اقتباسات احمد ندیم قاسمی کی کتاب ' بازار حیات ' سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
احمد ندیم قاسمی کی کتاب '​
بازار حیات
' سے اقتباس​
" شام کے کھانے کے بعد وہ اختر کو انگلی سے پکڑ ے باہر دالان میں آیا اور بولا ' آج دن بھر خوب سوئے ہو بیٹا ۔ چل آج ذرا گھومنے چلتے ہیں ۔چاندی رات ہے " اختر فوراً مان گیا پرمیشر سنگھ نے اسے کمبل میں لپیٹا اور کندھے پر بٹھا لیا ۔کھیتوں میں آکر وہ بولا ' یہ چاند جو پورب سے نکل رہا ہے نا بیٹے ! جب یہ ہمارے سر پر پہنچ جائے گا تو صبح ہو جائے گی ۔ اختر چاند کی طرف دیکھنے لگا ۔ ' یہ چاند جو یہاں چمک رہا ہے وہاں بھی چمک رہا ہوگا ،تمہاری اماں کے دیس میں ' اب کے اختر نے جھک کر پرمیشر سنگھ کی طرف دیکھنے کی کوششش کی ' یہ چاند ہمارے سر پر آئے گا تو وہاں تمہاری اماں کے سر پر بھی ہو گا ' اب کے اختر بولا ' ہم چاند دیکھ رہے ہیں تو کیا اماں بھی چاند دیکھ رہی ہوگی ؟ ' ۔ 'ہاں ' پرمیشر سنگھ کی آواز میں گونج تھی ۔ 'چلو گے اماں کے پاس ؟ ' ' ہاں 'اختر بولا ' پر تم لے تو جاتے نہیں ، تم بہت برے ہو ،تم سکھ ہو ' پرمیشر سنگھ بولا 'نہیں بیٹے آج تو تمہیں ضرور ہی لے جاؤں گا ۔تمہاری اماں کی چٹھی آئی ہے ۔وہ کہتی ہے ' میں اختر بیٹے کے لیے اداس ہوں '​
' میں بھی تو اداس ہوں ' اختر کو جیسے کوئی بھولی بات یاد آگئی ہو ۔ 'میں تمہیں تمہاری اماں ہی کے پاس لیے جارہا ہوں ' ' سچ ؟ ' اختر پرمیشر سنگھ کے کندھے پر کودنے لگا اور زور زور سے بولنے لگا ' ہم اماں پاس جارہے ہیں ،پرمو ہمیں ہمیں اماں پا لے جائے گا ۔ ہم وہاں سے پرمو کو چٹھی لکھیں گے ' ۔ پرمیشر سنگھ چپ چاپ روئے جا رہا تھا آنسو پونچھ کر اور گلا صاف کر کے اس نے اختر سے پوچھا ' گانا سنوگے ؟ ' ہاں '​
پہلے تم قران سناؤ'​
'اچھا ' اور اختر قل ہو اللہ احد پڑھنے لگا کفواً احد پر پہنچ کر اس نے اپنے سینے پر چھو کی اور بولا لاؤ تمہارے سینے پر بھی چھو کردوں ' رک کر پرمیشر سنگھ نے گریبان کا ایک بٹن کھولا اور اوپر دیکھا اختر نے لٹک کرے سینے پر چھو کردی ' اب تم سناؤ' پرمیشر سنگھ نے اختر کو دوسرے کندھے پر بٹھا لیا ۔اسے بچوں کا کوئی گیت یاد نہیں تھا اس لیے اس نے قسم قسم کے گیت گانا شروع کیے اور گاتے ہوئے تیز تیز چلنے لگا اختر چپ چاپ سنتا رہا​
بنتو دا سر بن ورگا جے​
بنتو دا منہ چن ورگا جے​
بنتو دا لک چترا جے​
لوکو​
بنتو دا لک چترا​
' بنتو کون ہے ؟ ' اختر نے پرمیشر سنگھ کو ٹوکا ۔ پرمیشر سنگھ ہنسا پھر ذرا وقفے سے بولا ' میری بیوی ہے نا امر کور اس کا نام بنتو ہے ۔ امر کور کا نام بھی بنتو ہے تمہاری ماں کا نام بھی بنتو ہے ' ' کیوں ؟ اختر خفا ہو گیا 'کیا وہ کو۴ی سکھ ہے ؟'۔ پرمیشر سنگھ خاموش ہو گیا ۔چاند بہت بلند ہوگیا تھا ۔رات خاموش تھی کبھی کبھی گنے کے کھیتوں کے آس پاس گیدڑ روتے اور پھر سناٹا چھا جاتا ۔اختر پہلے تو گیدڑ وں کی آواز سے ڈرا مگر پرمیشر سنگھ کے سمجھانے سے بہل گیا اور ایک بار خاموشی کے طویل وقفے کے بعد اس نے پرمیشر سنگھ سے پوچھ ' اب کیوں نہیں روتے گیدڑ ؟ ' پرمیشر سنگھ ہنس دیا ۔پھر اسے ایک کہانی یاد آگئی یہ گورو گوند کی کہانی تھی لیکن اس نے بڑے سلیقے سے سکھوں کےناموں کو مسلمانوں کے ناموں سے بدل دیا اور اختر ' پھر ،پھر ؟ ' کی رٹ لگاتا رہا اور کہانی ابھی جاری تھی جب اختر ایک دم بولا ' ارے چاند تو سر پر آگیا !' پرمیشر سنگھ نے بھی رک کر اوپر دیکھا ۔پھر وہ قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر دور دیکھنے لگا۔اور بولا ' تمہاری اماں کا دیس جانے کدھر چلا گیا ؟ ' وہ کچھ دیر ٹیلے پر کھڑا رہا ۔جب اچانک کہیں دور سے اذان کی آواز آنے لگی اور اختر مارے خوشی کے یوں کودا کہ پرمیشر سنگھ اس بڑی مشکل سے سنبھال سکا اسے کندھے سے اتار کر وہ زمین پر بیٹھ گیا اور کھڑے ہوئے اختر کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر بولا ' جاؤ بیٹے ۔تمہیں تمہاری ماں پکار رہی ہے بس تم اس آواز کی سیدھ میں ۔۔۔' شش ! اختر نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور سرگوشی میں بولا ' اذان کے وقت ہیں بولتے ' ۔ ' پر میں تو سکھ ہوں بیٹے ' پرمیشر سنگھ بولا۔ 'شش ! اب کے اختر نے بگڑ کر اسے گھورا ۔اور پرمیشر سنگھ نے اسے گود میں بٹھا لیا اس کے ماتھے پر ایک بہت طویل پیار دیا اور اذان ختم ہونے کے بعد آستینوں سے آنکھ کو رگڑ کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا ' میں یہاں سے آگے نہیں جاؤں گا بس تم ۔۔۔'​
'کیوں ؟ کیوں نہیں جاوگے ؟ ' اختر نے پوچھا ۔ ' تمہاری ماں نے چٹھی میں یہی لکھا ہے کہ اختر اکیلا آئے' پرمیشر سنگھ نے اختر کو پھسلا لیا ' بس تم سیدھے چلے جاؤ سامنے ایک گاؤں آئے گا وہاں جا کر اپنا نام بتانا ،کرتارا نہیں اختر ۔پھر اپنی اماں کا نام بتانا ۔اپنے گاؤں کا نام بتانا اور دیکھو مجھے ایک چٹھی ضرور لکھنا ۔ ' لکھوں گا اختر نے وعدہ کیا ۔ ' اور ہاں تمہیں کرتارا نام کا کوئی لڑکا ملے تو اسے ضرور ادھر بھیج دینا۔اچھا' ۔ پرمیشر سنگھ نے ایک بار پھر اختر کا ماتھا چوما اور جیسے کچھ نگل کر بولا ' جاؤ' ۔ اختر چند قدم چلا مگر پلٹ آیا ' تم بھی آجاؤ نا '​
' نہیں بھئی ' پرمیشر سسنگھ نے اسے سمجھایا ، تمہاری ماں نے چٹھی میں یہ نہیں لکھا '۔ ' مجھے ڈر لگتا ہے ' اختر بولا ۔​
' قران کیوں نہیں پڑھتے ؟' پرمیشر سنگھ نے مشورہ دیا ۔ 'اچھا' بات اختر کی سمجھ میں آگئی ۔​
نرم نرم پو افق کے اندھیرے سے لڑ رہی تھی اور ننھا سا اختر دور دھندلی پگڈنڈی پر ایک لمبے تڑنگے سکھ جوان کی طرح تیز تیز جا رہا تھا ۔پرمیشر سنگھ اس پر نظریں گاڑھے ٹیلے پر بیٹھا رہا اور جب اختر کا نقطہ فضا میں فضا کا ایک حصہ بن گیا تو وہ وہاں سے اتر آیا ۔​
اختر ابھی گاؤں کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ دو سپاہی لپک کر آئے اور اسے روک کر بولے 'کون ہو تم ؟' 'اختر' وہ یوں بولا جیسے ساری دنیاسے جانتی ہے ۔ 'اختر ! ' دونوں سپاہی کبھی اسے اور کبھی اس کی سکھوں ایسی پگڑی دیکھتے ۔پھر ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر اس کی پگڑی جھٹکے سے اتار لی تو اختر کے کیس ادھر ادھر بکھر گئے ۔اختر نے بھنا کر پگڑی چھین لی اور پھر سر کو ایک ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے وہ زمین پر لیٹ گیا اور زور زور سے روتے ہوئے بولا میرا کنگھا لاؤ تم نے میرا کنگھا لے لیا دے دو ورنہ میں تمہیں مار وں گا '۔ یک دم دونوں سپاہی دھب سے زمین پر گرے اور رائفلوں کو کو کندھے سے لگا کر جیسے نشانہ باندھنے لگے ' ہالٹ ' ایک پکارا اور جیسے جواب کا انتظار کرنے لگے پھر بڑھتے ہوئے اجالے میں دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ایک نے فائر کر دیا اختر فائر کی آواز سے دہل گیا اور سپاہیوں کو ایک طرف بھاگتے ہوئے دیکھ کر وہ بھی روتا چلاتا ہوا ان کے پیچھے بھاگا۔ سپاہی جب ایک جگہ رکے تو پرمیشر سنگھ اپنی ران پر کس کر پگڑی باند چکا تھا مگر خون اس کی پگڑی کی سینکڑوں پرتوں سے بھی پھوٹ آیا تھا اور وہ کہہ رہا تھا ' مجھے کیوں مارا تمنے ۔ میں تو اختر کے کیس کاٹنا بھول گیا تھا ۔میں تو اختر کو اس کا دھرم واپس دینے آیا تھا یارو '​
دور اختر بھاگا آرہا تھا اس کے کیس ہوا میں اڑ رہے تھے ۔​
 

تلمیذ

لائبریرین
شراکت کے لئےشکر گذاری، محترمؕ۔ حسن اتفاق سے یہ افسانہ میں نے پچھلے دنوں ہی پڑھا ہے اس لئے ذہن میں ابھی تک تازہ ہے۔ بہرحال قاسمی صاحب نے اس تحریر میں انتہائی خوبی سے دونوں مذاہب کا تقابل کیا ہے۔
 
Top