اب بچے بھی ان کے عتاب سے محفوظ نہيں۔۔۔

افسوسناک تو ہے لیکن جب تک ہم پرائی جنگ لڑتے رہیں گے ایسے ہی بلیک واٹر کے کارندے بظاہر طالبان کے روپ میں پاکستانی قوم کے مال و جان کو نقصان پہنچاتے رہیں گے
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کسی بھی جنگ يا مسلح لڑائ کے دوران بے گناہ شہريوں کی ہلاکت ايک تلخ حقيقت ہے۔ اس سے کوئ انکار نہيں کہ "فرينڈلی فائر" کے نتيجے میں اپنے ہی فوجيوں کی ہلاکت کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ دنيا کے کسی بھی حصے میں جنگ کے نتيجے میں انسانی جان کے نقصان کی حقیقت کے حوالے سے بھی کوئ بحث يا دليل نہيں دی جا سکتی۔ ليکن اس ويڈيو کا مقصد دہشت گردوں کے اس غير انسانی، سفاک اور بربريت پر مبنی رويے کو واضح کرنا تھا جس کے تحت وہ دانستہ سکول کے معصوم بچوں کو باقاعدہ ايک جنگی حکمت عملی اور ترجيحی طريقہ واردات کے تحت نشانہ بنا کر انھيں ہلاک کرتے ہیں۔ صرف يہی نہيں بلکہ وہ دھڑلے سے ان حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں اور مستقبل ميں بھی ايسے ہی حملوں کرنے کی دھمکی ديتے ہیں۔

وہ حمايتی جو اب بھی ان دہشت گردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہيں اور ان کے حملوں کے ليے تاويليں اور توجيحات پيش کر کے انھيں کسی مقدس مشن پر گامزن آزادی کے متوالے سمجھتے ہيں، ان سے ميرا سوال ہے کہ سکول کے معصوم بچوں کو ہلاک کر کے کاميابی کے دعوے کرنے ميں جرات، بہادری اور عظمت کا کون سے پہلو ہے جو لائق تحسين ہے؟

اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں ہونا چاہيے۔ ايسی سوچ اور نقطہ نظر جو دانستہ سکول کے بچوں کی ہلاکت کو قابل ترجيح حربہ اور جائز اقدام قرار دے کر اپنی خونی تحريک کو پروان چڑھانے اور عوام کو دہشت زدہ کرنے کے لیے استعمال کرے، اسے کسی بھی صورت ميں درست يا قابل ستائش قرار نہيں ديا جا سکتا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جو چيز پاکستان کو کمزور کر رہی ہے وہ دہشت گردی، متعدد دہشت گرد تنظيميں اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی بے چينی کی فضا ہے نا کہ امريکی حکومت جو کہ اب تک حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے ليے کئ ملين ڈالرز کی امداد دے چکی ہے۔ اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہوتا تو اس کے ليے دہشت گردوں کی کارواۂياں ہی کافی تھيں، امريکہ کو اپنے 10 بلين ڈالرز ضائع کرنے کی کيا ضرورت تھی۔ يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ بہت سے سرکردہ دہشت گردوں نے پاکستانی نظام کو سرے سے ختم کرنے اور اسے اپنے نظريات ميں ڈھالنے کے حوالے سے اپنے ارادوں کا برملا اظہار کيا ہے۔

کچھ لوگ امريکہ پر يہ بے سروپا الزام لگاتے ہيں کہ ہم ان افراد اور گروہوں کو فنڈنگ فراہم کرتے ہيں جو کم سن بچوں کی برين واشنگ کر کے انھيں دہشت گرد بناتے ہيں اور پاکستان بھر ميں تبائ کا موجب بنتے ہيں۔ ليکن يہ دعوی کرنے والے يہ فراموش کر ديتے ہیں کہ پاکستان کی سول اور عسکری قيادت تو امريکی حکومت کے ساتھ مل کر اس عفريت کے خاتمے کے ليے کوشاں ہے۔ سوال يہ ہے کہ اگر امريکہ پاکستان ميں دہشت گردی کا ذمہ دار ہے تو پھر پاکستان کی فوج ان کوششوں ميں امريکہ کی مدد اور سپورٹ کيوں کرے گی؟ اگر آپ تازہ اخباری شہ سرخياں ديکھيں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ پاکستانی فوج تو خود دہشت گردوں تنظيموں اور خودکش بمباروں کا ہدف بنی ہوئ ہے۔ اسی طرح اہم پاکستانی سياسی قيادت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سينير اہلکار بھی روزانہ ان کا نشانہ بن رہے ہيں۔ کراچی اور پشاور ميں ہونے والے تازہ حملوں سے يہ واضح ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس لڑائ ميں بے مثال قربانی دے رہے ہیں۔

يقينی طور پر اگر امريکہ پر لگائے جانے والے الزامات میں صداقت ہوتی تو پاکستانی حکومت ہمارے ساتھ تعاون اور دہشت گردی کے خاتمے کے ضمن ميں مشترکہ جدوجہد کا حصہ نہ ہوتی۔

ان حملوں کے ذمہ دار افراد نے ان حملوں کے حوالے سےاعتراف بھی کر ليا ہے اور اپنی خونی ايجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے دھمکی بھی دی ہے۔ اب اگر حکومت پاکستان اور افواج پاکستان ان افراد اور گروہوں کے خلاف کاروائ کرتی ہے جو ان حملوں کے ذمہ دار ہيں تو کيا آپ اسے امريکہ کی جنگ کہيں گے؟ ان حملوں ميں کسی امريکی کی موت نہيں ہوئ۔ حکومت پاکستان اور فوج کی کاروائ پاکستان کے عوام کی حفاظت کو يقينی بنانے اور ان افراد کو انصاف کے کٹہرے ميں لانے کے ليے ہو گی جن کے ہاتھوں پر پاکستانی خون ہے۔ کسی بھی رياست اور فوج سميت اس کے تمام اداروں کی يہ بنيادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے شہريوں کی حفاظت کو يقينی بنائے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کر رہے ہيں اور اس کاوش ميں وسائل کا اشتراک، تکنيکی مہارت، لاجسٹک سپورٹ اور فوجی تعاون بھی شامل ہے۔ ليکن مجموعی مقاصد اور دہشت گردی کے خاتمے اور ان دہشت گرد گروہوں کو قلع قمع کرنے کے نتيجے ميں خطے ميں جس ديرپا استحکام اور امن کا حصول ممکن ہو سکے گا وہ دونوں ممالک کے باہمی مفاد ميں ہے۔ اس تناظر میں يہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پاکستانی فوج کو خطے ميں امريکہ کی جنگ کے ليے استعمال کيا جا رہا ہے۔

دنيا کی کوئ بھی فوج اپنے فوجيوں کی جان کی قربانی اور اپنے وسائل صرف اپنے عوام کے بہترين مفاد میں ہی صرف کرتی ہے۔ امريکی حکومت پاکستانی فوج کے بہادر سپاہيوں کی بے پناہ قربانيوں کو پوری طرح تسليم بھی کرتی ہے اور اسے قابل احترام بھی سمجھتی ہے، جنھوں نے پاکستان کے معصوم شہريوں کی جانوں کی حفاظت کے ليے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کيا ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

اظفر

محفلین
بہت خوب فواد صاحب
جہاں اسرائیلی افواج فلسطینی بچوں کو قتل کرتی ہیں تو یو ایس اے کو نظر نہیں آتا۔ کانے پن کی انتہا ہے ۔ آپ لوگوں کو صرف یہاں کیوں غلط نظر آتا ہے ۔ آپ لوگ ایک طرف فلسطین کو اقوام متحدہ کا ممبر بننے سے بھی روکنے کی کوشش کرتے ہو ، کیون ؟ وہاں کے بچے اسرائیلی آرمی کے ہاتھوں قتل ہونے سے انکار کرتے ہیں اسلیے ؟
یہ لمبی لمبی کہانیاں تب سنانا جب تم لوگوں کا قانون سب کیلیے ایک جیسا ہوگا۔ آپ یو ٹیوب پر جا کر سرچ کر لیں آپ کو یو ایس اے آرمی کے مسلمانوں پر تشدد کے سینکڑوں کلپ مل جائیں گے ، اسی طرح اسرایلی آرمی کے فلسطینیوں پر ظلم کی بھی وڈیوز مل جائیں گئ، انڈین آرمی کے کشمیر میں ظلم کی وڈیوز بھی عام دستیاب ہیں۔ لیکن آ جا کر آپ کاسینگ مسلمانوں پر ہی کیوں اٹک جاتا ہے ۔
آپ اگر اپنی کہانیاں سنانا چاھتے ہیں تو اس دن سنانا جب امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف کوی قرار داد پیش کرے گا۔
اب پھر سے جواب میں کہانی نا سنا دینا۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افسوسناک تو ہے لیکن جب تک ہم پرائی جنگ لڑتے رہیں گے ایسے ہی بلیک واٹر کے کارندے بظاہر طالبان کے روپ میں پاکستانی قوم کے مال و جان کو نقصان پہنچاتے رہیں گے


اگر آپ اس ويڈيو کو ديکھيں تو اس ميں واضح ہے کہ طالبان نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن کی تفصيل دکھائ گئ ہے۔ ان کی جانب سے ان حملوں کا برملا اعتراف پاکستانی ميڈيا کے سامنے کيا گيا۔ بلکہ ايسے بے شمار حملے ہيں جن کی ذمہ داری قبول کی گئ ہے۔

يہ بات توجہ طلب ہے کہ ايک جانب تو رائے دہندگان انسانی زندگی کے زياں پر افسوس کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور دہشت گردی کے جاری واقعات کے سبب معاشرے کی شکست وريخت پر بھی کف افسوس ملتے ہيں ليکن پھر جو گروہ اور افراد ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہيں ان کو ہدف تنقيد بنانے کی بجائے وہ پھر وہی پرانی اور گھسی پٹی سازشوں کا تذکرہ شروع کر ديتے ہيں جن کے مطابق بليک واٹر يا کوئ اور بيرونی ان ديکھی قوت ان حملوں کی ذمہ دار ہے۔ کيا اس سوچ ميں دانش کا کوئ پہلو ہے کہ بغير کسی ثبوت اور شواہد کے چند افراد کی اختراح کردہ بے سروپا کہانيوں پر تو لاحاصل بحث و مباحثہ کو طول ديا جائے ليکن ان آوازوں کو يکسر نظرانداز کر ديا جائے جو برملا ان جرائم کا اعتراف بھی کر رہی ہيں اور مستقبل ميں بھی اپنے قتل وغارت گری کے ايجنڈے کو جاری رکھنے کا تہيہ کيے ہوئے ہيں۔

اس دليل ميں کيا کوئ عقل و فہم کا عنصر ہے؟

وقت کا تقاضا ہے کہ ان دہشت گردوں کے مقاصد اور ارادوں سے متعلق کسی بھی قسم کے ابہام سے اپنی سوچ کو آزاد کيا جائے۔ انھوں نے اپنے سفاکانہ اعمال اور دقيانوسی نظريات سے يہ واضح کر ديا ہے کہ پاکستانی معاشرے، يہاں کے رہنے والوں کی بہتری اور ملک کے مستقبل کے معماروں کی فلاح ان کے مذموم ارادوں کی راہ ميں رکاوٹ ہے۔

افراتفری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار معاشرہ جس ميں مايوسی کا دور دورہ ہو ايک ايسے ماحول کو جنم دينے کا سبب بنتا ہے جو ان کی صفوں میں مزيد افراد کو شامل کرنے کے ليے انتہائ سودمند ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان اس لڑائ میں تنہا نہيں ہے۔ ليکن معاشرے کے تمام مقطبہ فکر کی جانب سے اجتماعی کاوش کی ضرورت ہے تا کہ اس ناسور کا قلع قمع کيا جا سکے جو کہ اب ايک عالمی مسلۂ اور ہم سب کے ليے مشترکہ خطرہ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
مسٹر فواد ، بندہ پرور طالبان کے آغاز ، ارتقاء اور ان کی بقا کے بارے میں اپنے خیالات سے ہمیں نوازیں تا کہ، بقول آپ کے، ہمارے "گھسے پٹے" خیالات کو تازہ افکار مل سکیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

مسٹر فواد ، بندہ پرور طالبان کے آغاز ، ارتقاء اور ان کی بقا کے بارے میں اپنے خیالات سے ہمیں نوازیں تا کہ، بقول آپ کے، ہمارے "گھسے پٹے" خیالات کو تازہ افکار مل سکیں۔


طالبان کی تاريخ کے ضمن ميں آپ کی توجہ اے – اين – پی کے ليڈر افضل خان کے سال 2009 میں صحافی طلعت حسین کو ديے گئے انٹرويو کی جانب کروانا چاہتا ہوں۔

http://youtu.be/Jj-GRAP2jaM

(6:50 min)

افضل خان اس وقت پاکستان کی وفاقی کابينہ کا حصہ تھے جب طالبان افغانستان ميں برسراقتدار آ رہے تھے۔ انھوں نے طالبان کے حوالے سے جو بات کہی وہ ان دستاويزات کے عين مطابق ہے جو ميں پہلے ہی اس فورم پر پوسٹ کر چکا ہوں۔ افضل خان نے يہ بھی کہا کہ اس وقت کے وزير داخلہ جرنل نصير بابر براہراست طالبان کی تحريک کو کمانڈ کر رہے تھے۔ يہ حقيقت بھی اس دستاويز سے ثابت ہے جو ميں پوسٹ کر چکا ہوں۔

ان ناقابل ترديد ثبوتوں اور حقائق، اور حکومت پاکستان کے بے شمار افسران کے آن ريکارڈ بيانات کے باوجود کچھ دوست اس بات پر بضد ہيں کہ طالبان يا امريکی حکومت اس خطے ميں طالبان کے بر سر اقتدار آنے کا سبب بنے تھے۔ حقائق اس کے بالکل برعکس ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
البان کی تاريخ کے ضمن ميں آپ کی توجہ اے – اين – پی کے ليڈر افضل خان کے سال 2009 میں صحافی طلعت حسین کو ديے گئے انٹرويو کی جانب کروانا چاہتا ہوں۔

http://youtu.be/Jj-GRAP2jaM
گویا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ طالبان کو پاکستان نے خود ہی تخلیق کیا امریکہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں؟؟؟۔ جنرل نصیراللہ بابر پر آپ نے طالبان تحریک کی قیادت کی جو بات کہی ہے اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ پاکستان نے اس اوکھلی کو خود اپنا سر پھنسانے کے کئیے تیار کیا۔ آپ میڈیا پر کچھ بھی کہنے کا حق رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جب آپ دانستہ یا نا دانستہ حقائق کو مسخ کرتے ہیں تو پھر حقائق پیش کرنا پڑتے ہیں۔
----------------------------------------------------------------
ایک اقتباس ہے انگریزی میں اسے غور سے پڑھئیے،
“But the problems we face now to some extent we have to take responsibility for, having contributed to it. We also have a history of kind of moving in and out of Pakistan,”
کچھ یاد آیا کہ یہ کس نے کہا ، کب کہا اور کہاں کہا؟؟؟۔
چلئیے ایک اور اقتباس پڑھتے ہیں،
“Let`s remember here… the people we are fighting today we funded them twenty years ago…
نہیں یاد آیا ؟۔ یہ بھی پڑھئیے اور ذہن پر زور ڈالئیے،
“They invaded Afghanistan… and we did not want to see them control Central Asia and we went to work… and it was President Reagan in partnership with Congress led by Democrats who said you know what it sounds like a pretty good idea… let`s deal with the ISI and the Pakistan military and let`s go recruit these mujahideen.
کچھ سمجھ میں آیا؟ نہیں؟ چلیں تھوڑا آگے چلتے ہیں۔
And great, let them come from Saudi Arabia and other countries, importing their Wahabi brand of Islam so that we can go beat the Soviet Union.
کچھ عقدہ کھلا۔ چلیں اور وضاحت ایک اقتباس میں،
“And guess what … they (Soviets) retreated … they lost billions of dollars and it led to the collapse of the Soviet Union.
اور اس کے بعد کا اقتباس بڑا اہم ہے،
“So there is a very strong argument which is… it wasn`t a bad investment in terms of Soviet Union but let`s be careful with what we sow… because we will harvest.
اجی حضرت تھوڑا صبر کیجئیے میں ہی بتا دوں گا یہ سب کس نے کہا ذرا آگے تو پڑھئیے،
“So we then left Pakistan … We said okay fine you deal with the Stingers that we left all over your country… you deal with the mines that are along the border and… by the way we don`t want to have anything to do with you… in fact we`re sanctioning you… So we stopped dealing with the Pakistani military and with ISI and we now are making up for a lot of lost time.”
-------------------------------------------------------------
جی جناب ، پریشان مت ہوئیے گا یہ سب کچھ امریکہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا اور اپنے گھر یعنی امریکہ میں بیٹھ کر اس وقت کہا جب اوبامہ کی خارجہ پالیسی پر کانگریس میں بحث ہو رہی تھی اور یہ وہی 2009 کے ماہ اپریل کا 24 واں دن تھا کہ جس سال کے افضل خاں کے بیان پر آپ نے طالبان کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کو شش کی۔
یہ پوری کہانی یہاں پڑھئیے اور سمجھنے کی کوشش کیجئیے کہ آپ کا مؤقف کس قدر لا علمی پر مبنی ہے۔ آپ نے افضل خاں کے انٹرویو کو اپنے مؤقف کی بنیاد بنایا تو ہیلری نے وضاحت کر دی کہ طالبان کی فنڈنگ امریکہ نے کی افرادی قوت عربوں نے دی اور سرزمین پاکستان کی استعمال ہوئی۔
اب ذرا ایک سوال کا جواب تلاش کیجئیے کہ افضل خاں اپنے انٹرویو میں کہہ رہے ہیں کہ طالبان اپنے ایک دہشت گرد کو ماہانہ پاکستان پولیس کے سپاہی سے ڈبل سے بھی زیادہ رقم دیتے ہیں معلوم کیا جائے یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے۔ کیا ہیلری کا یہ اقتباس
“Let`s remember here… the people we are fighting today we funded them twenty years ago…
اس کی کچھ وضاحت کرتا ہے کہ نہیں؟۔

US created Taliban and abandoned Pakistan, says Hillary
 

اظفر

محفلین
ساجد بھائی ! فواد کے زیادہ تر جوابات بنیادی طور پر اصل موضوع کا جواب ہی نہیں ہوتا۔ آپ فواد صاحب کی پچھلی 100 پوسٹس کا موازنہ کر لیں۔ چند باتیں ہیں جو ہر بار بدل بدل کر پیش کی جاتی ہیں وہ بھی موضوع سے ہٹ کر۔ ان کا مقصد کہانی گھماے رکھنا ہے نہ کہ سچ بات کرنا۔ اس کی مثال یہاں محفل میں آپ کو مل جاے گہ جہاں کوی دلایل سے فواد سے بات کرنے کی کوشش کرتا ھے اور فواد کی کہانی نہیں چلتی تب فواد مطلوبہ پوسٹ کا جواب دینے کی بجاے اس موضوع میں سے کسی اور پوسٹ کو اقتباس لیکر کچھ کہانی لکھ جاتا ہے۔ سچ کیا ہے آپ کو معلوم ہے اور یقینا فواد کو بھی ۔ اسلیے ان سے بحث کا کوئی فائدہ ممکن نہیں ۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کیا ہیلری کا یہ اقتباس
“Let`s remember here… the people we are fighting today we funded them twenty years ago…
اس کی کچھ وضاحت کرتا ہے کہ نہیں؟۔

US created Taliban and abandoned Pakistan, says Hillary

جہاں تک وزير خارجہ سيکرٹری کلنٹن کی ويڈيو کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو ميں واضح کر دوں کہ جب يہ ويڈيو پہلی مرتبہ فورمز پر پوسٹ کی گئ تھی تو میں نے اسے نظرانداز نہيں کيا تھا بلکہ اس کے حوالے سے تمام سوالات کے جواب ديے تھے۔

ايک مشہور کہاوت ہے کہ "ميٹھا ميٹھا ہپ ہپ اور کوڑا کوڑا تھو تھو"۔ جب آپ امريکی وزير خارجہ يا کسی بھی دوسرے امريکی اہلکار کے ايک خاص تناظر ميں ديے گئے بيان کے ايک مخصوص حصے کا حوالہ ديتے ہيں جو کسی لحاظ سے آپ کے نقطہ نظر کو توقيت ديتا ہے تو پھر انصاف کا تقاضا يہی ہے کہ آپ ان سرکاری امريکی دستاويزات کو بھی اہميت ديں جو اسی موضوع کے حوالے سے ميں نے بارہا اردو فورمز پر پوسٹ کی ہيں۔ يہ دستاويزات آپ کو 80 کے دہائ ميں "افغان جہاد" کے حوالے سے مکمل تصوير کو سمجھنے ميں مدد ديں گی۔

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی حکومت نے ديگر مسلم ممالک کی طرح افغانستان کے عوام کی مالی اعانت کی تھی۔ يہی بات وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اپنے بيان ميں بھی کہی تھی۔ انھوں نے واضح طور پر لفظ "فنڈنگ" استعمال کيا تھا۔ ليکن يہ صرف معاملے کا ايک پہلو ہے۔ اس دور ميں امريکہ کے کردار پر غير جانب دار اور مکمل تجزيے کے ليے آپ کو ان تصديق شدہ اور ريکارڈ پر موجود حقائق کا حوالہ بھی دينا ہو گا جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام تر مالی اعانت پاکستانی افسران اور آئ ايس آئ کے ذريعے منتقل کی گئ تھی اور وہی اس فيصلے کے حوالے سے ذمے دار تھے کہ کن گروپوں اور افراد کو افغانستان ميں فنڈز اور سپورٹ فراہم کی جائے۔

اس ايشو کے حوالے سے ميں اپنے موقف کا اعادہ کروں گا کہ 80 کی دہائ ميں افغان عوام کی مدد اور حمايت کرنے کا فيصلہ بالکل درست تھا۔ اس وقت يہ مقصد اور ارادہ ہرگز نہيں تھا کہ دنيا کے نقشے پر دہشت گردوں کو روشناس کروايا جائے بلکہ مقصد افغانستان کے عوام کو سويت فوجوں کے تسلط سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
جہاں تک وزير خارجہ سيکرٹری کلنٹن کی ويڈيو کے حوالے سے آپ کا سوال ہے تو ميں واضح کر دوں کہ جب يہ ويڈيو پہلی مرتبہ فورمز پر پوسٹ کی گئ تھی تو میں نے اسے نظرانداز نہيں کيا تھا بلکہ اس کے حوالے سے تمام سوالات کے جواب ديے تھے۔
عالی جاہ ، نا چیز نے اس ضمن میں کب اور کونسی ویڈیو ارسال کی ہے؟ میں نے تو ہیلری کلنٹن کے اس بیان کا حوالہ دیا جو انہوں نے اوبامہ کی پالیسیوں کے بارے میں بحث کے دوران کیا۔
بدکنا ، سنبھلنا ،سنبھل کر بدکنا
پہلو تہی کا ہے شاخسانہ
والا معاملہ آپ کے ساتھ ہو گیا ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
البتہ جس چیز پر آپ کو بات کرنا چاہئیے تھی وہ آپ گول کر گئے ۔اصل بات یہ ہے کہ ہیلری کے بیان کو آپ جھٹلائیں گے تو آپ نے اردو محفل پہ طالبان کے بارے میں جو مؤقف اختیار کر رکھا ہے اس کا دھڑن تختہ ہو جائے گا اور مانیں گے تو آپ کے پالیسی سازوں کی منافقت طشت از بام ہوتی ہے۔ "نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن" کی عملی تعببیر آپ کو درپیش ہے ۔ہم آپ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
يک مشہور کہاوت ہے کہ "ميٹھا ميٹھا ہپ ہپ اور کوڑا کوڑا تھو تھو"۔ جب آپ امريکی وزير خارجہ يا کسی بھی دوسرے امريکی اہلکار کے ايک خاص تناظر ميں ديے گئے بيان کے ايک مخصوص حصے کا حوالہ ديتے ہيں جو کسی لحاظ سے آپ کے نقطہ نظر کو توقيت ديتا ہے تو پھر انصاف کا تقاضا يہی ہے کہ آپ ان سرکاری امريکی دستاويزات کو بھی اہميت ديں جو اسی موضوع کے حوالے سے ميں نے بارہا اردو فورمز پر پوسٹ کی ہيں۔ يہ دستاويزات آپ کو 80 کے دہائ ميں "افغان جہاد" کے حوالے سے مکمل تصوير کو سمجھنے ميں مدد ديں گی۔
ایک بھی ایسا بیان میرے مراسلات میں سے ڈھونڈ کر لائیں کہ جو ادھورا نقل کیا گیا ہو۔ جب بھی ثبوت کے طور پر وضاحت کرنا ضروری سمجھا تو متعلقہ خبری یا بیانی مصدر(سورس) کا لنک ہی پیش کیا کرتا ہوں تا کہ پوری بات سمجھ میں آ سکے۔اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے کہ میں افغان جنگ اور پاکستان پر امریکی جارحیت پر لکھنے کے لئیے صرف میڈیا کے بل پر ہی چھلانگیں مارتا یہاں نہیں آ جاتا۔ میری ذاتی کاوش اور زمینی حقائق کے متعلق تحقیق اس کی بنیاد ہیں۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ آپ ماضی قریب تک ڈرون حملوں کو دہشت گردوں کے خلاف قرار دیتے تھے لیکن میں نے اس سے بہت پہلے انہی دھاگوں میں کہا تھا کہ یہ دراصل حقانی گروپ پر کئیے جا رہے ہیں اور آپ کے پالیسی سازوں کے ساتھ ساتھ میڈیا نے بھی اس کا اعتراف بعد ازاں کر لیا۔ اور کل کے جارحانہ ڈرون حملے میں بھی آپ کا میڈیا حقانی گروپ کے ایک رہنما کی خبر دے رہا ہے۔اب اچانک ہی معاملات دہشت گردوں ، شدت پسندوں اور قاتلوں کی گردان سے ہٹا کر ایک نئے راگ سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش شد و مد سے جاری ہے اور وہ راگ "حقانی" کی تال پر ہے۔ اس کی وجہ؟؟؟ میں بتاتا ہوں !!! اسے کہتے ہیں "خُوئے بد را بہانہ بسیار" ۔ اس ساری ڈرامہ بازی کا مقصد پاکستان پر زبردست دباؤ بڑھانا اور اپنی شرائط منوا کر جنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنا فوجی عمل دخل بڑھانا ہے تا کہ اس خطے کا ریگو لیٹر اپنے ہاتھ میں رکھ جا سکے۔ لیکن۔۔۔آج پھر لکھ رہا ہوں اب امریکہ کے لئیے یہ ایک خواب رہ جائے گا اور امریکہ کی کمزور اقتصادی حالت اسے ڈراؤنے خواب میں بدلنے کے لئیے تیار کھڑی ہے۔ مجھے آپ کی فوجی قیادت پر افسوس کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے جب وہ بے تکے بیانات اور اقدامات کی بڑھکیں مارتی ہے اور مسٹر اوبامہ کے ساتھ ساتھ ہیلری کلنٹن بعد میں ان بیانات سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں ممکنہ امریکی فوجی دخل اندازی کی دھمکیوں کے نتائج سے اب سیاسیات اور عسکری علوم کا ادنی سا طالب علم بھی واقف ہے اور وہ ایسی دھمکیاں دینے والوں کو پاکستان سے زیادہ امریکہ کا دشمن کہے گا لیکن آفرین ہے آپ کی فوجی قیادت پر جو بڑے دھڑلے سے واپسی کے وقت سے عین پہلے سلطان راہی بن کر اپنی فوج کے ساتھ ساتھ 49 دیگر ممالک کے فوجیوں کے لئیے بھی مشکلات پہ مشکلات پیدا کئیے جا رہی ہے۔ آپ ساری دنیا کی افواج کو اکٹھا کر کے افغانستان میں لے آئیں وہ آ تو اپنی مرضی سے جائیں گی لیکن واپسی کے لئیے انہیں پاکستان ہی سے مدد مانگنا پڑے گی۔ اس کی وجوہات آپ کو معلوم ہونا چاہئیں اگر نہیں تو مجھے کہیں میں یہیں لکھ دوں گا۔
امریکی دستاویزات پر "ایمان" رکھنا کسی کے لئیے بھی ضروری نہیں ہے وقت اور رواں حالات دستاویزات کی نسبت بہتر انداز میں صورت حال کی تصویر کشی کیا کرتے ہیں۔ دستاویزات کو تھیوری اور حالات کو پریکٹیکل کے خانے میں رکھا جاتا ہے آپ پریکٹیکل میں کچھ نہیں ہیں تو تھیوری ٹائیں ٹائیں فش۔ پھر بھی آپ لکھیں ہم بسر و چشم ان کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں گے اور حقائق کی بنیاد پر ان کو پرکھیں گے۔
اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ امريکی حکومت نے ديگر مسلم ممالک کی طرح افغانستان کے عوام کی مالی اعانت کی تھی۔ يہی بات وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے اپنے بيان ميں بھی کہی تھی۔ انھوں نے واضح طور پر لفظ "فنڈنگ" استعمال کيا تھا۔ ليکن يہ صرف معاملے کا ايک پہلو ہے۔ اس دور ميں امريکہ کے کردار پر غير جانب دار اور مکمل تجزيے کے ليے آپ کو ان تصديق شدہ اور ريکارڈ پر موجود حقائق کا حوالہ بھی دينا ہو گا جن سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ تمام تر مالی اعانت پاکستانی افسران اور آئ ايس آئ کے ذريعے منتقل کی گئ تھی اور وہی اس فيصلے کے حوالے سے ذمے دار تھے کہ کن گروپوں اور افراد کو افغانستان ميں فنڈز اور سپورٹ فراہم کی جائے۔
افغانستان کے عوام کی مالی اعانت ہرگز نہیں کی گئی۔ یہ ایسی ہی اعانت تھی جو آج ہم پاکستانی عوام کی کی جا رہی ہے۔ رقم اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے دی گئی اور یہ ایسی ہی سرمایہ کاری تھی جو روس کے خلاف طالبان کی تخلیق پر کی گئی۔ اور ذرا ہیلری کا یہ بیان دیکھئیے"They invaded Afghanistan… and we did not want to see them control Central Asia and we went to work… and it was President Reagan in partnership with Congress led by Democrats who said you know what it sounds like a pretty good idea… let`s deal with the ISI and the Pakistan military and let`s go recruit these mujahideen.۔
محترم ، اب آپ ہی فرمائیے کہ اس تضاد کو ہم کیا کہیں؟؟؟۔ آپ نے یہ سرمایہ کاری اس وقت روک دی جب آپ ہی کے بغل بچے آپ کو آنکھیں دکھا کر سنٹرل ایشیا میں آپ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوئے۔ ان کے تعلقات جب نو آزاد روسی ریاستوں سے برھے تو خطرے کا الارم امریکہ میں بجا اور آپ کو تب یاد آیا کہ ہم پراکسی وار میں بہت بڑا بلنڈر کر چکے ہیں۔ تبھی آپ نے ان کے خلاف سب کچھ کرنے کی ٹھانی ۔ اسی مقام پر پہنچ کر 9-اا بھی مشکوک ہو جاتا ہے ۔ بلا شبہ یہ رقم پاکستان کے ذریعہ بھی دی گئی لیکن اس سے زیادہ امریکہ نے خود بھی دی ۔ صرف آئی ایس آئی ہی امداد تقسیم کرنے کی مجاز نہ تھی۔ جس کا پیسہ تھا وہ دودھ پیتا بچہ نہیں تھا ایک بڑی طاقت تھی جس نے امداد کے نام پر مختلف گروپوں کو یہ امداد دی نہ کہ صرف اس وقت کی افغان حکومت کو۔ سرخ رنگ میں آپ کے الفاظ کیا میری بات کی تائید نہیں کرتے؟؟؟۔
مقصد افغانستان کے عوام کو سويت فوجوں کے تسلط سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔
یہی کہہ سکتا ہوں" اس سادگی پہ کون مر نہ جائے اے خدا"۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس ساری ڈرامہ بازی کا مقصد پاکستان پر زبردست دباؤ بڑھانا اور اپنی شرائط منوا کر جنوبی اور وسطی ایشیا میں اپنا فوجی عمل دخل بڑھانا ہے تا کہ اس خطے کا ریگو لیٹر اپنے ہاتھ میں رکھ جا سکے۔ لیکن۔۔۔آج پھر لکھ رہا ہوں اب امریکہ کے لئیے یہ ایک خواب رہ جائے گا اور امریکہ کی کمزور اقتصادی حالت اسے ڈراؤنے خواب میں بدلنے کے لئیے تیار کھڑی ہے۔ مجھے آپ کی فوجی قیادت پر افسوس کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آتی ہے جب وہ بے تکے بیانات اور اقدامات کی بڑھکیں مارتی ہے اور مسٹر اوبامہ کے ساتھ ساتھ ہیلری کلنٹن بعد میں ان بیانات سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں ممکنہ امریکی فوجی دخل اندازی کی دھمکیوں کے نتائج سے اب سیاسیات اور عسکری علوم کا ادنی سا طالب علم بھی واقف ہے اور وہ ایسی دھمکیاں دینے والوں کو پاکستان سے زیادہ امریکہ کا دشمن کہے گا لیکن آفرین ہے آپ کی فوجی قیادت پر جو بڑے دھڑلے سے واپسی کے وقت سے عین پہلے سلطان راہی بن کر اپنی فوج کے ساتھ ساتھ 49 دیگر ممالک کے فوجیوں کے لئیے بھی مشکلات پہ مشکلات پیدا کئیے جا رہی ہے۔ ۔



آپ اپنے دلائل میں ايک جانب تو معاشی ابتری کا حوالہ دے کر ہمیں شکست و ريخت کا شکار ايک ايسی سلطنت سے تعبير کر رہے ہيں جو ہم اپنے فوجی مقاصد کے حصول کی سکت نہيں رکھتی ليکن اسی پيرائے ميں آپ نا صرف يہ کہ ہم پر پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا الزام لگا رہے ہيں بلکہ ہميں ايک ايسی عالمی قوت سے تشبيہہ دے رہے ہيں جو تن تنہا نيٹو کی افواج پر اپنے ايجنڈے مسلط کر رہی ہے اور پوری عالمی برادری کو خطے ميں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے ليے حکم صادر کر رہی ہے۔

يقينی طور پر آپ اپنی دليل ميں موجود تضاد کو نظرانداز نہيں کر سکتے۔

ميں نے کبھی بھی اس حقیقت کو تسليم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہيں کی کہ دنيا کے کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومت بھی اپنی خارجہ پاليسی کے ہر فيصلے کے پیچھے اپنے شہريوں کے بہترين مفادات کو مقدم اور سب سے اہم عنصر تصور کرتی ہے۔ ليکن ہم اس حقيقت سے بخوبی واقف ہيں کہ صرف وہی حکمت عملی ديرپا ثابت ہو سکتی ہے جو باہم مفادات اور باہم احترام کے اصولوں پر وضع کی گئ ہو۔ اس تناظر ميں اس خطے سے دہشت گردی کی جو لہر اٹھی تھی اس سے اپنے شہريوں کی زندگيوں کو محفوظ بنانے کے لیے ہمارے تحفظات نا صرف ہمارے لیے بلکہ پوری عالمی برادری کے لیے منطقی بنيادوں پر تھے۔ ليکن اس سے قطع نظر کيا آپ نہيں سمجھتے کہ يہ چيز پاکستانی قوم اور حکومت کے بہترين مفاد ميں ہے کہ اجتماعی سطح پر دہشت گردی کے اس عفريت کا مقابلہ کيا جائے جس کی بدولت روزانہ بے گناہ پاکستانيوں کا خون گلی کوچوں میں بہہ رہا ہے؟

اگر امريکی حکومت کے اعلی عہديدار اور سرکردہ سفارتی قائدين اپنے ہم عصر پاکستانيوں سے مل کر انھيں اس مشترکہ مسلئے اور مقصد کے حصول کے ليے قائل کرنے کے لیے کاوشيں کرتے ہیں تو اس عمل کو پاکستان پر دباؤ بڑھانے سے تعبير کرنا غير منطقی اور حقيقت کے منافی ہے۔

امريکی حکومت نے ہميشہ اس حقيقت کو تسلیم کيا ہے کہ پاکستان کے عوام نے القائدہ اور اس سے منسلک تنظيموں کے ہاتھوں بے شمار زخم سہے ہيں۔ سيکرٹری کلنٹن نے بھی اپنے حاليہ دورے کے دوران اسی بات کا اعادہ کيا۔ ان بيش بہا قربانيوں کا ہی تقاضا ہے کہ تمام فريقين کو ان عناصر کے خلاف ايک مشترکہ حکمت عملی کے ليے کاوش کرنی چاہیے جو تشدد کے ذريعے اپنے نظريات عوام پر مسلط کرنے پر يقين رکھتے ہيں۔

عام انسانوں کی زندگيوں کو پرتشدد کاروائيوں سے محفوظ بنانا اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا قلع قمع کرنا اس خطے ميں ہماری موجودگی کی وجوہات ہيں۔ ان مقاصد کا کامياب حصول پاکستان سميت تمام فريقين کے بہترين مفاد ميں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
آپ اپنے دلائل میں ايک جانب تو معاشی ابتری کا حوالہ دے کر ہمیں شکست و ريخت کا شکار ايک ايسی سلطنت سے تعبير کر رہے ہيں جو ہم اپنے فوجی مقاصد کے حصول کی سکت نہيں رکھتی ليکن اسی پيرائے ميں آپ نا صرف يہ کہ ہم پر پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا الزام لگا رہے ہيں بلکہ ہميں ايک ايسی عالمی قوت سے تشبيہہ دے رہے ہيں جو تن تنہا نيٹو کی افواج پر اپنے ايجنڈے مسلط کر رہی ہے اور پوری عالمی برادری کو خطے ميں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے ليے حکم صادر کر رہی ہے۔

يقينی طور پر آپ اپنی دليل ميں موجود تضاد کو نظرانداز نہيں کر سکتے۔

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
جی بالکل میں اسی بات کی توقع کر رہا تھا کہ آپ میرے "تضاد" کو منظر عام پہ لائیں گے۔ آپ یقین رکھیں کہ یہ تضاد ہوتا تو میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں ہرگز نہ ہچکچاتا۔ یہ تو آپ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ امریکی معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے اور "وال سٹریٹ پر قبضہ کرو" کے بعد "بوسٹن پر قبضہ کرو " کی تحاریک نے اسے بین الاقوامی سطح پر عیاں بھی کیا۔ انگریزی میں ایک مقولہ ہے "Rome was not built in a day" (آج کل تو روم والے بھی معاشی بحران پر سیخ پا ہیں) ، بات یہ ہے کہ امریکہ ایک ہی دن میں اتنی بڑی عالمی طاقت نہیں بن گیا۔ کم از کم ڈیڑھ صدی کی محنت اس کے پیچھے کار فرما ہے ۔ بالکل اسی طرح یہ ایک دن میں معاشی بحران سے تباہ بھی نہیں ہو سکتا۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ امریکہ داخلی طور پہ معاشی شکست و ریخت زدہ ریاست بن چکا ہے۔ بلکہ آپ ان امریکی مظاہرین کی بڑھتی ہوئی تعداد پر غور فرمائیے جو اپنی معاشی بد حالی کا ذمہ دار امریکی جارحیت پر بے تحاشہ خرچ ہونے والے ڈالروں کو قرار دے رہے ہیں ۔ یا پھر نوجوانوں کی افواج میں شمولیت کی کم ہوتی تعداد پر غور کیجئیے۔ آپ 2001 والے امریکہ کا آج کے امریکہ سے تقابل کر کے بتائیے کہ آج آپ اقتصادی اور فوجی لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں؟؟؟۔ شام کے معاملہ پر آپ کی انتہائی نرم قرار داد کو ویٹو کا منہ کیوں دیکھنا پڑا؟۔ بیسیوں دیگر عوامل ہیں جو امریکی مشکلات میں بڑی تیزی سے اضافے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ اوبامہ حکومت ان مسائل کے حل میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے میں آپ ریخت زدہ نہ بھی ہوں تو جنگ کی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
ہیلری نے ایک بڑی عقلمندی دکھائی کہ پاکستان کے دورے سے قبل تند و تیز بیانات دئیے لیکن پاکستان آ کر درون خانہ وہی بات کی جو ہر جارح نے افغانستان سے بھاگنے سے پہلے کی یعنی پاکستان سے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ہماری مدد کرو ۔ بندہ پرور ، ذرا غور فرمائیے کہ آپ جن طالبان کا قلع قمع کرنے افغانستان میں وارد ہوئے تھے انہی سے مذاکرات پہ مذاکرات کئیے جا رہے ہیں اور پاکستان سے "ڈو مور" کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اگر امریکہ میں فوجی مقاصد حاصل کرنے کی سکت ہوتی تو آج بھی 2001 والے اصولوں پر قائم نہ رہتا؟؟؟۔ "ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ" آپ بھی ان کواکب کی بدلتی شکلوں پر نظر رکھا کریں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی حکومت کی جانب سے افغانستان ميں متحرک مختلف گروہوں کو سياسی دھارے ميں آنے کی ترغيب دينا اور اس عمل کی حوصلہ افزائ کو ہماری شکست سے تعبیر دینا درست نہيں ہے۔ حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ يہ افغانستان کے بنيادی حکومتی ڈھانچے کو فعال کرنے اور مقامی افغان سيکورٹی فورسز کی اہليت اور صلاحيت ميں بہتری کی ہماری ديرينہ کاوشوں کی غمازی کرتا ہے تا کہ دہشت گردی کے جس عفريت نے سارے خطے کو متاثر کيا ہے اس پر قابو پانے کے لیے افغان حکومت اور اس کے ادارے اپنے موثر کردار خود ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول اور خطے میں ديرپا امن کا قيام ہی وہ اہداف ہيں جو خطے سے امريکی اور نيٹو افواج کی واپسی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہيں – ليکن يہ نتائج شکست سے نہيں بلکہ ايک مستحکم پوزيشن کے نتيجے ميں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس تناظر ميں افغانستان کے سياسی پليٹ فورم کو وسيع کرنے اور زيادہ سے زيادہ فريقين کو مذاکرات کی ميز پر لانے کے ضمن ميں ہماری حمايت، ہماری پاليسی ميں تبديلی کی آئينہ دار نہيں ہے۔ بلکہ يہ ہماری کامياب پاليسی کا اگلا مرحلہ ہے جس کا مقصد سياسی عمل سے ان دہشت گردوں اور ان کی خونی سوچ کو تنہا کرنا ہے تا کہ سياسی فريقين اور افغان عوام کے حقيقی نمايندے اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ايک مقامی حل کی جانب گامزن ہوں جو صرف افغانستان ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالمی برادری کے لیے بدستور ايک مشترکہ خطرہ ہے۔

خطے کی باگ ڈور ايسے دہشت گردوں کے حوالے کر دينا جو اپنے اثر ورسوخ ميں اضافے اور عوام پر اپنے نظريات مسلط کرنے کے لیے بے گناہ شہريوں کو قتل کريں، نا تو کوئ حل ہے اور نا ہی کوئ قابل عمل آپشن۔

امريکی حکومت کے سينير اہلکاروں کی جانب سے بات چيت اور ڈائيلاگ کے عمل کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دينا دراصل ہمارے اس موقف کا اعادہ ہے کہ جو بھی گروہ دہشت گردی کو ترک کر دے، امن کے عمل کا حصہ بن جائے اور ايک وسيع سياسی نظام کا حصہ بننے پر آمادہ ہو، اس سے بات چيت ممکن ہے اور يہی پاليسی ہم نے ايک عرصے تک مختلف گروہوں کے حوالے سے افغانستان اور عراق ميں اپنائ ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
امريکی حکومت کی جانب سے افغانستان ميں متحرک مختلف گروہوں کو سياسی دھارے ميں آنے کی ترغيب دينا اور اس عمل کی حوصلہ افزائ کو ہماری شکست سے تعبیر دینا درست نہيں ہے۔ حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ يہ افغانستان کے بنيادی حکومتی ڈھانچے کو فعال کرنے اور مقامی افغان سيکورٹی فورسز کی اہليت اور صلاحيت ميں بہتری کی ہماری ديرينہ کاوشوں کی غمازی کرتا ہے تا کہ دہشت گردی کے جس عفريت نے سارے خطے کو متاثر کيا ہے اس پر قابو پانے کے لیے افغان حکومت اور اس کے ادارے اپنے موثر کردار خود ادا کر سکیں۔ اس مقصد کے حصول اور خطے میں ديرپا امن کا قيام ہی وہ اہداف ہيں جو خطے سے امريکی اور نيٹو افواج کی واپسی کی ضمانت فراہم کر سکتے ہيں – ليکن يہ نتائج شکست سے نہيں بلکہ ايک مستحکم پوزيشن کے نتيجے ميں ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس تناظر ميں افغانستان کے سياسی پليٹ فورم کو وسيع کرنے اور زيادہ سے زيادہ فريقين کو مذاکرات کی ميز پر لانے کے ضمن ميں ہماری حمايت، ہماری پاليسی ميں تبديلی کی آئينہ دار نہيں ہے۔ بلکہ يہ ہماری کامياب پاليسی کا اگلا مرحلہ ہے جس کا مقصد سياسی عمل سے ان دہشت گردوں اور ان کی خونی سوچ کو تنہا کرنا ہے تا کہ سياسی فريقين اور افغان عوام کے حقيقی نمايندے اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ايک مقامی حل کی جانب گامزن ہوں جو صرف افغانستان ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالمی برادری کے لیے بدستور ايک مشترکہ خطرہ ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
"اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی" والا محاورہ شاید آپ کے استدلال کی عملی تعبیر پیش کرنے کا حق ادا کر سکتا ہے۔ عالی جاہ ، آپ جنہیں دنیا کے لئیے خطرہ بنا کر پیش کر رہے ہیں بہ ذات خود افغانستان انہی کو سپرد کر کے بھاگنے کے چکروں میں ہیں۔ اور جو طالبان آپ سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے وہ آپ کے کاغذوں میں بدستور دہشت گرد ہیں۔ آج حقانی گروپ آپ سے مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تو آپ انہیں بھی کابل میں شریک اقتدار کر لیں گے۔ یہ ہے آپ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ؟؟؟ آپ میدان جنگ میں مستحکم پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں ۔ خارجی سے زیادہ آپ پر داخلی دباؤ اس قدر بڑھ کر ہے کہ آپ اس جنگ کے کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن اب یہ کمبل آپ کو نہیں چھوڑ رہا۔ آپ داخلی دباؤ کو کم کرنے کے لئیے ہی پاکستان کو حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں تا کہ امریکی عوام سے کہہ سکیں کہ پاکستان اس قضئیے میں امریکہ کی کوششوں کو بے اثر کر رہا ہے ۔ یہ خود فریبی ہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ ایک اور پراکسی جنگ کا آغاز کرنے جا رہے ہیں جو اس خطے میں مزید انتشار کا سبب بنے گی۔ اس جنگ کے لئیے بھی افغانستان کا میدان ہی چنا گیا ہے۔ ابھی روس کے خلاف پراکسی جنگ سے شاید آپ نے سبق حاصل نہیں کیا ۔
اگر لاکھوں افغانی اور ہزاروں پاکستانی شہید کروانے کے ساتھ ساتھ کھربوں ڈالر جھونک کر بھی طالبان سے مذاکرات ہی کو کامیابی گرداننا تھا تو پھر امریکی "کامیابی" پر میری طرف سے سب سے پہلی مبارک قبول فرمائیں۔
میرے سابقہ تین مراسلوں میں آپ سے بہت کچھ پوچھا گیا لیکن آپ بات ٹالتے ٹالتے کہیں کے کہیں نکل گئے۔ قارئین اس بحث کو پڑھ کر بہت کچھ جان چکے ہیں ۔ آپ لکھتے جائیے تا کہ لوگ یہ جان سکیں کہ جارج بش کے مطابق "افغانستان پر حملہ 9-11 کے جرم میں کیا گیا " یا ہیلری کے بقول " ہم (امریکی حکومت) انہیں (ملا عمر حکومت کو) وسطی ایشیا میں اثر و رسوخ بناتا برداشت نہیں کر سکتے تھے"والی بات سچ ہے!!!۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

"

آپ اس جنگ کے کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن اب یہ کمبل آپ کو نہیں چھوڑ رہا۔ آپ داخلی دباؤ کو کم کرنے کے لئیے ہی پاکستان کو حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں تا کہ امریکی عوام سے کہہ سکیں کہ پاکستان اس قضئیے میں امریکہ کی کوششوں کو بے اثر کر رہا ہے ۔ یہ خود فریبی ہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ ایک اور پراکسی جنگ کا آغاز کرنے جا رہے ہیں ۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ آپ کے دلائل ميں جو واحد موقف اور نقطہ مستقل نظر آتا ہے وہ امريکہ کی شکست وريخت اور ذلت کے حوالے سے آپ کی خواہش ہے۔ آپ کے دلائل ميں موجود حيران کن تضادات کی بہتات کی صرف يہی توجيہہ سمجھ ميں آتی ہے۔ جب آپ امريکہ کو ايک ولن کے روپ ميں پيش کر کے اس پر تنقيد کے متمنی ہوتے ہيں تو اس کا فطری تقاضا ہوتا ہے کہ امريکہ کو ايک طاقتور، بااثر اور وسائل سے بھرپور قوت کے طور پر پيش کيا جائے۔ اس پيرائے ميں آپ يہ دعوی کرتے ہيں کہ امريکہ پاکستان ميں پراکسی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ليکن پھر آپ کے جذبات اور امريکہ کو ہزيمت سے دوچار شکست خوردہ ديکھنے کی آپ کی خواہش آڑے آتی ہے اور آپ يہ کہتے ہیں کہ امريکہ اس خطے سے بھاگنے کے ليے راستہ تلاش کر رہا ہے يا يہ کہ امريکہ اپنی عوام کے دباؤکے رخ موڑنے اور اپنی شکست کو چھپانے کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔

جہاں تک ہماری مبينہ متوقع شکست کے تناظر میں"دہشت گردوں" کو مذاکرت کی ميز پر لانے کے لیے ہماری بے چينی اور اس ضمن ميں آپ کی رائے ہے تو اس حوالے سے کچھ حقائق کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔

افغانستان میں ہماری موجودگی اور جاری عالمی کاوشيں طالبان، پشتون يا حقانی سميت کسی بھی مخصوص قبيلے خلاف ہرگز مختص نہيں ہيں۔ عالمی اتحاد ان گروہوں سے منسلک ان مجرمانہ عناصر کے خلاف لڑائ کر رہا ہے جو دہشت گردی اور پرتشدد کاروائيوں کے ذريعے روزانہ بے گناہ شہريوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ افغانستان ميں ايک وسيع حکمت عملی کے تحت ہم نے يقينی طور پر افغان حکومت کی حوصلہ افزائ کی ہے کہ مختلف سياسی دھڑوں اور حامی فريقين کو سياسی دھارے ميں لانے کے ليے آمادہ کيا جائے اور ان کی صفوں ميں موجود ان پرتشدد عناصر کو تنہا اور عليحدہ کيا جائے جو اپنے مذموم مقاصد اور مخصوص ايجنڈے کے سبب پرتشدد کاروائيوں کو ترک کرنے کے ليے کسی طور بھی آمادہ نہيں ہيں۔

اس وقت سب سے اہم ضرورت اور مقصد ايسی حکمت عملی ہے جسے افغان قيادت اور عوام ليڈ کريں۔ اس ضمن میں امريکی حکومت نے نيٹو کے تيارہ کردہ پلان کی حمايت کی ہے جس کے تحت افغان حکومت کے تعاون سے صوبہ وار مشروط بنيادوں پر سيکورٹی کی منتقلی کے عمل کو يقينی بنايا جا سکے۔ يہ پس پائ ہرگز نہيں ہے۔اس حکمت عملی کی بنياد افغان عوام کی مدد اور ان کے ساتھ شراکت داری کو فروغ دينا ہے۔

اس ضمن ميں بہت سے پروگرامز سامنے لائے گئے ہيں جن کے تحت افغانستان مرحلہ وار سيکورٹی کی ذمہ دارياں، بہبود و ترقی اور حکومت سنبھالنے کے ايجنڈے کی جانب پيش رفت کر رہا ہے جو افغانستان کے مستقبل کے ليے انتہائ اہم ہے۔

يہاں ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ يہ امريکی حکومت کی جانب سے کوئ نئ پاليسی يا حکمت عملی نہيں ہے۔ ستمبر 2002 ميں امريکی حکومت نے 3 صومالی باشندوں اور "الباراکات" کی 3 شاخوں کو دہشت گردی کی لسٹ سے ہٹا ديا تھا جن پر القائدہ سے منسلک ہونے کا الزام لگايا گيا تھا۔ ان تينوں افراد اور متعلقہ کاروباری اداروں کو امريکی ٹريجری کی لسٹ سے بھی ہٹا ديا گيا تھا اور ان کے اثاثے بھی بحال کر ديے گئے تھے۔

يہ نقطہ بھی قابل توجہ ہے کہ حال ہی ميں افغانستان حکومت اور اقوام متحدہ ميں افغانستان کے خصوصی ايلچی کئ ايڈ نے بھی 15 ممالک کی کونسل سے طالبان کے ان سابقہ عہديداروں پر عائد پابندياں اٹھانے کی اپيل کی ہے جو اقوام متحدہ ميں افغانستان کے سفير کے مطابق تشدد کا راستہ چھوڑ کر حصول امن کی کوششوں ميں شامل ہونے پر رضامند ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top