آیے مستقبل تلاشیں ۔

آوازِ دوست

محفلین
حال کی تمنا حسرت میں بدل جائے تو ہم کیا کریں ؟ بندہ جائے تو کہاں جائے ؟
آپ حال کی سرحدوں کو اپنے لمحہء موجود تک محدود کر لیں تو اِس کے جواب میں حسرتوں کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اپنے حال کو اپنی سوچ کے پھیلاؤ کا ساتھ دینے دیں تو حسرتوں کے ساتھ حاصلات بھی نظر آنے لگیں گے۔ پھر آپ دیکھ لیں کہ حاصل و حسرت کا انجام الگ سہی مگر مقام ایک ہی ہے اور انجام کیا خوب کہ حسرت تو زندہ رہے اور حاصل بے توقیر ہو جائے۔ جسے بہت چاہیں اُسے اپنی حسرتوں میں سمو لیں وہ امر ہو جائے گا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
کیا دنیا میں خواہشوں کا آسمان نہیں ہوتا ؟ کیا خواہش مجاز کی ہوتی ہے ؟ حقیقت کی خواہش کوئی نہیں کرسکتا ؟ اور تپتے صحراؤں میں حقیقت پالینے والے سُرور کی بے پایاں کیفیت سے محروم رہتے ہیں ؟
آپ کے لیے آپ کی اپنی ذات سے زیادہ قابلِ تجربہ حقیقت کوئی نہیں ہوتی سارے رنگ اِسی کینوس پر اُترتے ہیں مجاز کے ہوں یا حقیقت کے ۔ جب حقیقت کی جلوہ نمائی دیکھنی ہو تو ہمیں آئینہ بننا پڑتا ہے اور آئینے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی بلکہ خواہش تو آئینے کا بال ہے سو آئینہ جتنا بے عیب اور بے داغ ہو گا حقیقت اُتنی ہی صاف دِکھائی دے گی۔
 

الشفاء

لائبریرین
نوٹ: لڑی پڑھنے والے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی خواہشات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے تبصرہ رسید کریں .

آ کہ نذر درد الفت ہر خوشی کرتے ہیں ہم
آ کہ قرباں آخری ارمان بھی کرتے ہیں ہم
آرزو یہ ہے کہ کوئی آرزو پوری نہ ہو
آرزو بھی کس قدر حسرت بھری کرتے ہیں ہم
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ نے اوپر قناعت کی بات کی ہے . قناعت پر اضطراب ہوتا ہے ؟ اور ہوتا ہے تو خواہش کے ہونے سے ہوتا ہے ۔ آپ نے دو باتیں کی ہیں ۔ مجھے سمجھایے کچھ کہ سمجھ نہیں آئی ہے ۔ اور اضطراب خواہش سے ہے تو کیا ہم خود کو مضطرب رکھیں یہ سوچ کہ خواہش تو مل نہیں پائے گی ۔ یہ تو بے یقینی کی حالت ہے ۔
خواہش اضطراب کا ایندھن ہے اور صبر و قناعت اِس کی آگ کو محفوظ حدوں میں رکھنے کی حکمت ہے۔
 

آوازِ دوست

محفلین
چیزوں کی طرف جانا ، کشش کرنا ، محبت ہونا ، حقیقی ہو مجازی ہو ۔۔۔ جو بھی خواہش ہو کیا تجربہ نہیں چاہتی ۔ آپ منع کر رہے ہیں خواہش نہ کرو، اس صورت میں کیا کرنا ہوگا کہ یہ بھی ممانعت ہے
زندگی ہر لحظہ نت نئے تجربات چاہتی ہے اگر ہم زندگی کے پیچ و خم اور اپنی لمیٹیشنز سے بخوبی آشنا ہوں تو ہر تجربہ کر سکتے ہیں۔
 

آوازِ دوست

محفلین
مصطفی کی مثال دی تھی ۔ انتہائیں دو اقسام کی ہیں ۔ ایک خلا کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری ستاروں کی طرف ۔ خلا ایک حسرت ۔۔ حسرت جی لیجئے اور جو حسرت جیتے ہیں وہ خود کشی کرتے ہیں ۔ وہ جو مظہر سے جڑ جاتے ہیں وہ اقبال و رومی و جامی بن جاتے ہیں ۔
انتہاؤں کی عجیب فطرت ہے کہ وہ کسی بھی سمت میں چلی جائیں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی دردِ مشترک ڈھونڈ ہی لیتی ہیں۔
 
مستقبل تلاشنے سے بہتر ہے کہ مستقبل تراشا جائے۔
باقی خواہشات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا، وہ فطرتِ انسانی میں ہے۔
لیکن جب بھی کبھی کوئی خواہش کوشش کے باوجود پوری نہ ہو سکی، اس پر دکھ تو ہوا مگر اللہ کی رضا سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔
 

آوازِ دوست

محفلین
مستقبل تلاشنے سے بہتر ہے کہ مستقبل تراشا جائے۔
باقی خواہشات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا، وہ فطرتِ انسانی میں ہے۔
لیکن جب بھی کبھی کوئی خواہش کوشش کے باوجود پوری نہ ہو سکی، اس پر دکھ تو ہوا مگر اللہ کی رضا سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔
یہ ہوتی ہیں کامیاب لوگوں کی باتیں۔ صدیقی صاحب اگر ہم اِن فضول سوچوں میں نہ اُلجھتے تو آج آپ جیسے اچھے پروگرامر نہ ہوتے :)
 
یہ ہوتی ہیں کامیاب لوگوں کی باتیں۔ صدیقی صاحب اگر ہم اِن فضول سوچوں میں نہ اُلجھتے تو آج آپ جیسے اچھے پروگرامر نہ ہوتے
آپ کی محبتوں کا شکریہ۔
کامیاب ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ ہوں۔ ویسے بھی کامیابی، ناکامیوں کا حاصل ہوتی ہے۔
پروگرامر اچھا ہونا شوق کے ساتھ ساتھ رزقِ حلال کمانے اور کچھ مزید خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ضروری بھی ہے۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ حال کی سرحدوں کو اپنے لمحہء موجود تک محدود کر لیں تو اِس کے جواب میں حسرتوں کا دائرہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اپنے حال کو اپنی سوچ کے پھیلاؤ کا ساتھ دینے دیں تو حسرتوں کے ساتھ حاصلات بھی نظر آنے لگیں گے۔ پھر آپ دیکھ لیں کہ حاصل و حسرت کا انجام الگ سہی مگر مقام ایک ہی ہے اور انجام کیا خوب کہ حسرت تو زندہ رہے اور حاصل بے توقیر ہو جائے۔ جسے بہت چاہیں اُسے اپنی حسرتوں میں سمو لیں وہ امر ہو جائے گا۔

زندگی ڈومین اور رینج کے دائرے میں محدود ایک بند گلی ہے۔ اس میں جینا آدم کی بندگی ہے یا نظریاتی وابستگی کہ زندگی میں ہم ویری ایبلز کے بغیر چل نہیں سکتے ہیں ۔ کانسٹنٹ ہر انسان کے اندر موجود ہے ۔ یہ کانسٹنٹ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اور اس ڈومین سے کئی سیٹ کی رینجز بن جاتی ہے یا کہیں کہ لامحدود رینجز ہیں ۔ یہ تو انسان کی باطنی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اس سے ایک دائرے میں موجود رینج سے کام لیتا ہے ۔ یا کئی دائروں پر مشتمل رینج سے کام لیتا ہے ۔ آپ کہتے ہیں اس کی رینج صفر کرکے دو عددی سیٹ بنادو۔ اپنا دائرہ خود محدود کرلو۔ یعنی جو صلاحیت و اختیار کی عطاء ہے اس کو خود محدود کرلیا جائے تاکہ یاس سے بھرپور خاکے ، ناکامی کے صدمے دنیا سن کر یہ سوچ لے کہ بادشاہِ وقت کی تمام رینجز بےکار ہوگئیں اس لیے ہم بھی ناکام بھلے

لگتا نہیں ہے جی مِرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید لکّھی تھی فصلِ بہار میں
کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں
ایک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادمان
کانٹے بچھا دیے ہیں دل لالہ زار میں
عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


کیا پتا یہ زیادہ اپیل کرلے ۔

جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں
(فیض)
اس وقت تو یُوں لگتا ہے
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے

یا
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

ساحر لدھیانوی

برتر از اندیشہء سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں،پیہم دواں’ ہر دم جواں ہے زندگی

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدام ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی

ان میں امید کے چراغ اور یقین کی روشنی حسرت کا نشان ختم نہیں کر رہی؟ ایک دل میں یا تو حسرت رہتی ہے یا امید ۔۔ حسرت اور امید یکجاں ہو سکتے ہیں؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
آپ کے لیے آپ کی اپنی ذات سے زیادہ قابلِ تجربہ حقیقت کوئی نہیں ہوتی سارے رنگ اِسی کینوس پر اُترتے ہیں مجاز کے ہوں یا حقیقت کے ۔ جب حقیقت کی جلوہ نمائی دیکھنی ہو تو ہمیں آئینہ بننا پڑتا ہے اور آئینے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی بلکہ خواہش تو آئینے کا بال ہے سو آئینہ جتنا بے عیب اور بے داغ ہو گا حقیقت اُتنی ہی صاف دِکھائی دے گی۔

آپ کے خیال میں انسان حقیقت کو تلاش کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھے تو معرفت نفس ، معرفت الہی ، معرفت آخرت کیا ہے ؟ یہ خواہشیں نہیں ہیں ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
آ کہ نذر درد الفت ہر خوشی کرتے ہیں ہم
آ کہ قرباں آخری ارمان بھی کرتے ہیں ہم
آرزو یہ ہے کہ کوئی آرزو پوری نہ ہو
آرزو بھی کس قدر حسرت بھری کرتے ہیں ہم
یہاں پر سب خواہشات فراموش کیے بیٹھے ہیں ۔ ایک مجھے ہی خواہش ستا رہی ہے ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
پائی کی قیمت کیا ہر انسان کی کانسٹنٹ ہوتی ہے؟

پائی کی قیمت یعنی بائیس بٹا سات کا حتمی تعین ناممکن ہے لیکن ہم اِس کی قیمت کو اپنے درستگی کے مطلوبہ درجے کی صحت تک لا کر استعمال کرتے ہوئے اِس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ یہ پائی کی حقیقی قیمت نہیں ہے یا دوسرے لفظوں میں درستگی کا مزید بہتر معیار ہمارے لیے بے معنی ہو جاتا ہے تو یہ بات یاد رہے کہ ہماری ساری حقیقتیں مفروضی ہو سکتی ہیں ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے


شائد اضطراب انسان و حیوان کا کانسٹینٹ ہے جو شجر و حجر میں نہیں ہوتا۔

کیا اضطراب کانسٹنٹ ہے ِ؟ دنیا میں اضطراب فرضی ہے کہ اس کی ایک قیمت ہے اس کے بعد خوشی شروع ہوجاتی ہے ۔ آپ کے نزدیک پودے پتھروں کی طرح ہیں ۔ پودے پورا اعصابی نظام رکھتے ہیں جو انسانوں سے قدرے سے مختلف ہے ۔ یہ تو آپ نے زیادتی کردی ہے ۔ مضطرب تو ہر ذی نفس ہے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
مجاز کو مراقبے اور نفس شناسی سے کیا لینا وہ تو خود اطاعتِ نفس ہے۔

یہ تو بہت بڑی غلط فہمی ہے ۔ ہمارے تعلیمی نظام کی بنیاد میں بگاڑ اس سُوچ سے پیدا ہوا ہے ۔ تعلیم چاہے مجاز کی یا حقیقت کی اس کو تخییل چاہیے ، اس کو تخلیق چاہیے ، وہ تخلیقی جس سے انسان کی صلاحیت ابھرتی ہیں ۔ کیمبرج اسکولز میں بچوں کی حسیات تیز کی جاتی ہے تاکہ ان کا تخییل تیز ہو۔ جبکہ حکومتی اداروں میں الفاظ کی پیروی کروائی جاتی ہے ۔ جب تک آپ خود کو پہچان نہیں لیتے ، آپ کامیاب کیسے ہوسکتے ہیں ؟ آپ ہی بتایے اب
 

الشفاء

لائبریرین
یہاں پر سب خواہشات فراموش کیے بیٹھے ہیں ۔ ایک مجھے ہی خواہش ستا رہی ہے ۔
خواہشات فراموش نہیں ہوئیں۔ البتہ ایک خواہش پر باقی ساری خواہشیں قربان کر دی گئی ہیں۔۔۔ اگر آپ غور کریں تو اُس قطعے کے ہر مصرع میں ایک لطیف سی خواہش کو موجود پائیں گی۔۔۔:)
 

محمدظہیر

محفلین
آپ کی سب خواہشات پوری ہوچکی ہیںِ ؟
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
مرزا غالب کے شعر کو جگجیت سنگھ نے بہت اچھے انداز میں پڑھا ہے۔ آپ کے پاس وقت ہو تو یوٹیوب پر سنیے گا۔
 
Top