ابوظہبی سے پاکستان "رفتہ رفتہ"

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
السلام علیکم

ایک سلسلہ شروع کرنے لگا ہوں جس میں میں پاکستان میں گزرے ہوئے چار ماہ اور دس دن کےحالات و واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا کہ میرے ساتھ ہوا کیا تھا۔

پاکستان جانے کے لیے میں نے دو ماہ پہلے ہی ٹیکٹ لے لیا تھا کس لیے لیا تھا وہ آپ "سرپرائز" میں پڑھ چکے ہیں اور سرپرائز کس کو ملا یہ بھی آپ جانتے ہیں۔ ٹیکٹ میں نے ائیر بلو کی لی تھی جس کی داستان میں ائیر بلو اور میں میں لکھ چکا ہوں لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی آگے آگے میرے ساتھ کیا ہوا اس کی داستان ابھی باقی ہے ہوا کچھ یوں کے ائیر بلو کی فلائیٹ کینسل ہونے کے بعد جلدی میں شاہین کی فلائیٹ کی ٹیکٹ بھی بڑی مشکل سے ملی میں نے 3 ستمبر کو گھر پہنچنا تھا کیونکہ چار ستمبر کو میری پانچ ستمبر کو میری پہن کا نکاح اور چھ ستمبر کو میرا نکاح ہونا تھا ۔ اللہ اللہ کر کے جہاز نے اوڑان لی ہم نے سحری جہاز میں ہی کی۔ تقریبا 6 یا 6 سے پہلے ہم نے اسلام آباد پہنچ جانا تھا 6 بجے کو ابھی 20 منٹ باقی تھے کہ اعلان ہوں موسم کی خرابی کی وجہ سے ہم اسلام آباد بےنظیر بھٹو شہید ائیر پورٹ پر نہیں اتر سکتے اس لیے لاہور ائیر پورٹ پر کچھ دیر رکنا پڑے گا موسم صاف ہونے کے بعد اسلام آباد کے لیے پھر سے روانہ ہو جائے گے۔

بس پھر کیا تھا دل ڈرنے لگ گیا لو جی کل سے ہی چھوٹے چھوٹے مسئلے شروع ہوگے ہیں اللہ خیر ہی کریں۔ لاہور ہم تقریباََ دو گھنٹے انتظار کرتے رہے کوئی بھی مسافر جہاز سے باہر نہیں نکلا اور وہ دو گھنٹے اتنی مشکل سے گزرے کہ میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ بھائی اور دوست کا بار بار فون آ رہا تھا کب آ گے ہم انتظار کر رہے ہیں۔ عبدالاحد اور امام عالم بھی ساتھ آئے تھے ان دونوں نے فرمائش کر کے رموٹ والی گاڑیاں منگوائی تھیں ان کو اس کی بھی بےچینی تھی اس لیے وہ بھی بار بر فون کر رہے تھے خیر اللہ اللہ کر کے وقت گزرا اور میں اسلام آباد ائیر پورٹ پر پہنچ گیا۔

سامان کو ٹرالی میں رکھا اور معمولات سے فارغ ہو کر باہر کی طرف آنے لگا تو سب سے پہلے میری نظر بچوں پر ہی پڑھی جو دور سے ہی ہاتھ ہلا رہے تھے باہر آتے ساتھ ہی پہلے میرے کزن یاسر نے مجھے گلے لگایا اس کے ساتھ ہی بھائی عامر ، عمر ثاقب اور میرے پیارے دوست اسد نے گلے لگایا سب سے آخر میں امام اور عبدالاحد سے ملا۔ عبدالاحد نے ملتے ہی سب سے پہلا سوال یہ کیا میری گاڑی کہاں ہے۔

اسد اپنی گاڑی لایا ہوا تھا چھوٹا بھائی عمر اور باقی کزن ایک گاڑی میں اور میں بڑے بھائی اور چھوٹا بھائی ثاقب اسد کی گاڑی میں عبدالاحد میری گود میں اور امام عالم میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا سارے راستے وہ میرے ساتھ باتیں کرتے رہے اور میں مزے سے سنتا رہا ہر چیز نئی لگ رہی تھی۔ ٹریفک بہت زیادہ تھی اور کوئی ترتیب نہیں تھی ہارن کا شور اور لوگوں کی آواز ایسا لگ رہا تھا کہ میں پھر سے زندہ ہوگیا ہوں " کیونکہ یو اے ای میں تو یہ سب کچھ نہیں تھا نا :d

گھر پہنچا تو وہی منظر آنکھوں کے سامنے آگے جب میں ابوظہبی کے لیے نکلا تھا اسی طرح سارے دروازے کے باہر کھڑے تھے صرف دادی جان نہیں تھیں جو اللہ کو پیاری ہوگی تھیں امی جی تو گلے لگا کر رونے لگ گئی اور ایک دم ہر طرف خاموشی ہوگی کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہے اور اس کے بعد پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا اس وقت سب کی نظر کا تارہ میں ہی بنا ہوا تھا ہر کوئی مجھے دیکھ رہا تھا مجھ سے سوال کر رہے ہیں سارے رشتہ دار ملنے کے لیے آ رہے تھے۔ میں سب سے ملتا اور خوش ہوتا یقینا ہر کسی کے ساتھ پہلی دفعہ ایسا ہی ہوا ہو گا ۔

دو دن بعد بہن کا نکاح تھا اور تین دن بعد میرا اب ہم نکاح کی تیاریوں میں لگ گے نکاح کے لیے میں نے سفید قمیص شلوار اور کالی واسکوٹ بنوائی میں نے سوچا تھا کہ کم از کم نکلاح میں ضرور پاکستان لباس پہنوں گا اور ایسا ہی کیا لیکن نکاح سے دو دن پہلے یعنی بہن کے نکاح کے دن میرے ساتھ کیا ہوا۔

(جاری ہے)
 

ابو کاشان

محفلین
السلام و علیکم خرم!
کسی بھی سفر سے پہلے چار رکعات صلوۃ الحاجات پڑھ لیا کرو، کبھی ایسی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دوسری قسط



دودن پہلے یعنی بہن کے نکاح کے دن میرے ساتھ کیا ہوا۔

ان دنوں آشوبِ چشم کی وباء پھیلی ہوئی تھی اور جاتے ساتھ ہی میں اس کا شکار ہوگیا۔ آنکھیں ایسی سرخ کہ کہیں راتوں سے سویا نا ہو سارے نسحے استعمال کر لیے لیکن بڑوں کا کہنا تھا جلد سے جلد بھی ٹھیک ہوا تو تین دن لگے گے بہن کا نکاح ہو گیا تو اس کے بعد میرے نکاح کی تیاری شروع ہوگی۔ جس دن میرا نکاح تھا اسی دن شام کو میرے دوست کا بھی نکاح تھا ہم دونوں نے ساتھ ساتھ شادی کرنے کا پُروگرام بنایا تھا میری وجہ سے اس کو دو سال انتظار کرنا پڑا ورنہ دو سال پہلے ہی اس کی شادی ہو جاتی۔

ہم نے رات کو پروگرام بنایا کہ صبح کس وقت جانا ہے اور کب تک واپس آنا ہے بات چیت سے یہ فائنل ہوا کہ صبح سحری کے فورا بعد چلے جائیں گے اور تین بجے سے پہلے پہلے واپس آ جائے گے جلدی جانے اور جلدی آنے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا کہ شام کو اسد (میرا دوست) کے نکاح میں بھی شامل ہوجائیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا میں نے اسد کو فون کیا اور بتایا کہ ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے لیکن اگر ہمیں آنے میں دیر ہوگی تو یار ناراض نا ہونا ۔ اس نے سمجھا میں آنا نہیں چاہتا اس لیے اس وجہ سے اس نے میرے ساتھ فون پر ہی لڑائی شروع کر دی پھر اس کو سمجھایا یار کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن میں پوری کوشش کروں گا لیکن۔

دوسرے دن سحری کے بعد فجر کی نماز پڑھی اور والد صاحب نے حکم دیا تیاری شروع کر دیں۔ نکاح کے لیے جن چند بندوں کا انتخاب ہوا ان میں، ابو جی ، امی جی، بھائی ، بھابھی، چھوٹے چچا ، بڑے چچا، انکل رحمان اور بچے شامل تھے ہم سب تیار ہوگے ہم نے چچا کی گاڑی میں جانا تھا ہم یعنی میں بھائی، بھابھی ، امی جی اور بچوں نے چھوٹے چچا کے ساتھ جانا تھا اور باقی سب نے ابوجی کے ساتھ جانا تھا اس کے لیے ابوجی نے ایک دوست کو کہا تھا وہ صبح ہی گاڑی لے کر آ گے تھے سب تیار ہو گے لیکن ہم وقت پر پھر بھی نا جا سکے کیوں کے چھوٹے چچا فجر کی نماز کے بعد سو گے اور چچی یہ سمجھی وہ ہمارے گھر آ گے ہیں پہلی دیر ہی گھر سے ہوئی فجر کے بعد نکلنے والے صبح 9 بجے گھر سے نکلے۔

آدھا سفر تو سکون کے ساتھ گزر گیا۔ ہم آرام آرام سے جا رہے تھے لیکن ابو جی کی گاڑی کی رفتار کچھ تیز ہی تھی جب ہم گجرخان کےپاس پہنچے تو ہمیں ابو جی نے فون کر کے بتایا کہ آرام سے گاڑی چلا کر آو ہمارا چالان ہو چکا ہے تیز رفتاری کی وجہ سے۔ فون بن ہوا تو گچر خان سٹاپ کے پاس گاڑی بھی بند ہوگی۔ اچانک گاڑی بند ہوئی تو سب کو فکر ہو گی کہ یہ کیا ہوا خیر چچا گاڑی سے نکلے گاڑی کو چیک کیا لیکن گاڑی میں کوئی مسئلہ نظر نا آیا چچا نے گاڑی کو اسٹاٹ کرنے کی کوشش کی جو کے کامیاب ہوگی تھوڑی ہی دور گئی ہوگی تو گاڑی ایک بار پھر بند ہوگی ایک بار پھر چچا باہر نکلے ان کے ساتھ ساتھ بھائی بھی باہر نکلے کافی کوشش کے بعد چچا نے کہا گاڑی کو دھکا لگانا پڑے گا اب دلھے صاحب کو دھکا لگانا پڑا تقریبا آدھا گھنٹہ دھکا لگاتے رہے اتنے میں ابو جی کا فون آ گیا اور ان کو ساری تفصیل بتائی وہ ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے اس لیے گاڑی لیے کر گجر خان آئے ہمیں لینے کے لیے۔ وہاں ایک ورکشاپ تلاش کی گئی اور گاڑی کو ٹھیک کروانے کے لیے دیا گیا مکینک نے تین گھنٹے کا وقت دیا اور آٹھ ہزار خرچ بتایا کہ اس کی کوئی چیز ٹوٹ گئی تھی۔

اس کے بعد ہم گاڑی کا انتظار کرنے لگے اور جتنی دیر تک گاڑی آتی چچا اور بھائی نے میری خوب کلاس لی ان کا کہنا یہ تھا کہ ابوظہبی سے چلا تو جہاز نے آنے سے انکار کر دیا دوسرے دن جہاز میں آیا تو جہاز نے اسلام آباد اترنے سے انکار کر دیا جس دن میں نے جانا تھا اسی دن اسد کی گاڑی کا ایکسیڈینٹ بھی ہوا تھا اور آج چچا گی گاڑی بھی خراب ہوگی ادھر اسد کا فون بار بار آ رہا تھا کہ کب واپس آؤ گے میں نے کہا ابھی تک تو پہنچے ہی نہیں ہیں تو واپس کیسے آئیں گے۔ چچا نے مجھ سے فون لے کر اسد کو کہا یار تم دونوں میں سے پتہ نہیں کس کا نکاح بھاری ہے جو اتنی مشکلات آ رہی ہیں ۔ گاڑی کو دھکا لگا لگا کر پسینے سے بُرا حال ہو چکا تھا گھر سے تیار ہو کر آیا تھا اور یہاں پہنچ کر جو حال ہو چکا تھا وہ بیان سے باہر ہے میں نے جہلم اپنی کزن (سالی) کو فون کیا اور اس کو بتایا کہ بھائی کے سفید رنگ کےکپڑے پریس کر کے رکھ دو ۔ اتنے میں گاڑی آئی ہم سب گاڑی میں بیٹھے اور جہلم کی طرف روانہ ہوگے۔ باقی کا جتنا صرف بچتا تھا اس میں سب میری کلاس ہی لیتے رہے ۔ اللہ اللہ کر کے ہم جہلم پہنچے۔ میں فورا غسل کے لیے چلا گیا اور ایک بار پھر سے تیار ہوکر واپس آیا مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا ۔ قبول ہے ، قبول ہے ، قبول ہے تین دفعہ سنا اور پھر میری منگیتر کے پاس چلے گے کچھ دیر میں وہی وہاں سے واپس آئے اور دستخط کے بعد مبارک ہو مبارک ہو ۔

ہم نے تین بجے واپسی کا پروگرام بنایا تھا لیکن ہم وہاں پہنچے ہی تین بجے تھے پانچ بجے وہاں سے فارغ ہوئے اتنے میں اسد کا فون آیا تو میں نے کہا بھائی میری جگہ کسی اور دوست کو لیے جاؤ میں نہیں پہنچ سکوں گا واپسی پر ہمارے ساتھ پھر مسئلہ ہوا ابو جی اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے وہ تو گاڑی لے کر نکل گے اور ہمارے لیے کزن نے ایک گاڑی کا انتظام کیا جو ہم گجر خان تک چھوڑنے جائے اور وہاں سے ہم چچا کی گاڑی ۔ لے کر واپسی کا راستہ لیں۔ سب گاڑی میں سوار ہوئے اور گاڑی گجر خان کی طرف روانہ ہوگئی ہم سب نے روزہ رکھا ہوا تھا ، گرمی بھی بہت تھی، اور اوپر سے گاڑی کو دھکا بھی لگا کر آئے تھے میری تو جن نکل رہی تھی بہت تھک گے تھے سب ابھی ہم جہلم سے باہر ہی نہیں نکلے تھے کہ چچا نے کہا لے خرم مجھے لگتا ہے آج ہم گھر نہیں پہنچے گے تمہارا نکاح پتہ نہیں کیسا نکاح ہے جو اتنی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ابھی ان کی یہ بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ جس گاڑی میں ہم جا رہے تھے وہ بھی خراب ہوگی۔ افففففففف میرے اللہ یہ کیا ماجرہ ہے

اب تو سب سنجیدہ ہوگے کہ اللہ خیر کرے ایک ساتھ اتنے مسلئے اللہ کسی بڑی مصیبت سے بچائے چچانے کہاں ہم لوکل ہی جاتے ہیں کزن کو کہا وہ گاڑی ٹھیک کروا کر واپس چلے جائیں اور ہم گجر خان تک کے لیے لوکل ویگن میں سوار ہوگے اس دوران ہم نے آپس میں کوئی بات نہیں کی اور گجر خان تک کا سفر خاموشی میں گزرا تقریبا 45 منٹ کے بعد ہم گجر خان پہنچ گے۔ گاڑی تیار تھی اور ہم واپسی کے لیے چل نکلے راستے میں پھر شرارتیں شروع کہ یہ خرم کے نکاح پر اتنا کچھ ہوا ہے شادی پر پتہ نہیں کیا ہوگا ہمارا روزہ رستے میں ہی افطار ہوا اور ہم تقریبا 8 بجے گھر پہنچے گھر پہنچتے ساتھ ہی امی جی نے اور بہنوں سے صدقہ دی یا اور اس کے بعد پھر نکاح کی مبارک دی۔

ابھی بھی شادی کو 20 دن باقی تھے ان 20 دنوں میں عید بھی آنی تھی اور ہم نے تیاریاں بھی کرنی تھی شادی کی باقی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں صرف میرے کپڑے اور بھائیوں کے کپڑے رہے گے تھے جو تیار کروانے تھے باقی سب تو آڈر دے دیا لیکن برات کے لیے جو سوٹ بنوانا تھا اس کے لیے چھوٹے چچا نے کہا عید کے بعد میں خود خرم کو ساتھ لے کر جاؤں گا اور سوٹ تیار کروا دوں گا

اس کے بعد ہم سب عید کی تیاروں میں لگ گے دو دن بعد عید تھی لیکن چانس تھا کہ ایک دن بعد بھی ہو سکتی ہے کچھ دوستوں نے عید کی شاپنگ نہیں کی تھی اس لیے رات کو ہم بازار نکل گے اسی رات دوستوں نے ہم دونوں (مجھ سے اور اسد سے) دعوتِ نکاح کھائی ۔

چاند رات کو جب عید کے کپڑے آئے تو سب بھائی کے کمرے میں جمع ہو گے کپڑے دیکھنے کے لیے سب سے پہلے بڑے بھائی کا جوڑادیکھایا گیا جس کو دیکھتے ہی ہماری ہنسی نکل گئی

(جاری ہے)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
چاند رات کو جب عید کے کپڑے آئے تو سب بھائی کے کمرے میں جمع ہو گے کپڑے دیکھنے کے لیے سب سے پہلے بڑے بھائی کا جوڑادیکھایا گیا جس کو دیکھتے ہی ہماری ہنسی نکل گئی کونکہ بھائی نے ٹیلر کوکہا تھا کہ ہلکی ہلکی کڑھائی کر دینا لیکن اس نے قمیض کے اوپر گوبی کے پھول جتنے بڑے پھول بنا دیے جس کو دیکھ کر ہم ہنستے ہی رہے۔ عید پر سب رشتہ داروں کے گھر گیا جن سے ناراضگی تھی ان کے گھر بھی گیا ۔ میرے ابوظہبی آنے کے بعد جن کے پیارے فوت ہوگے تھے ان کے گھر بھی گیا بہت عجیب ماحول تھا کچھ لوگ عید کی خوشی منا رہےتھے اور کچھ لوگ اپنے پیاروں کی یاد میں اداس تھے عید کے دن گزرے اور رفتہ رفتہ مہمان آنا شروع ہوگے شادی کے دن بھی قریب آ رہے تھے ۔ یوں تو ہمارا خاندان بہت بڑا ہے لیکن زیادہ شادیاں ہونے کے وجہ سے سارے تقسیم ہوگے۔
دن گزرتے گے دوستوں رشتہ داروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور یوں شادی کے دن بہت قریب آ گے اب شادی کے کپڑے خریدنے تھے اس لیے چچا کی خدمات حاصل کی گئی چچا نے کہا میرا ایک دوست ہے وہ شیروانی دو دن میں بھی بنا دے گا آپ باقی کی خریداریکر لیں پہلے دن کا سوٹ مجھے بھابھی جی اور بھائی جانی نے دینا تھا دوسرے دن کا سوٹ میرے دوست اسد نے دینا تھا جس کی شادی میرے بعد ہونی تھی۔ اور مہندی کا سوٹ میری بڑی بہن نے دینا تھا اور اس طرح میری شادی کی تیاری مفتے میں ہی ہوگی۔ باقی سب خریداری مکمل ہوگی بس شیروانی کا کام رہ گیا آخری ایک ہفتہ بچا تھا بھابھی جی نے چچا سے بات کی تو چچا نے کہا وہ میرا دوست تو دبئی چلا گیا ہے مجھے بتانے کی یاد ہی نہین رہی چچا کا یہ کہنا تھا بس بھائی کو فکر لگ گئی اب کون ایک ہفتے میں بنا کر دے گا رات کو فیصلہ ہوا کہ کل جائیں گے اور ریڈیمنٹ شیروانی خرید کر لایں گے صبح بھائی عامر اور عمر نے چھٹی کی اور بازار جانے کا پروگرام بن گیا میں بھابھی ، بھائی عامر اور عمر چلے گے اسد کی دوکان بازار میں ہی تھی اس کو وہی سے لیے لیا جو شیروانی بھائی کو پسند آئے وہ بھابھی کو پسند نا آئے اور جو بھابھی کو پسند آئے وہ عمر کو پسند نا آئے بس کبھی یہ اور کبھی ہو اتنے میں دوکان دار بولا ارے آپ سب اپنی اپنی کر رہے ہیں جس کی شادی ہے اس سے تو پوچھ لیں ایک دم سب ہنسنے لگ گے۔ لیکن میرا چھوٹا بھائی عمر یہ جانتا تھا کہ میری پسند کیا ہے کیونکہ ہمیشہ میرے لیے خریداری وہی کرتا تھا۔ جب کوئی شیروانی پسند نا آئی تو پھر دوکان دار نے ایک مشورہ دیا۔
اس نے کہا آپ ایسا کریں شیروانی کی جگہ پرنس کوٹ بنوا لیں جو پیارا بھی لگے گا اور میں انشاءاللہ شادی سے تین دن پہلے بنا دوں گا شادی کو باقی سات دن رہتے تھے جب اس نے خوب تسلی دی اور یقین دلایا کہ وہ کر لیے گا تو سب مان گے اس سارے ماجرے میں میں اور اسد خاموش ہی رہے باقی سب اپنی اپنی کرتے رہے اور پھر بات فائنل ہوگی اور پھر ہم گھر واپس آ گے گھر میں بھی خوب تیاریاں ہو رہی تھی ہر چیز تیار ہوچکی تھی صرف دلہے میاں کے کپڑے ہی رہتے تھے سارے مہمان تقریبا آ چکے تھے لڑکیاں رات کو گانے گاتی اور دوست سارے تاش کھیلتے رہے
مہندی سے ایک دن پہلے سب نے کہا ابٹن کی رسم کرنی ہے میرے ساتھ میری بہن کی شادی تھی اس کی ابٹن کی رسم تو بنتی تھی لیکن بہنیں کہہ رہی تھی ہم نے بھائی کی بھی رسم کرنی ہے جب سب رسم کے لیے تیار ہوے تو بھابھی اور بھائی میرے پاس آئے دو دن رہ گے ہیں اور دوکان دار نے کہا تھا پرنس کوٹ آپ گے گھر پہنچ جاے گا اور ابھی تک نہیں آیا اب کیا کریں میں نے تو کہہ دیا مجھے تو کوئی فکر نہیں ہے یہ کام سارا آپ کے سر ہے اور ویسے بھی شادی کی ساری ذمہ داری ابوجی نے بھابھی اور بھائی پر ڈالی ہوئی۔ بھائی نے دوکان دار کو فون کیا اور پوچھا جناب کیا بنا تو اس نے جواب دیا فکر نا کریں آج سوٹ آپ کے گھر میں ہو گا بلکے آنے ہی والا ہوگا ہمارا جو کاری گھر آپ کے گھر کے پاس رہتا ہے وہ لے کر آ رہا ہے یہاں سے نکل چکا ہے۔ جب بھائی نے یہ بات سنی تو پُرسکون ہوگے اور اپنے شغل میلے میں لگ گے لیکن کیا پتہ تھا کہ ابھی مشکلیں باقی ہیں رات کو جب وہ بندہ سوٹ دینے آیا تو وہ صرف پرنس کوٹ تھا اس کے ساتھ پنٹ تھی ہی نہیں بھائی نے پھر اس کو فون کیا اور پوچھا یہ کیا چکر ہے تو اس نے کہا جناب آپ نے پنٹ کا کہا ہی نہیں تھا آپ نے تو صرف کوٹ کا کہا تھا بھائی نے پھر اپنی زبان میں کچھ اس کو سنایا اور کہا کوٹ شلور کے ساتھ پہنے گا بس پھر کیا تھا بھائی نے خوب سنائی اس کو لیکن سنانے سے کچھ نہیں ہونے والا تھا اب پھر بھائی اور بھابھی سر پکڑ کے بیٹھ گے۔
اب کیا کرنا تھا سب یہی سوچ رہے تھے پچھے دن بھی دو باقی تھے کیا ہوگیا کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے ان سب باتوں کے جواب ابھی باقی تھیں جو بھائی اور بھابھی کو دینے تھے۔ بھائی اور بھابھی کو پرشان دیکھ کر عمر بھی ہماری طرف آ گیا میں مسکرا رہا تھا اور بھائی اور بھابھی غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے عمر نے پوچھا کیا ہو تا بھائی نے پھر اس دوکان دار کو دو چار سنائی اور ساری بات بتائی تو عمر نے کہا میرا ایک دوست ہے میں اس کو فون کر کے پوچھتا ہوں شاہد کوئی حل نکل آئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تم خود بھی کر سکتے ہو۔ “پیغام کی تدوین“ پر کلک کریں، پھر “اضافی اختیارات“ پر کلک کر کے عنوان کو بھی مدون کر سکتے ہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
عمر نے کہا میرا ایک دوست ہے میں اس کو فون کر کے پوچھتا ہوں شاہد کوئی حل نکل آئے۔
اس کے ساتھ ہی عمر اپنے دوست کو کال کرنا شروع ہوگیا۔ عمر نے سارا مسئلہ اپنے دوست کو بتایا اس نے کہا صدر میں میرا ایک جاننے والا ہے انشاءاللہ مسئلہ حل ہوجائے گا تم ابھی خرم کو لے کر صدر پہنچو میں وہی ملتا ہوں۔ عمر نے موٹرسائیکل نکالی تو بھائی نے کہا میں بھی جاؤں گا اور بھابھی نے کہا میں نے بھی ساتھ جانا ہے۔ بھائی اور بھابھی زیادہ فکر مند تھیں اس لیے عمر، ان کو بھی ساتھ لے گیا بھائی نے اپنی موٹرسائیکل بھی نکالی اور ہم صرد کی طرف چل نکلے۔ میرا جانا اس لیے ضرور تھا کہ پینٹ میری تھی :d
صدر میں امریکن ٹیلر کے ساتھ ایک شاپ تھی شاہد باس نام تھا اس کا۔ اس شاپ پر ہم عمر کے دوست سے ملے اس نے ہمارا مسئلہ حل کر دیا اور اگلے ہی دن میرا سوٹ تیار ہوگیا۔ سب کی پرشانی دور ہوگی اور اس کے بعد مہندی کی تیاریاں شروع ہوگئی۔
مہندی پر بھی میرے ساتھ دو ڈرامے ہوئے اور ڈرامے بھی بہت مزے کے۔ ہوا کچھ یوں کے ہم بھائیوں نے اپنے اپنے کپڑے ایک دوسرے سے چھپ کر لیے تھے کہ مہندی والے دن دیکھے گے کس کے پیارے ہونگے۔ میرے کپڑے تو میری بڑی بہن کی طرف سے تھے انھوں نے بھابھی کو کہا تھا کہ وہ خرید کر یں بھابھی نے بھی کسی کو میرے کپڑے نہیں دیکھائے۔ نیلے یا فروزی رنگ کا کرتا اور سفید رنگ کی شلوار تھی۔ اور اس کے ساتھ کھوسہ تھا۔ یہ تو میرے کپڑے تھے لیکن جب مہندی والی رات ہم سب تیار ہوئے تو بڑے بھائی کو چھوڑ کر ہم تینوں بھائیوں کے کپڑے ایک جیسے تھے ایک ہی رنگ کے سب یہ کہہ رہے تھے کہ دلہا کون سا ہے ایسا لگ رہا تھا ہم تینوں نے یونی فورم پہنا ہوا ہے۔ اور سونے پر سواگہ یہ ہوا کہ بہنوئی اور جو کزن آئے تھے شادی پر ان کے کپڑوں کا رنگ بھی میرے کرتے جیسا تھا اس کے بعد دوسرا ڈرامہ یہ ہوا کہ میرے لیے جو کھوسہ لایا گیا تھا اس کا ایک پاؤں تو مل گیا لیکن دوسرا پاؤں نہیں ملا جس کی تلاش میں کافی وقت گزر گیا۔ پھر بڑے بھائی کے لیے جو جوتے آئے تھے وہ مجھے پہننے پڑے۔
مہندی میں چھوٹے بھائی عمر نے اہتمام کیا ہوا تھا۔ بھائی عامر نے تو کھانے پینے اور مہمانوں کے لیے جگہ کا انتظام کرنا تھا جس میں عمر، بھائی عامر اور ثاقب مل کر کر رہے تھے ثاقب کو تو میں نے بھاگم بھاگ میں ہی لگایا ہوا تھا مجھے جو کام بھی یاد آتا یا میرا کوئی مہمان بھی آتا میں نے فوراَ ثاقب کو فون کرنا ہوتا تھا اور وہ فورا وہ کام کر دیتا۔ لیکن بھائی عامر کو یہ شکایت تھی کہ ثاقب کام کے وقت نظر نہیں آتا۔ حالانکہ وہ میرے کام کر رہا ہوتا تھا۔ مہندی والی رات میں بہت فکر مند تھا بہت پرشان تھا۔ کیونکہ چھوٹا بھائی عمر اور اس کے سارے دوست بہت ہی شرارتی تھے۔ سب نے مل کر فائرنگ کا بندوبست بھی کیا ہوا تھا۔ اور یہی شوق میرے دوست اسد اور نوید کو بھی تھا اور ان دونوں نے اپنی جگہ بندوبست کیا ہوا تھا۔ اور میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ خیر فرمائے۔ یہاں سب ہنگامہ کر رہے تھے ڈھول بج رہے تھے، فائرنگ ہو رہی تھی اور شور ہی شور تھا لیکن میں اپنے کمرے میں چھپ کر یہ دعا کر رہا تھا کہ اللہ سب خیر فرمائے اور کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نا آئے۔ مہندی کی رسم سے کچھ دیر پہلے تھوڑی سی بارش بھی ہوگئی تھی۔ اور کہا جاتا ہے کہ شادی پر بارش ہماری خاندانی بارش ہے۔ جب ابو جی کی شادی ہوئی تو بھی بارش ہوئی تھی، جب بھائی کی شادی ہوئی تو تب بھی بارش ہوئی تھی، اور اب میری شادی پر بھی بارش ہوئی تھی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو ہانڈی میں کھانا کھاتا ہے اس کی شادی پر بارش ہوتی ہے اور ہم دونوں بھائیوں نے بہت دفعہ ہانڈی میں ہی کھانا کھایا تھا۔ خیر بس لوگ اپنی مستی میں مست تھے لیکن میں کمرے میں چھپ کر دعا ہی کر رہا تھا۔ اتنے میں دھول بجنا بند ہوگے اور یہ آوازیں آنا شروع ہوگئی کہ دلہا کہاں ہے۔ میں فورا کمرے سے باہر نکلا اور بھائی کے پاس چلا گیا۔
یار سب تمہیں تلاش کر رہے ہیں چلو جلدی سے مہندی کی رسم کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں مہندی کی رسم کے لیے دوست اور بھائی لے کر جاتے ہیں میرے دوست زیادہ تھے اس لیے دوست ہی لے کر گے سب دوست آ گے تھے لیکن اسد اور نوید ابھی فائرنگ ہی کر رہے تھے اور میں ان کی وجہ سے جا نہیں رہا تھا وہ دونوں آئے پھر مجھے رسم کے لیے لیے کر گے۔ رسم کیا کرنی تھی بس جلدی جلدی سر پر تیل اور ہاتھ پر مہندی لگائی اور پھر واپس لے آئے جہاں سب لڑکے جمع تھے اور ہنگامہ کر رہے تھے۔ مجھ پر تو صرف دوستوں نے ہی رسم پوری کی باقی گھر والوں میں سے کسی نے کوئی رسم نہیں کی کیونکہ لڑکے بضد تھے کے دلہے کو واپس لایا جائے۔ ادھر فائرنگ ہو رہی تھی۔ ساتھ ڈھول کی تھاپ پر ڈانس ہو رہا تھا شور ہی شور تھا اور یہ سب سلسلہ تقریبا رات ایک بجے ختم ہوا۔ تو کچھ سکون آیا کہ اللہ کے کرم سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس کے بعد بہت سارے لڑکے چلے گے لیکن عمر کے دوست اور میرے دوستوں کو عمر نے روک لیا مجھے نہیں پتہ تھا کہ کیوں ہم ایک طرح بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ کچھ ہی دیر کے بعد عمر مجھے اور دوستوں کو لینے آ گیا۔ اپنے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک دوست کے گھر کی چھت پر میوزک پروگرام رکھا ہوا تھا عمر نے اور اس کے دوستوں نے۔ پھر وہاں جا کر بیٹھنا پڑ گیا۔ عمر کا کہنا تھا ساتھ ، آٹھ سال بعد بھائی کی شادی آئی ہے تو ہم خوب ہنگامہ کریں گے۔ اس پروگرام میں کوئی بڑا نہیں تھا۔ سب لڑکے تھے بڑے بھائی عامر بھی اس پروگرام کا حصہ نہیں تھے ہاں البتہ عمر اور ثاقب دونوں تھے۔ اور اللہ اللہ کر کے یہ پروگرام صبح چار بچے ختم ہوا ۔ چونکہ یہ پروگرام بڑوں سے چھپ کر بنایا گیا تھا اس لیے اس کی کوئی ریکاڈنگ نہیں تھی کسی بھی قسم کی۔ اس لیے بڑوں کو صرف اتنی خبر ہوئی کہ رات کو کوئی پُروگرام ہوا تھا لیکن کیا پروگرام ہوا یہ کسی کو پتہ نہٰں تھا۔ خیر اگلے دن سہرابندی کی رسم تھی یعنی دلہا بنانا تھا۔ اگر بارات دور جانی ہو تو ایک دن پہلے ہی دلہابنا کر رسم پوری کر لی جاتی ہے اور اگر قریب جانی ہو تو پھر صبح ہی دلہا بنایا جاتا ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
دلہا بنانے سے پہلے دلہے کے غسل کے لیے رشتہ داروں کے گھر سے پانی لایا جاتا ہے۔ پانی مٹکے میں لایا جاتا ہے اور یہ کام بہنیں کرتی ہیں پھر دلہا اپنی بہنوں کو پیسے دیتا ہے میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ پیسے دینے پڑے:d اس کے بعد وہی پانی میرے اور میرے دوستوں کے اوپر پھنکا گیا۔ میرے کپڑے ابوجی کے کمرے میں تھے اور کمرے میں ابو جی امی جی میرے دوست بھائی، بھابھی اور موئی والا تھا۔ اور مجھے کہا گیا کہ سب کے سامنے کپڑے تبدیل کرنے ہیں۔ یہ بھی شاہد کوئی رسم تھی۔ میں تو ایسا نا کر سکا اس لیے پاجامہ پہنے کے لیے باتھ روم میں چلا گیا اور باقی کرتا اور شیروانی سب کے سامنے ہی تبدیل کی۔ اور یوں دلہا تیار ہو گیا۔ امی جی اور ابو جی نے سب سے پہلے لاڈ پیار کیا اور اس کے بعد ایک کٹپتلی کی طرح دوستوں اور بہن بھائیوں کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا اسٹیچ تک پہنچا۔ پھر یہاں ابو جی اور امی جی کے حصے کا پھل میرے گلے میں ڈالا گیا مطلب جن جن کی شادی پر ہمارے والدین نے ہار ڈالے تھے انھوں نے وہ ہار ہمارے گلے میں ڈال کر اپنا بدلہ لیے لیا اور کچھ نے تو قرض بھی چڑہا دیا تاکہ جب ان کے گھر کسی کی شادی ہو تو ہم بھی ہار لیے کر جائیں۔
ہمارے ہاں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب دلہا بنا دیا جاتا ہے تو پھر دلہا اپنے گھر واپس نہیں آتا دلہن لے کر ہی آتا ہے اس لیے دلہے کو اس کے دوستوں کے گھر ہی رہنا پڑتا ہے۔ اسد کا کہنا تھا کہ میں اس کے گھر چلا جاؤں لیکن ابو جی اور بھائی نہیں مانے کیوں کہ اسد کا گھر ہمارے گھر سے تھوڑا دور تھا اور ابو نہیں چاہتے تھے کہ صبح کسی طرح بھی دیر ہو۔ اس لیے میں اپنے کزن طاہر (جس کو ہم پیار سے منا کہتے ہیں) کے گھر سونے کے لیے چلا گیا۔
رسومات ختم ہوئی تو والد صاحب نے اعلان کر دیا کل صبح 8 بجے بارات گھر سے نکل جائے گی اور کوئی بھی لیٹ ہوا تو اس کو یہی چھوڑ جائیں گے۔ والد صاحب اپنی بات کے پکے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بھائی کی شادی ہوئی تھی تو بارات میر پور جانی تھی جو گھر سے وہاں تک کا رستہ تین گھنٹوں کا بنتا ہے اور ابو جی نے کہا تھا صبح سات بجے بارات نکل جائے گی۔ سب لوگوں نے یہی سمجھا کہ سب ایسے ہی کہتے ہیں 9 بجے سے پہلے نہیں جائے گی لیکن صبح جب 6 بجے تو ابو جی تیار ہو کر بھائی کے دوست کے گھر پہنچ گے جہاں بھائی اور میں ان کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ ابو نی نے دیکھا ہم سوئے ہوئے ہیں تو انھوں نے ایک گرج دار آواز کے ساتھ کہا آدھے گھنٹے میں اگر تم یہاں نا ہوئے تو تمہیں بھی یہی چھوڑ کر چلے جائیں گے ابو جی کا غصہ دیکھا تو ہم سب وہاں سے بھاگے اور آدھے گھنٹے سے بھی پہلے تیار ہو کر پہنچ گے۔ جب پورے 7 بجے تو اس وقت تک بہت کم لوگ آئے ہوئے تھے جانے کے لیے لیکن ابوجی نے بھائی کو لیا اور جو لوگ آئے ہوئے تھے ان کو ساتھ لیا اور بارات تیار کر کے نکل پڑے بہت سے لوگ بعد میں لوکل گاڑوں پر آئے اور بھائی کی بارات میں موی والا بھی دیر سے آیا۔
صبح 6 بجے والد صاحب کا پیغام کزن کے گھر پہنچ گیا۔ ہم سب جانتے تھے کہ یہ پیغام کوئی عام پیغام نہیں ہے اس لیے فوراَ سے پہلے ہم تیار ہونا شروع ہوگے پھر وہی ہوا 7 بجے والد صاحب خود وہاں پہنچ گے میں بھی تیار ہو چکا تھا۔ بارات کے دن سب سے پہلے والد صاحب اور دوسرے نمبر پر میں تیار ہوا تھا اور باقی کوئی بھی تیار نہیں ہوا تھا کیونکہ جہلم اتنا دور نہیں تھا اس لیے سب مطمین تھے لیکن والد صاحب اپنی بات کے پکے تھے لیکن اس بار والد صاحب کو ہی ہار ماننی پڑی کیونکہ ابو جی کے جوتے کسی نے چھُپا دیے تھے اور جوتوں کی تلاش تلاش میں ہی سب تیار ہوگے اور 9 بجے بارات گھر سے نکلی ۔ اور راستے میں ایک دوسرے کا انتظار کرتے ہوئے آرام آرام سے ایک قافلے کی طرح سفر کرتے رہے لیکن جب بارات گجر خان کے قریپ پہنچی تو دل میں کچھ ہونے لگا۔ اور میرے دل میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔
 

میم نون

محفلین
ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر لکھ رہے ہیں، جاری رکھیں اور ساتھ ساتھ کچھ مشورے بھی لکھتے جائیں تاکہ ہمارے کام آ سکیں :grin:
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
کیونکہ یہ وہی جگہ تھی جہاں ایک دفعہ پہلے بھی گاڑی خراب ہو چکی تھی۔ جس دن میرا نکاح تھا اس دن گجر خاں پہنچتے ہی جس گاڑی میں میں سوار تھا وہ خراب ہوگئی تھی(جس کا ذکر دوسری قسط میں ہو چکا ہے) اور بہت کچھل خواری ہوئی تھی۔ میرے ساتھ میرا دوست اسد تھا اور گاڑی ابو جی کے دوست چلا رہے تھے میں ان کو بتا رہا تھا کہ یہاں ہماری گاڑی خراب ہوئی تھی۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ انکل جی نے مسکرا کر کہا خرم پتر مجھے لگتا ہے تمہاری شادی سے کوئی ہے جو خوش نہیں ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیوں انکل جی تو کہنے لگے۔ بیٹا گاڑی کا ٹیر پنچر ہوگیا ہے۔ l پتہ نہیں قسمت کو کیا منظور تھا۔ کبھی کچھ ہو جاتا اور کبھی کچھ۔ سب دوست اور رشتہ دار میرا مذاق اڑانے لگے۔ لیکن میں مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ کہیں یہ چھوٹے چھوٹے کسی بڑے حادثے کا سبب نا بن جائیں۔
خیر آگے کا سفر بلکل ٹھیک رہا اللہ کے کرم سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ ہم جہلم کے راستے میں ہی تھے کہ عدنان بھائی کی فون کال آ گئی کہ ہم راستےمیں ہیں اور پہنچنے والے ہیں۔ ان کا فون بن ہوا تو محمد بلال بھائی کی کال بھی آ گئی پتہ چلا کے ان سب کی ملاقات ہو چکی ہے اور یہ سب پہنچنے والے ہیں عدنان بھائی ، محمد بلال بھائی اور عبدالقدوس کا تو مجھے پتہ تھا کہ یہ آ رہے ہیں اور اگر ان تینوں میں سے جو نا آتا پھر میں اس کے سات کبھی بات نا کرتا کیونکہ عبدالقدوس اور عدنان میرے نیٹ کے بہت پُرانے دوست ہیں ان سے کہیں بار ملاقات کا سوچا لیکن نہیں ہو سکی۔ اور محمد بلال بھائی ان سے بعد میں دوست بنے لیکن بلال بھائی سے دوستی بہت زیادہ گہری ہوگئی اور اگر بلال بھائی نا آتے تو ؟۔۔۔ خیر اب آ گے تھے نا آتے تو اور بات تھی
جب ہم جہلم پہنچے تو سب لوگ آگے کی طرف چل رہے تھے لیکن میں موڑ موڑ کر پیچھے دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ بلال بھائی نے کہا تھا کہ ہم نے آپ کی گاڑی دیکھ لی ہے اور ہم آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن مجھے ان میں سے کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ مجھے میرے دوست اور بھائی آگے لیے کر جا رہے تھے لیکن میں ان تینوں کا انتظار کر رہا تھا اور پھر اچانک عبدالقدوس میرے گلے ملے اور مبارک دی اور کہا تم چلتے جاو آگے ہم ساتھ ہی ہیں پھر بلال بھائی ملے اور پھر عدنان بھائی مجھے تو ان تینو کا پتہ تھا لیکن ان کے ساتھ خلیل بھائی اور وسیم بھائی بھی آئے ہوئے تھے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی جب میں اپنے نیٹ کے دوستوں سے ملا۔ اور مزے کی بات یہ بھی کہ ان سے میں زندگی میں پہلی دفعہ ملا تھا۔ عدنان بھائی، عبدالقدوس بھائی، محمد خلیل بھائی اور وسیم بھائی (چیمپین) پاک نیٹ کے دوست ہیں اور میری شادی میں وہ پاک نیٹ کی نماندگی بھی کر رہے تھے۔ پاک نیٹ کے اور بھی بہت سے دوستوں نے آنا تھا لیکن ان میں سے محمد رضوان (رضی)، راجا اکرام ، عبداللہ آدم اور موجو بھائی نے ولیمے پر آنا تھا۔ مجھے خوشی ہو رہی تھی کہ یہ لوگ میرے دوست ہیں اور صرف نیٹ کی دوستی کی خاطر اتنے دور سے میری شادی میں شرکت کرنے کے لیے آئے۔
اور محمد بلال کے ساتھ میں اپنی دوستی کو فخر کے ساتھ دوستوں کو بتاتا ہوں کہ ایک ایسا بندہ بھی ہے نیٹ کی دنیا میں جو میرا بہت اچھا دوست ہے اور جو کتنا عظیم ہے۔ بلال بھائی سے پہلی ملاقات بہت اچھی رہی مجھے ایسا لگ رہا تھا میں ان سے پہلے بھی ملا ہوا ہوں۔
بات کہیں اور نکل جائے گی پھر موضوع کی طرف آتا ہوں ان دوستوں پر پھر کبھی لکھ لوں گا۔
کیونکہ نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا اس لیے کھانا کھلانا شروع کر دیا گیا۔ اور سب کھانا کھانے کے لیے چلے گے ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اور اس دوران بہت سی گپ شپ بھی ہوتی رہی عبدالقدوس بھائی کو پتہ نہیں کیا ہوا تھا بہت گھبرائے ہوئے تھے عجیب عجیب باتیں کر رہے تھے ہم نیٹ کی ہی باتیں کر رہے تھے کہ بلال بھائی نے کہا یار نیٹ کی باتیں نیٹ پر کریں گے ابھی ہم یہاں موجود ہیں تو یہاں کی باتیں کرتے ہیں۔ خلیل بھائی اور وسیم بھائی تو خاموش ہی رہے انھوں نے بہت کم بات کی لیکن باقی ہم سب نے خوب گپ شپ کی اور ہنسی مذاق کرتے رہے۔ اب وقت رخستی کا ہونے والا تھا اس لیے سب دوستوں نے اجازت اور پھر ایک ایک لفافے کے ساتھ السلام کرتے رہے اور جاتے رہے۔ ساری ملاقات میں مجھے لفافے ہی اچھے لگے نیٹ کے سب دوست جب جا چکے اور کھانا پینا ختم ہوا تو ہمیں بھی دلہن والی سائیڈ پر جانے کا دعوت نامہ ملا
(جاری ہے)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اب رسم تھی دلہن کے ساتھ بیٹھنے کی لیکن صوفے پر دلہن کی بہنیں اور اس کی سہلیاں تھیں۔ اور میرے ساتھ میرے دوست ، بھائی اور بھابھی تھیں۔ آخری فیصلہ پہلے ہی فائنل کر لیا گیا تھا لیکن رسم پوری کرنے کے لیے ایک دوسرے کو خوب تنگ کیا گیا۔ دلہن کی بہنیوں نے دس ہزار کی آواز لگائی کہ دس ہزار دیں گے تو صوفہ خالی ہوگا ورنہ جگہ نہیں ملے گی ، عمر نے جلدی سے ایک اور کرسی اٹھائی اور دلہن کے سامنے رکھ دی اور مجھے وہاں بٹھا دیا اور کہا ہم تو ایک پیسہ نہیں دیں گے یہ رہا ہمارا دلہا ، ہم نے دلہے کے لیے جگہ لینی تھیں وہ ہم نے لے لی۔ اس کے بعد دونوں طرف سے تکرار شروع ہوگئی ۔ انھوں نے دس ہزار مانگے اور بھابھی نے دو ہزار نکالے انھوں نے دو ہزار لینے سے انکار کر دیا ۔ ادھر سے عمر نے ایک ہزار اور شامل کیا اور تین ہزار کر دیے لیکن دوسری طرف سے ٹس سے مس نا ہوئی اور دس ہزار پر ہی اٹکے رہے اور پھر کچھ دیر تکرار کے بعد پانچ ہزار پر بات ختم ہوگئی اور پھر دلہن کی بہنوں نے جگہ چھوڑی اور ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملی۔ پھر دونوں طرف کے رشتہ داروں نے ہمارے ساتھ بیٹھ کر تصویریں بناوائی اور ساتھ ساتھ تحفہ اور لفافے بھی دیتے رہے۔ اس دوران بھائی اور دوست واپسی کے لیے نکل پڑے کے انھوں نے پہلے پہنچ کر انتظامات کرنے تھے۔ اور ہم لوگ مغرب کے وقت وہاں سے نکلے۔ راستہ میں ابو جی اور چچا جی کی گاڑیاں ہماری گاڑی کے آگے پیچھے تھیں۔ کیونکہ سب ڈرے ہوئے تھے کہیں پھر گاڑی خراب نا ہوجائے۔ راستے میں کہیں رش کی وجہ سے یا پھر سگنل کی وجہ سے آگے پوچھے ہو جائے تو فورا فون کر دیتے ۔ اللہ کے شکر سے رات آٹھ بجے خیریت سے پہنچ گے۔
گھر پہنچتے ہی ہمارا استقبال لوڈ شیدنگ نےکیا۔ اندھرے اندھرے ہم گھر کی دہلیز پر پہنچے اور ماں جی سے ملنے کے بعد گھر میں داخل ہوئے۔یہاں بھی بہت سی رسومات تھیں جو پوری کرنی تھیں لیکن بجلی کا انتظار کیا جا رہا تھا ۔ جب تک بجلی آتی بھائیوں اور بہنوں نے مل کر جگہ کی سیٹنگ کر لی اور دوست یار مل کر میرے کمرے کو تیار کر رہے تھے ۔ ہمارے ہاں جوگانے کے دوست ہوتے ہیں وہی مل کر دلہے کا کمرہ سجاتے ہیں اس لیے سارے دوست رسومات میں شامل نہیں تھے وہ کمرے کی تیاری میں مصروف تھے۔ رات نو بجے بجلی آئی اور پھر رسومات پوری کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔
اب ہمارے دو گروپ بن گے ایک دلہن کی طرف اور دوسرا دلہے کی طرف۔ میری طرف میری چھوٹی بہنیں اور بھابھی تھیں اور دلہن کی طرف میری بڑی بہن ، پھوپھو اور چچی جان تھیں۔ عمر ، بہنوئی اور ثاقب دونوں طرف تھے اور بڑے بھائی ایک طرف بیٹھ کر یہ شغل دیکھ رہے تھے سب سے پہلے ایک بڑے سے برتن جس کو تھالی یا پرات بھی کہا جاتا ہے اس میں دودھ ملا پانی ڈالا گیا۔” یہ رسم کچھ اس طرح ہے کہ اس دودھ ملے پانی میں انگوٹھی پھینکی جاتی ہے ۔ دلہن اور دلہا دونوں پانی میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور انگوٹھی تلاش کرتے ہیں۔ جس کو مل جائے وہ مٹھی بند کرتا ہے اور دوسرا مٹھی کھول کر انگوٹھی نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں دلہن کو دوہاتھوں نے مٹھی کھولنے کی اجازت ہوتی ہے جب کے دلہے کو صرف ایک ہاتھ سے مٹھی کھولنی ہوتی ہے”۔ پہلی دفعہ انگوٹھی مجھے مل گئی اور میں نے انگوٹھی مٹھی میں دبا کر بند کر لی اور دلہن نے کوشش کے باوجود مٹھی نہیں کھول سکی اور پھر مجھے کہا گیا انگوٹھی دینے کا ۔ پھر دوبارہ جب پانی میں انگوٹھی ڈالی گئی تو دوسری بار بھی میں نے ہی تلاش کی لیکن اس بار دلہن نے مٹھی بند کرنی تھی ۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد میں نے مٹھی کھول لی اور اس طرح یہ رسم اختتام پزیر ہوئی۔ اب گانے کھولنے کی رسم تھی۔” مہندی کی رات دلہن اور دلہے کے دوست گانا باندھتے ہیں اور وہ گانے بارات کے بعد گھر پہنچ کر کھولنے پڑتے ہیں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ایسے گرا لگائی جائے کہ کھل نا سکے ۔ گانا کھلنے کے بعد دونوں گروپ چھینا چپھٹی کرتے ہیں اور گانے کے ساتھ لگی ہوئی چیزیں چھین کر کھاتے ہیں”۔
پہلے دلہن کی باری تھی گانے کھولنے کی تھوڑی سی کوشش کے ساتھ ہی دلہن نے گانے کھول لیے اور دونوں طرف سے فورا سے پہلے ہی چھین کر گانے سے چیزیں اتار لی۔ لیکن جب میری باری آئی تو دلہن کی سہیلوں نے عام دھاگے کی جگہ سخت دھاگہ جس کو تندی کہا جاتا ہے اس سے گانا بنایا گانا تو میں نے کوشش کر کے کھول لیا لیکن جب گانا چھیننے لگے تو تندی والا دھاگہ ٹوٹ ہی نہیں رہا تھا جس کی وجہ سے ایک ہنگامہ سا ہوگیا اور ایک دوسرے گانا چھنے بغیر ہی چیزیں اتارنی شروع کر دیں۔ اس کے بعد شیشہ دیکھانے کی رسم تھی۔ شیشہ دیکھا کر مٹھائی کھائی گئی اور آخری رسم سہرے کی تھی بڑی بہن نے سہرا اتار کر اپنی گود میں رکھنا تھا اور مجھے اپنی مرضی کے پیسے دینے تھے اور اس طرح 11 بجے تک یہ ساری رسمیں ختم ہوگئی۔ لیکن رسمیں ختم ہونے کے بعد بھی ابھی تک دوستوں نے کمرہ تیار نہیں کیا تھا۔ اس لیے انتظار کرنا پڑا۔ 12 بجے ایک بار پھر بجلی چلی گئی میں اپنے کمرے میں گیا تو دیکھا ابھی تک تو انھوں نے کام نا ہونے کے برابر کیا تھا۔

(جاری ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
گانا دولہا کے دوست دولہا کی کلائی پر باندھتے ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے، ایک رومال میں کچھ پھول، کچے چاول، چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی چیزیں وغیرہ بھی اس میں ہو سکتی ہیں، خالی پھولوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ یہ سب ہندوآنہ رسمیں ہیں جو مسلم معاشرے میں اسطرح سرایت کر چکی ہیں کہ نہ تو ختم ہوتی ہیں اور نہ ہی ہم انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔
 
Top