آگ میں جلتے مکانوں کا دھواں دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔برائے اصلاح

اسد قریشی

محفلین
کچھ وقفے کے بعد چند اشعار لے کر حاضر ہوں برائے اصلاح و تنقید۔۔۔۔۔۔​
آگ میں جلتے مکانوں کا دھواں دیکھا ہے
ہم نے دیکھا ہےجو وہ تم نے کہاں دیکھا ہے
خواب دنیا نے ابھی تک کہ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اُڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
شاید اس آس پہ سویا ہے بلکتا بچّہ
اُس نے اُٹھتا جو انگیٹھی سے دھواں دیکھا ہے
دید کو ترسی ہوں آنکھیں بھی لہو بھی برسے
وسطِ صحرا میں کوئی دریا رواں دیکھا ہے
وہ محبت ہو، سیاست ہو، عداوت کچھ بھی
دل نے ہر رنگ میں نیرنگِ جہاں دیکھا ہے
تم کو معلوم کہاں درد کی شدّت اب تک
سانس لیتے ہوئے زخموں کو میاں دیکھا ہے
حق و باطل کی لڑائی میں کبھی ایسے بھی
سر کوئی تم نے سرِ نوکِ سناں دیکھا ہے
 
آگ میں جلتے مکانوں کا دھواں دیکھا ہے
ہم نے دیکھا ہےجو وہ تم نے کہاں دیکھا ہے
کیا خوب مطلع ہے۔۔ واہ۔​
خواب دنیا نے ابھی تک کہ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اُڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
پہلے مصرع میں روانی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔ دوسرا مصرع خوب ہے۔ پہلے کو آزاد کیوں نہیں کر لیتے؟
جیسے: خواب دنیا نے کہاں دیکھے ہیں اس روز تلک
مجھے تو اس مصرع میں بھی مزہ نہیں آتا۔ خیر آپ شاعر ہیں دیکھ لیجے گا۔
شاید اس آس پہ سویا ہے بلکتا بچّہ
اُس نے اُٹھتا جو انگیٹھی سے دھواں دیکھا ہے
بہت خوب ۔۔ زبردست۔​
دید کو ترسی ہوں آنکھیں بھی لہو بھی برسے
وسطِ صحرا میں کوئی دریا رواں دیکھا ہے
پہلا مصرع شعر کے وجود کو کرکرہ کر رہا ہے۔ دیکھ لیجے گا۔​
وہ محبت ہو، سیاست ہو، عداوت کچھ بھی
دل نے ہر رنگ میں نیرنگِ جہاں دیکھا ہے
بہت اچھے۔​
تم کو معلوم کہاں درد کی شدّت اب تک
سانس لیتے ہوئے زخموں کو میاں دیکھا ہے
واہ کیا کہنے!​
حق و باطل کی لڑائی میں کبھی ایسے بھی
سر کوئی تم نے سرِ نوکِ سناں دیکھا ہے
لا جواب۔​
جناب بہت خوبصورت کلام ہے، اور معنی خیز۔ اس میں ہمیں واقعہ کربلا کا نقش نظر آتا ہے۔
 
اسد ٖقریشی صاحب۔ میں خود نو آموز ہوں اور آپ جیسے شاعر کو کچھ بتانا چھوٹا منہ بڑی بات کے متردف ہے۔ پھر بھی ایک بات ذہن میں آئ ہے تو آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔
خواب دنیا نے ابھی تک کہ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
اس شعر کو اگر یوں کردیں تو کیسا لگے
خواب دنیا نے ابھی کوئ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
اک اورشعر ہے
دید کو ترسی ہوں آنکھیں بھی ، لہو بھی برسے
وسط ِ صحرا میں کوئ دریا رواں دیکھا ہے
اسے اگر یوں کر دیں
پھر لہو رنگ ہوئ جاتی ہیں پیاسی آنکھیں
وسطِ صحرا میں کوئ دریا رواں دیکھا ہے
صرف مشورہ ہے معذرت کے ساتھ۔
 

اسد قریشی

محفلین
مہدی نقوی حجاز صاحب اور محمد حفیظ الرحمٰن صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ دونوں صاحبان کی نگاہ نوازی کا بے حد ممنون ہوں۔ بھائی میں کوئی شاعر نہیں بہت معمولی سا انسان ہوں کچھ استاد شعرا کے کچھ الفاظ جوڑ لیتا ہوں اور کچھ بھی نہیں۔ جہاں تک آپ کے مشورے کی بات ہے تو بھائی یہاں غزل لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ آپ احباب سے مشورہ کیا جائے۔۔۔۔۔۔اس میں قطعن برا مانے کی کوئ بات ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔بلکہ میں تو بے حد ممنون ہوں۔۔۔۔
 

اسد قریشی

محفلین
اسد ٖقریشی صاحب۔ میں خود نو آموز ہوں اور آپ جیسے شاعر کو کچھ بتانا چھوٹا منہ بڑی بات کے متردف ہے۔ پھر بھی ایک بات ذہن میں آئ ہے تو آپ سے شیئر کر رہا ہوں۔
خواب دنیا نے ابھی تک کہ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
اس شعر کو اگر یوں کردیں تو کیسا لگے
خواب دنیا نے ابھی کوئ کہاں دیکھا ہے
آنکھ میں اڑتا ہوا صرف گماں دیکھا ہے
اک اورشعر ہے
دید کو ترسی ہوں آنکھیں بھی ، لہو بھی برسے
وسط ِ صحرا میں کوئ دریا رواں دیکھا ہے
اسے اگر یوں کر دیں
پھر لہو رنگ ہوئ جاتی ہیں پیاسی آنکھیں
وسطِ صحرا میں کوئ دریا رواں دیکھا ہے
صرف مشورہ ہے معذرت کے ساتھ۔

بہت شکریہ جناب آپ کے دونوں مشورے دل کو لگے۔۔۔۔۔۔دیگر احباب کی بھی رائے دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔۔
 
بھائ اسد قریشی صاحب۔ بہت شکریہ۔ دراصل ہم سب ہی یہاں کچھ سیکھنے اور کچھ حاصل کرنے کی غرض سے آتے ہیں ۔ آپ کی غزلیں پڑھ کر میں کتنا کچھ سیکھتا ہوں یہ میں ہی جانتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، سب سے پہلے مجھے بھی ’کہ کہاں‘ ہی کھٹکا، اور اتفاق سے دوسرے مراسلے پڑھے بغیر میرے ذہن میں بھی اسی مصرع کی تبدیلی کا وہی خیال آیا جو حفیظ نے مشورہ دیا ہے۔ دوسرے شعر کی اصلاح کی ضرورت تو نہیں تھی، لیکن حفیظ کی تصحیح سے اس کا حسن واقعی بہت بڑھ گیا ہے۔ اور مجھے اس کا پہلا مصرع بھی بے حد سپاٹ محسوس ہو رہا ہے، اس کا بھی کچھ کرو
وہ محبت ہو، سیاست ہو، عداوت کچھ بھی
دل نے ہر رنگ میں نیرنگِ جہاں دیکھا ہے
 
Top