اب کے سال پونم میں -آصف علی

فاتح

لائبریرین
بہت شکریہ سارہ صاحبہ۔ یہ گانا بلکہ غزل میری پسندیدہ ترین غزلوں میں سے ہے۔
ناصر کاظمی کی یہ غزل مہدی حسن نے بھی گائی ہے۔

اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھادیں گےشوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیر ی آرتی اتاریں گے

تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے

آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے
آپ زلف جاناں کے خم سنوارئیےصاحب، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے

ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں، ہم اسے پکاریں گے
(ناصر کاظمی)​
 

فاتح

لائبریرین
ارے ہاں یہی غزل کسی انڈین مووی میں بھی یہی طرز برقرار رکھتے ہوئے مگر دو چار الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ کسی خاتون نے گائی ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اس کی گائیکی تو بہرحال خوبصورت ہے۔ :)
معلوم نہیں اس کی دھُن مہدی حسن کی بنائی ہوئی ہے یا آصف علی کی۔ کیونکہ دونوں نے ایک ہی طرز پر گائی ہے۔
 
جی ہاں! طوالت کے اعتبار سے تو بحرِ ظلمات ہے کہ جس میں گھڑ دوڑ بھی کروائی جا سکتی ہے;)
اگر ان دو گھوڑوں کو ایک ہی رتھ مین باندھ دیا جائے تو کیا اسی بحرِ ظلمات میں دوڑ سکتے ہیں؟:​
اب تو اسکی آنکھوں کے میکدے میسّر ہیں،پھر سکون ڈھونڈوگے ساغروں میں جاموں میں
کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں،اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں​
:):):)
 

فاتح

لائبریرین
اگر ان دو گھوڑوں کو ایک ہی رتھ مین باندھ دیا جائے تو کیا اسی بحرِ ظلمات میں دوڑ سکتے ہیں؟:​
اب تو اسکی آنکھوں کے میکدے میسّر ہیں،پھر سکون ڈھونڈوگے ساغروں میں جاموں میں
کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں،اسطرح تو ہوتا ہے اسطرح کے کاموں میں​
:):):)
بہت خوب! حضور تازی ہیں تازی۔۔۔ گویا آپ گھوڑوں کی نسلیں پہچاننے لگے ہیں۔ :grin:
ان کے ہنہنانے کی آواز پر غور کیجیے گا یہ "فاعلن مفاعیلن" کی گردان کر رہے ہیں:grin:
 

فاتح

لائبریرین
یہ بھی اتفاق ہی ہے کہ سارہ صاحبہ جب کسی گیت، گانے یا غزل کا دھاگا شروع کرتی ہیں، اس میں کچھ اور ہی گفتگو چل نکلتی ہے۔ :)
 
بہت خوب! حضور تازی ہیں تازی۔۔۔ گویا آپ گھوڑوں کی نسلیں پہچاننے لگے ہیں۔ :grin:
ان کے ہنہنانے کی آواز پر غور کیجیے گا یہ "فاعلن مفاعیلن" کی گردان کر رہے ہیں:grin:
:grin::grin: یہ لیجئے دو اور ۔ ۔ ۔
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو، پیکرِ عمل بن کر غیب کی صدا ہوجا
ترکِ مدّعا کردے عینِ مدّعاہو جا ، شانِ عبد پیدا کر مظہرِ خدا ہوجا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

سید زبیر

محفلین
لاجواب غزل میں جب اسے لوڈ کرنے لگا تو دیکھا کہ یہ پہلے ہی سے موجود ہے ۔
بہت خوبصورت اور گائیکی تو لاجواب ہے ۔ سننے والا مسحور سا ہو جاتا ہے
 
Top