اب تو سہرا باندھنا بھی شرک ٹھہرا ۔ ہےکوئی جو راہ دکھائے انہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔

ایک مولوی صاحب کسی شخص کا نکاح پڑھانے گئے ،دولہا کے پھولوں کا سہرا بندھا ہوا تھا مولوی صاحب جاتے ہی بول اٹھے،کہ یہ سہرا بدعت ہے ،شرک ہے ،حرام ہے، کیوں کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا تھا نہ ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے باندھا تھا ،نہ تابعین نے باندھا نہ تبع تابعین نے باندھا تھا ،بتاؤ کہ کونسی کتاب میں لکھا ہے کہ سہرا باندھو ۔مجبورا لوگوں نے سہرا کھول دیا ،جب مولوی صاحب نکاح پڑھا چکے ،تو تو دولہا کے باپ نے 2000 ہزار روپے کا لفافہ انہیں دیا ،مولوی صاحب نے فورا جیب میں ڈالناچاہاتو اچانک دولھے نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ مولوی صاحب ،نکاح پڑھا کر روپیہ کا لفافہ لینا بدت ہے ،حرام ہے ،شرک ہے، کیوں کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفافہ لیا نہ ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ،نہ تابعین کرام نے اور نہ ہی تبع تابعین نے لفافہ لیا ،بتاؤ کہاں لکھا ہے کہ نکاح کی فیس لو ۔تو مولوی صاحب بول اٹھے کہ یہ تو خوشی کے پیسے ہیں۔ تو دولھا نے بھی جواب دیا کہ مولوی صاحب سہرا بھی خوشی کے موقع پر پہناجاتا ہے ،نہ کہ جنازے ..یا.. غم کے موقع پر ۔یہ سن کر مولوی صاحب شرم سار ہوگئے ۔
میرا خیال ہے کہ اب تو آپ بدعت کا مفہوم سمجھ گئے ہوں گے ؟....
 

یوسف-2

محفلین
نکاح پڑھا نے کے پیسے لینے والے، نماز پڑھا نے کے پیسے لینے والے، اذان دینے کے پیسے لینے والے، مزارات پر آنے والے زائرین سے ”زیارت قبر“ کے پیسے لینے والے، محرم کی مجالس پڑھنے کے پیسے لینے والے، ربیع لاول میں میلاد پڑھنے، نعت پڑھنے کے پیسے لینے والے ۔ ۔ ۔ اور ان جیسے دیگر ”کمرشیل مولویوں“ کی وجہ سے شریعت اسلامی کے حرام، حلال نہیں ہوجاتے۔ مولوی اگر غلط کر رہا ہے تو آپ ایسے مولوی سے ربط و ضبط کیوں رکھتے ہیں۔ ”دین فروشوں“ کی بجائے ایسے نان کمرشیل عالم دین سے رجوع کیجئے جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ ہمیں خود بھی نکاح، جنازہ پڑھانا سیکھنا چاہئے تاکہ ”کمرشیل مولویوں“ سے ہماری جان چھوٹے۔ شادی میں سہرا باندھنا ایک ہندوانہ رسم ہے۔ اور کفار کے مذہبی شعائر کی نقالی کے بارے میں ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ ۔۔۔ ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے ہو جاتا ہے‘‘۔ اگر شادی کے ہندووانہ کلچر کو اپنانے کا اتنا ہی شوق ہے تو سہرا بندی کے ساتھ ساتھ اگنی کے پھیرے بھی لے لیا کریں :p مہندی، مایوں اور ”برات“ وغیرہ کو تو ہم نے پہلے ہی اپنا لیا ہے۔:)
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جزاک اللہ خیرا بھائی یوسف 2 صاحب ،
تجارتی مولوی اور تقویٰ والے صاحب علم میں جو بڑے بڑے فرق ہوتے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آخر الذکر دین کو ذریعہ معاش نہیں بناتے ، اور اول الذکر دین ہی کو ذریعہ معاش رکھتے ہیں ،
اگر مدارس میں سالوں لگا کر دین سیکھا جا سکتا ہے تو اس کے ساتھ یا اس کے بعد کچھ اور وقت لگا کر اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوئی اور علم یا ہنر بھی سیکھا جا سکتا ہے ، لیکن ۔۔۔۔۔ اُن کا کیا کیجیے جو دِین سیکھتے ہیں تو کمائی کے لیے ، مال یا نام و شہرت ، و لا حول ولا قوۃ الا باللہ،
والسلام علیکم۔
 

نایاب

لائبریرین
"میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو "
ہمیں شاید اسلام کا اتنا علم نہیں ہے جتنا کہ " ہندوانہ رسم و رواج اور مذہب " بارے علم ہے ۔
ادھر بات نکلی ادھر سے ہندوانہ مثال لپک " مہر کفر " بنی ۔
اسلام خود میں اتنی طاقت رکھتا ہے کہ بنا کسی دوسرے مذہب کے تقابل سے خود کو منوا سکے ۔
اسلام کو کمزور سمجھنے والے ہر بات میں " ہندوانہ " بات کھینچ لاتے ہیں ۔ اور ہدایت کی راہ مشکل بنا دیتے ہیں ۔
 

یوسف-2

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جزاک اللہ خیرا بھائی یوسف 2 صاحب ،
تجارتی مولوی اور تقویٰ والے صاحب علم میں جو بڑے بڑے فرق ہوتے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آخر الذکر دین کو ذریعہ معاش نہیں بناتے ، اور اول الذکر دین ہی کو ذریعہ معاش رکھتے ہیں ،
اگر مدارس میں سالوں لگا کر دین سیکھا جا سکتا ہے تو اس کے ساتھ یا اس کے بعد کچھ اور وقت لگا کر اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوئی اور علم یا ہنر بھی سیکھا جا سکتا ہے ، لیکن ۔۔۔ ۔۔ اُن کا کیا کیجیے جو دِین سیکھتے ہیں تو کمائی کے لیے ، مال یا نام و شہرت ، و لا حول ولا قوۃ الا باللہ،
والسلام علیکم۔
کاش ہمارے دینی مدارس کے منتظمین تک بھی یہ بات پہنچ جائے۔
 
نکاح پڑھا نے کے پیسے لینے والے، نماز پڑھا نے کے پیسے لینے والے، اذان دینے کے پیسے لینے والے، مزارات پر آنے والے زائرین سے ”زیارت قبر“ کے پیسے لینے والے، محرم کی مجالس پڑھنے کے پیسے لینے والے، ربیع لاول میں میلاد پڑھنے، نعت پڑھنے کے پیسے لینے والے ۔ ۔ ۔ اور ان جیسے دیگر ”کمرشیل مولویوں“ کی وجہ سے شریعت اسلامی کے حرام، حلال نہیں ہوجاتے۔ مولوی اگر غلط کر رہا ہے تو آپ ایسے مولوی سے ربط و ضبط کیوں رکھتے ہیں۔ ”دین فروشوں“ کی بجائے ایسے نان کمرشیل عالم دین سے رجوع کیجئے جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ ہمیں خود بھی نکاح، جنازہ پڑھانا سیکھنا چاہئے تاکہ ”کمرشیل مولویوں“ سے ہماری جان چھوٹے۔ شادی میں سہرا باندھنا ایک ہندوانہ رسم ہے۔ اور کفار کے مذہبی شعائر کی نقالی کے بارے میں ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘ ۔۔۔ ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے ہو جاتا ہے‘‘۔ اگر شادی کے ہندووانہ کلچر کو اپنانے کا اتنا ہی شوق ہے تو سہرا بندی کے ساتھ ساتھ اگنی کے پھیرے بھی لے لیا کریں :p مہندی، مایوں اور ”برات“ وغیرہ کو تو ہم نے پہلے ہی اپنا لیا ہے۔:)
اگر ایک اور بات کی وضاحت کر دیں تو شکرگزار ہونگا۔ اگر ایک چیز دنیا میں مشہور ہوگئی ہے۔ تو کیا پھر بھی وہ کسی ایک قوم کی ہی ملکیت رہے گی؟ مثال کے طور پہ پینٹ شرٹ ہم پہنتے ہیںِ ۔ تو کیا یہ انگریزہوں سے مشابہت ہوگی؟ جواب کا انتظار رہے گا۔
 

ساجد

محفلین
شادی میں سہرا باندھنا ایک ہندوانہ رسم ہے۔ اور کفار کے مذہبی شعائر کی نقالی کے بارے میں ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم‘‘​
۔۔۔​
’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے ہو جاتا ہے‘‘۔​
یہ معاملہ تو ”نیم ملا خطرہ ایمان“ والا لگتا ہے۔:)
 

صرف علی

محفلین
بدعت کی تعریف

باعتبار لغت : علامہ زبیدی نے تاج العروس میں علامہ فراھیدی نے کتاب العین میں علامہ راغب اصفہانی نے معجم مفردات میں علامہ ازھری نے تھذیب اللغہ میں علامہ ابن منظور نے لسان العرب میں علامہ جوھری نے صحاح اللغہ میں اور علامہ طریحی نے مجمع البحرین میں بلکہ تمام ہی لغویین نے بدعت کے ایک ہی معنی بیان کیے ہیں کہ(البدعۃ ھو الشیء الذی یبتکر و یخترع من دون مثال سابق ویبتداء بہ بعد ان لم یکن موجود من قبل) یعنی بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی چیز کا اسطرح ایجاد کرنا کہ وہ خود یا اسکی مثال و نظیر قبلا موجود نہ ہو۔[ البدعۃ، ص133 ]
اصطلاح شریعت میں بدعت کا مفھوم : علماء و بزرگان کی تصانیف و تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوے بدعت کا مفھوم شرع و شریعت کی اصطلاح میں اسطرح سامنے آتا ہے (ادخال ما لیس من الدین فی الدین) کسی ایسی چیز کو دین میں داخل کرنا کہ جو دین میں سے نہ ہو اسکو اور واضح کرنے کیلیے مغنی لغوی کو بھی اگر سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ نکلےگا کہ بدعت اسکو کہتے ہیں کہ کسی ایسی چیزکو دین میں داخل کرنا کہ جو نہ خود قبلا دین میں موجود ہو اور نہ اسکی مثال و نظیر موجود ہو اسکے ساتھ ساتھ بعض علماءنے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ تطلق شرعا علی مقابل السنہ یعنی بدعت سنت کے مقابل کی ایک شی ہے اور ظاہر ہے کہ جو شی مد مقابل ہوتی ہے اسکو خود اس شی میں داخل نہیں کیا جاسکتا لھذا بدعت کبھی بھی کسی بھی حال میں سنت واقع نہیں ہوسکتی ۔
 
ایک مولوی صاحب کسی شخص کا نکاح پڑھانے گئے ،
........................................ ۔یہ سن کر مولوی صاحب شرم سار ہوگئے ۔
میرا خیال ہے کہ اب تو آپ بدعت کا مفہوم سمجھ گئے ہوں گے ؟....

یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا ؟؟
اخبار میں یا یو ٹیوب میں ملے گا ؟؟؟
براہ مہربانی حوالہ ضرور دے
 

فرسان

محفلین
اگر ایک اور بات کی وضاحت کر دیں تو شکرگزار ہونگا۔ اگر ایک چیز دنیا میں مشہور ہوگئی ہے۔ تو کیا پھر بھی وہ کسی ایک قوم کی ہی ملکیت رہے گی؟ مثال کے طور پہ پینٹ شرٹ ہم پہنتے ہیںِ ۔ تو کیا یہ انگریزہوں سے مشابہت ہوگی؟ جواب کا انتظار رہے گا۔

الله آپ كو خوش ركھے۔

پینٹ شرٹ كي مثال سے هٹ كر بات كا جواب يه هے كه جو رواج يا لباس كسي قوم يا مذهب كے ساتھ خاص نه هو، يعني محض علاقائي نوعيت كا حامل هو اور الله كي دي هوئي شريعت سے نه ٹكرائے تو آپ اس كو كرسكتے ہیں۔ خود سيد الكونين صلى الله عليه وسلم نے قيصر روم كا تحفه بھیجا هوا ايك رومي طرز كا جبه زيب تن فرمايا تھا۔

ليكن جو رسوم، لباس، تهوار اور موقع كسي غير مذهب يا قوم كے ساتھ خاص هو ان سے بچنا چاہیے ۔

يهي وجه هے كه زنار پوشي وغيره كو نافرماني كها گیا ہے ۔

اگر سهرا كي كوئي هندو مذهبي نوعيت نهيں هے اور نه اس كو باندھنے سے كوئي مسلمان هندو جيسا لگے يا اس كے هندو هونے كي غلط فهمي پیدا هو تو يه جائز هوگا۔ اس كي حيثيت عرف اور عادت كي سي هے۔

ليكن اگركوئي صاحب اس كي هندو شروعات كي وجه سے اسے پسند نهيں كرتے تو يه ان كا ذاتي تقوى يا فيصله هے۔

ياد رهے كه صحابه كو شادي بياه كے موقع پر [ARABIC]اللهو[/ARABIC] كي رخصت يعني اجازت تھی۔

باقي الله هي بهترين جاننے والا هے۔
 

فرسان

محفلین
پینٹ شرٹ كي مثال سامنے اس لئے نهيں ركھ سكا كه يه معامله كچھ اور امور بھی ساتھ لئے ِہے۔

اس معامله میں خاموشي بهتر هے كيونكه بهت سے لوگ بات سمجھے بغير مذاق اڑانا شروع كرديتے ہیں۔
 

فرسان

محفلین
مولوي بيچارے تو اسي گولي كا شكار هو گئے ہیں جس نے پٹھان كو نشانه بنايا هے۔

لوگ عبادت كي طرح مولوي پر لطيفے اور آوازے كستے ہیں۔

مولوي كا قصور يه هے كه وعظ ونصيحت سے گناه كا راسته روكتا هے اور پھر اسي روش كا سامنا كرتا هے جو قوم شعيب عليه السلام نے اختيار كي تھی۔ اور جس كے جواب میں فرمايا تھا كه "تم نصيحت كرنے والوں كو پسند نهيں كرتے"۔
 
Top