اثرؔ لکھنوی:::::بہار ہے تِرے عارض سے لَو لگائے ہُوئے :::::ASAR -LAKHNAVI

طارق شاہ

محفلین

اثرؔ لکھنوی

غزل
بہار ہے تِرے عارض سے لَو لگائے ہُوئے
چراغ لالہ و گُل کے ہیں جِھلمِلائے ہُوئے

تِرا خیال بھی تیری ہی طرح آتا ہے
ہزار چشمکِ برق و شرر چُھپائے ہُوئے

لہُو کو پِگھلی ہُوئی آگ کیا بنائیں گے
جو نغمے آنچ میں دِل کی نہیں تپائے ہُوئے

ذرا چلے چلو دَم بھر کو ، دِن بہت بیتے
بہارِ صُبحِ چَمن کو دُلہن بنائے ہُوئے

قَدِیم سے ہے یہی رسم و راہِ مُلکِ وفا
کہ آزمائے گئے ، جو تھے آزمائے ہوئے

ڈھٹائی دیکھی تھی اس سے لڑاتے ہیں آنکھیں
ستارے آنکھوں کی تیری جھپک چرائے ہوئے

ہے جائے حُسن حیا اور بھی اضافہ کر!
نظر کے سامنے آ جا نظر جُھکائے ہُوئے

اب اِس کے بعد گِلہ کِس سے کیجئے کِس کا
سمجھتے تھے جنھیں اپنا ، وہی پرائے ہُوئے

ہم اپنے حالِ پریشاں پہ مُسکرائے تھے
زمانہ ہو گیا یُوں بھی تو مُسکرائے ہُوئے

ہمیشہ کیف سے خالی رہیں گے وہ نغمے
جو تیری نِکہَتِ خوش میں نہیں بسائے ہُوئے

جو منتظر تھے کسی کے، وہ سو گئے آخر
سسکتی آرزوؤں کو گلے لگائے ہُوئے

اثرؔ !سُناتی ہیں اب دل کی دھڑکنیں شب کو
فسانے اُس نِگہِ مست کے سُنائے ہُوئے

اثرؔ لکھنوی
(مرزا جعفر علی خاں)

 
Top