ابھی اتار کے کاندھوں سے رکھی ہے تھکن

اسد قریشی

محفلین
اعجاز عبید صاحب اور دیگر احباب، ایک اور تجرباتی غزل لے کر حاضر ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی اتار کے کاندھوں سے رکھی ہے تھکن
لپٹ کے پیروں سے میرے رو پڑی ہے تھکن

برس رہا تھا لہو آنکھوں سے رات مری
مگر ابھی بھی نجانے جل رہی ہے تھکن

نشان وقت کے ایسے نقش رخ پہ مرے
غم حیات کے جیسے جم گئی ہے تھکن

ہمارا ساتھ نبھانے، گام گام چلی
یہ آگے آگے ہمارے دوڑتی ہے تھکن

تمہاری یاد بنی اک ابر تر تو اسد
سفر میں آنکھ رہی ہے اور نمی ہے تھکن
 

اسد قریشی

محفلین
کچھ مشکل آسان ہوئی، ارکان، مفاعلن، فعلاتن، مفاعلن، فاعلن:​
ابھی اتار کے کاندھوں سے دھر رکھی ہے تھکن​
لپٹ کے پیر سے میرے تو رو پڑی ہے تھکن​
برس رہا تھا لہو رات میریآنکھوں سے​
سحر کے ہونے تلک آنکھ میں جلی ہے تھکن​
نشان وقت کے اس طرح نقش ہوتے گئے​
غم حیات کے مانندجم گئی ہے تھکن​
نبھا رہی ہے مرا ساتھ لمحہ لمحہ وہ یوں​
کہ آگے آگے مرے مجھ سے دوڑتی ہے تھکن​
تمہاری یاد بنی ایک ابر تر یوں اسد​
سفر میں آنکھ رہی میری اور نمی ہے تھکن​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
کچھ مشکل آسان ہوئی، ارکان، مفاعلن، فعلاتن، مفاعلن، فاعلن:​
ابھی اتار کے کاندھوں سے دھر رکھی ہے تھکن​
لپٹ کے پیر سے میرے تو رو پڑی ہے تھکن​
÷÷ میری نظر میں یہ مطلع کمزور نہیں، بے حد کمزور ہے۔۔آپ سےتو اس سے بہت زیادہ کی توقع کرنی چاہئے۔۔
اول تو دھر رکھی ہے میری سمجھ میں نہیں آیا، اگر یہ محاورہ درست ہے ۔۔۔ تب بھی مصرع درست نہیں لگتا۔۔۔شاید ’’ابھی اتار کے کاندھوں سے رکھ تو دی ہے تھکن‘‘ کرنے سے یہ درست ہو، لیکن پھر مصرع ثانی سے اس کا تال میل ایک سوالیہ نشان بن جائے گا۔۔۔ دوسرا مصرع اس سے بہتر لگتا ہے۔۔۔ پہلے پر حیران ہوں۔۔
برس رہا تھا لہو رات میری آنکھوں سے​
سحر کے ہونے تلک آنکھ میں جلی ہے تھکن​
÷÷درست
نشان وقت کے اس طرح نقش ہوتے گئے​
غم حیات کے مانندجم گئی ہے تھکن​
÷÷غم حیات تو ہر لحظہ متغیر ہے، لیکن اس کو آپ نظریاتی اختلاف کہہ سکتے ہیں۔۔ پہلے مصرعے کا دوسرے سے ربط پھر بھی قدرے کمزور لگتا ہے۔۔۔’’غم حیات کے مانند‘‘ میں’’کی مانند‘‘ لکھنا چاہئے تھا، لیکن ہوسکتاہے یہ علاقائی اختلاف ہو اور کچھ نہ ہو۔۔۔
نبھا رہی ہے مرا ساتھ لمحہ لمحہ وہ یوں​
کہ آگے آگے مرے مجھ سے دوڑتی ہے تھکن​
۔۔۔درست۔۔۔حالانکہ کام پہلے کرتے ہیں، تھکن بعد میں طاری ہوتی ہے۔ اگر پہلے ہوجائے تو کام کرنا محال ہو۔۔
تمہاری یاد بنی ایک ابر تر یوں اسد​
سفر میں آنکھ رہی میری اور نمی ہے تھکن​
÷÷درست۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
دھر رکھی تو مجھے بھی پسند نہیں آیا۔
اس کے علاوہ ’کی مانند‘ میں بھی ترجیح دیتا ہوں۔
باقی تو غزل اچھی ہی ہے۔ پسند آئی
 

اسد قریشی

محفلین
محترم شاہنواز صاحب، بہت شکریہ، آپ کا تبصرہ بہت پسند آیا، جہاں تک "دھر رکھی" کا تعلق ہے تو میں خود بھی مطمعن نہیں تھا لیکن سوچا کہ شاید آپ احباب کی جانب سے کوئی بہتر تجویز مل سکے۔۔۔۔۔۔۔ویسے شاہنواز صاحب ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ہم اُمید بہت زیادہ لگا لیتے ہیں لیکن نتیجہ وہ نہیں نکلتا۔۔۔۔۔۔۔خیر میرے لیے آپ کے ذہن میں کیا خاکہ ہے میں نہیں جانتا لیکن حقیقت یہی ہے کہ مجھے کچھ نہیں آتا میں تو ابھی سیکھ ہی رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی اتار کے کاندھوں سے دھر رکھی ہے تھکن

لپٹ کے پیر سے میرے تو رو پڑی ہے تھکن

÷÷ میری نظر میں یہ مطلع کمزور نہیں، بے حد کمزور ہے۔۔آپ سےتو اس سے بہت زیادہ کی توقع کرنی چاہئے۔۔

اول تو دھر رکھی ہے میری سمجھ میں نہیں آیا، اگر یہ محاورہ درست ہے ۔۔۔ تب بھی مصرع درست نہیں لگتا۔۔۔ شاید ’’ابھی اتار کے کاندھوں سے رکھ تو دی ہے تھکن‘‘ کرنے سے یہ درست ہو، لیکن پھر مصرع ثانی سے اس کا تال میل ایک سوالیہ نشان بن جائے گا۔۔۔ دوسرا مصرع اس سے بہتر لگتا ہے۔۔۔ پہلے پر حیران ہوں۔۔



اب اس ترکیب کے استعمال کی وجہ بھی بیان کرتا چلوں شاید کچھ مدد مل سکے:



اردو لغت کے مطابق:


دَھْرْ [دَھْرْ] (ہندی)

حرفِ اختصاص


1- یہ لفظ اردو میں انحصار اور انفراغ کے معنی دیتا ہے جیسے، دھر گھسیٹنا، دھر لپکنا، یعنی سارے کاموں کو دھر (چھوڑکر) لپک جانا یا گھسیٹ لینا۔



برس رہا تھا لہو رات میری آنکھوں سے

سحر کے ہونے تلک آنکھ میں جلی ہے تھکن

÷÷درست شکریہ

نشان وقت کے اس طرح نقش ہوتے گئے

غم حیات کے مانندجم گئی ہے تھکن

÷÷غم حیات تو ہر لحظہ متغیر ہے، لیکن اس کو آپ نظریاتی اختلاف کہہ سکتے ہیں۔۔ پہلے مصرعے کا دوسرے سے ربط پھر بھی قدرے کمزور لگتا ہے۔۔۔ ’’غم حیات کے مانند‘‘ میں’’کی مانند‘‘ لکھنا چاہئے تھا، لیکن ہوسکتاہے یہ علاقائی اختلاف ہو اور کچھ نہ ہو۔۔۔




یہاں دراصل کہنے کی کوشش یہ کہ ہے کہ جیسے مسلسل غم میرے چہرے پر نقش ہوگیا ہے ایسے ہی تھکن بھی میرے خال و خد کا حصہ ہی بن گئی ہے۔ مانند میں "کی" تبدیل کر نے میں مجھے کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ یہ "کی" اور "کے" کا استعمال مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا۔ علاقائی اختلاف نہیں ہے ہمارے اجداد کا تعلق، لکھنوء سے ہے لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ یہاں علاقائی اختلاف ممکن نہیں۔۔۔
نبھا رہی ہے مرا ساتھ لمحہ لمحہ وہ یوں

کہ آگے آگے مرے مجھ سے دوڑتی ہے تھکن

۔۔۔ درست۔۔۔ حالانکہ کام پہلے کرتے ہیں، تھکن بعد میں طاری ہوتی ہے۔ اگر پہلے ہوجائے تو کام کرنا محال ہو۔۔ شکریہ

تمہاری یاد بنی ایک ابر تر یوں اسد

سفر میں آنکھ رہی میری اور نمی ہے تھکن

÷÷درست۔۔۔شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
ایک مصرع تو فوری ذہن میں یوں آیا ہے
ابھی جو کاندھوں سے اپنے اتار دی ہے تھکن
یا اسی مصرع کو یوں کر دو
ابھی اتار کے کاندھوں سے جب رکھی ہے تھکن
 
Top