آپ کے ہاں سائلین کس طرح فریاد کرتے ہیں؟؟؟

جاسمن

لائبریرین
میں نے ریل گاڑی کا بہت سفر کیا ہے۔ ایک خاتون ایک اسی طرح کا پرچہ ہارڈ شکل میں یعنی گتے پہ چھپا ہوا سب کی گود میں ڈال دیتی اورڈبے میں آگے چلتی جاتی پھر واپسی پہ واپس لیتی جاتی اور پیسے لینے کے لیے ہاتھ بڑھا دیتی۔ اس طرح اسے معمولی محنت کرنی پڑتی۔میں نے اس طرح کے بھکاریوں کو کبھی بھیک نہیں دی۔ اور ایسا بھی شخص اِن ہی ریل گاڑیوں پہ دیکھا جو دونوں بازووں سے محروم تھا اور گلے میں پڑیاں ڈال کے بیچ رہا تھا۔ بہت مطمئن۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت سے لوگ بہت سے طریقوں سے مانگتے ہیں۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ "صبح کا فقیر" اور "شام کا فقیر" کی روایت بھی دیہاتوں میں ہوا کرتی تھی۔ (ہمارے علاقے میں گداگر کے لیے فقیر کا لفظ عام مستعمل ہے۔۔ وضاحت اس لیے دے رہا ہوں کہ کوئی زود تصوف آدمی اس کے لغوی و صوفی معانی کی بحث نہ شروع کر دے)۔ بڑھتے ہوئے گداگروں نے ان کے درمیان بھی مقابلہ بازی کی فضا قائم کر دی۔ کوئی فقیر ہوا کرتا تھا۔ وہ صرف آٹا لیا کرتا تھا۔ محلے میں کوئی بھی اس کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتا تھا۔ اس طرح کے بہت سے گداگروں میں جو انداز آج تک مجھے یاد ہے۔ وہ ایک صبح کے فقیر کا ہوا کرتا تھا۔ اب احباب منع بھی کریں۔ تب بھی واقعہ تو میں سناؤں گا۔
ہمارے محلے میں یہ فقیر صرف جمعے والے دن فجر کی نماز کے فورا بعد آیا کرتا تھا۔ اس کا انداز بہت ہی عجیب تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی ہوا کرتی تھی۔ جس کے ایک سرے سے یہ دروازوں پر دستک دیتا جاتا تھا۔ ہر دروازہ صرف ایک بار کھٹکھٹاتا۔ محض ایک بار۔ اس کی آواز ایک تسلسل سے گونجا کرتی تھی۔ "حق حق اللہ، حق حق اللہ۔ حسین دا ابا۔ سب دا مولا۔ حق حق اللہ۔ حق حق اللہ"۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس کے علاوہ کبھی اس کو کچھ اور کہتے سنا ہو۔ یہ رکا نہیں کرتا تھا۔ بس گذرتا جاتا تھا۔ اگر کوئی اس کو روک لیتا۔ تو یہ اپنی اسی جگہ پر رک جاتا۔ اور واپس نہیں آیا کرتا تھا۔ اگر کسی کو کوئی چیز دینی ہوتی تھی۔ تو وہاں جا کر دے کر آنی پڑتی تھی۔ بہت دلچسپ ادا تھی۔
مدتوں مجھے اس کو دیکھنے کی بہت حسرت رہی۔ یہ حسرت بھی ایک دن پوری ہوئی۔ لیکن بات طویل ہوجائے گی۔ اور شاید موضوع سے بھی ہٹ جائے۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
لاہور میں گداگر گالیاں بھی بکتے ہیں۔ اگر آپ ان کو روپے پیسے نہ دو تو یہ گالیاں بکنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس میں سب سے خطرناک قسم کھسرے حضرات کی ہے۔ وہ تو پنجابی کی زبان زد عام گالیوں کا بہت روانی سے استعمال کرتے ہیں۔
 
خادم نے نہ صرف پٹھان بھکاری دیکھے ہیں بلکہ بدقسمتی سے ایسے پیشوں سے منسلک بھی دیکھا ہے جو پٹھانوں کے متعلق ہم تصور نہیں کر سکتے ۔ البتہ یہ بات بھی درست ہے کہ ہر طرح کے لوگ ہر معاشرتی اکائی میں ہوتے ہیں اس میں پٹھان غیر پٹھان کی تخصیص نہیں ہے ۔ ہمارے مشاہدات سے کوئی فرد ناراض بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے جیسے ہم کسی چیز یا واقعہ کو دیکھتے ہوں وہ نہ دیکھ پائیں لہذا اس سلسلے میں نسلی یا مذہبی تفریق کو موضوع کا حصہ نہ بنایا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا
 

قیصرانی

لائبریرین
خادم نے نہ صرف پٹھان بھکاری دیکھے ہیں بلکہ بدقسمتی سے ایسے پیشوں سے منسلک بھی دیکھا ہے جو پٹھانوں کے متعلق ہم تصور نہیں کر سکتے ۔ البتہ یہ بات بھی درست ہے کہ ہر طرح کے لوگ ہر معاشرتی اکائی میں ہوتے ہیں اس میں پٹھان غیر پٹھان کی تخصیص نہیں ہے ۔ ہمارے مشاہدات سے کوئی فرد ناراض بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے جیسے ہم کسی چیز یا واقعہ کو دیکھتے ہوں وہ نہ دیکھ پائیں لہذا اس سلسلے میں نسلی یا مذہبی تفریق کو موضوع کا حصہ نہ بنایا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا
یہاں آپ شاید پٹھانیوں کہنا چاہتے تھے یا شاید افغان
 
یہاں آپ شاید پٹھانیوں کہنا چاہتے تھے یا شاید افغان
صاف الفاظ میں کہوں تو پٹھان کہہ لیجئے پشتون کہہ لیجئے افغانی کہہ لیجئے کسی بھی نسلی یا شناختی گروہ سے تعلق ہو سکتا ہے لیکن اس بنیاد پر ذکر مناسب نہیں لگتا ویسے بھی خوشی محمد تو یہ سب بیان کر سکتا ہے میں نہیں ۔ ویسے بھی خوشی محمد سے مکمل رابطہ بحال ہو چکا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
صاف الفاظ میں کہوں تو پٹھان کہہ لیجئے پشتون کہہ لیجئے افغانی کہہ لیجئے کسی بھی نسلی یا شناختی گروہ سے تعلق ہو سکتا ہے لیکن اس بنیاد پر ذکر مناسب نہیں لگتا ویسے بھی خوشی محمد تو یہ سب بیان کر سکتا ہے میں نہیں ۔ ویسے بھی خوشی محمد سے مکمل رابطہ بحال ہو چکا ہے
خوب، یہ تو بہت اچھا ہوا کہ رابطہ بحال ہو گیا۔ کوئی اپ ڈیٹ؟
 

اطیب

محفلین
ہمارے یہاں ایک بزرگ خاتون آتی ہیں اور کچھ اتنے لاڈ بھرے انداز میں کہتی ہیں "کج دیو نا وے پترو" کہ بندہ خود ہی حسب توفیق کچھ دے دیتا ہے۔
اس ضمن میں ایک ہی گزارش ہے کہ سفید پوش مساکین کا حق پروفیشنلز کو دینے کی بجائے تھوڑی سی تحقیق کرکے اپنے رشتہ داروں یا پڑوس میں موجود مستحقین تک پہنچائیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
صاف الفاظ میں کہوں تو پٹھان کہہ لیجئے پشتون کہہ لیجئے افغانی کہہ لیجئے کسی بھی نسلی یا شناختی گروہ سے تعلق ہو سکتا ہے لیکن اس بنیاد پر ذکر مناسب نہیں لگتا ویسے بھی خوشی محمد تو یہ سب بیان کر سکتا ہے میں نہیں ۔ ویسے بھی خوشی محمد سے مکمل رابطہ بحال ہو چکا ہے
فیصل بھائی کافی عرصے بعد خوشی محمد کا ذکر سنا. ممکن ہو تو اس سلسلے میں کچھ نیا پوسٹ کریں پلیز.
 

فرحت کیانی

لائبریرین
یہاں ہمارے نئے گھر سے باہر ایک شخص سردی سے کانپتا بھیک مانگ رہا تھا۔ صاحب کی گرم چادر اسے دی۔(میرے سٹوڈینٹ نے اس بات پہ بہت مزے کی باتیں کیں جب سوشل ورک میں کسی کو اس کے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی مثال کے طور پہ یہ واقعہ سنایا) پھر اسے ایک دن آنے کو کہا۔ اس کے دوبارہ آنے پہ اسے کام کی بات کی۔ مشورے دیے اور اسے خود بھی سوچنے کو کہا۔ قصہ مختصر اسے 2 ہزار روپے دیے۔میرے پاس وقت کی کمی تھی ورنہ خود چیزیں لے کے دیتی۔ بہرحال اس نے سبزی کی ریڑھی لگا لی۔ اورسبزی بیچتے ہوئے اکثر نظر آتا۔
ماشاءاللہ.
مجھے بھی گھر کے بڑوں نے نصیحت کی تھی کہ اگر کسی کی واقعی مدد کرنا مقصود ہے تو صرف اس کو وقتی ضرورت پوری کرنے کی بجائے اسے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے میں مدد کرو.
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جب میں نئی نئی یہاں شفٹ ہوئی تو ایک مارکیٹ میں جو گھر کے راستے میں پڑتی تھی ، اکثر آتے جاتے رکنا لگا رہتا ہے. وہیں ایک انتہائی ضعیف و معمر خاتون ملتی تھیں جو بہت مشکل سے چل پاتی تھیں. ایک بار بنک سے باہر آتے ملیں تو میں انہیں کچھ تھما دیا. ذرا آگے آئی تو ایک انکل نے بھی روک لیا کہ کچھ دے کر جاو. اچھے خاصے صحت مند انکل تھے سو میں ان کو کچھ دیئے بغیر پاس ہی موجود سٹور میں چلی گئی. واپس آئی تو وہ انکل میری گاڑی کے پاس کھڑے تھے. میں دھیان دیئے بغیر گاڑی میں بیٹھ گئی تو میرے ڈرائیور کہنے لگے کہ یہ چاچا یہ بتانے آئے تھے کہ جن اماں جی کی آپ اکثر مدد کرتی ہیں وہ اپنے پورے خاندان سمیت اس مارکیٹ میں ہوتی ہیں اور وہ بالکل بھی بیمار یا ضعیف نہیں ہیں بلکہ اداکاری کرتی ہیں اور یوں ہمارا حق بھی مارتی ہیں. میں کہا ایسے ہی کہہ رہے ہوں گے میں اتنے عرصے سے انہیں دیکھ رہی ہوں وہ ایسی ہی ہیں.
خیر کچھ عرصہ بعد وہ اسی مارکیٹ واقعی ہی مجھے بالکل ٹھیک ٹھک چلتی ہوئی دکھائی دیں اور ان کے اردگرد ان کی بیٹیاں یا بہوئیں اور بچے بھی موجود تھے. ان دوسرے انکل نے پروفیشنل رائولری میں سچی بات بتائی تھی. میں نے ہی یقین نہیں کیا.
 

جاسمن

لائبریرین
پہلے لاہور میں دیکھا ۔اب ادھر بھی ایسا ہے کہ زخمی کا گیٹ اپ کر لیتے ہیں۔ خوب ہلدی یا کسی اور ٹیوب یا دوا کا لیپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔لوگ انہیں زخمی/بیمار سمجھ کے مدد کرتے ہیں۔ہمارے ایک استاد نے اچھرہ کے پل پہ چند دن اس طرح کے فقیروں کو جانچنے کی کوشش کی تو انہیں دھمکی ملی۔
ان کی قسم پیشہ ور سے کچھ ہٹ کے ہوتی ہے۔یعنی ہم انہیں ایک گینگ یا مافیا کہہ سکتے ہیں شاید۔
 

جاسمن

لائبریرین
کچھ ماہ پہلے میں نے راستے میں سڑک کے کنارے ایک خاتون کو چھوٹے بچوں سمیت چادر بچھا کے بیٹھے دیکھا۔ وہ مسواک لے کے بیٹھی تھیں۔ ایک لڑکی شاید ان کی مدد کے خیال سے ان کے پاس بیٹھی پوچھ رہی تھی۔ لیکن تھوڑے دن گُذرے۔۔۔کئی خواتین نے یہ طریقہ اپنا لیا۔ اب وہ مسواک لے کے بھی نہیں بیٹھتی تھیں۔ پھر بوڑھا جوڑا دامن پھیلا کے بیٹھا نظر آتا رہا۔ اب بھی کہیں نہ کہیں ایسے لوگ نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے حلیہ سے درمیانے درجے کے خاندان کے لگتے ہیں۔ بھکاری نہیں لگتے۔ہم یہ سوچ کر کہ بیچارے کتنے لاچار ہیں۔۔۔۔۔مدد کرتے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
چھوٹی چھوٹی چیزیں لے کے بیچنے کے بہانے اصل میں بھیک مانگنے کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ یہ لوگ جذبات سے کھیلتے ہیں۔ پہلے صرف سورتیں،سپارے وغیرہ اپنے پاس رکھتے تھے ۔۔۔پھر نعتوں کی کتابیں،انگریزی کے ٹینس وغیرہ۔۔۔۔پھر کنگھے وغیرہ۔ خاص طور پہ عید پہ اس طرح چیزیں لے کے پھرتے ہیں اور جذباتی کرنے والے جملے کہتے ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں۔کیونکہ نوجوانوں کو ہم یہ کہتے ہیں کہ تم کوئی کام کیوں نہیں کرتے۔ اب ان کے پاس اس کا جواب موجود ہوتا ہے۔ بعض بوڑھے بھی یہ کام کرتے نظر آتے ہیں کہ دیکھو بیچارے کا کوئی نہیں ہو گا جو اسے بٹھا کے کھلا سکے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ہم لوگ نئے گھر میں شفٹ ہوئے تو سیکیورٹی والوں سے کام والی کے لیے کہا. انہوں نے کچھ خواتین بھیجیں. دوسرے تیسرے دن ایک خاتون امی کے پاس آئیں اور کہا کہ میں اسی گلی میں پہلے فلاں گھر میں کام کیا کرتی تھی. اماں سمجھیں کام کے لیے آئی ہیں سو وہ ان سے اسی سلسلے میں بات کرنے لگیں تو ان خاتون نے کہا کہ اب وہ کام نہیں کرتیں کیونکہ انہیں کینسر تشخیص ہوا ہے. وہ تو اس لیے آئی ہیں کہ کچھ مدد حاصل کر سکیں. خیر کافی دیر بیٹھی رہیں. اماں نے کچھ مدد بھی کی اور کہا کہ اگر کوئی اور کام والی ہو تو اسے بھیجیں. وہ تو انہوں نے نہیں بھیجی لیکن خود ہر چند دنوں بعد آ جاتی تھیں. میری اماں جان اور بھابھی ان کی اچھی خاصی مدد اور خاطر مدارت بھی کرتی تھیں. ایک بار جب وہ ہمارے گھر سے نکل رہی تھیں کہ ہماری کام والی آنٹی آ گئیں. انہوں نے بعد میں اماں کو بتایا کہ وہ دونوں پڑوسی ہیں اور ان آنٹی کے 5 بیٹے ہیں جو اچھے خاصے روزگار پر ہیں. سب سے اہم بات یہ پتہ چلی کہ ان کو سرے سے ایسی کوئی بیماری ہے ہی نہیں.
 
Top