ابوالکلام آزاد اور پاکستان...قلم کمان ۔۔۔۔حامد میر

ڈاکٹرعبدالقدیر خان ایک باکمال انسان ہیں۔ سائنس اور خدمت ِ خلق کے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے بعدآج کل کالم نگاری کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے اپنے کالم میں کانگریس کے لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد کی طرف سے آغا شورش کاشمیری کو دیاجانے والا ایک انٹرویو شائع کیا۔ اس انٹرویو میں مولانا آزاد نے پاکستان کےمستقبل کے بارے میں جو کچھ کہا وہ سچ ثابت ہو رہا ہے اور اسی لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کایہ کالم علمی و سیاسی حلقوں میںموضوع بحث ہے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ مولانا آزاد نے اپریل 1946میں آغا شورش کاشمیری کو یہ انٹرویو دیاجو ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں شائع ہوا۔میری تحقیق کے مطابق اپریل 1946 میں ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کا کوئی وجو د نہیں تھا۔اس جریدے کااجرا بعدمیں ہوا تاہم یہ انٹرویو آغا شورش کاشمیری کی طرف سے مولانا آزاد کے بارے میں لکھی گئی کتاب میںموجود ہے۔ ہم یہ سوال تو اٹھا سکتے ہیں کہ آغا صاحب نے یہ انٹرویو ایک طویل عرصہ تک ’’چٹان‘‘ میںکیوں شائع نہ کیا تاہم یہ طے ہے کہ مولانا آزاد کا یہ انٹرویو آغا شورش کاشمیری کے ذہن و قلم سے تاریخ کا حصہ بنا۔ اس انٹرویو میں مولانا آزاد نےکہا تھا کہ مجھے شبہ ہے کہ مشرقی پاکستان زیادہ دیرمغربی پاکستان کے ساتھ نہیں رہ سکےگا اور خدانخواستہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا تو مغربی پاکستان تضادات و تصادمات کا مجموعہ بن جائے گا۔ آغا شورش کاشمیری نے مولانا آزاد سے کہا کہ کئی علما قائداعظمؒ کی حمایت کر رہے ہیں جس پر مولانا آزاد نے کہا کہ کئی علمااکبربادشاہ کے دین اکبری کی حمایت بھی کر رہے تھے۔پاکستان کوئی نظریاتی مملکت نہیں محض ایک سیاسی موقف ہے۔ مولانا آزاد نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اوربھارت کے اس انٹرویو کی تفصیل اس نیت سے پاکستان کی نئی نسل تک پہنچائی ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور پاکستان کے مستقبل کو مزید اندھیروں سے بچانے کے لئے اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کریں۔ مولانا آزاد کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے علم و مقام و مرتبے سے انکار ممکن نہیں۔ انہوں نے اپنے زیربحث انٹرویو میں جوباتیں کیں اسی قسم کی باتیں ان کی مشہور کتاب’’انڈیا وِنز فریڈم‘‘ میں بھی موجود ہیں تاہم یہ تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے کہ مولانا آزاد نے پاکستان بننے سے پہلے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ بنگالی مسلمان زیادہ عرصہ تک پاکستان کے ساتھ نہ رہ سکیں گے؟
مولانا آزاد کے والد بنگالی اور والدہ عرب تھیں۔ ان کی پیدائش مکہ میں ہوئی لیکن بچپن اور جوانی کلکتہ میں گزری۔ یہیں پر انہوں نے 1912میں ’’الہلال‘‘ اور 1914میں ’’البلاغ‘‘ جاری کیا اوروہ ’’البلاغ‘‘ کے ٹائٹل پر علامہ اقبالؒ کی نظمیں شائع کیا کرتے تھے لیکن بعد ازاں یہی اقبالؒ تھے جنہوںنےبرصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا نظریہ پیش کیا۔ مولانا آزادصرف 35 سال کی عمر میں کانگریس کے صدر بن گئے لیکن بنگال کےمسلمانوں نے انہیں وہ عزت و تکریم نہ دی جو مولانا آزادکو ہندو دیتے تھے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ برصغیر کی تقسیم کی تحریک پنجاب یا سندھ یا بلوچستان یا خیبرپختونخوا میں نہیں بلکہ بنگال میں شروع ہوئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 30 دسمبر 1906 کو ڈھاکہ میں جنم لیا اور مسلم لیگ نے 1937میں پہلی حکومت بھی بنگال میں بنائی۔ مولانا آزادکا اپنا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ بنگالی مسلمانوں کی نفسیات سے واقف تھے۔ 1936 میں اےکے فضل حق کے قائداعظمؒ سےاختلافات پیدا ہوئے تو انہوں نے کرشک پرجا پارٹی بنالی تھی اور 1937 کے الیکشن میں 40 نشستیں جیت لیں جبکہ مسلم لیگ کی 39اور کانگریس کی 54 تھیں۔ اے کے فضل حق بنگالی مسلمانوں کا لیڈر تھا لہٰذا مسلمانوں کے دبائو پر اس نے کانگریس کی بجائے مسلم لیگ سےاتحاد کیا جومولانا آزادکی بہت بڑی ناکامی تھی۔ دوسری طرف کانگریس کے اندر بنگالی ہندوئوں کا لیڈر سبھاش چندر بوس بھی گاندھی اور نہرو کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتا تھا۔ سبھاش چندربوس برطانوی سامراج کا بڑا مخالف تھا لیکن اندر سے ایک کٹر ہندو تھااوراس کا استقبال ’’بندے ماترم‘‘ کے ترانے سے ہوتا تھا۔ بندے ماترم میں درگا، لکشمی دیوی اور سرسوتی دیوی کا بھی ذکر تھا اور بنگالی مسلمان اس ترانے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ سبھاش چندربوس کی اس ترانے سے محبت نے بنگالی مسلمانوں کو کانگریس سے دور کردیا۔ 6مئی 1938کو کلکتہ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس میں علامہ اقبالؒ کی وفات پر تعزیتی قرارداد منظور کرنے کے بعد اجلاس ایک دن کے لئے ملتوی کرنے کے لئے تجویز پیش ہوئی تو سبھاش چندربوس نےاس کی مخالفت کی جس پر بنگالی مسلمانوں کی بڑی تعداد نےاجلاس سے واک آئوٹ کی۔ سبھاش چندر بوس کے باعث بنگالی مسلمانوں کی کانگریس سے نفرت اتنی بڑھی کہ انہوں نےکلکتہ میں مولانا ابولکلام آزاد کی امامت میں عید کی نماز اداکرنے سے انکار کردیا۔ مولانا آزادکی سب سے زیادہ تضحیک ان کے اپنے شہر کلکتہ میں ہوئی۔
اس پہلو کو نظرانداز نہ کیا جائے کہ ہندوستان میں دو قومی نظریئے کی ابتدا بنگال سے ہوئی لیکن جب پاکستان کا نام سامنے آیا تو اس میں ’’پ‘‘ پنجاب، ’’الف‘‘ افغانیہ، ’’ک‘‘ کشمیر ’’س‘‘ سندھ اور ’’ستان‘‘ بلوچستان کے لئے تھا لیکن اس میں بنگال شامل نہیں تھا۔ 23مارچ 1940کی قراردادِ لاہور اے کے فضل حق نے پیش کی لیکن لفظ پاکستان میں بنگالیوں کی نمائندگی شامل نہیں تھی لیکن وہ تحریک ِ پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے اور لیاقت علی خان جیسے غیربنگالیوں کو منتخب کرا کر اسمبلیوں میں بھیجتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ 23مارچ 1940 کی قرارداد کےنتیجے میںایک سے زائد مسلم مملکتیں وجود میں آئیں گی۔ 1946 میں حسین شہید سہروردی نے قائداعظمؒ کی تائید سے یہ کوشش کی کہ بنگال کی تقسیم نہ ہو۔ وہ متحدہ بنگال کے وزیراعظم تھے اور کانگریس کے کئی ہندو بنگالی لیڈر متحدہ بنگال کو ایک علیحدہ مملکت بنانے کے لئے تیارتھے۔ زاہد چوہدری کی کتاب ’’بنگالی مسلمان اور تحریک ِ پاکستان‘‘ میں پوری تفصیل بتائی گئی ہے کہ قائداعظمؒ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تھے لیکن گاندھی اور نہرو تیار نہ تھے لہٰذا بنگالی مسلمانوں نے آخری آپشن کے طور پر پاکستان کا حصہ بننا پسند کیا۔ 23مارچ 1940 کی قرارداد کے مطابق مسلمانوں کی ایک سے زائد مملکتیں وجود میں آسکتی تھیں لیکن کانگریس نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر ایک طرف متحدہ بنگال کا راستہ روکا دوسری طرف کشمیر کی آزادی کاراستہ روکا۔ اپنوں کی غلطیوں اور غیروں کی سازشوں سے 16دسمبر 1971 کو بنگالی پاکستان سے علیحدہ ہو گئے لیکن کئی بنگالی دانشور آج بھی کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ ختم نہیں ہوا۔ بنگالیوں نے بنگلہ دیش بنا لیا۔ ہندوستان میں واپس نہیں گئے اور آج بھی کچھ بنگالی دانشوروں کو یقین ہے کہ ایک دن مغربی بنگال بھی بنگلہ دیش کا حصہ بن جائے گا۔
یہ درست ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور ابولالکلام آزاد کااندازہ بھی درست ہو گیا لیکن 23مارچ 1940 کی قرارداد کی سچائی بدستور قائم ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کبھی مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’انڈیا وِنز فریڈم‘‘ کے ان 30صفحات پربھی کالم لکھیں جو ان کی وفات کے 30 سال بعد شائع ہوئے۔ ان 30 صفحات میں مولانا آزاد نے جواہر لال نہرو اور سردارپٹیل کو ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ اگر 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریس یوپی کی حکومت میں مسلم لیگ کو دو وزارتیں دینے سے انکار نہ کرتی تو شاید مسلم لیگ ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ نہ کرتی۔ ہمارے بزرگوں نے جو غلطیاں کیں ان سے انکار ممکن نہیں لیکن مولانا آزادنے کانگریسی لیڈر شپ کی منافقت اور مسلم دشمنی کا پردہ چاک کیا۔ 10اکتوبر 1992 کو ٹائمز آف انڈیا میں سکینہ یوسف خان نےانکشاف کیاکہ مولانا آزادکی ایک کتاب ’’جشن ٓزادی یا تقسیم ہند‘‘ کوشائع نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ اس کتاب میں مولانا آزادنے نہرو اور پٹیل کے علاوہ گاندھی پربھی تنقید کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کاشکریہ کہ ان کے کالم کی وجہ سے ہم نے کچھ مزید کتابیں پڑھ لیں اور ہمیں پتہ چلا کہ تقسیم ہندکی اصل وجہ کانگریسی لیڈرشپ کی منافقت تھی اس لئے بنگلہ دیش اور پاکستان کبھی دوبارہ ہندوستان میںشامل نہ ہوں گے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=156371
 
اثر چوہان نے بھی ایک کالم اس موضوع پر لکھا تھا نوائے وقت میں چند دن پہلے
”....ابُوالکلامی کو، دی سلامی!“
کالم نگار | اثر چوہان

04 دسمبر 2013Tweet
Share




اِس میں کوئی شک نہیں کہ، پاکستان کے نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ”محسنِ پاکستان“ ہیں، لیکن کسی بھی حکومت نے انہیں صدر ِ پاکستان نہیں منتخب کرایا جب کہ بھارت کے معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو صدر منتخب کرایا گیا۔ ڈاکٹر عبداُلکلام کو دوسری بار بھی صدارت کی پیشکش کی گئی تھی لیکن وہ راضی نہیں ہُوئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے امریکہ کو بہت پُرخاش تھی اور پاکستان کے ایٹم بم سے بھی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کو ”اسلامی بم“ کا نام دِیا گیا اور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ”پاکستان دوسرے ملکوں خاص طور پر مسلمان ملکوں کو بھی ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر دے گا“۔
امریکہ چاہتا تھا کہ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اُس کے حوالے کر دے۔ 11اگست 2005ءکو اپنی سالگرہ کے دِن صدر جنرل پرویز مشرف نے جاپانی خبر رساں ایجنسی ”کیوڈو“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا ”اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ شمالی کوریا نے ایٹم بم بنا لیا ہے تو بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اس میں کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ اِس لئے کہ ڈاکٹر صاحب ایٹم بم بنانا ہی نہیں جانتے“۔ بہرحال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ٹیلی ویژن پر آ کر قوم سے معافی مانگنا پڑی، اِس بات کی کہ انہوں نے شمالی کوریا کو صِرف سینیٹری فیوج اور اس کے ڈیزائن فراہم کئے تھے۔ مَیں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں کالم لِکھا تھا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے وہی سلوک کرنا چاہا جو اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے فاتح سندھ محمد بن قاسم سے کیا تھا۔ معافی مانگنے کے باوجود اہلِ پاکستان کے دِلوں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عِزت کم نہیں ہوئی تھی اِس لئے کہ امریکہ اُن کی جان لینا چاہتا تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کو اپنے لئے اسامہ بن لادن سے زیادہ خطرناک سمجھتا تھا۔ اسرائیل نے بھارت کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی تھی تو امریکہ اور اُس کے اتحادی مُلکوں نے اِس کا کوئی نوٹس نہیں لِیا تھا۔
ایٹمی دھماکہ 28 مئی 1998 کو وزیرِاعظم میاں نواز شریف کے دَور میں ہُوا۔ 12 اکتوبر 1999ءکو جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اُس کے بعد تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا صدرِ پاکستان منتخب ہونے کا چانس ہی نہیں تھا۔17جولائی 2012ءکو ڈاکٹر صاحب نے اپنی قیادت میں ”تحریکِ تحفظِ پاکستان“ بنالی اور اُس کو 11مئی 2013 ءکے عام انتخابات میں جھونک دِیا۔ تحریکِ تحفظ پاکستان کو بھاری تو کیا ہلکا مینڈیٹ بھی نہیں مِلا۔ ”محسنِ پاکستان“ کو یقین ہو گیا کہ قوم اُن کے احسان کو بھول گئی چنانچہ انہوں نے ستمبر 2013 کو تحریکِ تحفظِ پاکستان کو خود توڑ دِیا۔ اچھا کِیا یوں بھی انتخابی سیاست اُن کے بس کی بات نہیں ”محسن ِ پاکستان“ نے ایک اور بڑا دھماکا کرکے پوری قوم کو حیران و پریشان کر دیا۔ تحریکِ پاکستان کے کٹر مخالف بانی پاکستان حضرت قائدِاعظمؒ کے بقول ہندوﺅں کی معتصب جماعت کانگریس کے ”شو بوائے“ مولانا ابواُلکلام آزاد کی شان میں نثری قصیدہ لِکھ کر اپنے سارے کئے کرائے پر پانی پھَیر دِیا۔
مَیں ڈاکٹر صاحب کے اس عمل کو ”خود کُش حملہ“ اِس لئے نہیں کہتا کہ مَیں ہمیشہ ہی ڈاکٹر صاحب کی صحت و تندرستی کے لئے دُعا گو رہا ہُوں لیکن سوچتا ہوں کہ کیا تحریکِ پاکستان کے مخالفوں کو ہِیرو ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کسی دِیدہ یا نادیدہ قوت نے ”برین واشنگ کر دی ہے؟ مولانا ابواُلکلام آزاد کو ہندوﺅں کے باپُو گاندھی جی سے عقیدت کی وجہ سے کئی بار انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کرایا گیا اور مولانا آزاد نے بھی اپنے پِیرومُرشد سے وفاداری کا حق ادا کر دِیا۔ کانگریسی عُلما نے مولانا آزاد کو ”اِمام اُلہند“ قرار دِیا یہ کیسا ”امام اُلہند“ تھا جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے گاندھی جی کی اقتداءمیں ”نمازِ سیاست“ ادا کر نے کے لئے اگلی صف میں کھڑا ہوتا تھا؟۔
2 دسمبر کو ”امن کی آشا“ کے ترجمان اردو اخبار ”جنگ“ کے ادارتی صفحہ پر اپنے کالم ”سحر ہونے تک“ میں ”مولانا ابواُلکلام آزاد اور پاکستان“ کے عنوان سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان لِکھتے ہیں۔ ”مولانا ابواُلکلام آزاد ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے نہایت اہم وسرگرم اور قابل لیڈر تھے۔ خزینہ عِلم و دانش تھے۔ کئی زبانوں پر عبور تھا اور پورا ہندوستان ان کی ذہانت کا قائل تھا۔ ہندوستان کے تمام سیاسی لیڈران، عُلماءاور دانشور اُن کی عقل و فراست کے قائل تھے“۔ حیرت ہے کہ مولانا آزاد کی اِن تمام خوبیوں کا عِلم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 77 سال 8 ماہ اور ایک دِن کی عُمر میں ہُوا۔ اس عُمر میں تو ہر انسان کو آخرت کی فِکر ہوتی ہے۔ فارسی کے نامور شاعر عُمرخیام نے دمِ رخصت کہا تھا....
”افسوس کہ حل نگشت، یک مُشکل ِما
رفتیم و ہزار حسرت اندر، دِل ما“
یعنی افسوس کہ (دُنیا میں) ہماری ایک بھی مُشکل حل نہیں ہُوئی جب یہاں سے چلے تو ہزاروں حسرتیں لے کر چلے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم کردار ادا کرنے پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا سا کامیاب و کامران انسان اور کون ہو گا؟ پھر کیا حسرت تھی کہ ”تحریکِ تحفظ پاکستان“ بنائی اور مثبت نتائج حاصل نہ ہونے پر خُود اُسے دفن بھی کر دِیا لیکن سیاست میں ناکام گڑھے مُردے اُکھاڑنے سے کیا فائدہ؟ ہفت روزہ ”چٹان“ کے ایڈیٹر آغا شورش کاشمیری مرحوم کے مولانا ابواُلکلام آزاد سے انٹرویو کے بہانے ڈاکٹر عبدالقدیر خان، قائدِاعظمؒ اور تحریکِ پاکستان کے خلاف طعن وتشنیع کرکے، کِس کو خُوش کرنا چاہتے ہیں؟ خاص طور پر جب پاکستان کے مخالف اپنی کالی زبان اور نظرانِ بد سے پاکستان کو دہشت گردی میں مبتلا دیکھ کر بغلیں بجا رہے ہیں اور ”امام اُلہند“ کے کلاشنکوف بردار پیروکار پاکستان میں اپنی مرضی کے مطابق شریعت نافذ کرنے کے لئے کلمہ گو مسلمانوں کی جان بھی لینے سے دریغ نہیں کرتے۔ اُن کی شریعت کے معیار پر تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اُن کے اہلِ خانہ بھی پُورے نہیں اُترتے۔ ڈاکٹر خان نے، پاکستان کے موجودہ حالات کو بھی ”امام اُلہند“ کی پیش گوئی کے عین مطابق قرار دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان لِکھتے ہیں۔
”آغا شورش کاشمیری نے مولانا ابو اُلکلام آزاد سے سوال کیا کہ ”قیام ِ پاکستان میں بعض عُلماءبھی تو قائد ِاعظمؒ کے ساتھ ہیں“ تو جنابِ آزاد نے جواب دِیا عُلماءتو اکبرِ اعظم کے ساتھ بھی تھے جِس نے ”دِین اکبری“ ایجاد کیا تھا“ اب ”امام اُلہند“ کی رُوح سے کون پُوچھے کہ جِن عُلماءنے (سیاست میں) ”دِین گاندھی“ قبول کر لیا تھا، پھِر اُنہوں نے اور اُن کی صُلبی اور معنوی اولاد نے، پاکستان کو اپنا وطن کیوں بنایا؟ اور بذریعہ اتحادی سیاست، اقتدار کے مزے کیوں لُوٹے اُن کے بارے میں کیا فتویٰ ہے؟ ”امام اُلہند“ کی رحلت کے 55 سال اور 10ماہ بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اپنا سیاسی قِبلہ درست کرنے پر شاعرِ سیاست کہتے ہیں....
”ہے اُن کا ہر قول”قولِ فیصل“
نہ کوئی لغزش، نہ کوئی خامی
جناب ِ عبداُلقدِیر خاں نے،
”ابو اُلکلامی“ کو، دی سلامی“
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/04-Dec-2013/262778
بشکریہ نوائے وقت
 
Top