اب عہدِ گُل آ گیا ہے - خلیل الرحمٰن اعظمی

الف عین

لائبریرین
تنہائی سے آگے

اوریہ سب بحثیں جو گھس پِٹ کے پرانی ہو جائیں
جب کوئی رس نہ ہو دہرائی ہوئی باتوں مں
مضمل روحیں خموشی کا سہارا ڈھونڈھیں
جب کوئی لطف نہ رہ جائے ملاقاتوں میں

جب نہ محسوس ہو کچھ گرمئ آداب و سلام
جی نہ چاہے کہ کوئی پرسشِ احوال کرے
دور تک پھیلی ہوئی دھند ہو، سنّاٹے ہوں
سب کے سب بیٹھے ہوں اور کوئی نہ ہو کچھ نہ رہے

ان خلاؤں سے نکل کر کہیں پرواز کریں
آؤ کچھ سیر کریں ذہن کی پنہائی میں!
کیوں نہ دریافت کریں ایس گزر گاہوں کو
بات کرتی ہیں مسافر سے جو تنہائی میں
۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ہے عجیب چیز مئے جنوں، کبھی دل کی پیاس نہیں بجھی
مگر اب ملا کے تو دیکھ لوں ذرا ایک قطرۂ آگہی

مری خامشی۔ مری بے حسی، یہی میرا رازِ فسردگی
کبھی سو گیا ہوں تو جاگ اٹھی ہے یہ دل کی چوٹ دبی دبی

ہے یہ کیسی صحبتِ مے کشاں کہ ہر ایک جام لہو لہو
یہی دوستی ہے تو اے خدا مجھے راس آئی نہ دوستی

ہے ملول مجھ سے دعائے موت کہ میں ساتھ اسکانہ دے سکا
مرے راستے میں جو آ گئی یہی زندگی، یہی زندگی

یہی ساتھ ساتھ مرے رہا، میٕں اسی کاپا نہ سکاپتا
کبھی ہر قدم پہ مجھے ملا، یہی آدمی، یہی آدمی

مرے ساتھ ساتھ چلے تھے سب، مرا ساتھ کئی نہ دے سکا
مرے ہم سفر، مرے ہم نظر، مری خودسری، مری سر کشی

مری سمت و بھی ساقیا! وہ جو بوند بوند میں زہر تھ
جسے او کوئی نہ پی سکا، وہ شراب میرے ہی منہ لگی

میں شہیدِ ظلمتِ شب سہی، مری خاک کو یہی جستجو
کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی
 

الف عین

لائبریرین
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے

میں اپنے گھرکو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروجِ فن! مری دہلیز پر اتار مجھے

ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئے گی یہ صبحِ زر نگار مجھے

کہے گا دل تو میں پتھرکے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاخھ کرے آ کے سنگسار مجھے

وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوبِ روزگار مجھے
 

الف عین

لائبریرین
وہ رنگِ رخ، وہ آتشِ خوں کون لے گیا
اے دل ترا وہ رقصِ جنوں کون لے گیا
زنجیر آنسوؤں کی کہاں ٹوٹ کر گری
وہ انتہائے غم کا سکوں کون لے گیا
دردِ نہاں کے چھین لیے کس نے آ ئینے
نوکِ مژہ سے قطرۂ خوں کون لے گیا
جو مجھ سے بولتی تھیں وہ راتیں کہاں گئیں
جو جاگتا تھا سوزِ دروں کون لے گیا
کس موڑ پر بچھڑ گئے خوابوں کے قافلے
وہ منزلِ طرب کا فسوں کون لے گیا
جو شمع اتنی رات جلی، کیوں وہ بجھ گئی
جو شوق ہو چلا تھا فزوں کون لے گیا
 

الف عین

لائبریرین
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
سونا ہوں، کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں
لے مجھ کو سنبھال گردشِ وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں
یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی
در اصل میں غم سے آشنا ہوں
صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر
کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں
دشمن ہو کویہ کہ دوست میرا
ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں
کیوں آبِ حیات کو میں ترسوں
میں زہرِ حیات پی چکا ہوں!!
ہر عہدکے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
دل کی رہ جائے نہ دل میں، یہ کہانی کہہ لو
چاہے دو حرف لکھو، چاہے زبانی کہہ لو
میں نے مرنے کی دعا مانگی وہ پوری نہ ہوئی
بس اسی کو مرے جینے کی نشانی کہہ لو
تم سے کہنے کی نہ تھی بات، مگر کہہ بیٹھا
اب اسے میری طبیعت کی روانی کہہ لو
وہی اک قصّہ زمانے کو مرا یاد رہا
آپ بیتی کہو، یا مرثیہ خوانی کہہ لو
۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اتنی لمبی ہے کہانی کہیں دم ٹوٹ نہ جائے
حالِ دل اور لکھیں گے پہ قلم ٹوٹ نہ جائے

ہم چھپاتے ہیں پریشانئ خاطر ان سے
طبعِ نازک پہ بھی یہ کوہِ الم ٹوٹ نہ جائے

ہم نے خود جس کوتراشا ہے بڑی محنت سے
اب ہمیں سے یہ خیالوں کا صنم ٹوٹ نہ جائے

اب ٹھہرتا نہیں اس گھر میں کوئی اور چراغ
قطرہ قطرہ ترا اے دیدۂ نم ٹوٹ نہ جائے

کسی قیمت کسی بازار میں ملتا نہیں دل
لو سنبھالو کہ یہ پیمانۂ جم ٹوٹ نہ جائے

اور آہستہ چلو رہگزرِ ہستی سے
کہیں یہ سلسلۂ نقشِ قدم ٹوٹ نہ جائے

۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
نیا آدمی

اور پھر یوں ہوا

جو پرانی کتابیں، پرانے صحیفے
بزرگوں سے ورثے میں ہم کو ملے تھے
انھیں پڑھ کے ہم سب یہ محسوس کرنے لگے
ان کےلفظوں سے مطلب نکلتا نہیں ہے
جو تعبیر و تفسیر اگلوں نے کی
معانی و مفہوم
جو ان پہ چسپاں کیے تھے
اب ان کی حقیقت کسی واہمے سے زیادہ نہیں ہے

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

زند لوگوں نےیہ آ کے ہم کو بتایا
کہ اب ان پرانی کتابوں کو
تہہ کر کے رکھ دو
ہمارے وسیلے سے
تم پر
نئی کچھ کتابیں اُتاری گئی تھیں
انھیں تم پڑھو گے
تو تم پر
صداقت نئے طور سے منکشف ہوگی
بوسیدہ و منجمد ذہن میں
کھڑکیاں کھل سکیں گی
تمھیں علم و عرفان اور آگہی کے
خزینے ملیں گے

اور پھر یوں ہوا۔۔۔
ان کتابوں کو
اپنی کتابیں سمجھ کر
انھیں اپنے سینے سے ہم نے لگایا
ہر اک لفظ کا ورد کرتے رہے
ایک اک حرف کا رس پیا
اور ہمیں مل گیا
جیسے معنیس و مفہوم کا
اک نیا سلسلہ

اور پھر یوں ہوا۔۔۔۔

ان کتابوں سے
اک دن
یہ ہم کو بشارت ملی
آن والا ہے دنیا میں
اب اک نیا آدمی
لے کے اپنے جلو میں نئی زندگی
ہم اندھیری گپھاؤں سے
اوہام کی تنگ گلیوں سے نکلیں گے
ہم کو ملے گی نئی روشنی

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

لانے والے کتابوں کے
اور وہ بھی جو ان پہ ایمان لائے تھے
س اپنے اپنے گھروں
سے نکل کر
کسی سمت کو چل پڑے
ایسے اک راستے پر
جدھر سے نیا آدمی
آنے والا تھا
یا ہم کو اس کا یقیں تھا
خہ وہ آئے گا اور اسی سمت سے
بس اسی سمت سے آئے گا

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

دیر تک ہم نئے آدمی کے رہے منتظر
دیر تک شوقِ دیدار کی
اپنی آںکھوں میں مستئ رہی دیر تک
اس کی آمد کا ہم گیت گاتے رہے
دیر تک اس کی تصویر
ذہنوں میں بُنتے رہے
دیر تک
اِس خرابے میں اَک جشن ہوتا رہا

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

دیر تک
اور بھی دیر تک
جب نہ ہم کو ملا
آنے والے کا کوئی پتہ
اس کے قدموں کی کوئی نہ آہٹ ملی
ہم نے پھر زور سے اس کو آواز دی
"اے نئے آدمی!!
اے نئے آدمی!!"
اور یہ آواز اونچے پہاڑو سے ٹکرا کے
بے نام صحراؤں سے لوٹ کر
پھر ہماری طرف آ گئی


اور پھر یوں ہوا۔۔۔

چند لوگوں سے سوچا کہ شاید نیآدمی
آئے گا اور ہی سمت سے
دوسرے چند لوگوں نے سوچا
کہ شاید نیا آدمی
آئے گا اور ہی سمت سے
اور پھر ہر طرف قافلے قافلے
اور پھر ہر طرف راستے راستے

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

دیر تک اس نئے آدمی کی
رہی جستجو
اُس کو آواز دیتے رہے چار سو
کو بکو، قریہ قریہ
اسے ہم بلاتے رہے
منزلوں منزلوں
خاک اُڑاتے رہے


اور پھر یوں ہوا۔۔۔

سب کے چہرے اسی خاک میں اٹ گئے
سب کی آنکھوں میں اک تیرگی چھا گئی
سب کو دسنے لگی راہ کی بے حسی
اور پھر سب وہ اک دوسرے کے لیے
اجنبی ہو گئے
اور پھر سب کے سب
دھند میں کھو گئے

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

ہم نے پھر گھر پہ آ کے
کتابوں کے اوراق کھولے
انھیں پھر سے پڑھنے کی خاطر اٹھیا
اور ہر اک سطر پر غور کرتے رہے دیر تک
اور ہر اک لفظ خؤ
دوسرے لفظ سے جوڑ کر
سلسلہ حرفِ نغمہ کا
صوت و صدا کا ملاتے رہے

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

اور پھر یاس و امید
یاس و امید کے درمیاں
ڈھونڈھتے ہی رہے
اس نئے آدمی کا نشاں
اور ہمیں پَس ملیں
اپنی آواز کی
زرد سوکھی ہوئی پتیاں


اور پھر یوں ہوا۔۔۔

ہم سے سورج کئی روز روٹھا رہا
آسمانوں سے اٹھتی رہیں
تہہ بہ تہہ بدلیاں
کالی کالی نظرآئیں سب وادیاں
کالے گھر، کالی دیواریں، کالی چھتیں
کالی سڑکوں پہ چلتی ہوئی کالی پرچھائیاں
یہ زمیں
کالے ساگر میں
توٹی ہوئی ناؤ کی طرح سے
ڈگمگانے لگی
موت کی نیند آنے لگی

اور پھر یوں ہوا۔۔۔

ہم نے اپنے گھروں میں
جلائے خود اپنے دیے
ہم نے بکھرے ہوئے خواب
توٹے ہوئے آئینے
پھر سے جوڑے
بجھے جسم کی راکھ سے
سر اٹھاتے ہوئے
ایک ننھے سے شعلے کو
اور اپنے چہرے میں
اک اور چہرے کو دیکھا
پھر اپنے لہو کی صدائیں سنیں،
اور اپنے لیے آپ اپنی کتابیں لکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
میں گوتم نہیں ہوں

میں گوتم نہیں ہوں
مگر جب بھی گھر سے نکلا
یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے آپ کو
ڈھونڈھنے جا رہا ہوں
کسی پیڑ کی چھاؤں میں
میں بھی بیٹھوں گا
اک دن مجھے بھی کوئی گیان ہوگا
مگر
جسم کی آگ جو گھر سے لے کر چلا تھا
سلگتی رہی
گھر کے باہر ہوا تیز تھی
اور بھی یہ بھڑکتی رہی
ایک اک پیڑ جل کر ہوا راک
میں ایسے صحرا میں اب پھر رہا ہوں
جہاں میں ہی میں ہوں
جہاں میرا سایہ ہے
سائے کا سایہ ہے
اور دور تک
بس خلا ہی خلا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
کتبہ

(۱)

خدایا! نہ میں نے کہیں سر جھکایا
نہ دنیا میں احسان اب تک کسی کا اٹھایا
مرے سر پہ جب دھوپ ہی دھوپ تھی
اس گھڑی میں نہ ڈھونڈھا کہیں کوئی سایا
تو اب تُو ہی آکر مری آبرو کو بچا لے
یہی ایک تحفہ ہے
جو میں ترے پائے اقدس پہ رکھ دوں گا
اور یہ کہوں گا
یہی میری پونجی، یہی ہے کمائی
مجھے اور کچھ بھی عطا کر نہ پائی
یہ تیری خدائی
خدایا
مری نذرِ بے مایہ کو دیکھ کر
جس خزانے میں اس کی جگہ ہو
اب وہاں پر اسے دال دے
۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
کتبہ

(۲)

یہ کتبہ فلاں سن کا ہے
یہ سن اس لیے اس پہ کندہ کیا
کہ سب وارثوں پر یہ واضح رہے
کہ اس روز برسی ہے مرحوم کی
عزیز و اقارب، یتامیٰ، مساکین
ضیافت سے اپنی نوازیں، سبھی کو بلائیں
کہ سب مل کے مرھوم کے حق میں دستِ دعا کو اٹھائیں
زباں سے کہیں اپنی ’مرحوم کی مغفرت ہو‘
بزرگِ مقدّس کے نامِ مقدّس پہ بھیجیں درودو سلام
سبھی خاص و عام
افسانہ (کسی اور کا پنسل سے لکھا ہوا)
مگر یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے
عزیز و اقارب کا شرب و طعام
اور اس کا نظام
الگ ہو وہاں سے
جہاں ہوں یتامیٰ، مساکین، اندھے بھکاری
پھٹے اور میلے لباسوں میں سب عورتیں اور بچّے
کئی لولے لنگڑے، مریض اور گندے
وہی جن کو کہتے ہیں ہم سب عوام
وہاں ہوگا اک شور و غل اژدہام
یہ کر دیں گے ہم سب کا جینا حرام
۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں
یاں شہر تا بہ شہر جو بکھرا ہوا ہوں میں

میں ڈھونڈھنے چلا تھا جوخود اپنے آپ کو
تہمت یہ مجھ پہ ہے کہ بہت خود نُما ہوں میں

مجھ سے نہ پوچھ نام مرا روحِ کائنات
اب اور کچھ نہیں ہوں، ترا آئینہ ہوں میں

لاؤں کہاں سے ڈھونڈھ کے میں اپنا ہم نوا
خود اپنے ہر خیال سے ٹکرا چکا ہوں میں

اے عمرِ رفتہ میں تجھے پہچانتا نہیں
اب مجھ کو بھول جا کہ بہت بے وفا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
ہر گھڑی عمرِ فرومایہ کی قیمت مانگے
مجھ سے آئینہ مرا میری ہی صورت مانگے

دور رہ کر ہی جو آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں
دلِ دیوانہ مگر ان کی ہی قربت مانگے

پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں کی اداسی کا سبب
خواب جو دیکھے وہ خوابوں کی حقیقت مانگے

اپنے دامن میں چھپا لے مرے اشکوں کے چراغ
اور کیا تجھ سے کوئی اے شبِ فرقت مانگے

وہ نگہ کہتی ہےییٹھے رہو محفل میں ابھی
دل کی آشفتگی اٹھنے کی اجازت مانگے

زہر پی کر بھی جیوں میں، یہ الگ بات مگر
زندگی اس لبِ رنگیں کی حلاوت مانگے

زیب دیتے نہیں یہ طرّہ و دستار مجھے
میری شوریدہ سری سنگِ ملامت مانگے
 

الف عین

لائبریرین
پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی
وہی اک شے جو اجنبی ہوگی
شور سا ہے لہو کے دریا میں
کس کی آواز آ رہی ہوگی
پھر مری روح میرے گھر کا پتہ
میرے سائے سے پوچھتی ہوگی
کچھ نہیں میری زرد آنکھوں میں
ڈوبتے دن کی روشنی ہوگی
رات بھر دل سے بس یہی باتیں
دن کو پھر درد میں کمی ہوگی
بس یہی ایک بوند آنسو کی
میرے حصّے کی مے کشی ہوگی
پھر مرے انتطار میں مری نیند
میرے بستر پہ جاگتی ہوگی
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
 

الف عین

لائبریرین
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا
خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب ہی وہ مجھ سے اکڑ گیا
بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آئے لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا اُدھڑ گیا
یاروں نے جا کے خوب زمانے سے صلح کی
میں ایسا بد دماغ، یہاں بھی پچھڑگیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اُجڑ گیا
 

الف عین

لائبریرین
سوتے سوتے چونک پڑے ہم، خواب میں ہم نے کیا دیکھا
جو خود ہم کو ڈھونڈھ رہا ہو، ایسا اک رستا دیکھا

دور سے اک پرچھائیں دیکھی اپنے سے ملتی جلتی
پاس سے اپنے چہرے میں بھی اور کوئی چہرا دیکھا

سونا لینے جب نکلے تو ہر ہر ڈھیر میں مٹی تھی
جب مٹی کی کھوج میں نکلے، سونا ہی سونا دیکھا

سوکھی دھرتی سن لیتی ہے پانی کی آوازوں کو
پیاسی آنکھیں بول اٹھتی ہیں ہم نے اک دریا دیکھا

چاندی کے سے جن کے بدن تھے، سورج جیسے مکھڑے تھے
کچھ اندھی گلیوں میں ہم نےا ن کا بھی سایا دیکھا

رات وہی پھر بات ہوئی نا۔۔۔ ہم کو نیند نہیں آئی
اپنی روح کے سنّاٹے سے شور سا اک اٹھتا دیکھا
 

الف عین

لائبریرین
بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا دیکھا

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا، کوئی ہمسایۂ خدا نکلا

ہزار طرح کی مے پی، ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی، نہ حوصلہ نکلا

ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا

اب اپنے آپ کو ڈھونڈھیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقشِ پا نکلا
 
Top