اختلاف

نوید ناظم

محفلین
اختلاف' کسی گفتگو پر بوجھ کا نام نہیں ہے' بلکہ یہ گفتگو کے حُسن کا نام ہے۔۔۔۔۔ ضروری ہے کہ صاحبِ رائے' رائے دینے سے پہلے اختلافِ رائے کا حق دے۔ علمی اجارا داری کسی صورت بھی مناسب نہیں ہوتی۔ جس طرح ایک انسان رائے دینے کا حق رکھتا ہے اُسی طرح دوسرا انسان اُس رائے سے اختلاف کرنے کا حق بھی رکھتا ہے۔ کسی کی بات سے اختلاف کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس بات کے متعلق اپنے مخاطب سے زیادہ آگاہ ہو، یا کم از کم اُتنا آگاہ ضرور ہو۔ علمی اختلاف کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے۔ چونکہ ہر علم کے برعکس ایک دوسرا علم موجود ہوتا ہے اس لیے اختلاف کا ہونا ناگزیر ہے۔ بات سے اختلاف کی وجہ علم ہے اور ذات سے اختلاف کی وجہ جہالت۔ مگر یہ بات بھی اپنی حد اور دائرے تک محدود ہے۔ مثلاَ َ بحثیتِ امتی کے کوئی انسان پیغمبر کی ذات سے اختلاف کر سکتا ہے نہ بات سے۔ اس کے علاوہ کسی مستند بات کو ماننا اپنے لیے بہتری کا باعث ہے مگر اُس سے انکار انسان کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتا۔ نبی کو نبی ماننا شرط ہے' ولی کو ولی کے طور پر ماننا شرط نہیں ہے۔ مطلب انسان کسی ولی کا انکار کر دے تو وہ یقینا ان اسرارو رموز اور لطائف سے محروم ہو جائے گا جو اسے میسر آ سکتے تھے، مگر اس کے باوجود وہ مسلمان ہی رہے گا اور ایک محترم مسلمان۔ آج ہم اپنی جذباتی وابستگیوں کی بنا پر دوسروں سے الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ جذبات اور جذباتی وابستگی کا ہونا اچھی بات ہے مگر اس کا غیر ضروری اظہار امت کی وحدت کو متاثر بھی کرتا ہے۔ مثلا ایک انسان جو کہتا ہے کہ میں '' قادری'' ہوں تو وہ کسی '' سیفی'' کے سامنے ایک دوسری پہچان کے طور پر بیٹھا ہے' اسی طرح ہر سلسلہ دوسرے سلسلہ سے اظہار میں الگ ہے' گو حقیقت میں ہر سلسلہ ایک ہی سلسلہ ہے۔ ہمیں اپنی نسبت کے اظہار میں بھی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنی محبت اپنی جگہ' مگر یہ وقت بڑا نازک وقت ہے ہر طرف اختلاف ہی اختلاف ہے' ہر کوئی ہر کسی سے نالاں ہے' ہم سب ایک عہد میں ہیں مگر ہم سب ایک نہیں ہیں' دنیا کی سطح پر ملکی اختلافات ہیں اور ملک میں' صوبائی اختلافات' پھر لسانی اور مذہبی اختلافات۔۔۔۔۔ مختصر زندگی میں اس قدر اختلافات بھر چکے ہیں کہ قوم کی وحدت ایک خواب ہوتی جا رہی ہے۔ مگر ہم اپنے کردار میں کچھ چیزیں شامل کر کے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں برداشت کی ضرورت ہے' ایسی برداشت جو ہمیں محفوظ رکھے اس انسان سے نفرت کرنے سے جو ہم سے اختلاف رکھتا ہے۔ ہم اُسے زندگی گزارنے کا حق اُسی طرح دیں جیسے کہ ہم خود زندگی گزار رہے ہیں، دوسرے کی رائے کا احترام اسی طرح ہو جیسے ہم خود اپنی رائے کا احترام چاہتے ہیں۔
انسان دوسروں سے احترام چاہتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہیں کہ دوسرے اس سے احترام نہ چاہتے ہوں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان خود مخدوم ہو جائے اور دوسرے خادم ہو جائیں' ہر انسان کے پاس ایک جیسی عزتِ نفس ہے۔ غریب اُسی طرح سے انسان ہے کہ جیسے امیر ایک انسان ہے۔ ایک جاننے والا نہ جاننے والے سے بلند سہی مگر اس کا علم اسے کسی کم علم انسان سے نفرت نہیں سکھاتا۔۔۔۔ کسی سے محض اس لیے نفرت نہیں کی جا سکتی کہ اسے میری بات سے اختلاف ہے۔۔۔۔ ہاں محبت ضرور کی جا سکتی ہے!!
 
آخری تدوین:
نوید بھائی آپ کی باتیں درست، مگر ان پر عمل کے لئے مناسب حد تک علم ضروری ہے جو انسانی زہن کو اتنی وسعت دے سکے کہ اسے اس قابل بنا دے کہ وہ اختلاف رائے کا احترام کرسکے۔
 
آخری تدوین:
بہت خوب نوید بھائی۔
اختلاف رائے ہونا میرے خیال میں منافقت نہ ہونے کی ایک دلیل ہے۔ مسئلہ تب کھڑا ہوتا ہے جب اختلاف کو مخالفت میں بدل دیا جائے۔ تب انسان اصلاح اور تعمیری گفتگو کے بجائے فقط اپنی بڑائی اور فوقیت کے لیے الفاظ (کبھی کبھار اس سے بھی آگے) استعمال کرتا ہے۔ اللہ تعالی اس روحانی بیماری سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
 

اکمل زیدی

محفلین
اور اگر میں ںا مانوں والا معاملہ ہو ۔ ۔ ۔ لا یعنی ۔ ۔ دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے اور مصر رہا جائے کے یہی بات بہتر ہے۔ ۔ جو کے بہتر کے ب پر بھی پوری نا اتر رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا ۔ ۔ کیا جاءے ۔ ۔ ۔ سلام ۔ ۔ ۔ ؟
 
اور اگر میں ںا مانوں والا معاملہ ہو ۔ ۔ ۔ لا یعنی ۔ ۔ دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے اور مصر رہا جائے کے یہی بات بہتر ہے۔ ۔ جو کے بہتر کے ب پر بھی پوری نا اتر رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا ۔ ۔ کیا جاءے ۔ ۔ ۔ سلام ۔ ۔ ۔ ؟
جو لوگ بحث برائے بحث کرتے ہیں اور اپنی غلط رائے انا کا مسئلہ بنا کر اس پر بضد ہوجاتے ہیں ان سے جان چھڑا لینا بہتر ہے۔
 

زیک

مسافر
اور اگر میں ںا مانوں والا معاملہ ہو ۔ ۔ ۔ لا یعنی ۔ ۔ دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے اور مصر رہا جائے کے یہی بات بہتر ہے۔ ۔ جو کے بہتر کے ب پر بھی پوری نا اتر رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا ۔ ۔ کیا جاءے ۔ ۔ ۔ سلام ۔ ۔ ۔ ؟
کیا خوب نقطے اٹھائے ہیں
 

اکمل زیدی

محفلین
کیا خوب نقطے اٹھائے ہیں
آپ کا مسئلہ "نقطوں" کا ہی ہے ۔ ۔ ۔ نکتوں سے آپ نے کیا لینا ۔ ۔ ۔ ۔ :):)
کسی زمانے میں جاوید چوہدری کا اک کالم پڑھا تھا ۔ ۔ ۔ باٹم لائن یہ تھی کے "جب بولنے والے نے پوری تفصیل کے ساتھ سامنے بیٹھے ہوے بندے کہ بات سمجھا دی تو ایش ٹرے میں راکھ جھاڑتے ہوے پوچھا کیا سمجھے ۔ ۔ سامنے بیٹھا ہو شخص جو کافی دیر اور توجہ (بظاہر) سے لیکچر سن رہا تھا رہا تھا پہلو بدلا اور کہا اس ساری گفتگو میں مجھے یہ بات سمجھ آئ کے ۔۔۔۔۔ آپ کی ناک کا ایک نتھنا بند ہے کیونکے جب آپ بات کرتے ہوے سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہیں تو اک نتھنے سے دھواں بہت کم نکلتا ہے"۔ ۔
زیک اب آپ پر ہے اس میں آپ پوچھ سکتے ہیں ۔۔۔سگریٹ کون سی تھی ۔ ۔ ۔ :LOL:
 
آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
اور اگر میں ںا مانوں والا معاملہ ہو ۔ ۔ ۔ لا یعنی ۔ ۔ دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے اور مصر رہا جائے کے یہی بات بہتر ہے۔ ۔ جو کے بہتر کے ب پر بھی پوری نا اتر رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا ۔ ۔ کیا جاءے ۔ ۔ ۔ سلام ۔ ۔ ۔ ؟


دعا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے اور ان کے حق میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعا ، عزیز بھائی محمد عظیم الدین بھی ایسا ہی کرتے ہیں
 

loneliness4ever

محفلین
درست کہا نوید بھائی آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اختلاف رائے کے پیچھے اپنے درمیان بہت بڑی خلا پیدا کر چکے ہیں
جس کا فائدہ ہمارے عدو باخوبی اٹھا رہے ہیں اور ہم بھی خوب ان کا ہاتھ بانٹا رہے ہیں
 

نوید ناظم

محفلین
اور اگر میں ںا مانوں والا معاملہ ہو ۔ ۔ ۔ لا یعنی ۔ ۔ دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کی جائے اور مصر رہا جائے کے یہی بات بہتر ہے۔ ۔ جو کے بہتر کے ب پر بھی پوری نا اتر رہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا ۔ ۔ کیا جاءے ۔ ۔ ۔ سلام ۔ ۔ ۔ ؟
کسی کو کچھ سمجھانے سے پہلے اُسے سمجھنا ضروری ہے' ظاہر ہے جس کو انسان خود سمجھتا نہ ہو اُسے سمجھا بھی نہیں سکے گا' پھر ہر انسان کا ایک مزاج ہے اور بتانے والے بتاتے ہیں کہ انسان اپنے مزاج کے اندر رہن رکھ دیا گیا ہے۔ شیر کو آپ لاکھ سمجھا لیں کہ بھائی بکری معصوم سا جانور ہے اسے کھانا چھوڑ دو ساتھ میں دس روپے بھی لے لو' تو وہ یہ بات نہیں سمجھے گا' شیر کا مزاج '' گوشت'' ہے۔ اسی طرح گھوڑے کو لاکھ کہا جائے کہ بھائی سادھو' صدیوں سے گھاس ہی کھائے جا رہے ہو کبھی گوشت کا مزا بھی لو، تو ایسا نہیں ہو گا۔ سب سے پہلے یہ علم ضروری ہے کہ کس کو کیا سمجھانا ہے اور کیوں سمجھانا ہے۔ اس ضمن میں ایک بڑا خوبصورت واقعہ بیان کیا ہے جاننے والوں نے۔ ایک دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوڑے جا رہے تھے کہ کسی نے دیکھا اور پوچھا کہ آپ یوں دوڑ کیوں رہے ہیں تو آپ نے جواباَ َ فرمایا کہ تُو بھی ساتھ دوڑ' پوچھا ہوا کیا' فرمایا بات یہ ہے کہ پیچھے ایک احمق آ رہا ہے۔ بندے نے کہا آپ تو مسیحا ہیں' ہر علاج آپ کے پاس ہے تو فرمایا کہ احمق ہونا بیماری نہیں ہے بلکہ عذاب ہے۔ مطلب احمق کو سمجھانا حماقت ہے۔ گھوڑے کو سدھارا جا سکتا ہے' گدھے کو گھوڑا نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے ہر آدمی کی ایک رینج ہے' ایک حد ہے' سوچنے کی بھی اور سمجھنے کی بھی' بس وہ سمجھ آ جائے تو جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔ اصل میں انسان نے خود سمجھنا ہوتا ہے اور یہی بات سمجھنا مشکل ہوئی پڑی اس کے لیے۔ ہم ایک دنیا میں رہتے ہیں سارے ہمارے ہم خیال نہیں ہو سکتے، اور نہ ہم ہی ہو سکتے ہیں۔ کچھ سپیس دوسروں کو دیں کچھ خود ریکوسٹ کر کے اپنے لیے مانگ لیں' زندگی کو بحث' نفرت' جھگڑے کی نذر ہونے سے بچائیں جیسے بھی بچا سکتے ہیں۔ اختلاف سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے' نئے زاویے سامنے آتے ہیں بے شک وہ کسی انسان کے لیے قابلِ قبول نہ ہوں۔ عقلمند انسان الجھاؤ کا شکار نہیں ہوتا اس کی وجہ سے' وہ کسی کا سکون برباد کرتا ہے نہ اپنا ہونے دیتا ہے۔ مختصر سی زندگی ہے' جو اچھا لگتا ہے اسے محبت دی جائے اور جو اچھا نہیں لگتا اسے خلوص' احترام اور تحمل کے ساتھ برداشت تو کیا جائے' اتنا تو کر ہی سکتا ہے انسان !!
 
میرے خیال میں آج کے دور میں ہم دوسرے شخص یا فریق کی بات سمجھنے کے لیے نہیں سُنتے بلکہ صرف اس لیے غور سے سُن رہے ہوتے ہیں کہ اُس کی کس بات کا کیسے جواب دیا جائے ۔
جب کہ اگر تسلی سے دوسرے شخص کی بات سُن کے سمجھ لی جائے کہ مذکورہ شخص کیا کہنا چاہ رہا ہے تو شاید اختلافی پہلو بہت کم نکلے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
انسان دوسروں سے احترام چاہتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہیں کہ دوسرے اس سے احترام نہ چاہتے ہوں۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی انسان خود مخدوم ہو جائے اور دوسرے خادم ہو جائیں' ہر انسان کے پاس ایک جیسی عزتِ نفس ہے۔ غریب اُسی طرح سے انسان ہے کہ جیسے امیر ایک انسان ہے۔ ایک جاننے والا نہ جاننے والے سے بلند سہی مگر اس کا علم اسے کسی کم علم انسان سے نفرت نہیں سکھاتا۔۔۔۔ کسی سے محض اس لیے نفرت نہیں کی جا سکتی کہ اسے میری بات سے اختلاف ہے۔۔۔۔ ہاں محبت ضرور کی جا سکتی ہے!!

بہت خوب!
 
Top