اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے

اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے
وسعت اللہ خان پير 14 جولائ 2014

معروف یہودی مورخ آئزک ڈوشر کہتے ہیں کہ جو لوگ اسرائیل کو ایک غاصب ریاست سمجھتے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہودی شوق سے نہیں آئے بلکہ زمانی جبر انھیں فلسطین کھینچ کے لایا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک یہودی نے جان بچانے کے لیے جلتی عمارت سے چھلانگ لگائی اور اتفاقاً نیچے کھڑے فلسطینی پہ جا گرا۔ یوں وہ فلسطینی بھی اچھا خاصا زخمی ہوگیا۔ایسے حالات میں آپ چھلانگ لگانے والے کو کتنا قصور وار ٹھہرائیں گے؟
آئزک ڈوشر کی دلیل میں خاصا وزن ہے مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی ، جب یورپ کی جلتی ہوئی عمارت سے جان بچانے کے لیے یہودی نے نیچے چھلانگ لگائی تو جو فلسطینی اس کے بوجھ تلے دب کر ہڈیاں تڑوا بیٹھا اس سے معذرت کرنے یا مرہم پٹی کے بجائے اسے مارنا کیوں شروع کردیا اور پھر اس گرنے والے یہودی کی چوتھی نسل اس فلسطینی کی چوتھی نسل کو کیوں مار رہی ہے ؟
احساسِ جرم بھلے انفرادی ہو کہ اجتماعی اس سے دو طرح سے نمٹا جاسکتا ہے۔ یا تو آپ یہ اعتراف کرکے دل ہلکا کرلیں کہ مجھ سے زیادتی ہوگئی اور اب میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ایک احساسِ جرم کو دبانے کے لیے اس پر دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں جرم کا بوجھ رکھتے چلے جائیں اور آخر میں ایسے نفسیاتی مریض بن جائیں جو اس احساس سے ہی عاری ہو کہ کیا جرم ہے اور کیا جرم نہیں۔
پہلا گروہ جس نے نازی جرائم میں شرکت یا خاموش کردار ادا کرنے کا کھلا اقبال کرکے ذہنی کش مکش سے نجات حاصل کرلی، وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جرمن قوم تھی۔مغربی جرمنی نے نہ صرف نازی نظریے کو کالعدم قرار دیا بلکہ ہٹلر کے ستم گزیدہ یہودیوں کو ان کی املاک لوٹائیں اور متاثرین کو اسرائیلی ریاست کی معرفت لگ بھگ پانچ ارب ڈالر معاوضہ بھی ادا کیا۔مگر کیا ستم ظریفی ہے کہ نازیوں کا نشانہ بننے والے یہودیوں نے کنسنٹریشن کیمپوں سے چھوٹنے کے تین برس کے اندر ہی اپنی مظلومیت خود غرضی اور ظلم کے ہاتھ فروخت کردی اور فلسطینیوں کو اپنی مجبوریاں سمجھانے کے بجائے انہی کے سینے پرچڑھ بیٹھے۔اپنی بحالی کی بنیاد فلسطینیوں کی بے گھری پر رکھی اور دور دور تک احساسِ ندامت بھی نہیں۔
صیہونی اسرائیلی کہتے ہیں کہ انھیں احساسِ جرم کیوں ستائے۔وہ تو اپنے آبا کی زمین پر دوبارہ آن بسے ہیں۔ یہ فلسطینی تھے جنہوں نے ساڑھے تین ہزار سال پہلے یہودیوں کی چھوڑی زمین پر قبضہ کرلیا تھا۔ہم نے تو بس انیس سو اڑتالیس میں قبضہ چھڑایا ہے۔کیا اپنی زمین واپس لینا اتنا ہی بڑا جرم ہے ؟
اب میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ مورخ آئزک ڈوشر کا نظریہِ مجبوری مانوں یا صیہونیت کا نظریہِ سینہ زوری۔اگر بیک وقت دونوں نظریے بھی تسلیم کرلوں تب بھی دونوں نظریات میں معذرت یا افہام و تفہیم کی روح کا شائبہ تک نہیں۔کیا یہ کسی مبنی بر حق قوم کی ثابت قدمی ہے یا پھر احساسِ جرم کو دبانے کے لیے مسلسل کوشاں قوم کی اکڑ۔مجھے تو پیروں کے نشانات ثابت قدمی سے زیادہ احساسِ جرم کی پیداوار اکڑ کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔
کیا یہ احساسِ جرم سے نگاہیں چرانے کی کوشش نہیں کہ ہر اسرائیلی بچے کو ہوش سنبھالتے ہی گھر اور اسکول میں ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ یہودی تاریخی اعتبار سے دنیا کی مظلوم ترین قوم ہے۔فلسطینی پیدائشی قاتل ہیں اور ان کی یہودیوں سے نفرت بلا جواز ہے۔فلسطینی ہماری طرح کے انسان بھی نہیں۔اب جب ایک بچہ اس طرح کی باتیں مسلسل سنتا سنتا جوان ہوگا تو اس کا رویہ فلسطینوں سے کس طرح کا ہوگا۔یہ جاننے کے لیے ارسطو ہونا بالکل ضروری نہیں۔
ایک بوڑھے اسرائیلی کو تو خیر جانے دیجئے۔نفرت کی گھٹی پر پلنے والی نئی نسل کا کیا حال ہے اس کی ایک مثال خوبرو ایلت شاکید ہے جو اسرائیل بننے کے اٹھائیس برس بعد پیدا ہوئی۔ یونیورسٹی گریجویٹ اور کمپیوٹر انجینئر ہے۔اس وقت نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہابیت ہایہودی(یہودی مادرِ وطن)کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ (کنیسٹ)کی رکن ہے۔گذشتہ ہفتے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر یہ محترمہ رکنِ پارلیمان کیا لکھتی ہیں۔
’’ ہر دہشت گرد کے پیچھے بیسیوں ایسی عورتیں اور مرد ہیں جن کی مدد اور تائید کے بغیر وہ دہشت گرد نہیں بن سکتا۔چنانچہ یہ سب کے سب لوگ مسلح جنگجو کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اور جو جو بھی دہشتگردی کا نشانہ بنا اس کا خون ان سب کی گردن پر ہے۔ان میں وہ مائیں بھی شامل ہیں جو اپنے دہشتگرد بچوں کی لاشوں کو پھولوں اور بوسوں کے ساتھ جانبِ جہنم رخصت کرتی ہیں۔انصاف یہی ہے کہ ان ماؤں کو بھی ان کے بیٹوں کے ساتھ روانہ کردیا جائے۔اور ان کے گھر بھی مسمار کردیے جائیں جہاں رہتے ہوئے وہ سانپ پیدا کرتی ہیں۔بصورتِ دیگر یہ سنپولیے ہی پیدا کرتی رہیں گی‘‘۔
(مذکورہ تحریر نازی کنسنٹریشن کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والوں کی نئی نسل کے جذبات سے زیادہ ہٹلر کی سوانح حیات ’’ مین کیمپف ’’ کا کوئی اقتباس لگتا ہے)۔
ایلت شاکید کی اس تحریر کو دو گھنٹے کے اندر فیس بک پر ایک ہزار سے زائد اسرائیلیوں نے شئر اور پانچ ہزار سے زائد نے لائیک کیا۔سوچئے کہ ایک دن کنیسٹ کی یہ رکن ایلت شاکید وزیرِاعظم بن جائے تو پھر؟؟؟؟
چلیے مان لیا کہ ایلت کی تحریر کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہئیے کیونکہ یہ اس دن لکھی گئی جب تین اغوا شدہ اسرائیلی نو عمروں کی لاشیں غربِ اردن کے کسی ویرانے سے ملیں۔ لیکن اس سے اگلے روز ایک پندرہ سالہ فلسطینی بچے محمد خدیر کی جلی ہوئی لاش ملی۔ تب کیا کسی فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کسی اسرائیلی نوجوان نے اظہارِ افسوس کیا؟ اگر کیا بھی ہوگا تو اسے اتنے لوگوں نے شئیر نہیں کیا ہوگا جتنی محمد خدیر کی وہ تصویر شئیر ہوئی جس کے نیچے لکھا تھا ’’نوعمر فلسطینی دہشت گرد‘‘۔
اور جب اسرائیلی سیکیورٹی اہلکاروں نے محمد خدیر کے امریکا سے چھٹیوں پر آئے ہوئے نو عمر کزن طارق ابو خدیر کو مار مار کے اس کا چہرہ اتنا بگاڑ دیا کہ ہونٹ سوجھ کے باہر کی طرف لٹک پڑے تو اسرائیلی ٹویٹر پر جو تصویر سب سے زیادہ شئیر ہوئی اس میں ایک طرف طارق ابو خدیر کا سوجھا ہوا چہرہ اور ساتھ ہی ایک خنزیر کی تھوتھنی بھی دکھائی گئی۔تین اسرائیلی نو عمروں کے قتل میں تو نیتن یاہو حکومت کو فوراً حماس کا ہاتھ نظر آگیا اور اس کے نتیجے میں غزہ کے لگ بھگ دو سو فلسطینی اب تک اپنی جانوں کی قیمت ادا کرچکے لیکن محمد خدیر کو زندہ جلانے کے شک میں جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کرنے سے پہلے یہ اطمینان کیا جائے گا کہ کیا واقعی یہی قاتل ہیں؟ کیونکہ ایک مہذب معاشرے میں انصاف و قانون کے تمام بنیادی تقاضے پورے ہونے ضروری ہیں۔
اسرائیل تو ویسے بھی مشرقِ وسطیٰ کے بے ہنگم و وحشی سمندر میں جمہوریت کا جزیرہ مانا جاتا ہے۔ ایسی جمہوریت جس میں یہودیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی عربوں کو بھی ووٹ دینے اور اپنے نمایندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تل ابیب میں کوئی اسرائیلی یہودی کسی اسرائیلی عرب کو اپنا اپارٹمنٹ کرائے پر دے دے گا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حکومت یہودیوں آبادکار بستیوں کی طرز پر اسرائیلی عربوں کو بھی بستیاں بنانے کی اجازت دے یا پھر انھیں آسان شرائط پر مکان بنانے کے لیے قرضے دیتی پھرے۔
اسرائیل جو غربِ اردن میں انیس سو سڑسٹھ کے بعد سے اب تک سات لاکھ سے زائد یہودی بسا چکا ہے۔اس جمہوریت میں ایک بھی نئی عرب بستی بسانے کی اجازت نہیں۔اور اس جمہوریت کے زیرِ تسلط مقبوضہ فلسطینوں کے ساتھ جو رویہ ہے وہ کسی بھی جمہوری ملک کی تاریخ کی انہونی مثال ہے۔
برطانوی زیرِ انتداب فلسطین میں ارگون جیسی صیہونی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ مینہم بیگن اسرائیل میں لیخود پارٹی بنا کر یا صابرہ اور شتیلا کے قتلِ عام کا ذمے دار شیرون اگر وزیرِ اعظم بن جائے تو یہ عین جمہوری عمل ہے۔لیکن حماس اگر شفاف انتخابات کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی میں برسرِ اقتدار آجائے تو یہ دہشت گردی ہے۔
غزہ پر اسرائیل اس لیے مسلسل ایک ہفتے سے پوری فوجی طاقت استعمال کررہا ہے کیونکہ حماس کے شرارتی لونڈے بچارے اسرائیلیوں پر ایک ہزار سے زائد راکٹ برسا چکے ہیں۔مگر یہ کیسے اللہ مارے راکٹ ہیں جن سے ایک اسرائیلی بھی نہیں مرا۔ ان ’’ریکٹوں’’ سے تو اسرائیل کے وہ بم اچھے جو پھٹتے ہیں تو پورا پورا خاندان اڑا لے جاتے ہیں۔البتہ حماس کی راکٹ باری کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ خطرے کے اسرائیلی سائرنوں پر بیٹھی گرد صاف ہوگئی۔ اسرائیل کی نئی پود کے لیے تو اتنی فلسطینی جارحیت بھی بہت ہے۔ایک نو عمر نے ٹویٹر پر لکھا
’’اے عربو تمہارے کرتوتوں کے نتیجے میں صبح ہی صبح بجنے والے سائرنوں سے میری نیند حرام ہوگئی ہے۔خدا تم سب کو غارت کرے‘‘۔
تو رات میں لکھا ہے’’ آنکھ کے بدلے آنکھ ’’۔مگر جدید اسرائیل میں اس کی تشریح یوں ہے کہ’’ ایک پلک کے بدلے دوسرے کی کم از کم دونوں آنکھیں اور ہوسکے تو چہرہ بھی‘‘۔۔
نوم چومسکی نے ایک فلسطینی کو یوں نقل کیا ہے۔
’’ تم نے میرا پانی لے لیا، زیتون جلا ڈالے، گھر مسمار کردیا، روزگار چھین لیا، زمین چرا لی، باپ قید کردیا، ماں مار ڈالی، میری دھرتی کو بموں سے کھود ڈالا، میرے راستے میں فاقے بچھا دیے، مجھے کہیں کا نہ رکھا اور اب یہ الزام بھی کہ میں نے تم سے پہلے راکٹ کیوں پھینک دیا‘‘۔
 

محمد اسلم

محفلین
عمدہ تحریر ہے۔۔
اس ناجائز ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیئے۔۔۔
اچھا۔۔۔۔ کیا یہ اتنا آسان ہے،،،،کیا صرف مطالبہ اور احتجاج سے ایسا ہو جاتا ہے اس دنیا میں،،، یا قابلیت اور استحقاق کی بھی کچھ جگہ ہے۔
 
اچھا۔۔۔۔ کیا یہ اتنا آسان ہے،،،،کیا صرف مطالبہ اور احتجاج سے ایسا ہو جاتا ہے اس دنیا میں،،، یا قابلیت اور استحقاق کی بھی کچھ جگہ ہے۔
کیا کسی مطالبہ کا آسان ہونا ہی اس کی سچائی یا حقانیت کی دلیل ہے؟کیا کسی مطالبہ کا آج بوجوہ عمل پزیر ہونا مشکل ہو تو اس کو رد کر دیا جائے ؟
کیا کسی کی آج کی قابلیت اس کو ظلم و جبر کرنے کا استحقاق فراہم کرتی ہے؟
 

محمد اسلم

محفلین
کیا کسی مطالبہ کا آسان ہونا ہی اس کی سچائی یا حقانیت کی دلیل ہے؟کیا کسی مطالبہ کا آج بوجوہ عمل پزیر ہونا مشکل ہو تو اس کو رد کر دیا جائے ؟
کیا کسی کی آج کی قابلیت اس کو ظلم و جبر کرنے کا استحقاق فراہم کرتی ہے؟
تقدیر کے قاضی کا یہ فیصلہ ہے ازل سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تقدیر کے قاضی کا یہ فیصلہ ہے ازل سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوریا مقبول جان
جرم ضعیفی کی میٹھی گولیاں
مسلم امہ کے کسی سیاسی رہنما‘ دانشور یا مغربی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی چوکھٹ پر سجدہ ریز شخص کو اگر دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد اور معصوم عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتائو تو وہ اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ دہرانے لگتا ہے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ کس قدر بے حس ہیں یہ لوگ۔ ان کے اپنے گھر پر اگر بم گرے‘ ان کے بچے تڑپتے ہوئے جان دیں‘ ان کی عورتوں کو سپاہی اٹھا کر لے جائیں تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ کوئی کتنا بھی کمزور ہو‘ انتقام کی آگ میں کھولنے لگتا ہے۔

ممکن ہو تو حفاظت خود اختیاری کا سہارا لے کر جو بھی اسلحہ گھر میں موجود ہو لے کر بدلہ لینے نکل پڑتا ہے۔ نہتا ہو تو گھر کا سامان بیچ کر انتقام کے لیے اسلحہ خریدتا ہے‘ کرائے کے قاتلوں سے رابطہ کرتا ہے‘ بدلہ لینے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو شور ضرور مچاتا ہے‘ واویلا ضرور کرتا ہے‘ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ یہ سب نہ بھی کر سکے تو اتنا ضرور کرتا ہے کہ جو لوگ یہ ظلم اور بربریت کرتے ہیں‘ ان کو اور ان کے پشت پناہوں کو دشمن سمجھتا ہے‘ ان سے شدید نفرت کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی اسے اقبال کا جرم ضعیفی والا شعر سنا کر چپ رہنے کو کہے تو اس کا گریبان تھام کر کہنا ہے‘ تم پر بیتی نہیں اس لیے تم یہ باتیں کر رہے ہو۔ تمہارا گھر ایسے اجڑتا تو میں تم سے پوچھتا۔

لیکن وہ امت جس کی سید الانبیاء ﷺ نے یہ علامت بتائی تھی کہ یہ ایک جسد واحد ہے۔ ایک جسم جس کے کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچے‘ باقی تمام عضو مضطرب ہو جاتے ہیں۔ اس امت میں کبھی بوسنیا‘ چیچنیا‘ افغانستان‘ عراق اور اب فلسطین میں معصوم اور نہتے لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور ہم یا تو قاتلوں کے دوست اور اتحادی ہیں یا پھر قاتلوں کے پشت پناہوں سے بھیک اور امداد مانگ کر گزارا کرنے والے ہیں۔ غیرت و ناموس بیچ کھائی ہو تو جرم ضعیفی جیسے الفاظ کس قدر تسلی بخش ہوتے ہیں۔

کاش کوئی ویت نام میں لڑنے والے نہتوں کو بھی یہ الفاظ سکھاتا۔ ہمارے ایک دانشور ہیں جنھیں مغرب کے ہر ظلم میں حسن نظر آتا ہے‘ وہ کہتے ہیں ہم اسپرین تک بنا نہیں سکتے اور امریکا سے مقابلہ کرتے ہیں۔ کاش وہ یہ بتا دیں کہ ویت نام میں کس نے اسپرین ایجاد کی تھی جو انھوں نے امریکا کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا

یہ سب اس امت کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ اسے یہ درس بھلا دیا گیا ہے کہ نصرت اور فتح ٹیکنالوجی سے وابستہ نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے ہوتی ہے۔ جس رسولﷺ کے عشق کے یہ دعوے کرتے ہیں‘ اس کی سنت پر عمل کرنے کا درس دیتے ہیں‘ انھوں نے اس ہادی برحق کو بدر کے میدان میں نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔ تین سو تیرہ جانثار‘ دو گھوڑے‘ چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں… یہ تھی کل کائنات اور مقابلے میں تین گنا بڑا لشکر اور تمام سامان حرب۔ کوئی ایک غزوہ بھی ایسا ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ کیا شام‘ مصر‘ ترکی اور ایران فتح کرنے والے اپنے مقابل لشکروں سے تعداد‘ اسلحہ اور سامان حرب میں زیادہ تھے۔ ہر گز نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنے دور کی عالمی طاقتوں سے ٹکڑا گئے تھے۔ اس لیے کہ وہ جرم ضعیفی کی لوریوں میں نہیں پلے تھے بلکہ اللہ کی طاقت کے بھروسے پر زندگی گزارنے والے تھے۔

اللہ پر بھروسے کی طاقت کو اس امت سے چھیننے اور اسے ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز کروانے میں ایک عرصہ لگا ہے۔ اس میں جنگ عظیم اول کے بعد خلافت کی مرکزیت کا خاتمہ اور موجودہ سیکولر قومی ریاستوں کے مغرب کی دہلیز پر سجدہ ریز حکمرانوں کا بھی حصہ ہے اور اس امت کے ان دانشوروں کا بھی جو روز اس امت کو کم مائیگی‘ کمزوری اور بے حوصلگی کا درس دیتے ہیں۔ یہ ہیں وہ اہل مدرسہ جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ’’گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا‘‘۔ اسی نوجوان کے بارے میں اقبال نے کہا تھا

کون کہتا ہے کہ مکتب کا جواں زندہ ہے

مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نفس

لیکن اس تن مردہ میں جاں پیدا کرنے کی آوازیں اور تحریکیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ جرم ضعیفی پر خاموش رہنے اور غیرت و حمیت بیچ کھانے والوں کے مقابل میں نعرہ مستانہ لگانے والوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ تاریخ کا یہ بدترین باب ہے کہ وہ جنھوں نے مسلمانوں کو جرم ضعیفی کی سزا تجویز کی اور انھیں ٹیکنالوجی کے بت کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر بہتر مستقبل کی نوید دی وہ سب کے سب ان قومی سیکولر ریاستوں کے حکمران ہی تھے۔ گزشتہ سو سالہ تاریخ میں سوڈان سے لے کر ملائشیا تک ہر کسی نے مسلمانوں کو ان ریاستوں کے خول میں جکڑ کر بے حس اور مردہ دل بنایا اور آج یہ عالم ہے کہ کسی شہر کے ایک حصے میں اگر آفت اور مصیبت آئے تو دوسرے حصے کے لوگ اپنی روز مرہ زندگی جاری رکھتے ہیں۔
 

محمد اسلم

محفلین
یہ تو بس الفاظ ہیں۔۔۔۔۔۔۔ کسی کے پاس زیادہ ،،کسی کے پاس کم،،،،،، اور یہ تو آزمائش بھی ہوتے ہیں،،،، فتنہ بھی ہوتے ہیں۔۔
پر امن اور مسابقتی طریقوں سے ہی کچھ ہو سکتا ہے،،،،، آج جو حالات ہیں ان کے مطابق،،،، اور رہی بات "اسلامی تاریخ" اور قرآن و حدیث کی تو ،،،، ان سب کا ہر کوئی اپنا ایک ورژن رکھتا ہے،،،، واقعی اور عملی طور پر دیکھنا سب کے بس کی بات نہیں۔
جب ہم حقیقی طور پر دیکھیں گے تو صحیح رہنمائی ہمارے اسلاف سے ضرور ملتی ہے۔۔۔۔ جذباتی طور سے نہیں۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،، واقعی اور عملی طور پر دیکھنا سب کے بس کی بات نہیں۔
جب ہم حقیقی طور پر دیکھیں گے تو صحیح رہنمائی ہمارے اسلاف سے ضرور ملتی ہے۔۔۔۔ جذباتی طور سے نہیں۔
بہت خوب، آپ کچھ مزید واضح کریں گے
 
خاتون یہودی سنگر کے ہاتھ میں گٹار تھا‘ وہ اداسی کا مجسمہ بن کر یاد گار کی سیڑھیوں پر بیٹھی تھی‘ یہودی نوجوان اس کی لے میں لے ملا رہے تھے‘ سلیا اور اینڈی مجمع کے قریب کھڑی تھیں اور وہ بھی منہ ہی منہ میں بول دہرا رہی تھیں‘ گانا ختم ہوا تو میں نے سلیا سے پوچھا ’’آپ لوگ اتنے اداس کیوں ہیں‘‘دونوں بیک آواز بولیں ’’ہمیں جرمنوں کے ظلم یاد آ رہے ہیں‘‘ میں نے اس کے بعد ان سے وہ سوال پوچھا جس کے جواب میں دونوں خاموش ہو گئیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگوں کو اگر جرمنوں کے مظالم یاد ہیں تو پھر آپ آج فلسطینی مسلمانوں کے لیے ہٹلر کیوں بن گئے ہیں‘ آپ آج فلسطینیوں کے لیے جرمن کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟‘‘ سلیا اور اینڈی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے سر جھکا لیا۔
آپ مظلوم ہیں تو ظلم کیوں کرتے ہیں
جاوید چوہدری
 
اسرائیلیوں نے ہٹلر کی بربریت کو مات دے دی، ترک وزیراعظم
اسرائیلیوں کا کوئی ضمیر، غیرت یا خودداری نہیں، جارحیت پر امریکا نے کیوں آنکھیں بند کرلیں؟طیب اردگان

انقرہ: ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوان نے غزہ میں جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلیوں نے ہٹلر کی بربریت کو مات دے دی۔
صدارتی مہم کے دوران ریلی سے خطاب میں ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست میں کچھ لوگوں کی ذہنیت نازی رہنما ایڈولف ہٹلر سے ملتی ہے۔ اسرائیلیوں کا کوئی ضمیر، غیرت یا خودداری نہیں ہے وہ ہٹلر پر صبح شام لعن طعن کرتے ہیں مگر خود انہوں نے ہٹلر کی بربریت کو بھی مات دے دی ہے،اسرائیلی حملوں پر امریکا کیسے آنکھیں بندکرسکتا ہے، سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے اسے مناسب اقدام کرنا چاہیے۔ انھوں نے اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام عائد کرتے ہوئے صہیونی ریاست سے تعلقات میں بہتری کے امکان کو مسترد کر دیا۔
 

arifkarim

معطل

اس ناجائز ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیئے۔۔۔
تحریر تو عمدہ ہے بے شک۔ لیکن اس صفحہ ہستی سے مٹا دینی والی بات پر افسوس ہوا۔ میرا خیال میں یہ کام انسانوں کا نہیں ہے وگرنہ پچھلے 66 برس سے مسلسل جاری اس عرب جدو جہد اور کشمکش کے بعد آج اسرائیل کیا ایک بھی یہودی فلسطین میں باقی نہ بچتا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Timeline_of_the_Israeli–Palestinian_conflict
 
قائداعظم کا مشرق وسطیٰ کے بارے میں فکر انگیز تجزیہ

لاہور(نیوز ڈیسک )قائداعظم محمد علی جناح نے12اکتوبر1945کو کوئٹہ کے مقام پر مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا تھا۔مسلم دنیا کا ہر مرد و عورت صہونیوں کے یروشلم کے قبضے سے پہلے اپنی جان قربان کر دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہودی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوں گے اگر برطانیہ اور امریکہ یہودیوں کی سرپرستی بند کر دیں تو میں دیکھتا ہوں کہ یہودی کیسے یروشلم پر قبضہ کرتے ہیں۔ پہلے ہی پانچ لاکھ سے زائد یہودی مقامی لوگوں کی مرضی کے بغیر یروشلم میں لاکرآباد کئے گئے ہیں کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اور کس ملک نے انہیں جگہ دی۔ اگر اسی طرح یہ استحصال اور قبضے کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی بھی خطہ میں امن نہ ہو گا اور ایک ناختم ہونے والی جنگ شروع ہو جائے گی۔
 
ٹوکیو (نیوز ڈیسک) عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جاپانی بین الاقوامی تنازعات میں کوئی واضح مؤقف کم ہی اپناتے ہیں تاہم اسرائیل کی بد ترین بربریت نے جاپانی شہریوں کو بھی آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا. جاپان میں سینکڑوں لوگوں نے دارالحکومت ٹوکیو میں غزہ کے شہیدوں کے لئے دعا کی اور اسرائیلی ظلم کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں شمعیں اٹھارکھی تھیں اور انہوں نے انگریزی حروف کی شکل میں اکٹھے کھڑے ہوکر لفظ ”غزہ“ بنایا۔ مظاہرین نے فلسطین کے جھنڈے بھی اٹھا رکھے تھے اور پوسٹروں اور بینروں پر اسرائیل کی مذمت میں نعرے درج تھے۔ مظاہرے میں مسلمان، عیسائی، بدھ مت، غرضیکہ ہر مذہب اور عقیدہ کے لوگ شامل تھے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ میں بدترین ظلم کررہا ہے اور معصوم فلسطینیوں کا قتل عام فوراً بند ہونا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ جاپان غزہ سے دور ہے لیکن یہاں بسنے والے لوگوں کے دل غزہ کے مظلوموں سے دور نہیں ہیں اور اُن کی حمایت اور اسرائیلی ظلم کی ہر ممکن مخالفت اور خدمت کی جائیگی۔
 
Argentina's President Christina Kirshner Has Declared That Her Country Will Revoke The Argentinian Citizenship From Every Citizen With The Possession Of Both Argentinian And Israeli Passports. "This New Law Will Make It Impossible For Any Argentinian To Serve In The Israeli Army Which Is Assassinating Innocent People And Children" Stated Her Spokesman.
 

قیصرانی

لائبریرین
اوریہ مقبول جان جیسا گدھا یہ لکھ رہا ہے:
مسلم امہ کے کسی سیاسی رہنما‘ دانشور یا مغربی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی چوکھٹ پر سجدہ ریز شخص کو اگر دنیا میں کسی بھی جگہ مسلمانوں پر بہیمانہ تشدد اور معصوم عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بتائو تو وہ اقبال کے شعر کا ایک مصرعہ دہرانے لگتا ہے ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘۔ کس قدر بے حس ہیں یہ لوگ۔ ان کے اپنے گھر پر اگر بم گرے‘ ان کے بچے تڑپتے ہوئے جان دیں‘ ان کی عورتوں کو سپاہی اٹھا کر لے جائیں تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ کوئی کتنا بھی کمزور ہو‘ انتقام کی آگ میں کھولنے لگتا ہے۔
پاکستان میں کتے طالبانوں کے ہاتھوں پاکستانی شہریوں کے جان گنوانے پر یہ لعنتی شخص ایسے چپ ہوتا ہے جیسا میا مر گئی ہو اس کی
 

فلک شیر

محفلین
حیرت ہے ابھی بھی کچھ لوگ کھل کھلا کر اسرائیلی درندوں کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے خفیہ خفیہ اپنے خبثِ باطن کا اظہار کر تے ہیں ۔۔۔۔۔۔دونوں پر تُف ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حیرت ہے ابھی بھی کچھ لوگ کھل کھلا کر اسرائیلی درندوں کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے خفیہ خفیہ اپنے خبثِ باطن کا اظہار کر تے ہیں ۔۔۔۔۔۔دونوں پر تُف ہے۔
مجھے بھی حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی شہریوں کے مرنے پر شاید ہی کسی نے انا للہ تک پڑھا ہو، غزہ غزہ کرتے گلے سوکھ جاتے ہیں لوگوں کے :)
 
Top