اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، سرور عالم راز ، یاسر شاہ ، ظہیراحمدظہیر

اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے

میرے گھر کو جو راہ جاتا تھا
اب وہ جنگل کو جا نکلتا ہے

(کیا راہ کو مذکر باندھا جا سکتا ہے؟ میں نے کچھ اپنی طرف سے تحقیق کی تو مجھے غالب کا ایک شعر ملا۔
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
)

باندھ لوں میں امید جس بت سے
یا
باندھ لیتا ہوں جس سے امیدیں
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے

میرے جیسے ہزاروں لوگوں میں
کوئی ایک آپ سا نکلتا ہے

کب اسے میری یاد آتی ہے
دل دکھانے کو آ نکلتا ہے

تیرے لب کا ہر ایک لفظ، مرے
اک مرض کی دوا نکلتا ہے

کس لیے اب کریدتے ہو تم
پیاسی دھرتی سے کیا نکلتا ہے

درد/زخم، تیری لگائی چوٹوں کا
دوسروں سے جدا/سوا نکلتا ہے

میں نے چھلکا دیا ہے ظرف اس کا
دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے

کون اے عندلیبِ باغِ حجاز
تجھ سا نغمہ سرا نکلتا ہے​
 
آخری تدوین:
باوجود اِس کے کہ اُردُو محفل میں اِصلاحِ غزل کے عنوان سے نئے اِصلاح کاروں پر خاصی لے دے ہورہی ہے ۔میں صرف اُردُو زبان و بیان کے حوالے سے محض اپنی آراء پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔جیسا کہ عبدالروؤف بھائی نے خود کہا کہ کیا راہ کو مذکر باندھا جاسکتا ہے ؟ پھر آپ نے اپنی تحقیق کا نتیجہ غالب کا یہ شعر کیوں تیرا راہ گزر یاد آیا کو بنیاد بنالیا۔۔۔۔۔۔ایسے مواقع پر ذخیرۂ الفاظ یا زبان وبیان کے اختیارات کام آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بس اِسی نقطۂ نظر سے محض اپنی آراء پیش کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے

میرے گھر کو جو راہ جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راستہ گھر جو میرے جاتا تھا
اب وہ جنگل کو جا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ جنگل میں آ نکلتا ہے

(۔۔کیا راہ کو مذکر باندھا جا سکتا ہے؟ میں نے کچھ اپنی طرف سے تحقیق کی تو مجھے غالب کا ایک شعر ملا۔
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا۔۔)
باندھ لوں میں امید جس بت سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں بت کے بجائے پتھر کا محل تھادونوں محبوب کا کنایہ ہوسکتے ہیں کیوں کہ پتھر پھر بت پھر خُدا
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باندھیے تو اُمید پتھر سے۔۔۔۔دیکھیے پھر وہ کیا نکلتا ہے

میرے جیسے ہزاروں لوگوں میں
کوئی ایک آپ سا نکلتا ہے

کب اسے میری یاد آتی ہے
دل دکھانے کو آ نکلتا ہے

تیرے لب کا ہر ایک لفظ، مرے
اک مرض کی دوا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دردِ د ل کی دوا نکلتا ہے

کس لیے اب کریدتے ہو تم
پیاسی دھرتی سے کیا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بانجھ دھرتی سے کیا نکلتا ہے

درد، تیری لگائی چوٹوں کا
دوسروں سے جدا نکلتا ہے

میں نے چھلکا دیا ہے ظرف اس کا
دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے

کون اے عندلیبِ باغِ حجاز
تجھ سا نغمہ سرا نکلتا ہے
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
باوجود اِس کے کہ اُردُو محفل میں اِصلاحِ غزل کے عنوان سے نئے اِصلاح کاروں پر خاصی لے دے ہورہی ہے ۔میں صرف اُردُو زبان و بیان کے حوالے سے محض اپنی آراء پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔جیسا کہ عبدالروؤف بھائی نے خود کہا کہ کیا راہ کو مذکر باندھا جاسکتا ہے ؟ پھر آپ نے اپنی تحقیق کا نتیجہ غالب کا یہ شعر کیوں تیرا راہ گزر یاد آیا کو بنیاد بنالیا۔۔۔۔۔۔ایسے مواقع پر ذخیرۂ الفاظ یا زبان وبیان کے اختیارات کام آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بس اِسی نقطۂ نظر سے محض اپنی آراء پیش کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔

اب اِدھر کو جو آ نکلتا ہے
کوئی بھٹکا ہوا نکلتا ہے

میرے گھر کو جو راہ جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راستہ گھر جو میرے جاتا تھا
اب وہ جنگل کو جا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ جنگل میں آ نکلتا ہے

(۔۔کیا راہ کو مذکر باندھا جا سکتا ہے؟ میں نے کچھ اپنی طرف سے تحقیق کی تو مجھے غالب کا ایک شعر ملا۔
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا۔۔)
باندھ لوں میں امید جس بت سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں بت کے بجائے پتھر کا محل تھادونوں محبوب کا کنایہ ہوسکتے ہیں کیوں کہ پتھر پھر بت پھر خُدا
ایک دن وہ خدا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باندھیے تو اُمید پتھر سے۔۔۔۔دیکھیے پھر وہ کیا نکلتا ہے

میرے جیسے ہزاروں لوگوں میں
کوئی ایک آپ سا نکلتا ہے

کب اسے میری یاد آتی ہے
دل دکھانے کو آ نکلتا ہے

تیرے لب کا ہر ایک لفظ، مرے
اک مرض کی دوا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دردِ د ل کی دوا نکلتا ہے

کس لیے اب کریدتے ہو تم
پیاسی دھرتی سے کیا نکلتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بانجھ دھرتی سے کیا نکلتا ہے

درد، تیری لگائی چوٹوں کا
دوسروں سے جدا نکلتا ہے

میں نے چھلکا دیا ہے ظرف اس کا
دیکھیے اب کہ کیا نکلتا ہے

کون اے عندلیبِ باغِ حجاز
تجھ سا نغمہ سرا نکلتا ہے
شکیل بھائی! آپ اگر اقتباس لے کر کچھ لکھیں گے تو آپ کی بات زیادہ آسانی سے سمجھ آئے گی۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی مراسلے کے مخصوص الفاظ کو ہائی لائیٹ کریں گے تو ان الفاظ کا اقتباس لے پائیں گے اور اس کے نیچے اپنی رائے دے سکیں گے۔ ابھی مجھے تو سمجھ نہیں آتی ہے کہ آپ کی بات کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم۔ امید ہے توجہ فرمائیں گے۔ شکریہ۔
 
بہت خوبصورت غزل۔ ۔ ماشا اللہ @محمد عبدالرؤوف
بہت عمدہ اصلاح ۔ ۔ شکریہ @شکیل احمد خان23 بھائی
شکریہ گڑیارانی مگر ابھی اساتذہ کرام قدرم رنجہ اور تشریف فرما نہیں ہوئے ۔اصل سند تو آپ حضرات کے ہی اِرشاد ات ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ارشد رشید

محفلین
میرے گھر کو جو راہ جاتا تھا
اب وہ جنگل کو جا نکلتا ہے
(کیا راہ کو مذکر باندھا جا سکتا ہے؟ میں نے کچھ اپنی طرف سے تحقیق کی تو مجھے غالب کا ایک شعر ملا۔
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
)
حضرت - راہ اور راہگزر دو علٰحدہ الفاط ہیں - راہ مؤنث ہے اور راہ گزر مذکر ہے - غالب نے مذکر اس لیئے باندھا ہے کہ انہوں نے راہ گز را ستعمال کیا ہے صرف راہ نہیں -
آپ کو اسے مؤنث باندھنا ہوگا کیونکہ آپ نے صرف راہ استعمال کیا ہے - میرے گھر کو جو راہ جاتی تھی - لہذا یہ شعر آپ کی ردیف میں نہیں آئیگا -
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عمدہ کہی بھائی صاحب۔۔۔مقطع مسنگ ؟
اصلاح، صلاح سے قطع نظر مجموعی طور پر اچھی غزل ہے۔
بہت خوبصورت غزل۔ ۔ ماشا اللہ محمد عبدالرؤوف
بہت عمدہ اصلاح ۔ ۔ شکریہ شکیل احمد خان23 بھائی
واہ! ماشاءاللہ ، بہت خوب ،جواب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوصلہ افزائی کے لیے آپ سب کا ممنون ہوں، سلامت رہیں۔
 
Top