آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا ۔ میر وزیر علی صبا لکھنوی

فرخ منظور

لائبریرین
آیا جو موسمِ گل تو یہ حساب ہو گا
ہم ہوں گے، یار ہو گا، جامِ شراب ہو گا

نالوں سے اپنے اک دن وہ انقلاب ہو گا
دم بھر میں آسماں کا عالم خراب ہو گا

دکھلائیں گے تجھے ہم داغِ جگر کا عالم
منہ اس طرف کبھی تو اے آفتاب ہو گا

اے زاہدِ ریائی دیکھی نماز تیری
نیت اگر یہی ہے تو کیا ثواب ہو گا

وہ ردِ خلق ہوں میں گر ڈوب کر مروں گا
مُردا مرا وبالِ دوشِ حباب ہو گا

وہ مست ہیں، ادھر تو رکھتے نہیں ہیں ساغر
مغرب سے ہاں نمایاں جب آفتاب ہو گا

اے زود رنج تجھ پر جو لوگ جان دیں گے
رہ رہ کے تربتوں میں ان پر عذاب ہو گا

تو نقدِ دل کو لے کر مُکرا تو ہے، ٹھہر جا
روزِ حساب، میرے تیرے حساب ہو گا

اللہ رے ان کا غصہ، اتنا نہیں سمجھتے
کیوں کر کوئی جیے گا، جب یوں عتاب ہو گا

داغِ جگر کو لے کر جائیں گے ہم جو اے دل
جنت میں حوریوں کو رہنا عذاب ہو گا

اے چرخِ پیر اب تو یہ حال ہے ستم کا
کیا ہو گا، جن دنوں میں تیرا شباب ہو گا

سر گشتگی میں میرا کیا ساتھ دے سکے گا
اے آسماں ٹھہر جا، ناحق خراب ہو گا

لکھے کی کیا خبر تھی، یہ کون جانتا تھا
لیلیٰ کے ساتھ پڑھ کر مجنوں خراب ہو گا

(میر وزیر علی صبا لکھنوی)
 
Top