آیا خیال تیرا دل میں بہار بن کر---------برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن (خلیل بھائی فی الحال اس کو چیک کر لیں)
محمّد احسن سمیع راحل؛
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
------------
آیا خیال تیرا دل میں بہار بن کر
ایسے ہی تُو بھی آ جا میرا قرار بن کر
-----------
جتنے بھی غم ہیں تیرے اُن کو مرا بنا دو
گھوموں گا گرد تیرے تیرا حصار بن کر
-------
دل ہے اداس میرا دیکھے بغیر تجھ کو
دوری کا یہ تصوّر چھایا بخار بن کر
----------
سایہ ہوا میسّر زلفوں کا آج تیری
خوشبو برس رہی ہے مجھ پر پھوار بن کر
------------
تیری خوشی پہ میری اب ہر خوشی ہے قرباں
آئے ہو میرے گھر میں جیسے بہار بن کر
----------
تجھ سے وفا میں آئے اب موت بھی گوارا
جینا ہے اب تو تیرا ہی جانثار بن کر
-------------
کرتا ہے آج تجھ سے ارشد وفا کا وعدہ
دل میں رہے گا تیرے وہ اعتبار بن کر
----------
 
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن (خلیل بھائی فی الحال اس کو چیک کر لیں)
محمّد احسن سمیع راحل؛
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
------------
آیا خیال تیرا دل میں بہار بن کر
ایسے ہی تُو بھی آ جا میرا قرار بن کر
-----------
جتنے بھی غم ہیں تیرے اُن کو مرا بنا دو
گھوموں گا گرد تیرے تیرا حصار بن کر
-------
دل ہے اداس میرا دیکھے بغیر تجھ کو
دوری کا یہ تصوّر چھایا بخار بن کر
----------
سایہ ہوا میسّر زلفوں کا آج تیری
خوشبو برس رہی ہے مجھ پر پھوار بن کر
------------
تیری خوشی پہ میری اب ہر خوشی ہے قرباں
آئے ہو میرے گھر میں جیسے بہار بن کر
----------
تجھ سے وفا میں آئے اب موت بھی گوارا
جینا ہے اب تو تیرا ہی جانثار بن کر
-------------
کرتا ہے آج تجھ سے ارشد وفا کا وعدہ
دل میں رہے گا تیرے وہ اعتبار بن کر
----------
لگتا ہے بہت جلدی میں ہیں ارشد بھائی یا ابھی تک شتر گربہ سمجھ نہیں پائے۔ لیجیے! ہم پھر ایک مرتبہ کوشش کرتے ہیں۔

جب کسی ایک شعر میں "میں" اور "ہم" یا "تو" ٫ "تم" اور "آپ" اکٹھے استعمال کیے جائیں تو اس سقم کو "شتر گربہ" کہتے ہیں۔ اس مرتبہ تو آپ کے دو اشعار میں یہ سقم نظر آرہا ہے۔

جتنے بھی غم ہیں تیرے اُن کو مرا بنا دو
گھوموں گا گرد تیرے تیرا حصار بن کر

تیری خوشی پہ میری اب ہر خوشی ہے قرباں
آئے ہو میرے گھر میں جیسے بہار بن کر
 
بھائی کیا اس طرح ٹھیک ہو سکتا ہے
-----------
جتنے بھی غم ہیں تیرے میرے وہ اب بنیں گے
گھوموں گا گرد تیرے تیرا حصار بن کر
-----------
تیری خوشی پہ میری اب ہر خوشی ہے قرباں
آئے ہیں میرے گھر میں جیسے بہار بن کر
------یا
آیا ہے میرے گھر میں جیسے بہار بن کر
 
الف عین
( ریوائزڈ )
آیا خیال تیرا دل میں بہار بن کر
ایسے ہی تُو بھی آ جا میرا قرار بن کر
-----------
جتنے بھی غم ہیں تیرے میرے وہ اب سے ہوں گے
رہنا ہے مجھ کو تیرا یوں پاسدار بن کر
----------
اپنے میں سر پہ لوں گا ہر اک ہی بار تیرا
تیرا میں ساتھ دوں گا یوں سایہ دار بن کر
----------
سایہ ہوا میسّر زلفوں کا آج تیری
خوشبو برس رہی ہے مجھ پر پھوار بن کر
------------
گھر میں مرے ہے رونق دل کی طرح ہی میرے
آئے ہو میرے گھر میں تم جو بہار بن کر
----------
تجھ سے وفا میں آئے اب موت بھی گوارا
جینا ہے اب تو تیرا ہی جانثار بن کر
-------------
ویران لگ رہی تھی تجھ بن مجھے یہ دنیا
اٹھتی تھیں دل سے آہیں جیسے پکار بن کر
------------
کرتا ہے آج تجھ سے ارشد وفا کا وعدہ
دل میں رہے گا تیرے وہ اعتبار بن کر
----------
 

الف عین

لائبریرین
آیا خیال تیرا دل میں بہار بن کر
ایسے ہی تُو بھی آ جا میرا قرار بن کر
----------- درست، لیکن 'دل میں' کے بدلے اگر ' جیسے' کر دیں تو!

جتنے بھی غم ہیں تیرے میرے وہ اب سے ہوں گے
رہنا ہے مجھ کو تیرا یوں پاسدار بن کر
---------- اب سے وہ میرے ہوں گے
شاید زیادہ رواں ہو

اپنے میں سر پہ لوں گا ہر اک ہی بار تیرا
تیرا میں ساتھ دوں گا یوں سایہ دار بن کر
---------- یہ ایسی عجیب و غریب ترتیب آپ کو نہ جانے کیسے سوجھتی ہے! میں اپنے سر پہ لوں گا... سامنے کی بات تھی! ہر اک بوجھ کے بدلے سارا بوجھ بہتر نہیں؟ لیکن دوسرے مصرعے سے قوی تعلق نہیں بن رہا ہے، سایہ دار پیڑ ہوتا ہے جو دھوپ سے بچاتا ہے۔ بوجھ اپنے سر پر نہیں لے لیتا!

سایہ ہوا میسّر زلفوں کا آج تیری
خوشبو برس رہی ہے مجھ پر پھوار بن کر
------------ درست، پہلا مصرع مزید رواں ہو سکتا ہے، جیسے
ان گیسوؤں کا سایہ مجھ کو ہوا میسر
یا
ان گیسو...... جب مجھ کو مل گیا ہے

گھر میں مرے ہے رونق دل کی طرح ہی میرے
آئے ہو میرے گھر میں تم جو بہار بن کر
---------- پہلا مصرع مزید رواں بنائیں، دل میں پہلے سے رونق کیسی تھی؟
دوسرا بھی
جب سے تم آ گئے ہو گھر میں بہار بن کر
بہتر ہے

تجھ سے وفا میں آئے اب موت بھی گوارا
جینا ہے اب تو تیرا ہی جانثار بن کر
------------- روانی؟ وفا کہنا ہی کافی ہے، 'تجھ سے' کی تخصیص ضروری نہیں
تیرا.... ہی اچھا نہیں لگ رہا، 'ہی' بھرتی کا ہے

ویران لگ رہی تھی تجھ بن مجھے یہ دنیا
اٹھتی تھیں دل سے آہیں جیسے پکار بن کر
------------ دو لخت، صیغہ ماضی میں ہی کیوں؟

کرتا ہے آج تجھ سے ارشد وفا کا وعدہ
دل میں رہے گا تیرے وہ اعتبار بن کر
---------- یہ بھی دو لخت، یہ وفا کا ثبوت تو نہیں سمجھا جا سکتا۔ محض وعدہ کہنا ہی کافی ہو گا۔ پھر یہ رو محبوب کی اپنی پسند پر منحصر ہو گا کہ وہ آپ کو اعتبار کی صورت دل میں رکھ لے، عاشق زبردستی وعدہ کیسے کر سکتا ہے؟
 
الف عین
(ایک بار پھر )
آیا خیال تیرا جیسے بہار بن کر
ایسے ہی تُو بھی آ جا میرا قرار بن کر
-----------
جتنے بھی غم ہیں تیرے سارے ہی میں سہوں گا
رہنا ہے مجھ کو تیرا یوں پاسدار بن کر
----------
تیرے نہ سر پہ آئے کوئی بھی دھوپ غم کی
تیرا میں ساتھ دوں گا یوں سایہ دار بن کر
----------
ان گیسوؤں کا سایہ مجھ کو ہوا میسر )زلفوں کا تیری سایہ مجھ کو ہوا میسّر)
خوشبو برس رہی ہے مجھ پر پھوار بن کر
--------

گھر میں مرے یہ رونق دل کی طرح ہے تم سے
جب سے تم آ گئے ہو گھر میں بہار بن کر


مجھ کو وفا میں آئے اب موت بھی گوارا
تیرا سدا رہوں گا میں جانثار بن کر
-------------

ویران لگ رہی ہے تجھ بن مجھے یہ دنیا
اٹھتی ہیں دل سے آہیں جیسے شرار بن کر
------------

ارشد نے جو کیا ہے وعدہ کرے گا پورا
دل میں رہے گا تیرے وہ اعتبار بن کر
----------
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دو اشعار درست ہو گئے
تیرے نہ سر پہ آئے کوئی بھی دھوپ غم کی
تیرا میں ساتھ دوں گا یوں سایہ دار بن کر
---------- ہر ممکنہ ترتیب پر اب بھی غور نہیں کرتے... ٹکڑا نمبر ١
تیرے نہ سر پہ آئے
سر پر نہ تیرے آئے
آئے نہ سر پہ تیرے
اور اگر زیادہ واضح کرنا ہو تو
سر پر نہ آنے دوں گا
دیکھیے، شاید سب سے خراب وہی ٹکڑا لگتا ہے جو آپ نے پوسٹ کیا ہے
دوسرے ٹکڑے
تیرا میں ساتھ دوں گا
میں ساتھ دوں گا تیرا
دوں گا میں ساتھ تیرا
اب آپ ہی سوچیں کہ کون سا ٹکڑا بہتر ہے

ان گیسوؤں کا سایہ مجھ کو ہوا میسر )زلفوں کا تیری سایہ مجھ کو ہوا میسّر)
خوشبو برس رہی ہے مجھ پر پھوار بن کر
-------- تیری زلفوں کا سایہ' ہوتا تو درست تھا لیکن زلفوں کا تیری سایہ؟ اسی لئے میں نے تیری تیرا کا جھنجھٹ ہی دور کرنا پسند کیا تھا

گھر میں مرے یہ رونق دل کی طرح ہے تم سے
جب سے تم آ گئے ہو گھر میں بہار بن کر
... سوال تو اب بھی باقی ہے کہ دل میں کس چیز کی رونق ہے؟ جس سے مقابلہ کیا جا رہا ہے!

مجھ کو وفا میں آئے اب موت بھی گوارا
تیرا سدا رہوں گا میں جانثار بن کر
------------- 'تیرا سدا رہوں گا' سے بات مکمل ہوتی لگتی ہے، یعنی اس طرف خیال نہیں جاتا کہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ 'میں سدا تیرا جانثار بن کر رہوں گا'

ویران لگ رہی ہے تجھ بن مجھے یہ دنیا
اٹھتی ہیں دل سے آہیں جیسے شرار بن کر
------------ ربط مضبوط تو اب بھی نہیں لیکن گوارا کیا جا سکتا ہے

ارشد نے جو کیا ہے وعدہ کرے گا پورا
دل میں رہے گا تیرے وہ اعتبار بن کر
------- وہی بات جو میں نے پہلے لکھی تھی، ارشد وعدہ پورا کرے یا نہ کرے، اس کی دھونس یے کہ محبوب کے دل میں اعتبار یا کچھ اور بھی، بن کر رہے؟
 
Top