'ابھی تو میں جوان ہوں’: ملکہ پکھراج کی یاد میں

عین لام میم

محفلین
از رضوان احمد
پٹنہ
وائس آف امریکہ

حالانکہ ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ نظم حفیظ جالندھری کی ہے لیکن ملکہ پکھراج کے ساتھ یہ نظم اس طرح منسلک ہوئی کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ یوں تو ملکہ پکھراج نے ہزاروں غزلیں، نغمیں، گیت اور گانے گائے لیکن وہ جہاں بھی جاتی تھیں تو ابھی تو میں جوان ہوں کہ فرمائش ضرور ہو تی تھی۔ یہاں تک کہ ضعیفی میں بھی وہ یہ نغمہ گاتی رہیں اور جب گاتی تھیں تو واقعی ان کے چہرے پر جوانی کا نکھار آجاتا تھا۔

ملکہ پکھراج سے میری اتفاقیہ ملاقات 1981ءمیں چنڈی گڑھ کی عالمی اردو کانفرنس میں ہوئی تھی۔ کانفرنس کا افتتاحی نغمہ گانے کے لیے اس کے منتظم پروفیسر ہر بنس سنگھ دلگیر ملکہ پکھراج کو لاہور سے بلا کر لائے تھے۔ ان کے ہمراہ ان کی بیٹی طاہرہ سید بھی تھیں۔ ماں بیٹی نے افتتاحی اجلاس میں ایک غزل گائی تھی:

وہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے

اور اس غزل نے ایک سماں سے باندھ دیا تھا اس کے بعد انہوں نے کئی اور نغمیں سنائے مگر پھر ابھی تو میں جوان ہوں کہ فرمائش ہو نے لگی اور انہوں نے لوگوں کے بے حد اصرار پر نظم سنائی۔ ہر جانب خاموشی تھی۔ درا صل اس نظم کے الفاظ بھی بہت خوبصورت ہیں۔ بے حد مرصع اور سجی ہوئی نظم ہے۔ سادگی اور پر کاری تو ہے ہی ہر لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے اور ملکہ پکھراج کی آواز میں اسے سن کر جوانی کروٹیں لینے لگتی ہیں۔ عمر درا زبھی عمر رفتہ کو آواز دینے لگتے ہیں:

فضا بھی خوشگوار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنم ہزار ہے
بہارپُربہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا
ادھر تو لوٹ ادھر تو آ
ارے یہ دیکھتا ہے کیا
اٹھا سبو،سبو اٹھا
سبو اٹھا پیالا بھر
پیالا بھر کے دے ادھر
چمن کی سمت کر نظر
سماں تو دیکھ بے خبر
ابھی تو میں جوان ہوں

در اصل اس نظم میں الفاظ کی تکرار اور اس کے ذریعہ پیدا ہو نے والی لیے ایک عجیب سرور پیدا کرتی ہے اور جب اس نظم کو ملکہ پکھراج کی خوبصورت اور دلکش آواز مل جاتی ہے تو ایک نیا پیکر اختیار کر لیتی ہے۔ جس سے سامع مسحور ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس طرح عالمی اردو کانفرنس کے بھی تمام سامعین مسحور ہو کر رہ گئے۔ اس جلسے میں تو ملکہ پکھراج سے میری سرسری ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی اورانہیں اسی دن فلائٹ پکڑ کر دہلی جانا تھا۔ اتفاق سے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے مجھے اپنے ساتھ لے لیا جو کانفرنس کے افتتاحی جلسے میں خطبہ دینے کے لیے آئے تھے اور انہیں بھی اسی فلائٹ سے دہلی جانا تھا۔

چنڈی گڑھ کے ایئر پورٹ پر ہم لوگ وی آئی پی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے تو ہر بنس سنگھ دلگیر نے میرا تعارف ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید سے کروایا۔ اتفاق سے فلائٹ میں تاخیر ہو گئی اور ہم لوگ دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ملکہ پکھراج ہوں اور حفیظ جالندھری کا ذکر آئے، ایسا ہو نہیں سکتا ہے۔ چونکہ وہ حفیظ صاحب کے خانگی معملات میں بھی بہت دخیل تھی اس لیے انہوں نے زندگی کے بہت سے واقعات سنائے۔ ان کے کئی لطائف بھی سنائے۔ جنہیں سن کر ہم لوگ لوٹ پوٹ ہو گئے۔

انہوں نے ایک لطیفہ سنایا کہ جن دنوں حفیظ صاحب ”شاہنامہ“ لکھ رہے تھے۔بہت شدید بیمار ہو گئے کچھ ذہنی خلجان تھا، ڈاکٹر کے پاس گئے اس نے معائنہ کرنے کے بعد مشورہ دیا کہ آپ ذہنی کام نہیں کر سکتے تو بگڑ کر بولے کہ ذہنی کام کیسے نہیں کروں گا۔ میں تو آ ج کل ”شاہنامہ“ لکھ رہا ہوں۔ تو ڈاکٹر نے ہنس کر کہا وہ آپ لکھتے رہئیے۔

اس کے بعد انہوں نے ایک اور لطیفہ سنایا۔ ”دلی کے ایک مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سنا رہے تھے کہ فراق گورکھپوری نے دفعتاً بلند آواز سے کہنا شروع کیا ”حفیظ پیارے، کیا گلا پایا ہے، یار میرا سارا کلام لے لو، مگر اپنی آواز مجھے دے دو“۔ حفیظ فوراً شعر ادھورا چھوڑ کر بولے ”فراق صاحب میں آپ کا نیاز مند ہوں میری آواز تو کیا آپ مجھے بھی لے لیجئے لیکن خدا کے لیے مجھے اپنا کلام نہ دیجئے۔“

اتفاق سے پرواز لیٹ ہوتے ہوتے کینسل ہو گئی اور سب لوگ پھر گیسٹ ہاؤس واپس لوٹ آئے اور اس روز ملکہ پکھراج کا قیام چنڈی گڑھ میں ہی رہا۔ ان سے کافی دیر تک باتیں کرنے کا موقع ملا۔

انہوں نے کسی درس گاہ میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی، لیکن دنیا کا مشاہدہ کرتے کرتے وہ اپنے آپ میں ایک ادارہ بن گئی تھی ہر موضوع پر بہت کھل کر باتیں کرتی تھیں۔ افسوس کی ان سے یہ پہلی ملاقات آخری ملاقات بھی ثابت ہوئی۔ ملکہ پکھراج نے ایک طویل دور دیکھا تھا۔ ان کی پیدائش جمو ں کے ہمیر پور کے گاؤں سدھار میں 17 اکتوبر 1912ءکوہوئی تھی۔تین سال کی عمر میں ہی ان کی ماں انہیں لے کر جموں آگئی تھیں کیوں کہ ان کے والد نے جموں میں دوسری شادی کر لی تھی۔ جہاں وہ اپنی دوسری بیوی اور اس کے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ لیکن والد سے انہیں کسی قسم کی مدد نہیں ملی اور کم عمری میں ہی ملکہ پکھراج کو بڑی جدو جہد کرنی پڑی۔ آٹھ سال کی عمر میں وہ دہلی آئیں اور ممن خان نے انہیں رقص اور سرود کی تعلیم دی اور نو سال کی عمر میں انہوں نے جموں میں اپنا پہلا عوامی پرفارمنس دی تھی، جس میں مہاراجہ ہری سنگھ نے انہیں قیمتی ملبوسات و زیورات سے نوازا اور وہ راج دربار سے باقاعدہ وابستہ ہو گئیں۔

چونکہ ان کی مالی حالت بہت خستہ تھی اس لیے بہت کم عمری میں ہی اپنے گھر کو چلانے کے لیے انہیں کافی محنت کرنی پڑی۔حالانکہ گاؤں کے مقامی بابا روٹی رام نے ان کے ملکہ معظمہ ہونے کی پیشن گوئی کی تھی اور بعد میں واقعی وہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔

وہ کافی عرصے تک مہاراجہ کے دربار سے وابستہ رہیں اور انہوں نے اپنی آواز سے سب کو گرویدہ بنا لیا۔ لیکن بعد میں جموں کے حالات خراب ہو گئے وہاں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے اور ملکہ پکھراج کو اپنے خاندان کے ساتھ لاہورہجرت کرنی پڑی۔ انہوں نے اپنی پسند سے شبیر حسین سے شادی کی تھی جو ایک بیورو کیریٹ او رجانے پہچانے قلم کار تھے۔ جن سے دو لڑکیاں اور چارلڑکے ہوئے۔ ان کی بڑی صاحبزادی طاہرہ سید بھی معروف گلو کارہ ہیں۔

ملکہ پکھراج نے بڑی جدو جہد بھری زندگی گزاری ان کے گیتوں میں ’لو پھر بسنت آئی‘، ’پیا باج پیالا پیا جائے نا‘علامہ اقبال کی غزل ’ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں‘، غالب اور فیض کی متعدد غزلیں اس کے علاوہ علامہ اقبال کی مسجد قرطبہ کو ملکہ پرہواج نے جس لحن سے پیش کیا ہے اس نے نظم میں نئے زاویے پیدا کر دیے ہیں:

سلسلہٴ روز و شب نقش گر حادثات
سلسلہٴ روز وشب اصل حیات وممات
سلسلہ روز و شب تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات

اور اس نظم میں ملکہ پکھراج نے جو اتار چڑھاؤ او ر زیرو بم پیدا کیا ہے وہ سامع کے دل میں دھیرے دھیرے اترتا چلا جاتا ہے اور پھر بعدمیں یہی احساس ہو تا ہے:
معجزہٴ فن کی ہے خون جگر سے نمود

ملکہ پکھراج نے صر ف اردو ہی نہیں پنجابی، ڈوگری، سندھی اور سرائکیل میں بھی نغمے گائے اور خوب خوب گائے۔ انہوں نے اپنی خود نوشت ”بے زبانی زباں نہ ہو جائے“ کے عنوان سے لکھی جو اردو کے علاوہ متعدد زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس عظیم گلوکارہ کا چار فروری 2004ءکو 93سال کی عمر میں لاہور میں انتقال ہو گیا:

اول و آخر فنا، ظاہر و باطن فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
 
Top