اب کوئی چاند نہ جگنو نہ ستارا جاناں برائے اصلاح

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک بے تکی غزل برائے اصلاح

اب کوئی چاند نہ جگنو نہ ستارا جاناں​
ہر کوئی ہجر کا ترے یہاں مارا جاناں​
کیوں یہ مجمع سا لگا ہے مرے گھر کے آگے؟​
میں نے تو قرض جہاں کا ہے اتارا جاناں​
لطف کیا ہوگا سرِ شام یہ محفل میں بھی​
جبکہ دیکھا ہی نہ ابرو کا اشارہ جاناں​
کس نے دیکھے ہیں سیہ زلف سی شب کے سائے​
ہم ہی نے ہے شبِ ظلمت کو نکھارا جاناں​
اپنے حصے کا دیا ایک جلانے کے لیے​
سب لہو جسم کا آنکھوں میں اُتارا جاناں​
جس کی باتوں میں ترے نام کی خوشبو مہکی​
اُس نے ہر غم میں فقط تجھ کو پکارا جاناں​
آؤ چلتے ہیں یہی سوچ کے ساحل کی طرف​
مل ہی جائے گا کسی طور کنارا جاناں​
ہم تو بدنام شبِ ہجر میں یوں ہی ہوئے​
تو نے ہر بار ہی زلفوں کو سنوارا جاناں​
 

باباجی

محفلین
بہت خوب بلال
مجھے تو یہ شعر بہت پسند آیا

اپنے حصے کا دیا ایک جلانے کے لیے
سب لہو جسم کا آنکھوں میں اُتارا جاناں
 

الف عین

لائبریرین
کاپی کر رہا ہوں، لیکن کم از کم مطلع دیکھ لو، الفاظ کی نشست کیسی مضحکہ خیز ہے÷ اور دوسرے مصرع کا پہلے سے ربط؟؟؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کاپی کر رہا ہوں، لیکن کم از کم مطلع دیکھ لو، الفاظ کی نشست کیسی مضحکہ خیز ہے÷ اور دوسرے مصرع کا پہلے سے ربط؟؟؟
اوہ سوری
ایسے کریا جائے تو۔
پہلے ایسے ہی لکھا تھا لیکن بعد میں ایسے کر دیا
اب کوئی چاند نہ جگنو نہ ستارا جاناں
یہاں ہر کوئی ترے ہجر کا مارا جاناں

اور کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ سب تیرے ہجر کی پہاڑ سی راتیں کاٹنے کہیں گئے ہوئے ہیں، اس لیے نہ چاند نہ جگنو نہ ستارہ، کوئی بھی نظر نہیں آ رہا یعنی کہ روشنی کا کوئی استعارہ نہیں ہے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اور کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ سب تیرے ہجر کی پہاڑ سی راتیں کاٹنے کہیں گئے ہوئے ہیں، اس لیے نہ چاند نہ جگنو نہ ستارہ، کوئی بھی نظر نہیں آ رہا یعنی کہ روشنی کا کوئی استعارہ نہیں ہے۔ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
یہ مفہوم تو شعر سے ظاہر نہیں ہوتا!!
 

اسد قریشی

محفلین
ویسے تو غزل بلال بھائی کی ہے اور ان کا خیال وہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ میری جانب سے ایک تجویز قبول فرمائیں


اب کوئی چاند نہ جگنو نہ ستارا جاناں
اب تو ہر شخص تری زلف کا مارا جاناں
 

الف عین

لائبریرین
اب کوئی چاند نہ جگنو نہ ستارا جاناں
ہر کوئی ہجر کا ترے یہاں مارا جاناں
//یہ بہتر ہو گا
جو بھی ہے، وہ ہے ترے ہجر کا مارا جاناں

کیوں یہ مجمع سا لگا ہے مرے گھر کے آگے؟
میں نے تو قرض جہاں کا ہے اتارا جاناں
//درست، اگرچہ ’ہے اتارا‘ اچھا نہیں لگ رہا، لیکن زمین کی مجبوری ہے۔ یا ایک امکان یہ ہے
قرض دنیا کا جو تھا ، میں نے اتارا جاناں

لطف کیا ہوگا سرِ شام یہ محفل میں بھی
جبکہ دیکھا ہی نہ ابرو کا اشارہ جاناں
//کس نے نہ دیکھا؟ میں نے۔۔۔ بات واضح نہیں۔ پہلے مصرع میں الفاظ بھی نشست ذرا کمزور ہے۔

کس نے دیکھے ہیں سیہ زلف سی شب کے سائے
ہم ہی نے ہے شبِ ظلمت کو نکھارا جاناں
//اس میں دونوں مصرعوں میں تطابق؟
دوسرا مصرع البتہ یوں رواں ہو سکتا ہے
شبِ ظلمت کو ہمیں نے ہے نکھارا جاناں

اپنے حصے کا دیا ایک جلانے کے لیے
سب لہو جسم کا آنکھوں میں اُتارا جاناں
//درست

جس کی باتوں میں ترے نام کی خوشبو مہکی
اُس نے ہر غم میں فقط تجھ کو پکارا جاناں
//مفہوم؟ کیا رقیب مراد ہے؟

آؤ چلتے ہیں یہی سوچ کے ساحل کی طرف
مل ہی جائے گا کسی طور کنارا جاناں
//ساحل کی طرف جاؤ گے تو کسی طور کیا ہر طور ساحل تو ملنا ہی ہے۔ شعر پر ذرا پھر غور کرو۔

ہم تو بدنام شبِ ہجر میں یوں ہی ہوئے
تو نے ہر بار ہی زلفوں کو سنوارا جاناں
//’ہوئے‘ کا تلفظ بر وزن فعلن آ رہا ہے یہاں، اسے ’ہ‘ئے‘ بر وزن فعل ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہی ہوئے میں ’ہ‘ کی تکرار بھی درست نہیں۔ دونوں مصرعوں میں ربط؟
یوں ہی بد نام ہوئے ۔۔۔ سے شروع کر کے پہلا مصرع کہو
 
Top