ابو غریب جیل میں خواتین قیدیوںسے زیادتی کی تصدیق ہو گئی

فخرنوید

محفلین
story6.gif
 

مغزل

محفلین
بلی تھیلے سے باہر آجائے تو کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ وگرنہ ۔

’’ تم کو تو قتل بھی جائز ہو بنامِ غیرت
میں اگر شعر بھی کہہ دوں تو بغاوت ٹھہرے ‘‘

صائمہ علی
 

خورشیدآزاد

محفلین
بے حد افسوس ناک۔ میرے خیال میں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہےکہ امریکی فوج میں جو نچلے عہدے کے عام سپاہی ہیں وہ اخلاقیات کے الف ب سے نابلد، مدرپدر آزاد، اور خود امریکی معاشرے میں انتہائی گھٹیا تیسرے درجے کی کلاس میں سے ہیں۔

بلاشبہ اس کی ذمہ داری پینٹگون پر عائد ہوتی ہے، اور اس سے امریکی امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
ایک اور بات کہ میرے خیال میں بش اور رمزفیلڈ پر جنگی جرائم کا مقدمہ قائم کرنا اب خود امریکیوں کے مفاد میں ہے۔
 
آستین کے لہو نے تو پکارنا ہے، منفی رویہ خواہ کسی بھی انداز میں ہو، انفرادی یا اجتماعی اس کو ایک نہ ایک دن منظر پر آنا ہی ہوتا ہے، یاد رہے کہ انسانی فطرت میں سچائی ، رحم دلی ایک قدرتی جذبہ ہے ضروری نہیں کہ یہ کسی ایک مذہب کے ماننے کو وطیرہ ہو۔

سو اب وہ وقت دور نہیں جب ایک اندرونی انقلاب خود امریکن عوام کے اندر پیدا ہو رہا ہے
 

زینب

محفلین
انہیں پڑھنے والا امریکی فوجیوں کے خلاف رائے بنائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلے بڑی اچھی رائے ہے جو بعد میں بدل جاتی
 

زینب

محفلین
ایسے جرائم میں ملوث فوجیوں‌کے خلاف"مناسب"کاروائی ھی کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔ہائے او انصاف کے ٹھیکیدارو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

باسم

محفلین
فواد صاحب کو کہنے دیا ہوتا
وہ یہ تو بتاتے ہیں مناسب کاروائی ہوئی ہے مگر یہ نہیں بتاتے کیا کاروائی ہوئی ہے اور کتنوں کے خلاف ہوئی ہے
 

فرخ

محفلین
اچھا، تو اس تصدیق کا کیا فائدہ ہوگا؟

دیکھتے ہیں امریکی جو انسانی حقوق کی ترجمانی میں سب سےآگے نظر آتے ہیں، اپنے ان لوگوں‌کو کیا سزا دیتے ہیں ان جرائم کی پاداش میں۔۔۔۔

ورنہ شائید یہ تصدیق بھی ایک طفل تسلی ہی ہے، جیسے عراق پر حملے اور تباہی کے بعد تصدیق کی گئی کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کی خبر جھوٹ تھی۔
 

فرخ

محفلین
فواد صاحب کو کہنے دیا ہوتا
وہ یہ تو بتاتے ہیں مناسب کاروائی ہوئی ہے مگر یہ نہیں بتاتے کیا کاروائی ہوئی ہے اور کتنوں کے خلاف ہوئی ہے

بالکل یہاں فواد اور دیگر "ریاستہائے متحدہ امریکہ" کی حمائیت میں‌بولنے والوں‌کو بات کرنی چاہئیے تھی آکر

کدھر ہیں وہ :mad:
 

گرائیں

محفلین
واقعی فواد، ذرا آکر ہمیں ریاست ہائے متحدہ کی پالیسی سے دوبارہ " آگاہ" تو کر دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
تو کر دیں گے، کہہ دیں گے کہ فلاں چارٹر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ معلومات حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
 

زیک

مسافر
ابو غریب میں تشدد کے نتیجے میں پالیسی بنانے والوں کو تو فی الحال کوئ سزائیں نہیں ملیں نہ مقدمہ ہوا ان پر۔ امریکہ میں یہ کچھ متنازع ہے اور 40 سے 50 فیصد لوگ ایسے مقدمہ کے حق میں ہیں۔

البتہ کچھ فوجیوں پر مقدمات چلے تھے اور انہیں سزائیں بھی ہوئ تھیں:

The United States Department of Defense removed seventeen soldiers and officers from duty, and seven soldiers were charged with dereliction of duty, maltreatment, aggravated assault and battery. Between May 2004 and September 2005, seven soldiers were convicted in courts martial, sentenced to federal prison, and dishonorably discharged from service. Two soldiers, Specialist Charles Graner, and his former fiancée, Specialist Lynndie England, were sentenced to ten years and three years in prison, respectively, in trials ending on January 14, 2005 and September 26, 2005. The commanding officer at the prison, Brigadier General Janis Karpinski, was demoted to the rank of Colonel on May 5, 2005.​

مزید تفصیل اوپر لنک پر۔

فوجیوں کو جنگی جرائم کی سزا دینا کافی مشکل کام ہے۔ اس بارے میں آپ دنیا کے کسی ملک کا ریکارڈ چیک کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہم نے اس خبر کے حوالے سے مختلف رپورٹس ديکھی ہیں۔ اے – سی – ايل – يو کی جانب سے جن تصويروں کے حوالے سے قانونی چارہ گوئ کی گئ ہے ميں ان کی نوعيت يا کيٹگری بيان کرنے کی کوشش نہيں کروں گا۔

اس آرٹيکل ميں جو منظر بيان کيا گيا ہے وہ ان ميں سے کسی بھی تصوير ميں موجود نہيں ہے۔

ميں آپ کی توجہ اس جانب دلوانا چاہتا ہوں کہ اس کالم میں جو ريفرنس اور جن افراد کے بيان پيش کيے گئے ہيں وہ صرف تصوير کا ايک رخ ہيں۔

مثال کے طور پر اس آرٹيکل ميں ايک صحافی سکارٹ ہارٹن اور ڈيلی بيسٹ نامی ويب سائٹ کا حوالہ ديا گيا ہے ليکن اسی صحافی کی جانب سے ترديد اور اپ ڈيٹ کو نظرانداز کر ديا گيا۔

http://www.thedailybeast.com/blogs-and-stories/2009-05-29/torture-photos-depict-sex-rape/

اس ميں واضح لکھا ہے کہ

"اپ ڈيٹ اور ترديد – جمعہ کے روز ميری کہانی پوسٹ ہونے کے بعد سالون نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ جن تصويروں پر ميری کہانی کا فوکس تھا، وہ تصاوير سالون سال 2006 ميں چھاپ چکا ہے۔ جو 44 تصاوير اے – سی – ايل – يو کی قانون چارہ جوئ کی بنياد ہيں اور جن پر صدر اوبامہ نے نظر ثانی کی ہے، وہ جنسی نوعيت کی نہيں ہيں۔"

اسی طرح اس آرٹيکل ميں ريٹائرڈ آرمی ميجر جرنل انتونيوتاغوبا کے ايک بيان اور سالون نامی رسالے کی ايک رپورٹ کا حوالہ ديا گيا ہے ليکن انھی فوجی افسر کا اسی رسالے کی ويب سائٹ پر ترديدی بيان يکسر نظرانداز کر ديا گيا۔

http://www.salon.com/news/feature/2009/05/30/taguba/index.html

" ريٹائرڈ آرمی ميجر جرنل انتونيوتاغوبا نے ان خبروں کی ترديد کی ہے انھوں نے وہ تصاوير ديکھی ہيں جنھيں صدر اوبامہ ريليز کرنے کی مخالفت کر رہے ہيں۔"

يہ واضح ہے کہ يہ آرٹیکل حقائق پر مبنی نہيں ہے۔

آخر ميں يہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی قيدی کے ساتھ ناروا سلوک قابل قبول نہيں ہے۔ يہ رويہ امريکی اقدار کی عکاسی نہيں کرتا اور ہمارے ليے خطرات ميں بھی اضافہ کرتا ہے جسے کسی صورت بھی برداشت نہيں کيا جا سکتا۔ جن تصاوير کا ذکر کيا جا رہا ہے وہ قيديوں کے ساتھ ممکنہ بدسلوکی کے واقعے کے ضمن ميں ايک قانونی اور تفتيشی عمل کا حصہ تھيں۔

بدسلوکی کے ضمن ميں تمام الزامات کی مکمل تحقيق کی جاتی ہے اور ملوث افراد کو اپنے کيے کی سزا ملتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top