آپ بیتی - ایک کہانی - قسط 3 - (شیخ انچولی)

سید رافع

محفلین
اگلی منزل - سو لفظوں کی کہانی
وہ ایک منزل تھی۔لڑکا اب آپ دیکھیں گے کہ اگلی منزل کی طرف کوچ کرے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کون رکتا ہے اور کون کوچ کرتا ہے۔اب مختصر مختصر جملے پچھلی منزل کی کمتری اچھی طرح واضح کریں گے۔
ہر منزل سے کچھ نہ کچھ فایدہ تو ہے۔ لیکن آدمی سستائے گا۔ پھر اگلی منزل۔
ایک اہم بات۔ یہ اس علم کی شاہرہ کا قایدہ ہے کہ چلنے والے ایک دوسرے سے واقف ہوں۔ رات کے وقت رسول اللہ اپنی زوجہ کے ساتھ گلی سے گزرے تو دو انصاری صحابی بھی گزرے۔ آپ نے انکو روکا اور کہا میری زوجہ ہیں۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ آپ سے ہم یہ گمان۔ آپ نے فرمایا مفہوم ہے کہ گمان ٹھیک کرنے کے لیے۔
یہ تو ایک عام مرد بھی سمجھ سکتا ہے کہ کچھ ہمدردی کی ضرورت نہ ہو گی تبھی تو کہانی کے پیرائے میں بیان کرنے کے لائق ہوا۔ مخلص دوست تجسس نہیں کر رہے ہوتے بلکہ وہ تو خیر خیریت پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ اور خیریت میں کمی دیکھ کر افسردہ ہوتے ہیں اور اپنے تعاون کا پوچھتے ہیں۔ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ کال کر کے خیریت پوچھتے ہیں۔ بعض لکھ کر کسی کوتاہی کے لیے معذرت کرتے ہیں۔ بعض اسقدر افسردہ ہوتے ہیں کہ لکھنا ہی بند کر دیتے ہیں۔ بعض کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے اس موقعے پر بولیں یا کیا کہیں۔ یہ سب اخلاص کی کلیاں ہیں۔
لڑکا یہ سب زینب عالیان سریا والا بچہ اور عام انسانوں کی صورتحال کی وجہ سے تحریر کررہا ہے۔ لڑکے کو سخت دکھ ہے ان بچوں کا۔
منظر تبدیل ہوتا ہے قلب میں دوبارہ زینب کی یادہ تازہ ہوتی ہے۔







زیب - سو لفظوں کی کہانی

زینب چھ سال کی بچی تھی۔

وہ بھلے شاہ کے شہر قصور میں رہتی تھی۔

چھ سال کی بچی ہوتی ہی کیا ہے، گڑیا۔ کھیلتی ہوی ایک پری۔

لیکن اس ملک کے لوگ غفلت میں تھے۔ وہ بچوں کی حفاظت اپنے یا دوسرے کی بنیاد پر کرتے۔

اگر ان کے بچے محفوظ ہوں تو وہ تجسس کیا کرتے تھے۔ وہ قہقہے مارتے۔

اللہ نے کہاوَلَا تَجَسَّسُوا یعنی اور تجسس نہ کرو۔

پچھلی کہانی شاید اس قلب کو مطمِن کر دے جو تجسس کرتا ہو۔یا شاید وہ کبھی مطمین نہ ہو کیونکہ زندگیاں تبدیل ہو رہیں ہیں۔

جس کی آنکھوں کو قرار نہ ہو۔

جو لوگوں کے خوف میں اللہ کے خوف سے زیادہ مبتلا ہو۔

جو مخلوق خدا کو انکے پاک نہ ہونے پر معطون کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

جس کے پاس کوی پیغام نہ ہو۔

جس کا دل غضب سے بھرا ہوا ہو۔

زینب بھلے شاہ کی سرزمین پر اپنے گھر سے قرآن پڑھنے نکلی۔

منظر تبدیل ہوتا ہے۔ کیا درندوں کے نام بھی علی اور عمران ہو سکتے ہیں؟عمران علی زینب کو دیکھتا ہے۔





پچھلی منزل - سو لفظوں کی کہانی

زینب میری بیٹی نہیں ہے۔

عمران علی زندہ رہ سکتا ہے۔

عمران علی زینب کو دیکھتا ہے۔ وہ اسے بہلاتا ہے۔ ہاتھ تھامتا ہے۔

وہ اس سے قبل سات اور بچیوں کا ہاتھ تھام چکا تھا۔

لڑکا اپنی کہانی یوں بھی تو بیان کر سکتا تھاکہ نتیجہ نکلتا کہ باپ نے غلط کیا۔

پھر اس نے اسکی یتیمی کے تذکرے سے کہانی کیوں شروع کی؟

لڑکا اپنی کہانی یوں بھی تو بیان کر سکتا تھاکہ نتیجہ نکلتا کہ ماں نے غلط کیا۔

پھر اس نے اسکے خوابوں کے چکنا چور ہونے کے تذکرے سے کہانی کیوں مزین کی؟

لڑکا اپنی کہانی یوں بھی تو بیان کر سکتا تھاکہ نتیجہ نکلتا کہ پہلی دولہن نے غلط کیا۔

پھر اس نے اسکے معصوم ہونے کے تذکرے سے کہانی کے تانے بانے کیوں بنے؟

لڑکے کو خوف تھا کہ اگر اس نے انصاف نہ کیا تو ظلم کیا۔

ظلم تاریکی ہے۔

وہ تاریک لوگوں کے درمیان مذید تاریکی کے اسباب نہیں چاہتا تھا۔

لڑکے نے بیان کوتاریک نہ کیا لیکن مقدر سے بیان کے بعد راضی بھی رہا۔

بیان مقدر بنا دیتے ہیں۔

بیان مقدر بگاڑ دیتے ہیں۔

لوگ اپنے خلاف بیان دینے والے بن جاتے تو زینب ہنستی کھیلتی جوان ہوتی۔

اپنے پیا کے گھر بیاہ کے جاتی۔یہ اسکا مقدر ہوتا ۔

وہ اسکا مقدر نہ ہوتا جو ہوا۔

لوگ اپنی ذات کو انصاف سے بیان کرنے کی طاقت پیدا کریں تو ہم میں عمران علی پنپنے نہیں پاے گا۔

سخت کردار مردوں کا اسکو سامنا ہو گا جو اسکی بدکرداری کو چور چور کر دیں گے۔

عمران علی زینب کو اندھیرے میں لے جا کر اسکے کپڑے اتارتا ہے۔

وہ چلاتی ہے۔

وہ بھاگتی ہے۔

روتی ہے۔

وہ اسے پکڑتا ہے۔

وہ اپنی شلوار اتار چکا ہوتا ہے۔

وہ اسکو زمین پر دے مارتا ہے۔

اپنا عضو مخصوص اس معصوم کے منہ میں دے دیتا ہے۔

اسی دوران زینب کی زبان دانتوں کے درمیان آ کر کٹ جاتی ہے۔ بچی تڑپ کے بے حال ہو گی۔

اسکے ماں باپ عمرے میں اور اسکے ملک کے لوگ تجسس اور قہقہوں میں مصروف تھے۔

اب عمران کے کھیل کا آخری وقت آ چکا تھا۔

وہ اپنی سخت میکینک والے ہاتھوں سے اس نرمی کلی کے گالوں پر طماچے مارتا ہے۔

وہ اسکی ننھی ننھی رانوں کے درمیان بیٹھتا ہے اور اپنےعضو سے اسکا کلی جیسا جسم چیر دیتا ہے۔

وہ آخری بار روتی ہے۔

اسکا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔

وہ مر گی۔

عمران علی کوڑے دان میں پھول کو پھینک دیتا ہے۔

منظر تبدیل ہوتا ہے۔ کیا مقدر بن گیا، کیا تجسس پر قہقہ بلند ہو گیا، کیا اخلاص کا مکمل استعمال ہو گیا۔ نہیں ۔


شیخ انچولی - سو لفظوں کی کہانی

لڑکے کی گاڑی انچولی کی بڑی امام بارگاہ سے ذرا دور بیریر کے پاس رکتی ہے۔

خود کش حملوں کی وجہ سے جا بجا یہ بیریر لگے ہیں۔

زینب جیسی ہر دور میں مرتی آی ہیں اور رونے والے غم کی رسم رو کر ادا کرتے آےہیں۔

یہ قدرت کا رحم جانچےاور تقسیم کرنے کا ذریعہ ہے۔

رحمت اللعالمین آے تو بے رحمی کہیں بڑھ کر تھی۔

دربار رسالب مآب لگا ہے۔

ایک صحابی ڈرتے ڈرتے آگے آتے ہیں۔

بیان کرتے ہیں جب میری بچی آٹھ سال کی ہوی تو خوب تیار کرنے کو کہا۔

وہ پوچھتی جاتی بابا کہاں لے جاتے ہیں۔

ننھے ہاتھوں سے میرے ہاتھ پکڑے تھے۔

میں ریگستان میں ایک گڑھا پہلے کھود آیا تھا۔

بچی کو آگے کیا۔ دھکا دیا۔ وہ پکارتی رہی۔

میں نے سب ریت برابر کی اور چلا آیا۔

یہ سننا تھا کہ رحمت للعالمین اسقدر روے کہ ریش مبارک تر ہو گَے۔

ہم بھی یہی رسم ادا کر رہے ہیں۔ آہ زینب۔

غم معمولی نہیں اللہ پکار اٹھتا ہے اپنے جلال کے ساتھ سورہ التکویر میں۔

اور جب زنده گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا۔ کہ کس گناه کی وجہ سے وه قتل کی گئی؟

بھلا مقدر بنانے والا ہی نہ جانے گا؟

یہ سوال جلال در جلال کے طوفان کی خبر ہے!

لڑکا ذہن میں طلاق کا سوال لیے ایک ایسے گھر میں پہنچتا ہے جس کے دروازے پر بچے کے قد کے برابر چندہ بکس تھا۔

یہ گھر ایک اجڑا دیار تھا، امام بارگاہ کے عین سامنے۔

کچھ لکڑی اور فوم کے صوفے، کچھ بے ترتیب سامان اور دو بزرگوار وہاں تشریف فرما تھے۔

ایک کی نگاہ سخت گہری تھی۔ الفاظ چند تھے لیکن معلوم ہوتا تھا کہ ہر حرکت و سکنت کو جانچ رہے ہیں۔

لڑکا کہتا ہے اسلام و علیکم۔ دونوں مصافحہ کرتے ہیں اور بیٹھ جانے کا شارہ کرتے ہیں۔

منظر تبدیل ہوتا ہے۔ لڑکا اپنے آنے کا مقصد بیان کرتا ہے۔

- میاں ظہوری





شیخ انچولی - سو لفظوں کی کہانی

لڑکا کہتا ہے کہ میں طلاق کے متعلق آپ کا مذہب معلوم کرنا چاہتا ہوں۔

بزرگوار پہلے شیخ کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔

مطلب ان سے پوچھیں۔

جوں ہی لڑکا کہتا ہےمیں نے انٹرنیٹ پر پڑھا ہے کہ طلاق کے لیے طہر، عورت کا بے مباشرت ہونا، دو عاقل گواہوں کا ہونا اور خطبہ طلاق پڑھنا ضروری ہے۔

پہلے بزرگوار چونک کر شیخ کو کہا لیجیے اب سب انٹرنیٹ پر آ گیا۔

شیخ ان کی طرف ایک نظر کرتے ہیں اور آنکھوں کی پتلیوں کو درمیان میں لے جا کر پلک جھپک لیتے ہیں۔

وہ بتا دیتے ہیں سب نہیں محض یہ ہی پہنچا ہے۔

اصل ابھی بھی سینے میں ہی ہے اور مخصوص لوگوں تک محدود ہے۔

شیخ لڑکے سے مخاظب ہو کر کہتے ہیں، آپ اہل سنت سے ہیں۔یہ سوال نہیں گفتگو کا آغاز تھا۔

لڑکا کہتا ہے جی ۔آجکل علما اہل محبت کی صحبت اور مساجد میں آنا جانا ہے۔

شیخ کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے۔وہ حق بیان کرنے سے پہلے لڑکے کو حق کی معرفت میں دیکھنا چاہ رہے تھے۔

لڑکا کہتا ہے کہ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ اگر چہ ان کے پاس دو سال گزارے لیکن ساری زندگی گزارتے تو بھی کم تھا۔

اب شیخ اس پر چونکتے ہیں۔ قبل اس کے وہ کچھ کہتے لڑکا یہ کہہ کر قصہ تمام کرتا ہے کہ تمام نور وہیں سے آرہا ہے۔

جب انہوں نے لڑکے کا دل علی کے حق پر ہونا معلوم کر لیا تو اب مرحلہ تھا کہ معلوم کریں کہ عشق کتنا ہے؟

منظر تبدیل ہوتا ہے شیخ اور بزرگوار کی دعوت۔

- میاں ظہوری





شیخ انچولی - سو لفظوں کی کہانی

شیخ بزرگوار کو چاے کا کہتے ہیں۔

بزرگوار لڑکے سے پوچھتے ہیں تو لڑکا پانی کے لیے کہتا ہے۔

پانی آتا ہے۔

شیخ کی تیز نظریں اس پر ہیں کہ لڑکے کا نشت و برخاست کس نوعیت کا ہے۔

لڑکا پانی ہاتھ میں لے لیتا ہے۔

اب شیخ کی نظریں اس پر ہیں کہ پانی پیتا ہے کہ نہیں۔

ہمارے گھر کا کھاتا تو ہے نہیں لیکن معلوم ہم سے حق کرنے آیا ہے!

لڑکا پانی کا ایک گھونٹ لیتا ہے تو شیخ کہتے ہیں ہمارے ہاں طلاق بہت سخت ہے۔ شرایط ہیں۔

پھر وہی سب بیان کر دیتے ہیں جو ابتدا میں لڑکے نے کہا تھا۔

بزرگوار چاے لے کر آ چکے ہوتے ہیں۔

شیخ کی تیز نظریں اس پر ہیں کہ گلاس کہاں رکھا جاتا ہے اور چاے کیسے لی جاتی ہے۔

لڑکا گلاس کو صوفے کے ہتھے پر رکھتا ہے اور چاے بزرگوار سے لے لیتا ہے۔

آپ کچھ نہ کریں۔ آپ اور آپ کی بیوِ ی دل میں فقہ جعفریہ کا اقرار کر لیں شیخ چاے پینے کا اشارہ کرتے ہوے لڑکے سے کہتے ہیں۔

یہ فقہ جعفریہ میں شامل ہو جانے کہ دعوت تھی۔

منظر تبدیل ہوتا ہے بزرگوار اور مودودی۔

- میاں ظہوری



شیخ انچولی - سو لفظوں کی کہانی

شیخ کی دعوت بلاشبہ دعوت عشق تھی۔

وہ چاہتے کہ ایک مرد اور اسکی بیوی بچے اور میسر آیں اہلبیت علیہ السلام کو۔

سلام ہے ایسے مردوں کو جو رسول اللہ اور اہل بیت کےلیے جدوجہد کر رہیں ہیں۔

لیکن لڑکا قدیم طریقے پر واپس لوٹنا جاتا تھا۔

وہاں جہاں رسول اللہ قبل از ظہور اسلام تھے۔

وہ صادق و امین تھے۔

رشتے داروں اور ضرورت مندوں کی ایانت کرتے۔

تنہای میں اللہ کو یاد کرتے۔

برہنہ طواف کو یاد کرتے کہ یہ حادثہ کیونکر ہے۔

کیونکر یہ مختلف قبایل اور فرقے صدیوں سے خون بہا رہے ہیں۔

زینب جیسی کو یاد کرتے۔

لڑکا کہتا ہے کہ اسکی آنکھوں کی چمک کی خاطر ہم کو اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔

اس جھلملاتی مسکراہٹ کی خاطر کھڑا ہونا ہو گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل ہزاروں زندہ زیر زمیں چلیں گیں۔ وہ آے تو آج تک یہ کرنوں جیسی بچیاں زندہ ہیں۔ انکے سامنے ایک کا تذکرہ ہوا تو روے اسقدر روے کہ ریش مبارک تر کیے۔

ہمارے زمانے میں بھی سیکڑوں ماری جا رہیں ہیں۔ لیکن ہم ایک زینب کے لیے نقل رسول میں رویں گے بھی اور افراد کا تزکیہ بھِی کریں گے کہ اب ایک اور اس طرح نہ زمین پر تڑپے۔

لڑکا بزرگوار سے کہتا ہے کہ وہ علم کی شارع پر ہے۔

لڑکا کہتا ہے کہ ۲۲ سال قبل ابتدا میں مودودی کو پڑھا۔

حنفی تھے۔

بزرگوار کو یہ بات مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ کہا وہ کب حنفی تھے۔ امام تیمیہ سے متاثر تھے۔ لیکن اچھے عالم تھے۔

لڑکا کے ذہن میں خلافت و ملوکیت کا مکا دوڑ گیا جس نے موددی کو بزرگوار کے نزدیک اچھا عالم بنا رکھا ہے۔

اب بزرگوار لڑکے کے عشق اہل بیت کا امتحان چاہتے تھے۔

وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ لڑکا کہاں تک اہل بیت کے لیے بول سکتا ہے۔

سو گفتگو کا رخ خلفہ ثلثہ کی طرف مڑتا ہے۔

منظر تبدیل ہوتا ہے لڑکے کا عشق کا نظری امتحان۔

- میاں ظہوری





شیخ انچولی - سو لفظوں کی کہانی

بزرگوار فرماتے ہیں کہ ہم نے بھی اسلامک ہسٹری میں ماسٹر کیا ہے۔

مجھے اس بات سے دکھ ہوتا ہے کہ قدردانی کی کس قدر کمی ہے۔

کپڑے، چہرے مہرے کی وجہ سے کیسے کیسے لعل بے وقعت پڑے ہیں۔

اور وہ جو رسول اللہ کے وصال کے موقعے ہوا، بزرگوار لڑکے کو مخاطب کر کے عشق کے نظری امتحان کا ایک اور سوال سامنے رکھ دیتے ہیں۔

ان کا مدعا سقیفہ بنی ساعدہ تھا۔

یہ ایک باغ نما بیٹھک کی جگہ تھی مدینے میں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد یہاں اوس و خزرج کے انصار جمع ہوے۔

ان کے درمیان مسلمانوں کے سربراہ کے بارے میں مکالمہ بڑھا۔

علی و عباس رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے انتظامات میں مشغول تھے۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور چند مہاجر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ وہیں پاس میں بیٹھے تھے۔

باغ سے ایک صاحب آے اور اطلاع عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور پھر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی۔

سقیفہ پہچنے کے بعد معاملہ سلجھانے کی کوشش ہوی۔

آخر یہ ہوا کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ اٹھا کر کہا کہ میں ان سے بیعت کرتا ہوں۔

علی کرم اللہ وجہ ایک عرصے اس بات سے راضی نہ تھے لیکن امہ کے مفاد میں ہاتھ تھاما، مشورے دیے اور سکوت اختیار کیا۔

لڑکے نے بدر میں چاروں خلفا دکھای دیے، سو لڑکے نے بھی سکوت کیا اور بزرگوار سے کہا ابھی میں علم کے حصول میں مشغول ہوں۔

شیخ نےایران کے ایک بادشاہ کا قصہ سنانا شروع کیا تاکہ دل کی بات معلوم کریں۔

منظر تبدیل ہوتا ہے شیخ ایران کے بادشاہ کا قصہ سناتے ہیں۔

- میاں ظہوری



شیخ انچولی - سو لفظوں کی کہانی

بزرگوار کو لڑکے کا سکوت پسند نہ آیا تھا کہ بات دو ٹوک نہ تھی۔

لیکن اس بات کو کھولنے کا مطلب لڑکے کے نزدیک تسبح کوتوڑنا تھا کہ پھر خم غدیر، فدک، خطبہ فاطمہ علیہ السلام، خلافت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ، جمل و صفین، معاہدہ امام حسن و شہادت حسین تک بات محدود نہ رہتی بلکہ چودہ سو سال کے علما کی تحقیات اور موجودہ دور کے حالات اور کم ظرفی و جذبات اس میں شامل ہو جاتے جس کو تھامنا نور مہدی علیہ السلام مانگتا ہے۔

شیخ نےپھر بھی اصرار کیا اور کہا محض ہمارے طلاق کی تحقیق کی وجہ سے سارا ایران مسلمان ہوا۔

جب کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ایران فتح ہوا۔ اور مسلمان ہوا۔

شیخ نے اپنی بات آگےبڑھاتے ہوے کہا : ایک ایرانی بادشاہ تھا، اس نے عالم سے پوچھا میں نے اپنی ملکہ کو طلاق دی اب کیا کروں کہ واپس میرے پاس آے۔ معلوم ہوا کہ بادشاہ مسلمان تھا۔ ان عالم نے کہا ہمارے اصل عالم عراق میں رہتے ہیں۔ یوں عالم طباطبائي عراق سے ایران آے اور بادشاہ ملکہ کو ایک کرایا اور اسکے بعد سارا ایران مسلمان ہو گیا۔

شیخ کی بات ختم ہوی۔

لڑکے نے بغیر صوفے کے ہتھے پر ہاتھ رکھے اپنے ہاتھ میں موجود چاے کی پیالی کو دو قدم دور ایک سایڈ ٹیبل پر رکھا۔

یہ یوں پیالی کو جلدی سے رکھنا شیخ کو پسند نہ آیا۔

وقت کافی ہوچکا تھا۔

لڑکے نے اجازت چاہی اور ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھایا۔

شیخ نے مصافحہ نہ کیا۔

منظر تبدیل ہوتا ہےلڑکے کی گاڑی شیخ نیپا کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔

- میاں ظہوری
 
Top