصورتی کی دلیل ہے۔ اس کا دل اور ذہن بھی اسی کی طرح خوبصورت ہے، وہ دوسرے شخص کی خوبی کے اعتراف میں بخل سے کام نہیں لیتا۔ دوستوں کے فن پر مضامین لکھنا اس کا مشغلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔​
 
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا مشغلہ ہے۔​

یعقوب آسی انجینئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا میں ایک انتظامی عہدے پر فائز ہے۔ دفتر کا کام بھی وہ اسی طرح کرتا ہے جس طرح یونیورسٹی چلتی ہے لہٰذا کام کی زیادتی کے باعث دفتر سے وہ ایک کمپیوٹر اٹھا کر گھر لے آیا ہے جس پر اس کے بچے ’’دفتری‘‘ گیمیں کھیلتے ہیں۔​

آسی ادب کی طرف سنجیدگی سے مائل ہے۔ وہ جز وقتی ادیب نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ادب کی جس صنف پر بھی طبع آزمائی کی ہے سرخرو ٹھہرا ہے۔ شاعری، افسانہ اور تحقیق کے میدان میں اس نے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اس کے فن میں تفکر جھلکتا ہے اور تفکر میں فن ہویدا ہے۔ عروض پر اس کی کتاب ’’فاعلات‘‘ اس کے نزدیک اس کا سب سے بڑا کارنامہ ہے لیکن میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میرے نزدیک یہ کتاب کھانا پکانے کی عمدہ تراکیب جیسی نوعیت کی کتاب ہے۔ اس کا اصل کارنامہ تو اس کے مضامین اور اس کی شاعری ہے۔ ان دونوں اصناف میں اس کی کتابیں یقیناً حیرتوں کے در وا کر دیں گی۔ میں ’’فاعلات‘‘ کے خلاف اس لئے بھی ہوں کہ یہ ایک اخلاق باختہ کتاب ہے۔ تقطیع کے عمل کے دوران اس کتاب میں ایسی ایسی غیر شرعی و صوتی تفاصیل بے حجابانہ بیان کی گئی ہیں کہ اس پر تو حدود آرڈیننس کا اطلاق ہوتا نظر آتا ہے۔ (لہٰذا حلقہ تخلیقِ ادب اب اپنی خیر منائے) اور کسی ممکنہ مقدمے کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہے۔​
۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے​

 
۔۔۔۔۔۔۔ سامنا کرنے کے لئے تیار رہے۔

یعقوب آسی کو قرآنِ پاک، علامہ اقبال ور خطاطی سے محبت ہے۔ اس نے اپنی خطاطی کے ’’نادر‘‘ فن پارے اپنے ڈرائنگ روم میں سجا رکھے ہیں، جن میں اس نے تختی لکھنے کے انداز میں پورنے ڈال کر خامہ فرسائی کی ہے۔ اگرچہ یہ خطاطی رشید دہلوی اور خورشید رقم کے فن سے اور خطاطی کے فنی اصولوں سے حیرت انگیز بُعد رکھتی ہے لیکن اس کے مسلمان اور ’’اہلِ حدیثِ دل‘‘ ہونے کی دلیل ہے۔​
اس کی شخصیت اور گفتگو میں عجیب سا ڈھیلاپن ہے۔ اس کی گفتگو سے سردیوں کے موسم میں اونگھتی ہوئی دوپہر کا احساس ہوتا ہے۔ شاید علمِ عروض کا اثر اس کے بات کرنے کے اندا پر بھی پڑا ہے لہٰذا وہ ایک مخصوص بحر میں بات کرتا ہے اور اس کا یہ گفتگو کا انداز اتنا ڈھیلا ہوتا ہے کہ سننے والے کو جمائیاں آنے لگتی ہیں۔​

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔​
 
۔۔۔۔۔۔۔۔ جمائیاں آنے لگتی ہیں۔

شلوار قمیض اس کا پسندیدہ لباس ہے۔ پتلون سے جہاں میرا جسمانی اختلاف ہے وہ اس سے نظریاتی سطح پر اختلاف رکھتا ہے۔ شلوار قمیض کے اوپر ہاف سویٹر پہننا بھی اسے بہت مرغوب ہے۔

’’کیا تنقیدی جملہ ہے‘‘ غالباً اس کا تکیہء کلام ہے۔ کسی ادیب کا مضمون پڑھ رہا ہو، کوئی دوست گفتگو کر رہا ہو، کسی کے بے ہنگم قہقہے جاری ہوں، یعقوب آسی صرف ایک ہی بات کہے گا ’’واہ! کیا تنقیدی جملہ ہے!‘‘۔ سنا ہے آسی ہماری بھابھی کی ڈانٹ پھٹکار کو بھی ’’کیا تنقیدی جملہ ہے‘‘ کہہ کر سہار جاتا ہے۔ شاعر بچارا اور کر بھی کیا سکتا ہے اور شاعر بھی ایسا جو سر تا پا آسی ہے۔ آس ہی آس۔ کہ شاید کسی دن سورج اس کے بام پر بھی چمکے، سنہرے دن اس کے آنگن میں بھی اتریں اور مسرتوں کی کہکشائیں اس کے آسمان پر بھی نمودار ہوں۔ لیکن یہ سب کچھ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے نام کے دوسرے حصے کے پہلے حرف کو ’’صحیح‘‘ طریقے سے نہیں لکھے گا اور ع سے عاصی لکھ کر اپنے تمام جلی و خفی گناہوں کا اقرار نہیں کرے گا۔​

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے​
 
۔۔۔۔۔۔ اقرار نہیں کرے گا۔

یہ ٹھیک ہے کہ یعقوب کی قسمت میں آس کے دامن سے لپٹے رہنا ہی لکھا ہے لیکن وہ تو اپنی شخصیت کے حسن کے اعتبار سے یوسف ہے اور ماحول کے اعتبار سے پوسفِ بے کارواں۔ آج میں نے اس کے بے مثال حسن کی ایک جھلک اپنی انگلیاں کاٹ کر آپ کو دکھا دی ہے۔ اب انگلیاں کاٹنے کی باری آپ کی ہے۔
********************​
’’خاکی خاکے‘‘ از سلمان باسط۔ مطبوعہ 1999 ’’استعارہ‘‘ اسلام آباد​
صفحات 101 تا 104 بہ عنوان ’’عروضیا‘‘​
 
جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب!
میں وہ خوش نصیب شخص ہوں جس کے ہم قدموں میں ایسے ایسے محبت کرنے والے دوست شامل ہیں! میں بے کارواں تو نہیں نا!

چلو آؤ، چلتے ہیں بے ساز و ساماں​
قلم کا سفر خود ہی زادِ سفر ہے​

بہت آداب، جناب شمشاد صاحب، جناب محب علوی صاحب، جناب التباس صاحب، جناب الف عین صاحب، جناب محمد وارث صاحب، عزیزہ مدیحہ گیلانی ، عزیزہ عینی شاہ اور ۔۔۔۔۔۔ جملہ اہلِ محفل!
 
Top