اب مجھے زخم لگا کر وہ مسیحا نہ بنے

سر الف عین ، سید عاطف علی اور دیگر احباب سے اصلاح کے لئے درخواست ہے

زندگی بیت گئی وصل کی تدبیروں میں
پھر بھی مایوس ہوں میں کوئی ذریعہ نہ بنے

میں ترے حسن کو شعروں میں سجادوں لیکن
لفظ گم ہیں ترا بے مثل سراپا نہ بنے

روح بسمل ہوئی الفاظ کی ضربوں سے مری
اب مجھے زخم لگا کر وہ مسیحا نہ بنے

کتنے بے سود رہے سارے دلاسے تیرے
میرے غم کا جو کسی طور مداوا نہ بنے

تجھ کو تسلیم فقط ذات مری ہو نہ سکی
پھر بھی خاموش رہا میں کہ تماشا نہ بنے
 
Top