احمدی اقلیت اور ہمارے علما کا رویہ

عدنان عمر

محفلین
کافر انکار کرنے والے کو کہتے ہیں۔ قادیانی رسول اللہﷺ کو نبی و رسول مانتے ہیں لیکن آخری نہیں۔ یوں وہ عقیدہ ختم نبوت کے منکر ہیں، رسول کریمﷺ کے منکر نہیں ہیں۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے ختم نبوت کے منکر کافر ہی ہوتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ دلیل آپ اپنی عقل کی بنیاد پر دے رہے ہیں یا قرآن و حدیث کی روشنی میں؟
ان واقعات کی روشنی میں جب نبوت کے دعوے داروں کو مسلمانوں کے خلاف بغاوت پر قتل کیا گیا۔ اگر محض دعویٰ نبوت جواز ہوتا تو مسیلمہ کو اکیلے قتل کرنا کافی تھا۔ لیکن چونکہ وہ اور اس کے حواری بغاوت کے مرتکب تھے یوں اس کے ساتھ ساتھ اس کے ماننے والوں کو بھی قتل کیا گیا۔
 

عدنان عمر

محفلین
ان واقعات کی روشنی میں جب نبوت کے دعوے داروں کو مسلمانوں کے خلاف بغاوت پر قتل کیا گیا۔ اگر محض دعویٰ نبوت جواز ہوتا تو مسیلمہ کو اکیلے قتل کرنا کافی تھا۔ لیکن چونکہ وہ اور اس کے حواری بغاوت کے مرتکب تھے یوں اس کے ساتھ ساتھ اس کے ماننے والوں کو بھی قتل کیا گیا۔
ختم نبوت ایک خالص دینی مسئلہ ہے۔ اگر آپ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ختم نبوت کے منکر مسلمان ہوتے ہیں تو اس حوالے سے قرآن و حدیث کی رو سے دلیل پیش کیجیے۔ آپ کے بیان کیے گئے تاریخی واقعات اگر درست یا غلط ثابت بھی ہو جائیں تب بھی ختم نبوت کے عقیدے کی سند قرآن و حدیث کی رو سے ہی تسلیم کی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسلامی تعلیمات کی رو سے ختم نبوت کے منکر کافر ہی ہوتے ہیں۔
ایک ہی دین و مذہب میں مختلف اور مخالف عقائد ہو سکتے ہیں۔ سنی ، شیعوں کے عقائد ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں لیکن اس اختلاف کو کفر سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
دراصل قادیانیوں نے مرزا قادیانی کو نہ ماننے والوں کو کافر کہا تھا جس کا شدید ترین رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ آئین و قانون میں انہی کو کافر قرار دے دیا جائے۔
لیکن اگر ایک شخص یہ دعوی کرے کہ میں رسول ہوں اور لوگوں سے اصرار کرے کہ مجھے رسول مانو بھی، تو یہاں معاملہ شدت اختیار کرے گا۔ اور بات یہی تک نہ رہے بلکہ اسے رسول نہ ماننے والوں کی تکفیر بھی کی جائے تو پھر معاملے کا انتہائی شدت اختیار کرنا بدیہی ہے۔
مسلمانوں میں آج قادیانیوں کے بارے میں جو شدید نفرت پائی جاتی ہے وہ دراصل اس ردِ عمل کا نتیجہ ہے جو قادیانیوں کی جانب سے تمام مسلمانوں کو مرزا غلام احمد کو رسول نہ ماننے پر کافر قرار دینے پر ہوا۔ اس کے اثرات دہائیاں گزرنے کے باوجود کم نہیں ہوئے۔
 

عدنان عمر

محفلین
ایک ہی دین و مذہب میں مختلف اور مخالف عقائد ہو سکتے ہیں۔ سنی ، شیعوں کے عقائد ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں لیکن اس اختلاف کو کفر سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
دراصل قادیانیوں نے مرزا قادیانی کو نہ ماننے والوں کو کافر کہا تھا جس کا شدید ترین رد عمل یہی ہو سکتا تھا کہ آئین و قانون میں انہی کو کافر قرار دے دیا جائے۔
کون کیا عقیدے رکھے تو کافر کہلائے گا، اور کون کیا عقیدہ رکھے گا تو دائرہ اسلام میں برقرار رہے گا، اس کا فیصلہ رب تعالیٰ نے بذریعہ وحی کر دیا ہے۔ جاسم محمد یا عدنان عمر اختلاف کریں یا اتفاق، اسلامی تعلیمات اٹل ہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین
یہود و نصاریٰ تو حضرت محمد ﷺ کو نہ ماننے کی وجہ سے کافر قرار دئے گئے تھے۔ اس کا عقیدہ ختم نبوت سے کیا تعلق ہے؟
میرا مطلب تھا کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو بطور آخری نبی نہیں مان رہے تو کیا کافر قرار پائیں گے؟
 

عدنان عمر

محفلین
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کون کیا عقیدے رکھے تو کافر کہلائے گا، اور کون کیا عقیدہ رکھے گا تو دائرہ اسلام میں برقرار رہے گا، اس کا فیصلہ رب تعالیٰ نے بذریعہ وحی کر دیا ہے۔ جاسم محمد یا عدنان عمر اختلاف کریں یا اتفاق، اسلامی تعلیمات اٹل ہیں۔
اگر ہر داعی نبوت کا انجام مسیلمہ کذاب جیسا ہو اسلامی تعلیمات ہیں، تو پھر مرزا قادیانی ہی نہیں اس کے تمام ماننے والے بھی واجب القتل ہوتے۔
 

عدنان عمر

محفلین
میرا مطلب تھا کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو بطور آخری نبی نہیں مان رہے تو کیا کافر قرار پائیں گے؟
جی بالکل۔ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان نہ لانے والا یا آپ ﷺ کو آخری نبی و رسول نہ سمجھنے والا، دونوں ہی کافر ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
میرا مطلب تھا کہ وہ حضرت محمد ﷺ کو بطور آخری نبی نہیں مان رہے تو کیا کافر قرار پائیں گے؟
آخری تو بہت بعد کی بات ہے۔ یہود و نصاریٰ تو رسول کریم ﷺ کو شروع ہی سے نبی و رسول نہیں مانتے۔ یوں اس انکار کی وجہ سے کافر ٹھہرے۔
 

عدنان عمر

محفلین
اگر ہر داعی نبوت کا انجام مسیلمہ کذاب جیسا ہو اسلامی تعلیمات ہیں، تو پھر مرزا قادیانی ہی نہیں اس کے تمام ماننے والے بھی واجب القتل ہوتے۔
ہر مدعی نبوت واجب القتل ہے یا نہیں، مرزا قادیانی کو ماننے والے واجب القتل ہیں نہیں، اس کا جواب دینا علمائے کرام کا منصب ہے۔ وہی بہتر رہنمائی فراہم کرسکتے ہیں۔ بہرصورت، ختم نبوت کے منکر کافر ہیں، ان کے کفر میں کوئی شک نہیں۔
 

عرفان سعید

محفلین

جی بالکل۔ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان نہ لانے والا یا آپ ﷺ کو آخری نبی و رسول نہ سمجھنے والا، دونوں ہی کافر ہیں۔
طالب علمانہ سوال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے!

یہ سوال کچھ اس وجہ سے ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اگر ہم اتمامِ دین کی آیات دیکھیں تو یہاں اہلِ کتاب کا کھانا اور ان کی خواتین سے نکاح کی مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے۔

اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ. (المائدہ ۵: ۵)

''آج تمھارے لیے تمام پاکیزہ چیزوں کو جائز کیا گیا ہے اور اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال کیا گیا ہے اور تمھاراکھانا ان کے لیے حلال کیا گیا ہے۔مومنات میں سے پاک دامن عورتیں تمھارے لیے جائز ہیں اور تم سے پہلے جن کوکتاب دی گئی، ان کی پاک دامن عورتیں بھی تمھارے لیے جائز قرار دی گئی ہیں، جبکہ تم ان کو ان کے مہر ادا کردو۔ وہ پاک دامن ہوں، زنا کرنے والی نہ ہوں اور نہ ہی یاری آشنائی کرنے والی ہوں۔ ''

دین کی تکمیل ہو رہی ہے اور یہاں واضح طور پر اہلِ کتاب کا ذکر مشرکین سے الگ کر کے کیا گیا ہے۔ یعنی مشرکین کا ذبیحہ اور ان میں نکاح کی اجازت نہیں دی گئی۔
قرآن کے اسلوب کو دیکھیں تو مدنی سورتوں میں اکثر مشرکین اور اہلِ کتاب کو اکٹھے ہی خطاب کیا گیا ہے۔
مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ
یہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو ، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے ۔ (البقرۃ 105)

اس کی ایک عمدہ مثال سورۃ البینہ ہے جہاں دو ایسے مقامات ہیں۔
لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (اپنے کفر سے ) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس البینۃ (دلیلِ روشن ، کھلی نشانی) نہ آ جائے۔(1)

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا جہنّم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ،یہ لوگ بد ترین خلائق ہیں۔(6)

پھر سورۃ ال عمران میں اللہ تعالی اہلِ کتاب کے راست لوگوں کی خود تعریف کرتے ہیں۔

لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ۔ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۔ وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْهُ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْن۔
مگر سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں ، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔یہ صالح لوگ ہیں۔ اور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی ناقدری نہ کی جائے گی ، اللہ پرہیز گار لوگوں کو خوب جانتا ہے۔(115۔113)

ان محدود ملاحظات کے بعد اہلِ کتاب کو مشرکین جیسا کافر قرار دیا جائے تو ذہن میں سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
طالب علمانہ سوال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے!

یہ سوال کچھ اس وجہ سے ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اگر ہم اتمامِ دین کی آیات دیکھیں تو یہاں اہلِ کتاب کا کھانا اور ان کی خواتین سے نکاح کی مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے۔

اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ. (المائدہ ۵: ۵)

''آج تمھارے لیے تمام پاکیزہ چیزوں کو جائز کیا گیا ہے اور اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال کیا گیا ہے اور تمھاراکھانا ان کے لیے حلال کیا گیا ہے۔مومنات میں سے پاک دامن عورتیں تمھارے لیے جائز ہیں اور تم سے پہلے جن کوکتاب دی گئی، ان کی پاک دامن عورتیں بھی تمھارے لیے جائز قرار دی گئی ہیں، جبکہ تم ان کو ان کے مہر ادا کردو۔ وہ پاک دامن ہوں، زنا کرنے والی نہ ہوں اور نہ ہی یاری آشنائی کرنے والی ہوں۔ ''

دین کی تکمیل ہو رہی ہے اور یہاں واضح طور پر اہلِ کتاب کا ذکر مشرکین سے الگ کر کے کیا گیا ہے۔ یعنی مشرکین کا ذبیحہ اور ان میں نکاح کی اجازت نہیں دی گئی۔
قرآن کے اسلوب کو دیکھیں تو مدنی سورتوں میں اکثر مشرکین اور اہلِ کتاب کو اکٹھے ہی خطاب کیا گیا ہے۔
مَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ
یہ لوگ جنہوں نے دعوتِ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو ، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے ۔ (البقرۃ 105)

اس کی ایک عمدہ مثال سورۃ البینہ ہے جہاں دو ایسے مقامات ہیں۔
لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے (اپنے کفر سے ) باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس البینۃ (دلیلِ روشن ، کھلی نشانی) نہ آ جائے۔(1)

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ یقینا جہنّم کی آگ میں جائیں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ،یہ لوگ بد ترین خلائق ہیں۔(6)

پھر سورۃ ال عمران میں اللہ تعالی اہلِ کتاب کے راست لوگوں کی خود تعریف کرتے ہیں۔

لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ۔ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۔ وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْهُ ۭوَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْن۔
مگر سارے اہلِ کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں ، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں ۔یہ صالح لوگ ہیں۔ اور جو نیکی بھی یہ کریں گے اس کی ناقدری نہ کی جائے گی ، اللہ پرہیز گار لوگوں کو خوب جانتا ہے۔(115۔113)

ان محدود ملاحظات کے بعد اہلِ کتاب کو مشرکین جیسا کافر قرار دیا جائے تو ذہن میں سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں۔
کفار میں ایک تو غیر کتابی کافر ہیں، یعنی مشرکین، بت پرست، آتش پرست، دہریے وغیرہ۔
دوسرے، کتابی کافر ہیں، یعنی یہودو نصاریٰ۔ یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح کی مشروط اجازت ہے۔
اب اہلِ کتاب کے معاملے میں یہ چھوٹ کیوں دی گئی ہے، اس کی کیا حکمت ہے، یہ علمائے کرام ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔
میں اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔
 
Top