ادبی تخلیق اور تنقیدی رویے

سیما علی

لائبریرین
ادبی تخلیق اور تنقیدی رویے
قرطاس ادب
927575_4215189_adab_magazine.jpg

ایک ناقد پہلے درجے میں فن پارے کا قاری ہوتا ہے مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کسی ایک فن پارے کے متعلق ناقدین کی مختلف آرا سامنے آتی ہیں؟ اس ضمن میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تنقید جہاں فن پارے کے باب میں تعین قدر اور تعبیر کا فریضہ سرانجام دے رہی ہوتی ہے وہیں ناقد کو بھی بے نقاب کررہی ہوتی ہے۔ صاحب نہج البلاغہ نے فرمایا تھا:’’بولو کہ پہچانے جائو، کیوں کہ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے چھپی ہوتی ہے۔‘‘ لکھنا بھی ، بولنے کی ایک توسیعی صورت ہے ۔ لکھا ہوا لفظ جہاں وہ نکتہ سمجھاتا ہے جسے سمجھانے کا قصد لکھنے والے نے کیا ہوتا ہے،وہیں لکھنے والے کی اپنی شخصیت کا بھرم بھی کھول دیتا ہے ۔

ایک ناقد کے باب میں تو فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اُتھلا ہے یا گہرا ،کہاں سے کھڑے ہو کر بات کر رہا ہے ، مرعوب ہے یا متاثر ، کسی کے جملے اُگل رہا ہے یا دِل سے نکلی بات کہتا ہے۔ تاہم یہ بات ایک حد تک ہی درست کہی جا سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ناقد کا ایک فریضہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ وہاں سے فن پارے کو نہ دیکھے جہاں وہ خود موجود ہوتا ہے، تھوڑی سی تکلیف کرے، اُٹھے اور وہاں پہنچے جہاں تخلیق کار نے موجود رہ کر ایک فن پارہ تخلیق کیا ہوتاہے ۔

مصنف کے زمانے میں پہنچنا ، جس زمین پر وہ موجود ہے اس زمین پر قدم رکھنا ، جس کلچر اور تہذیب کا وہ پروردہ ہے اسے سمجھنا ، یہ سب فن پارے کی بہتر تفہیم میں معاون ہو سکتے ہیں ۔اس دوسرے فریضے کو تب تک سر انجام نہیں دیا جاسکتا جب تک ناقد اپنی’ میں‘ نہیں مارے گا ، اپنے آپ کو بھول کر اور تخلیق کار کے نقطہ نظر کو نہیں سمجھے گا اور اپنے تجربے کی اسیری سے باہر نکلنے کے جتن نہیں کرے گا۔

یاد رہے ہر شخص اپنے اپنے تجربے کا قیدی ہوتا ہے مگر ایک عمدہ ناقد اس قید خانے یا پنجرے کو توڑنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اچھا، یہیں یہ بھی کہنا ہے کہ سب انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ سب کی پسند ناپسند ایک سی نہیں ہوتی۔ سب نے زندگی کو ایک انداز میں نہیں برتا ہوتا ۔ جب ہر ایک کا تجربہ اور ذوق الگ الگ ہے تو کسی فن پارے کی بابت اُن کی ایک سی رائے کیسے ہو سکتی ہے؟ دیکھیے فن ماپنے یا آنکنے کا پیمانہ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک محلول کی طرح فن پارہ اس میں ڈال کر اور اس پیمانے پر بنے نشانات پڑھ کر اس کی بابت فیصلہ کر لیں اور یہ فیصلہ، جو جو پیمانہ دیکھے، سب کا ایک سا ہو۔

تاہم یہ تشویش بھی اپنی جگہ بجا ہے کہ رائے دینے کے معاملے میں مثبت اور منفی کا ادل بدل ہمارے ہاں سفاک ہونے کی حد تک ہونے لگا ہے ۔ ادب میں یہ انتہا پسندی یا محض ذوقی رائے نہیں چلتی ایک فن پارے کو جانچنے کے کئی قرینے ہیں۔ کہانی کیا ہے؟ پلاٹ کیسا ہے؟ پلاٹ ہے بھی یا نہیں ؟کہانی علامت بنی ہے یا محض ایک واقعہ ہو کر رہ گئی ہے؟

جس تیکنیک کو برتا گیا ہے کیا اس میں کہانی اپنا تخلیقی جو ہر دکھا رہی ہے؟، برتی جانے والے زبان کیسی ہے؟ کرداروں اور ماحول سے مناسب رکھتے ہوئے جتنا ترفع زبان اور موضوع کو دیا جا سکتا تھا کیا دے لیا گیا ہے؟موضوع کی انسانی حیات سے جڑت ، اور مجموعی طور پر فکشن کی جمالیات کی تشکیل وغیرہ وغیرہ ،ایک ناقد کے پاس توکہنے کو بہت کچھ ہوتاہے ہر ناقد اپنے مطالعے، مزاج اور فکری فنی روّیوں کی روشنی میں فن پارے کا متن دیکھتا ہے اور اپنے تئیں فیصلے کرتا ہے جو محض منفی یا مثبت نہیں ہوتے ، کئی سطحوں پر تعبیری اورفنی سطح پر تعیین قدر کے باب میں ہوتے ہیں ۔ وارث علوی نے کہیں لکھا تھا کہ’’تعبیر ایک خود سر ‘ خود پسندمغرور حسینہ ہے۔‘‘ اور درست لکھا تھا، کیوں کہ ایک عمدہ فن پارہ ایک پرت والا نہیں ہوتا ، جس طرح ایک مغرور حسینہ کی ہر ادا آپ کو گھائل کرتی ہے ، ایک اعلیٰ فن پارہ بھی ایسے ہی پرت در پرت کھلتا ہے۔

محض معنی اور مفہوم کی سطح پر نہیں اپنی مرتبہ جمالیات کے حوالے سے بھی ۔ جمالیات کے اپنے اصول ہیں ۔ ایک ناقد کو وہ قرینہ تلاشنا ہوتا ہے جو اِس مہین پردے کی طرح فن پارے کی جمالیات قائم کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سب فیصلے جس سطح کی سنجیدگی اور جس قسم کا سلجھا ہوا ذہن مانگتے ہیں وہ محض کسی فن پارے کو’’ اعلیٰ‘‘ یا ’’گھٹیا‘‘ قرار دے کر مطمئن ہونے والا نہیں ہو سکتا۔
ادبی تخلیق اور تنقیدی رویے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یعنی اب ادبی تنقید اس سطح تک گر چکی ہے کہ اس مضمون نگار کو تنقید کی بنیادی شرائط کی وضاحت کرنا پڑی ۔ بہ الفاظِ دیگرتنقید کی تعریف بیان کرنا پڑی۔
 

سیما علی

لائبریرین
ابتدائے آفرینش سے انسان میں تنقیدی شعور پایا جاتا تھا۔ ابتداء میں اس کے نقوش دھندلے تھے۔ جب انسانیات نے ترقی کی اور طرح طرح کے علوم سامنے آئے تو تنقید کی مختلف جہات سامنے آئیں۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ادب کی پرکھ کے انداز بھی بدلے۔ اُردو میں تنقید کے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملتے ہیں۔
جس میں شاعر کے مختصر حالات زندگی اور نقاد کی پسند سے کلام کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا۔ اُردو تنقید کی کسوٹی پر یہ تذکرے کھرے نہیں اُتر تے لیکن چونکہ یہ ہماری تنقید کے اولین نقش ہیں۔ اس لئے ادب میں ان کی اہمیت ہے۔ا لطاف حسین حالیؔ مقدمہ شعر و شاعری میں پیش کردہ اپنے تنقیدی خیالات کے سبب جدید اُردو تنقید نگاری کے بانی ہیں ۔ حالیؔ نے تنقید کی جو راہ نکالی اس پر آگے چل کر اُردو تنقید نے طویل فاصلہ طئے کیا۔ حالیؔ کے بعد اُردو کے نقادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ جن میں اہم نام شبلیؔ ، عبدالحق ، نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری ، آل احمد سرور، احتشام حسین ، کلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری،‘ خورشید الاسلام ، محمد حسن ، احسن فاروقی ، وزیر آغا، قمر رئیس ‘ سلیم احمد، مغنی تبسم ، سلیمان ، اطہر جاوید وغیرہ شامل ہیں، قاری اور نقاد کی پسند کے اعتبار سے جب تخلیق کو قبول یا رد کیا جانے لگاتو ادب میں تنقید کے دبستان وجود میں آئے۔۔۔
تنقید کا تعلق تحقیق اور تخلیق سے بھی ہے۔ تینوں میں فضیلت کا معاملہ زیر بحث رہتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تحقیق کے بغیر تنقید ممکن نہیں۔ اور تنقید کے لئے تخلیق ضروری ہے۔ اچھی تخلیق کے لئے سلجھے ہوئے تنقیدی شعور کی ضرورت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اردو تنقِید کا اِرتِقاء‘‘ ڈاکٹر عبادت علی بریلوی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں تنقیدی ارتقاء کو تحقیقی زاویہ کی نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اردو تنقید کا ارتقاء حالات واقعات اور فضاء وماحول کی پیدا وارہے کیونکہ نہ صرف تنقید بلکہ ادب کا ہر شعبہ حالات واقعات ہی کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔۔۔۔
 
Top