احمد ندیم قاسمی انتقال کر گئے

معروف شاعر،ادیب اور ممتازکالم نگار احمد ندیم قاسمی پیر کی صبح تقریبا پونے دس بجے (پاکستان ٹائم ) خالق حقیقی سے جا ملے ۔ان کی عمر نواسی سال تھی ۔۔

معروف شاعر احمد ندیم قاسمی کو ہفتہ کے روز دل کی تکلیف کے باعث لاہورکے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کرا یا گیا تھا۔جہاں وہ مسلسل نگہداشت کے یونٹ میں زیر علاج تھے ۔احمد ندیم قاسمی کوکافی عرصے سے پھیپھڑوں اور سانس کا عارضہ لاحق تھا لیکن اس بار انہیں دل کی تکلیف کی وجہ سے اسپتال منتقل کیا گیا ۔احمدندیم قاسمی بیس نومبر 1916کو خوشاب میں پیدا ہوئے ۔وہ شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس ہونے کے ساتھ کالم نگار بھی تھے ۔احمد ندیم قاسمی نے پنجاب یو نیورسٹی سے گریجویشن کیا ۔۔اس کے بعد پہلے کلرکی،، کی اور بعد میں صحافت کے شعبے سے منسلک ہو گئے ۔انہوں نے تقریبا پچاس کتابیں تصنیف کیں جبکہ فنون کے نام سے اپنا رسالہ بھی نکالتے رہے ۔۔‌
احباب سے گزارش ہے کہ ان کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی ضرور کریں ۔۔۔ ان کی موت سے اردو زبان ایک اہم محسن سے محروم ہو گئی ۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون

ایک ایک کر کے آسمانِ ادب کے کتنے ہی روشن ستارے رخصت ہوئے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ابھی ابھی مجھے بھی ای میل سے اطلاع ملی تھی اور میں یہ موضوع شروع کرنے ہی والا تھا کہ شاہد احمد کا یہ پیغام نظر آ گیا۔
ندیم صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، افسانہ نگار کہیں یا شاعر یا صحافی۔ ذاتی طور پر وہ میرے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں سے تھے۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

انا لللہ و انا الیہ راجعون-
احمدندیم قاسمی کے بارے میں سنابڑاافسوس ہوا۔واقعی وہ اردوادب میں ایک چاندکی مانندتھے جس نے سب کوروشنی فراہم کی۔

اللہ تعالی انکواپنی رحمت خاص سے جنت فردوس میں داخل کرے (آمین ثم آمین) اورانکے عزیزواقارب کوصبرجمیل عطاء کرے (آمین ثم آمین)
والسلام
جاویداقبال
 
احمد ندیم قاسمی ،،۔۔شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس ہونے کے ساتھ کالم نگار بھی تھے ۔احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ ہے۔ ندیم قاسمی ان کا قلمی نام ہے۔انہوں 1935ء میں بہالپور سے گریجویشن کی اور 1937ء میں لاہور میں بچوں اور خواتین کے میگزین پھول اور تہذیب نسواں کی ادارت سنبھالی ۔1942ء میں وہ علم و ادب سے باقاعدہ وابستہ ہوگئے ۔قیام پاکستان کے بعد 1947ء میں انہوں نے ریڈیوپاکستان پشاور جوائن کیا۔ 1963ء میں احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی پرچہ فنون کے نام سے نکالاجو آخری وقت تک نکالتے رہے۔وہ مجلس ترقی ادب کے سربراہ بھی رہے ۔انہوں‌نے سوگواروں میں دو بیٹیاں، ایک بیٹا اور اردو زبان اور ادب سے محبت کرنے والے لاکھوں دل گرفتگان چھوڑے ہیں‌۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
انا للہ و انا علیہ راجعون۔
کل میں محفل سے یہاں کے وقت کے مطابق صبح 5 بجے لاگ آؤٹ ہوا۔ یہاں میری عادت ہے کہ رات گئے میں جنگ اخبار کا آن لائن ایڈیشن پڑھتا ہوں۔ اس میں خبر تھی کہ احمد ندیم قاسمی کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں عارضہ دل کی وجہ سے داخل کرا دیا گیا۔لیکن کون جانتا تھا کہ صرف تین ہی گھنٹوں بعد ان کا انتقال ہو جائے گا۔ اللہ پاک انہیں اپنے پاس خوش و خرم رکھیں اور بلند درجات عطا فرمائیں۔ اور ان کے لواحقین کو صبرٍ جمیل عطا فرمائیں
قیصرانی
 

قیصرانی

لائبریرین
شاہد بھائی، پہلے پیغام سے پتہ چلتا ہے کہ احمد ندیم قاسمی مرحوم نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجوئیشن کی، پھر آپ کے دوسرے پیغام میں بہاولپور سے گریجوئیشن کا لکھا ہے۔ بات کچھ کنفیوز کر رہی ہے۔
باتونی ہاتھی
 
ادب کا ایک روشن باب بند ہوا ، شاید اس وقت اردو میں کوئی افسانہ نگار ان سے بڑھ کر نہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس ہفتہ کو احمد ندیم قاسمی ہفتہ کے طور پر منانا چاہیے جس میں ان کی تخلیقات پر اور ان کی خدمات پر بات چیت ہو جس سے بہت سے لوگ ان کے بارے میں بہتر جان سکیں گے۔
 
اب تو کچھ اور ہی اعجاز دکھایا جائے
شام ڈھلنے پہ بھی سورج نہ بجھایا جائے
اردو ادب کا وقار قاسمی صاحب۔۔۔اس صاحب طرز شاعر اور ادیب نے جو بھی لکھا۔۔جب بھی لکھا۔۔۔ مبنی بر۔ابدی حقائق لکھا۔۔وہ ایک ایسے انقلاب کے خواہاں تھے۔۔جو دنیا میں انسان کو خود اپنی تقدیر کا مالک بنا سکے۔وہ عظمت انسان کے معترف تھے۔۔
تیری فردوس پہ اب تو میرا حق ہے یارب
تو نے اس دور کے دوزخ میں جلایا مجھے
قاسمی صاحب کے اشعار میں انکے افسانوں اور کہانیوں میں فطرت بے حد حسین نظر آتی ہے اور عورت تمام مظاہر فطرت سے زیادہ حسین
آنکھ کھولی تو جہان کان جواہر تھا ندیم
ہاتھ پھیلائے تو ہر چیز کو انکا پایا

میں گل کو دیکھ کےتخلیق گل کی سوچتا ہوں
گلوں کو دیکھتے رہنا تو کوئی بات نہیں

زندگی شمع کی مانندجلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح کر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی کے لئے۔۔خراج عقیدت کے ساتھ ۔۔
 
Top