اب زرِ جوہر پندار ٹھکانے سے لگا

اساتذہء کِرام کی خدمت میں ایک تازہ غزل اصلاح کے لئے پیش ہے...
بحر رمل مثمن مخبون محذوف
فاعلاتن -- فعلاتن -- فعلاتن -- فعلن
استاد محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
استاد محترم جناب الف عین صاحب
استاد محترم جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب


1. اک تذبذب کی گھڑی دل کے دروں ہے، یوں ہے
سایہ زلفوں کا لگے جیسے فسوں ہے یوں ہے

2. مشکلِ رسمِ رقابت میں رہا سینہ سپر
مرد میداں ، وہی دل، آج زبوں ہے یوں ہے

3. چشم نمناک کرے دل کو الم سے خالی
درد کے بہنے کی رفتار فزوں ہے یوں ہے

4. مسکِن خام خیالی ہے مرا دل، سو ابھی
آمدِ یار کی امّیدِ جنوں ہے، یوں ہے

5. اب زرِ جوہر پندار ٹھکانے سے لگا
سامنے یار کے سر میرا نگوں ہے، یوں ہے

6. منصفو حق کے طرفدار بنو اب نہ ڈرو
دیکھو باطل کی ریاکاری فسوں ہے، یوں ہے

7. محنت و شوق ِسے ہوں رنگ نمایاں فن کے
وا کرے کُھل کے، کلی کے جو دروں ہے یوں ہے

8. حاجتیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پا بہ زنجیروں میں اک جوشِ جنوں ہے یوں ہے

9. اعلیٰ ظرفی نے کیا دل جو کشادہ کاشف
ہجر کے آنے سے بے چین سکوں ہے یوں ہے
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
واہ کیا خوب اشعار نکالے ہیں فراز کی زمین میں۔
ایک مشورہ ہے کہ ساتویں اور آٹھویں اشعار کے مصرع ہائے ثانی تبدیل کر لیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کچھ تراکیب وغیرہ مجھے لہجے اور بندش کو کمزورکرتی محسوس ہوئیں۔ مثلاً ۔دل کے دروں ۔مسکن ِخام خیالی۔آمدِ یار کی امّیدِ جنوں ۔درد کا بہنا
مجموعی طور پر اکثر بندشیں اچھی ہیں اگر چہ کچھ چستی کی گنجائش اور ہے ۔ جیسا کہ خلیل بھائی نے ذکر کی۔
 
کچھ تراکیب وغیرہ مجھے لہجے اور بندش کو کمزورکرتی محسوس ہوئیں۔ مثلاً ۔دل کے دروں ۔مسکن ِخام خیالی۔آمدِ یار کی امّیدِ جنوں ۔درد کا بہنا
مجموعی طور پر اکثر بندشیں اچھی ہیں اگر چہ کچھ چستی کی گنجائش اور ہے ۔ جیسا کہ خلیل بھائی نے ذکر کی۔

شکریہ عاطف بھائی ۔۔۔ برائے مہربانی کچھ متبادل بھی سجھائیں ۔۔
 
آپ کا مصرع ’’ پابہ زنجیروں میں اِک جوشِ جنوں ہے یوں ہے‘‘ گرامر کے حساب سے غلط ہے
خلیل بھائی میں ٹھہرا سدا کا کم عقل اور کم ذہن ۔۔۔ ذرا واضع کر دیں۔
حاجتیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پابہ زنجیروں میں اِک جوشِ جنوں ہے یوں ہے

پا بہ زنجیر تو حاجتیں ہیں ۔۔۔ ان میں آزاد ہونے کے لئے اگر جوش ہے تو گرامر کی غلطی کہاں ہوئی ؟
 
ایک مختصر سی بات کروں گا۔
ہمارے پاس غزل کے ایک شعر میں کل لفظ ہوتے ہی کتنے ہیں! دس، بارہ، پندرہ، حد بیس! یہی کچھ نا۔ پھر اس میں ردیف بھی ہے، قافیہ بھی موزوں لانا ہے، بحر کی پابندی ہے۔ اس میں ایک مضمون ممکنہ حد تک مکمل بیان کرنا اور قاری کو بھی ساتھ رکھنا ہے۔ پھیلاؤ اور جامعیت کی اہمیت بجا، تاہم عملاً ہم کہاں تک جا سکتے ہیں کہ ہمارے چند الفاظ اس کا یوں احاطہ کر سکیں کہ کوئی الجھاؤ بھی نہ ہو، اور شاعر اپنے محسوسات بھی قاری تک پہنچا سکے۔ حل اس کا یہ ہے کہ مضمون کو مختصر رکھیں، کسی نظریے، واقعے، صورتِ حالات کا ایک زاویہ ایک پہلو بیان کر لیں تو بہت ہے، کجا آں کہ اس کے متعدد پہلو بیان بھی کریں اور جواز بھی لائیں۔ جہاں بھی ایسی صورت پیدا ہو گی، قاری الجھ جائے گا۔

مثال کے طور پر یہ شعر:
حاجتیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پابہ زنجیروں میں اِک جوشِ جنوں ہے یوں ہے
شاعر کا مطمعِ نظر غالباً یہ ہے کہ حاجات اتنی کثیر ہیں کہ جسم و جان کا رشتہ محض قناعت سے سہارے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور پا بہ زنجیر اور بھی بہت سی چیزیں ہیں یا عوامل ہیں، جن میں سے ایک جوشِ جنوں ہے۔ یہ مضمون بہت وسیع ہے اور اس کو اتنے کم الفاظ میں سمونا؟ کارے دارد۔ اس کوشش میں زبان کی غلطی ہو جانا بعید از قیاس نہیں، اور ہم اگر ان اغلاط سے الجھے رہیں گے تو بھی مضمون کی ضرورت تو پوری نہیں ہو پائے گی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ایسے مضامین طویل بحروں میں باندھیں۔

کیا فرماتے ہیں جناب محمد خلیل الرحمٰن ، جناب محمد اسامہ سَرسَری ، اور جناب الف عین صاحبان!
 
خلیل بھائی میں ٹھہرا سدا کا کم عقل اور کم ذہن ۔۔۔ ذرا واضع کر دیں۔
حاجتیں بندِ قناعت سے چھڑایں تن من
پابہ زنجیروں میں اِک جوشِ جنوں ہے یوں ہے

پا بہ زنجیر تو حاجتیں ہیں ۔۔۔ ان میں آزاد ہونے کے لئے اگر جوش ہے تو گرامر کی غلطی کہاں ہوئی ؟

حضرت ہم واضح تو کرسکتے ہیں واضع نہیں کرسکتے!

پابہ زنجیر فارسی اصطلاح ہے جیسے پا بہ گِل، اس اصطلاح کی آپ اردو کے قاعدے سے جمع نہیں بنا سکتے دوم یہ کہ آپ نے اس کے بعد میں استعمال کیا ہے جبکہ ’پابہ زنجیر‘ کا مطلب ہی ’پاؤں زنجیر میں‘ ہوتا ہے ( فارسی جاننے والے اساتذہ بہتر بتلا سکتے ہیں)۔
 
لیجیے ہمارے جواب لکھنے سے پہلے استادِ محترم جناب آسی صاحب متوجہ ہوگئے!

جناب ہمارا اعتراض تو سب سے پہلے گرامر پر ہے، جو ہم خود بھی زیادہ نہیں جانتے۔
 
ایک مختصر سی بات کروں گا۔
ہمارے پاس غزل کے ایک شعر میں کل لفظ ہوتے ہی کتنے ہیں! دس، بارہ، پندرہ، حد بیس! یہی کچھ نا۔ پھر اس میں ردیف بھی ہے، قافیہ بھی موزوں لانا ہے، بحر کی پابندی ہے۔ اس میں ایک مضمون ممکنہ حد تک مکمل بیان کرنا اور قاری کو بھی ساتھ رکھنا ہے۔ پھیلاؤ اور جامعیت کی اہمیت بجا، تاہم عملاً ہم کہاں تک جا سکتے ہیں کہ ہمارے چند الفاظ اس کا یوں احاطہ کر سکیں کہ کوئی الجھاؤ بھی نہ ہو، اور شاعر اپنے محسوسات بھی قاری تک پہنچا سکے۔ حل اس کا یہ ہے کہ مضمون کو مختصر رکھیں، کسی نظریے، واقعے، صورتِ حالات کا ایک زاویہ ایک پہلو بیان کر لیں تو بہت ہے، کجا آں کہ اس کے متعدد پہلو بیان بھی کریں اور جواز بھی لائیں۔ جہاں بھی ایسی صورت پیدا ہو گی، قاری الجھ جائے گا۔

مثال کے طور پر یہ شعر:

شاعر کا مطمعِ نظر غالباً یہ ہے کہ حاجات اتنی کثیر ہیں کہ جسم و جان کا رشتہ محض قناعت سے سہارے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور پا بہ زنجیر اور بھی بہت سی چیزیں ہیں یا عوامل ہیں، جن میں سے ایک جوشِ جنوں ہے۔ یہ مضمون بہت وسیع ہے اور اس کو اتنے کم الفاظ میں سمونا؟ کارے دارد۔ اس کوشش میں زبان کی غلطی ہو جانا بعید از قیاس نہیں، اور ہم اگر ان اغلاط سے الجھے رہیں گے تو بھی مضمون کی ضرورت تو پوری نہیں ہو پائے گی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ایسے مضامین طویل بحروں میں باندھیں۔

کیا فرماتے ہیں جناب محمد خلیل الرحمٰن ، جناب محمد اسامہ سَرسَری ، اور جناب الف عین صاحبان!

متفق!
 
اک تذبذب کی گھڑی دل کے دروں ہے، یوں ہے
سایہ زلفوں کا لگے جیسے فسوں ہے یوں ہے

تذبذب کی گھر (اسم ظرف)، دل کے دروں (یہاں دل بھی اسمِ ظرف بنا) ۔ ایک ظرف میں دوسرا ظرف، مشکل تو پیدا کرے گا۔ ایسے میں اگر یوں کہاں جائے کہ یہ گھڑی دل پر وارد ہے یا چھائی ہوئی ہے تو بات واضح تر ہو سکتی ہے۔ "لگے ہے" اس پر بات پہلے بھی کہیں ہو چکی۔ پرانے الفاظ لائیے تو پھر ان کو ان کے اپنے پورے ماحول میں لائیے، نہیں تو ان سے گریز کیجئے۔
چلئے صاحب! مان لیا کہ زلفوں کا سایہ جادو سا لگتا ہے۔ تو یہ تذبذب کا عالم تو نہ ہوا۔ تذبذب کا لفظ اس سوال ک اتقاضا کرتا ہے کہ کس اور کس میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا ہے؟ یہاں ایسا کوئی سوال ہے ہی نہیں۔
 
مشکلِ رسمِ رقابت میں رہا سینہ سپر
مرد میداں ، وہی دل، آج زبوں ہے یوں ہے

رقابت رسم نہیں ہوتی بھائی! رسم کا ایک معنی "لکھنا" بھی ہے مگر یہاں وہ مذکور نہیں۔ اس "شعر کا ذہن" پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں: دل جو رقابت کی مشکل میں سینہ سپر رہا، اور شاید مردِ میداں بھی رہا، وہ اب زبوں حال ہو گیا ہے؟ پہلے مصرعے میں لفظیات کا کھیل ہی اس کو بگاڑ گیا۔ یہی بات سادہ پیرائے میں کہی ہوتی تو سہل تر ہوتی۔ اب یہ نہ کہئے گا کہ جی کہہ کر بھی دیں۔ کہنا آپ کا کام ہے، کہ آپ نے اپنے ذمے لیا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک مختصر سی بات کروں گا۔
ہمارے پاس غزل کے ایک شعر میں کل لفظ ہوتے ہی کتنے ہیں! دس، بارہ، پندرہ، حد بیس! یہی کچھ نا۔ پھر اس میں ردیف بھی ہے، قافیہ بھی موزوں لانا ہے، بحر کی پابندی ہے۔ اس میں ایک مضمون ممکنہ حد تک مکمل بیان کرنا اور قاری کو بھی ساتھ رکھنا ہے۔ پھیلاؤ اور جامعیت کی اہمیت بجا، تاہم عملاً ہم کہاں تک جا سکتے ہیں کہ ہمارے چند الفاظ اس کا یوں احاطہ کر سکیں کہ کوئی الجھاؤ بھی نہ ہو، اور شاعر اپنے محسوسات بھی قاری تک پہنچا سکے۔ حل اس کا یہ ہے کہ مضمون کو مختصر رکھیں، کسی نظریے، واقعے، صورتِ حالات کا ایک زاویہ ایک پہلو بیان کر لیں تو بہت ہے، کجا آں کہ اس کے متعدد پہلو بیان بھی کریں اور جواز بھی لائیں۔ جہاں بھی ایسی صورت پیدا ہو گی، قاری الجھ جائے گا۔

مثال کے طور پر یہ شعر:

شاعر کا مطمعِ نظر غالباً یہ ہے کہ حاجات اتنی کثیر ہیں کہ جسم و جان کا رشتہ محض قناعت سے سہارے پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور پا بہ زنجیر اور بھی بہت سی چیزیں ہیں یا عوامل ہیں، جن میں سے ایک جوشِ جنوں ہے۔ یہ مضمون بہت وسیع ہے اور اس کو اتنے کم الفاظ میں سمونا؟ کارے دارد۔ اس کوشش میں زبان کی غلطی ہو جانا بعید از قیاس نہیں، اور ہم اگر ان اغلاط سے الجھے رہیں گے تو بھی مضمون کی ضرورت تو پوری نہیں ہو پائے گی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ایسے مضامین طویل بحروں میں باندھیں۔

کیا فرماتے ہیں جناب محمد خلیل الرحمٰن ، جناب محمد اسامہ سَرسَری ، اور جناب الف عین صاحبان!
ایک تکنیکی (بلکہ شاید نظریاتی نکتہ ) یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ قناعتیں بہر حال ہر حاجت کو محیط ہوتی ہیں ۔ البتہ یہ "خواہشیں" ہو سکتی ہیں جنہیں پابند کیا جاتا ہے ۔
 
Top