آٹھویں عالمی اردو کانفرنس (آرٹس کونسل آف پاکستان)

یعنی راج گیر مستری یا ٹھیکے دار رہا ہے پہلے تب تو مندرجہ بالا نام نہاد "انتظامی صلاحیتیں" کوٹ کوٹ کر بھری ہوں گی اس میں۔ :laughing: دعوت نامے کے متن سے بھی یہی لگ رہا تھا کہ کسی ادیب یا آرٹسٹ نے نہیں بلکہ کسی مستری یا ٹھیکے دار نے لکھا ہے۔
جب (ملک) ریاض ٹھیکے دار کو اخباروں میں کالم نگاری کرنے سے آج تک کوئی نہ روک سکا تو اس مستری ٹھیکے دار کو مشاعرے کروانے سے کس کے باپ میں ہمت ہے کہ روک سکے۔ :laughing:

ہاہاہ۔ ..:rollingonthefloor::rollingonthefloor::notlistening::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
فاتح بھائی .. ٹو مچھ ..۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ادب دوست بھائی !

اردو کانفرنس کیسی رہی؟ آپ نے کس حد تک شرکت کی؟

اور محفل کے کون کون لوگ وہاں گئے تھے؟

مجھے تو اس کانفرنس کے بارے میں پتہ بھی آپ ہی سے چلا اور وہ بھی کانفرنس کا دوسرا دن تھا اور ان دنوں مصروفیات اس نوعیت کی تھیں کہ ایک تقریب میں بھی شریک نہیں ہو سکا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کانفرنس کے حوالے سے ڈان نیوز کا یہ تجزیہ بھی اہم ہے۔

اردو کانفرنس: ادب کی تجارت کا دوسرا نام؟
خرم سہیل

کسی معاشرے پر بھی جب زوال آتا ہے، تو بہت سے شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوتے ہیں۔ زوال اپنی پوری علامتوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہمارے معاشرے میں مذہبی انتہاپسندی اور عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ثقافت بالخصوص ادبی منظر نامہ بھی لپیٹ میں آیا۔ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کے شعر و ادب کا موازنہ کر لیا جائے تو فرق واضح ہے۔ شاعری اور نثر دونوں کی کہکشاں پر ایک سے بڑھ کر ایک ستارہ چمکا، پھر بتدریج تاریکی میں اضافہ ہونے لگا اور ہم تخلیقی تنہائی کا شکار ہوگئے۔

عہدِ حاضر میں کتاب، کتب بینی، کتاب لکھنے اور چھاپنے والوں کا باریکی سے جائزہ لیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ قارئین پر ادب کے مصنوعی ستارے مسلط کرنے کی کوششیں کی گئیں، ادبی منظرنامے پر ایسے مصنوعی ستاروں کی کثیر تعداد موجود ہے جنہوں نے کچی پکی شاعری، ڈائجسٹ زدہ فکشن، یادداشتوں کے نام پر اپنی ذاتی اور غیر دلچسپ داستانیں، پھیکے سفرنامے اور ناقص تراجم سمیت کئی اصناف پر کتابوں کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔

ان مصنوعی ستاروں کا وجود اہل ادب کے لیے بوجھ مگر ادبی تاجروں کے لیے غنیمت ہے۔ انہی کے دم سے ادب میں ایک نئی صنعت متعارف ہوئی، جس کا نام ”ادبی کانفرنس“ ہے. پاکستان کے ہر بڑے شہر میں یہ صنعت خوب پنپ رہی ہے۔ یہ ادبی صنعتکار خود کو ادب کا مسیحا سمجھتے ہیں۔ اس کاروبارِ مسیحائی کو چمکانے میں جہاں نام نہاد تخلیق کاروں نے حصہ لیا وہیں اس بہتی گنگا میں وہ دانشور بھی پیچھے نہیں رہے جن کی کتابیں ہم اپنے سینوں سے لگا کر رکھتے ہیں۔

گزشتہ 8 برسوں سے کراچی میں ”عالمی اردو کانفرنس“ کے عنوان سے ”اردو شعر و ادب کا مجلسی بازار“ لگ رہا ہے۔ ماضی کی طرح اس سال بھی کانفرنس کے انعقاد کے لیے تجاویز مانگ کر نظرانداز کردی گئیں۔ کسی تجویز پرعمل ہوا بھی تو جس نے وہ مشورہ دیا تھا، اسی کو نکال باہرکیا۔ اس کی ایک مثال معروف براڈ کاسٹر اور ادبی شخصیت رضا علی عابدی ہیں جن کی سب سے زیادہ کتابیں ”بچوں کے ادب“ سے متعلق ہیں۔ عابدی صاحب کی تجویز پر عمل درآمد ہوا، مگر ان کو شامل کیے بغیر۔

پڑھیے: راتوں رات اردو ادیب بننے کا طریقہ

اس ادبی صنعت کے تین تاجر ہیں، جن کی مرہون منت گلشن کا یہ کاروبار خوب فروغ پا رہا ہے۔ ان تینوں کا ادب میں بنیادی حوالہ ”ناشر“ ہونا ہے۔ تینوں کتابیں چھاپنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ایک تاجر سرکاری ادارے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ دو تاجر نجی کتابوں کے اداروں سے یہ ادبی خدمت کر رہے ہیں۔

ان ادبی تاجروں کے ہاں سے کتاب چھپوانے کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اس کانفرنس میں آسانی سے شرکت کرسکتے ہیں اور وہاں کتاب کی تقریبِ رونمائی بھی ہوسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کراچی اور لاہور کی دیگر ادبی کانفرنسوں میں بھی یہ سہولتیں میسر آسکتی ہیں کیونکہ دوسرے شہروں کے ادبی تاجروں کو یہ سہولتیں یہاں اس کانفرنس میں مہیا کی جاتی ہیں۔

گلشن کے اس کاروبار میں ایک اور طبقہ بہت اہم ہے، جن میں اکثریت کا تعلق صحافت سے ہے۔ وہ کالم نویس، ادبی رپورٹر، ادبی صفحات کا انچارج، کتابوں کا مبصر، اخبار کا مدیر، چینل کا مالک وغیرہ ہیں۔ تجارت اور صحافت کے امتزاج سے ادب کی خدمت کا یہ فریضہ بخوبی انجام دیا جا رہا ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کراچی آرٹس کونسل کی کانفرنس کے کتابچے میں مہمانوں اور مقررین کے ناموں کی بھرمار تھی، جس میں سے اکثریت کو اطلاع بھی نہیں تھی کہ وہ مدعو ہیں۔ اس حوالے کے لیے محمود شام اور ڈاکٹر رؤف پاریکھ کے نام کافی ہیں۔ کئی بزرگ مشاہیر جنہوں نے خرابیء صحت کی وجہ سے مجلسی مصروفیات ترک کر رکھی ہیں، ہر سال ان کے نام بھی شامل کر لیے جاتے ہیں۔ حوالے کے لیے ڈاکٹر اسلم فرخی اور کمال احمد رضوی کے نام کافی ہیں۔

اسی ترکیب کے ذریعے گزشتہ برس تک بیرون ممالک، بالخصوص ہندوستان کے معروف شعراء گلزار اور جاوید اختر کا نام استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اب کی بار پرہیز کیا گیا مگر یہ پرہیز صرف بیرون ملک کے تخلیق کاروں کے لیے تھا، اپنے مشاہیر اب بھی تختہ مشق کا حصہ بنے۔ اس ادبی زوال میں حقیقی دانشور بھی برابر کے حصے دار ہیں، جن کی اکثریت اس ادبی صنعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، کئی ایک تو ایسے کاریگر بھی ہیں جو اپنی تحریروں میں اس ادبی تجارت کی بے ضمیری کا رونا روتے ہیں، مگر پھر منظر بدلتا ہے اور کسی ایسی کانفرنس میں وہ بھی وفد کا حصہ ہوتے ہیں۔

اس برس کئی ایسی کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی، جن کو شائع ہوئے بھی برسوں گزر گئے ہیں مگر ہمارے مشاہیر نے اس میں پوری تندہی سے حصہ لیا۔ آخر کو گلشن کا کاروبار چلنے میں ہی ان کا بھی فائدہ ہے۔

ایک اور بات یہ کہ حال ہی میں کوئٹہ کے انتہائی باصلاحیت نوجوان شاعر ”دانیال طریر“ کا انتقال ہوا مگر کسی نے اسے یاد کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ ایسی صورتحال میں یہ کہنا کہ کانفرنس میں نوجوانوں کی نمائندگی موجود ہے، مگر نوجوان شاعر کی یاد میں دو لفظ بھی نہ بولنا کانفرنس کے منتظمین کے دعووں سے چغلی کھاتا ہے.

پاکستان اور ہندوستان کے علاوہ کوئی غیر ملکی ادیب کانفرنس میں شامل نہیں تھا۔ جو لوگ دیگر ممالک سے آئے، ان میں اکثر ہر سال چھٹیاں منانے پاکستان آتے ہیں، چونکہ وہ اپنے ٹکٹ پر آتے ہیں، اس لیے ان کو شامل کر لیا جاتا ہے۔

اس سال جن مشاہیر کے ناموں کا کانفرنس میں استعمال کیا گیا، پھر خطبہ استقبالیہ میں ان کی غیر حاضری کے عذر بھی خطبہ استقبالیہ میں تراشے گئے، ان میں مشتاق احمد یوسفی، امر جلیل، ڈاکٹر انوار احمد، کمال احمد رضوی، ساجد حسن، آئی اے رحمان، مسعود اشعر، مستنصر حسین تارڑ اور دیگر کئی نام شامل ہیں۔

پڑھیے: مشتاق یوسفی اور شامِ شعرِ یاراں کا معمہ

ضیاء محی الدین کے سیشن کی ابتداء میں سیکرٹری آرٹس کونسل کراچی ان کا تعارف کرواتے ہوئے حاضرین سے یوں مخاطب ہوئے، ”آپ سے درخواست ہے کہ ایسی خاموشی اختیار کریں جیسے آپ اپنے کسی گھر والے کی میت میں خاموش ہوتے ہیں۔“ یہ معیارِ نظامت تھا۔

پاکستان بھر میں بالخصوص کراچی کے ادبی منظرنامے پر گلشن کا یہ ادبی کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ تخلیق کی حرمت کیا ہوتی ہے، تخلیق کار کا ادب کیا ہوتا ہے، سچے حروف کیسے دل میں اترتے ہیں، محسوسات کو زبان دے کر کیسے روح میں اتارا جاتا ہے، اس مصنوعی ادبی میلے میں ان احساسات کا دور دور تک شائبہ دکھائی نہ دیا۔

ادبی صنعت کے ایجادکاروں کے نام جاوید اختر صاحب کی خوبصورت شاعری، جس میں سچے تخلیق کاروں کے لیے تھپکی ہے اور ادبی جعل سازوں کے لیے طمانچہ

شہر کے دوکاندارو
کاروبارِ الفت میں
سود کیا زیاں کیا؟
تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں؟
خواب کتنے مہنگے ہیں؟
اور نقدِ جاں کیاہے؟
تم مریضِ دانائی
مصلحت کے شیدائی
راہِ گمراہاں کیا ہے؟
تم نہ جان پاؤ گے
جانتا ہوں میں تم کو ’ذوقِ شاعری بھی ہے’
شخصیت سجانے میں
اک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چنتے ہو؛
صرف لفظ سنتے ہو
ان کے درمیاں کیا ہے؟
تم نہ جان پاؤ گے

ربط
 

محمداحمد

لائبریرین
رؤف پاریکھ کا یہ انگریزی مضمون بھی ایک کہانی سناتا ہے۔

Literary Notes: Secrets to becoming an Urdu scholar revealed
RAUF PAREKH

WANT to become a scholar of Urdu overnight? Want to be invited to the ‘international’ conferences on Urdu language and literature to present a ‘research paper’ before an audience consisting mostly of university teachers and a few foreigners? Want to show off on your Facebook page that you have been to so many places and met so many ‘scholars’? A selfie with the chief guest, most probably a corrupt minister, would be an added bonus. So how do you do it?

Easy! Just arrange for the airfare and lo and behold! You are a scholar, an international delegate to an international conference on Urdu. Becoming a research scholar and international delegate has never been so easy. You must thank the organisers of such events as international Urdu conferences and, in some cases, the Higher Education Commission for giving you this chance of a lifetime. The nation must be thankful that our beloved HEC has been holding the flag of research quite high by financing such ‘international Urdu research conferences’.

You need not worry that for becoming an international delegate you have almost no credentials as a scholar or researcher. Forget all about research and the rubbish you have been told all along about conducting research or writing research papers. A deep knowledge of the theme of the conference is neither an issue, nor the fact that you have never — even in your wildest of dreams — thought of writing a research paper on, say, “the impact of sociological and economic background on the development of metaphysical Urdu poetry in the 18th century northern India, with special reference to the Sufi poetry of Khwaja Mir Dard and Mirza Mazhar Jaan-i-Jaanaan”.

This writer has come across many ‘foreign scholars’ during some ‘international’ Urdu conferences. And, believe me, they were neither of the two. Foreign they were not, since they had migrated to, say, Middle East or Europe or US some 20 years ago. And scholars? Ha ha! If a self-proclaimed poet or a well-connected housewife can be called a scholar without having to write anything, then yes, they were. And if they can become ‘international delegates’ by just paying for their air tickets, why can’t you? Most of these ‘international delegates’ I met were Pakistanis living abroad. Some of the ‘international delegates’ included an Urdu radio anchorperson in a foreign land, an Urdu schoolteacher in a Middle Eastern country, a Pakistani housewife from the US, a gentleman publishing an Urdu literary journal from the UK and a little-known Urdu poet from UK. The housewife’s case is the most brilliant example of how easy it is to become a scholar and an international delegate these days. She qualified as a scholar and delegate just because, as she told me, she was “very much interested in Urdu literature and was anyway coming to Pakistan. So I thought why not avail of the chance to see what a conference really is”. It is useless to describe what she read out at the conference in the name of a research paper.

The radio anchorperson, the self-styled and self-important kind, an expatriate Pakistani living in Europe, used to broadcast an Urdu programme from the city where she migrated to. This, of course, is enough to earn her not only the status of an international scholar but the special privilege to present the first so-called research paper in the first session on the opening day with much fanfare. She was up on the podium and the real scholars, researchers and professors were listening to her in rapt attention; after all, who does not want to go to another international conference on Urdu she might be just planning? But mind you, you would have to buy your own ticket, just as she did. A woman poet from the US was given the same status in another conference. Oh boy, you can go to so many international conferences, even the one taking place on the North Pole, if you have the right connections and just “behave properly” with these “highly respectable foreign delegates” (translation: praise them and pamper them). Take the example of a ‘scholar’ living in the UK, who can even finance your ticket to London if you just praise him enough or get an “MPhil (Urdu)” dissertation written on him.

The woman from a school in the Middle East seemed at least promising as she read out her paper haltingly, feeling the pressure of an ‘international Urdu conference’. But I must appreciated the nerves of a young ‘scholar’ from Pakistan, who has never bothered to write anything, except, perhaps, love letters. He was made a part of the presidium. Those who are planning to organise ‘an international Urdu conference’ must learn this trick: call a number of delegates onstage and declare them all presidents. Everybody will be so happy, including the “presidents” and the young chap who has never perhaps read a book or a research paper, let alone write one.

The ones who go to an ‘international Urdu conference’ clutching research papers are perhaps among the most stupid persons on this planet: this writer,too, has done this foolish act on quite a few occasions. How can you waste the precious time of so many ‘international scholars’ who have flown in from all over the world (just to meet their relatives in their native country)? I was told on a number of occasions by the person/s presiding over the proceeding to finish off my paper as quickly as possible, seemingly because everyone was bored and the person/s presiding over had to make a long-winding, irrelevant, non-serious, unnecessary and unwanted speech.

The ‘senior scholars’ , who have a long experience of ‘handling’ the proceedings, have perfected the art of presiding: they do not waste any time writing a paper, utter just a few words about the theme of the conference, appreciate and congratulate the organisers and then go on to narrate a few good jokes. Everybody has a good laugh and is relaxed. The organisers announce that “due to shortage of time the full contents could not be read out and you would be able to read the full texts of the papers in the proceedings, [if and] when they are published. Please help yourself with lunch”. This makes delegates even more joyous. After all, one has to cover at least some portion of the airfare.

A new trend is the overseas Urdu conferences. The only thing you have to do to be able to become a real international delegate and fly off to a foreign country is, again, paying for your air passage and you can zoom away to anywhere in the world in the garb of a scholar of Urdu. The HEC is always there to buy you a ticket.

There are some writers and poets who are intellectuals in their own right. They must be invited and asked to speak at the conferences. Poets, teachers, anchors or anybody else has a right to perform and shine. But one should not do that at so-called international literary and research conferences. Their domain is elsewhere. The organisers must realise that they are making a fool of themselves and everybody else. Though in the end everybody is happy and the only sufferer is Urdu, what the organisers should do is not to call it an international Urdu conference but a literary festival or a ‘mela’, just as Oxford people do. They call it a literary festival, not conference, and they do not ask the delegates to pay their airfares. But then, one wonders, who are the scholars who are willing to bear with this farcical act in the name of an international Urdu conference?

drraufparekh@yahoo.com

Published in Dawn, October 26th, 2015
 
ضیاء محی الدین کے سیشن کی ابتداء میں سیکرٹری آرٹس کونسل کراچی ان کا تعارف کرواتے ہوئے حاضرین سے یوں مخاطب ہوئے، ”آپ سے درخواست ہے کہ ایسی خاموشی اختیار کریں جیسے آپ اپنے کسی گھر والے کی میت میں خاموش ہوتے ہیں۔“ یہ معیارِ نظامت تھا۔

ماشاءاللہ، حاضرین نے خوب داد و تحسین کے ٹوکرے برسائے ہوں گے.
 

تجمل حسین

محفلین
ضیاء محی الدین کے سیشن کی ابتداء میں سیکرٹری آرٹس کونسل کراچی ان کا تعارف کرواتے ہوئے حاضرین سے یوں مخاطب ہوئے، ”آپ سے درخواست ہے کہ ایسی خاموشی اختیار کریں جیسے آپ اپنے کسی گھر والے کی میت میں خاموش ہوتے ہیں۔“ یہ معیارِ نظامت تھا۔
ویسے یہ درخواست مَردوں سے کی گئی تھی یا عورتوں سے؟ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ دونوں مضامین بہرحال تصویر کے ایک رخ کی ترجمانی تو کرتے ہیں مگر اسے صد فی صد درست کہنا مشکل ہے۔ دراصل احمد بھائی آپ بھی جانتے ہیں آرٹس کونسل میں ، بلکہ زیادہ تر ادبی محافل میں کچھ نہ کچھ حصہ تو سفارشی لوگوں کا بھی ہوتا ہے۔ تاہم آرٹس کونسل کی تمام تر کاوشوں کو یک سر نظر انداز کردینا بھی مناسب نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کانفرنس کے حوالے سے ڈان نیوز کا یہ تجزیہ بھی اہم ہے۔
کسی معاشرے پر بھی جب زوال آتا ہے، تو بہت سے شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نہ جان پاؤ گے
رؤف پاریکھ کا یہ انگریزی مضمون بھی ایک کہانی سناتا ہے۔
WANT to become a scholar of Urdu overnight? ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔the name of an international Urdu conference?​

محمداحمد بھائی ! بہت ہی تکلیف دہ پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے آپ نے ۔ اسے ہماری بدقسمتی ہی کہیئےکہ ہمارے معاشرے مین اب کوئی بھی طبقہ یا ادارہ بشمول ادب غیر اخلاقی سیاست سے پاک نہیں رہا ۔ بد ذوقی کی معذرت چاہتاہوں لیکن اس وقت اپنا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے جو بہت پہلے کہا تھا :
سب کاروبارِ نقد و نظر چھوڑنا پڑا
بِکنے لگے قلم تو ہنر چھوڑنا پڑا​
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ دونوں مضامین بہرحال تصویر کے ایک رخ کی ترجمانی تو کرتے ہیں مگر اسے صد فی صد درست کہنا مشکل ہے۔ دراصل احمد بھائی آپ بھی جانتے ہیں آرٹس کونسل میں ، بلکہ زیادہ تر ادبی محافل میں کچھ نہ کچھ حصہ تو سفارشی لوگوں کا بھی ہوتا ہے۔ تاہم آرٹس کونسل کی تمام تر کاوشوں کو یک سر نظر انداز کردینا بھی مناسب نہیں۔

بالکل! بجا فرمایا آپ نے۔

اسی لئے تو ہم نے پوچھا تھا کہ:

ادب دوست بھائی !

اردو کانفرنس کیسی رہی؟ آپ نے کس حد تک شرکت کی؟
 

فاتح

لائبریرین

اکمل زیدی

محفلین
محمداحمد بھائی، ضرور اپنی رائے سے آگاہ کروں گا مگر پہلے اکمل زیدی میاں سے کیا وعدہ پورا کرنا ہے ۔
ارے ارے ..کاہے بدنام کرے ہے ہم کا ...عدبوا بھیا ....ہم تہار کو پابند نہ کرت ہے...سنائی دیو .... ( گراں گزرے تو بتا دیجیے گا احتیاط وقت فردا کے لئے ویسے اس زبان کا بھی اپنا ہے مجا سوری مزہ ہے :) )
 
ان سے کیا وعدہ کیا تھا کہ راز ہائے کانفرنس کسی پر عیاں نہیں ہونے دیں گے؟ اکمل زیدی صاحب سے ایسی توقع نہ تھی ہمیں :laughing:

ہا ہا ہا۔۔۔
نہیں فاتح بھائی بات پوشیدہ رکھنے کا نہیں بات بیان کرنے کا وعدہ ہے
ارے ارے ..کاہے بدنام کرے ہے ہم کا ...عدبوا بھیا ....ہم تہار کو پابند نہ کرت ہے...سنائی دیو .... ( گراں گزرے تو بتا دیجیے گا احتیاط وقت فردا کے لئے ویسے اس زبان کا بھی اپنا ہے مجا سوری مزہ ہے :) )
زبان یار من ترکی ..۔ ( قطعی گراں نہیں)
جی پابندی آپ کی طرف سے نہیں میری خودساختہ ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
جب تک ادب دوست بھیا اکمل زیدی صاحب کو رام کرتے ہیں تب تک آپ مقتدا منصور کا یہ کالم پڑھیں۔


عالمی اردو کانفرنس
مقتدا منصور

کراچی میں قائم آرٹس کونسل آف پاکستان علم و ادب اور فنون لطیفہ کی سرپرستی اور فروغ کا ایک قابل ذکر و قابل احترام ادارہ ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں سے تسلسل کے ساتھ اردو کانفرنس کا اہتمام کر کے اپنی علم دوستی اور قومی زبان سے محبت کا اظہار کر رہا ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے اہل قلم شرکت کرتے ہیں۔ اس سال بھی یہ کانفرنس 8 دسمبر سے 11 دسمبر تک چار دن جاری رہی۔ کانفرنس کے متنوع موضوعات اور بے مثال انتظام و انصرام اس کی کامیابی کا مظہر ہیں۔

امسال جن موضوعات پر کانفرنس میں اظہار خیال کیا گیا، ان میں نفاذ اردو، مسائل و امکانات، اردو کا نصاب تعلیم، اردو کا نعتیہ ادب، اردو تنقید کا معاصر منظرنامہ، اردو ڈرامہ اور فلم، اردو کے پاکستان کی دیگر زبانوں سے رشتے، اردو شاعری: روایت اور نئے امکانات، اردو کی نئی بستیاں اور نئے لسانی رشتے، افسانوی ادب، بچوں کا ادب اور ذرایع ابلاغ اور زبان شامل تھے۔ اس کے علاوہ عبداللہ حسین کی ادبی خدمات پر مکالمہ، عصمت اور بیدی صد سالہ جشن پر مذاکرہ، معروف کلاسیکل موسیقار استاد رئیس خان اور ضیا محی الدین کی پرفارمنس، انور مسعود اور انور مقصود کے نام شامیں، خطے میں امن کے مسائل، منٹو پر تحریک نسواں کا ڈرامہ اور یادرفتگان جیسے پروگراموں نے کانفرنس کی رنگارنگی کو چار چاند لگا دیے۔
اردو برصغیر میں جنم لینے والی وہ لشکری زبان ہے، جس کے لب و لہجہ میں فارسی کی شیرینی اور اس دھرتی کی تہذیبوں کی خوشبو اور مہک پائی جاتی ہے۔ اس زبان پر شمالی ہند کے کھڑی بولی، پوربیا اور بھوج پوری بولنے والوں سے زیادہ حق اہل پنجاب کا ہے، جنھوں نے اس زبان کے دامن کو وسیع کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس پر اہل سندھ کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا کہ اہل اتر پردیش اور مدھیہ پردیش اور بہار کے لوگوں کا ہے۔ خیبر پختونخوا کے شاعروں اور ادیبوں کی خدمات کسی طور بھی دکن کے اہل دانش سے کم نہیں۔ بلوچستان کے ادیبوں، شاعروں اور کہانی کاروں کا کردار اردو کی ترقی و ترویج میں انتہائی قابل قدر ہے۔

معروف دانشور اور شاعر پروفیسر سحر انصاری نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ بعض حلقوں نے دانستہ بابائے قوم کی 1948ء میں ڈھاکا میں کی جانے اس تقریر کو متنازع بنانے کی کوشش کی تھی، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اردو اور صرف اردو قومی زبان ہو گی۔ مگر ان کی تقریر کے وہ حصے ہدف کر دیے گئے، جن میں انھوں نے علاقائی زبانوں کی ترویج اور ترقی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ یہ اسی سوچے سمجھے منصوبے کا تسلسل تھا، جس کے تحت ان کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو سنسر کیا گیا تھا۔ دراصل بیوروکریسی اپنے نوآبادیاتی مفادات کی تکمیل اور ریاستی اقتدار پر اپنے مکمل اختیار کے تسلسل کی خاطر انگریزی کو جاری رکھنے پر اصرار کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے اردو کے نفاذ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالتی رہی ہے اور آج بھی ڈال رہی ہے۔ اس نے بانی پاکستان کی تقریر کو توڑمروڑ کر پیش کر کے ایک طرف بنگالی عوام کے ساتھ نا ختم ہونے والے اختلافات کی بنیاد رکھی، دوسری طرف اردو اور سندھی زبان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پنجابی زبان کو محض اس لیے پنپنے نہیں دیا کیونکہ اس کی شاعری کا تیکھاپن سیکولر رنگ رکھتا ہے، جو بیوروکریٹک مفادات سے متصادم ہے۔
دہلی سے آئے ہوئے معروف دانشور اور نقاد شمیم حنفی نے بتایا کہ برصغیر میں چھ سو کے قریب بولیاں بولی جاتی ہیں۔ جو ایک دوسرے کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کا باعث ہیں۔ جہاں تک اردو ہندی قضیہ کا معاملہ ہے تو بعض اہل دانش کا کہنا ہے کہ اس کی بنیاد فورٹ ولیم کالج کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی نے رکھی، جس کی وجہ سے رسم الخط کا تنازع شروع ہوا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے خیال میں اردو ہندی جھگڑے نے سیاسی رنگ 1942ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ ناگپور میں اس وقت حاصل کیا، جب گاندھی جی نے اردو کو قرآنی رسم الخط میں ہونے کی وجہ سے رد کیا۔ حالانکہ عصمت چغتائی اور راہی معصوم رضا سمیت اردو کے کئی نامور اہل قلم اردو کو دیوناگری یا رومن رسم الخط میں لکھے جانے کے حق میں تھے۔ جب کہ اہل دانش کا ایک بہت بڑا حلقہ یہ سمجھتا تھا اور آج بھی سمجھتا ہے کہ اردو کا حسن اس کے فارسی رسم الخط کی وجہ سے ہے۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ اردو شاعری کا حسن کسی دوسرے رسم الخط میں لکھے جانے سے ماند پڑ جائے گا۔

معاملہ یہ ہے کہ رسم الخط کی اس چپقلش کے نتیجے میں برصغیر کی ایک بہت بڑی آبادی جو معمولی سے فرق کے ساتھ تقریباً ایک ہی بولی بولتی ہے، ایک دوسرے کی تحریروں اور نگارشات کو پڑھنے سے محروم ہے۔ ہندی میں کیا ادب تخلیق ہو رہا ہے؟ وہاں کا قلمکار اور شاعر کیا سوچ رہا ہے؟ ہم اس سے قطعی بے بہرہ ہیں۔ اسی طرح ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں، اس سے بھارت کا قاری ناواقف ہے۔ یہ اس دھرتی کا المیہ ہے، جہاں کے باسیوں نے 8 سو برس ایک ساتھ گزارے۔ یہ تو خیر دو ممالک کے سیاسی معاملات کا مسئلہ ہے۔ ہم خود اپنے ملک میں وفاقی یا صوبائی سطح پر ایک ایسا دارالترجمہ قائم کرنے میں ناکام ہیں، جہاں کم از کم مقامی زبانوں میں تخلیق کیے ادب کو ایک دوسرے کے قالب میں ڈھالنے کا کوئی اہتمام ہو۔ کتنے پنجابیوں کو سندھی، بلوچی اور پشتو میں تخلیق ہونے والے ادب کے بارے میں آگہی ہے۔ اسی طرح سندھی، بلوچ اور پختون پنجابی میں تخلیق ہونے والے ادب سے ناواقف ہیں۔ اس صورتحال کا ایک اور المناک پہلو یہ بھی ہے کہ سرکاری سطح پر اردو میں مقامی زبانوں کے بعض خوبصورت اور شیریں الفاظ اور محاوروں کو شامل کر کے اسے دھرتی سے جوڑنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے اردو اور مقامی زبانوں میں کسی حد تک دوری پائی جاتی ہے، حالانکہ اس وقت اردو عملاً پورے ملک میں رابطے کی واحد زبان ہے۔

بات ہو رہی تھی آٹھویں عالمی اردو کانفرنس کی۔ یہ کانفرنس حسب روایت بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔ بعض خامیاں ایسی ہیں، جو سالہائے گزشتہ سے چلی آ رہی ہیں، مگر ان سے نجات پانے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ مثال کے طور پر ہر سیشن کا تاخیر سے شروع ہونا اور پھر منتظمین کا مقالہ نگاروں کے سر پر سوار ہو کر جلدی اختتام کا مطالبہ کرنا۔ ہر سیشن میں مقالہ نگاروں اور مقررین کی بھرمار، جب کہ بیشتر مقالہ نگار بغیر تیاری محض طویل تقریر جھاڑتے ہیں۔ آرٹس کونسل میں بڑی تعداد میں اہل دانش کی موجودگی کے باوجود چند مخصوص افراد کو بار بار پروگراموں کی نظامت کی ذمے داریاں سونپنا وغیرہ۔ اگر پروگرام ترتیب دیتے وقت ہر سیشن کے دورانیہ، اس میں مقررین کی تعداد اور تاخیر سے شروع ہونے کے نتائج وغیرہ کو مدنظر رکھ لیا جائے تو کوئی بھی سیشن اس طرح آپادھاپی میں ختم نہ ہو۔
اگر بدحواسیوں کا جائزہ لیں، تو پہلے روز افتتاحی اجلاس ڈیڑھ گھنٹے سے تاخیر سے شروع ہوا۔ چلیے ہو گیا، مگر اردو کے نصاب جیسے اہم موضوع پر گفتگو کو محض اس لیے مختصر کرنے پر اصرار کیا گیا کہ ضیامحی الدین کی پرفارمنس وقت پر ہونا تھی۔ اس طرز عمل نے اس اہم سیشن کی افادیت کو ملیامیٹ کر دیا۔ اسی طرح اردو ڈرامہ اور فلم کے سیشن میں شرکا ماضی اور آج کے ڈرامہ کا حقائق کی بنیاد پر موازنہ کرنے میں ناکام رہے۔ وہ اپنے اچھے دور کی ڈفلی بجاتے رہے۔ کسی بھی شریک گفتگو نے یہ سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ آج ڈرامہ تکنیکی اعتبار سے کس مقام پر پہنچ چکا ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تمام شرکائے گفتگو دو سے تین دہائی قبل کی مقبول شخصیات تھے۔ اس گفتگو میں آج کے قلمکاروں اور مقبول اداکاروں کی شرکت اس سیشن کو مزید دلچسپ اور معلوماتی بنا سکتی تھی۔ خطے میں امن کے مسائل والے سیشن کو بھی محض ٹرخایا گیا۔ اول تو اس سیشن میں اصل موضوع پر گفتگو نہیںکی گئی۔ اس سیشن میں ان مسائل پر بھی سیر حاصل بحث سے گریز کیا گیا جو خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس کی وجہ شرکائے گفتگو کا نامناسب انتخاب تھا، جو گفتگو ہوئی وہ سطحی نوعیت کی ہونے کے باعث تشنگی ختم نہیں کر سکی۔

بہر حال یہ آرٹس کونسل کے سیکریٹری احمد شاہ، صدر پروفیسر اعجاز فاروقی، نائب صدر پروفیسر سحر انصاری اور ان کی ٹیم میں موجود فعال اور متحرک اراکین کی کاوشوں اور محنت کا نتیجہ ہے کہ جب سے انھوں نے آرٹس کونسل کی ذمے داریاں سنبھالی ہیں، ہر سال تواتر کے ساتھ یہ کانفرنس کرا رہے ہیں۔ معمولی سی خامیاں اور نقائص اپنی جگہ، مگر اس کانفرنس نے عوام کے ایک بہت بڑے حلقے کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ پورے ملک، بلکہ عالمی سطح پر ہر سال منعقد ہونے والے اس کانفرنس کی دھوم ہے۔ دنیا بھر سے شاعر اور ادیب اس کانفرنس میں شرکت کے متمنی رہتے ہیں، جو اس کی کامیابی کی اہم دلیل ہے۔ اس کے تذکرے سال بھر چہار سو جاری رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہ کانفرنس مختلف زبانوں کے اہل دانش کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا ذریعہ ہے، جو اس ملک میں ان دوریوں کا ختم کرنے کا باعث بن رہی ہے، جو نوکرشاہی نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اردو اور مقامی زبانوں کے درمیان پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ آرٹس کونسل اردو کے ساتھ سندھی، بلوچی، پشتو، براہوی، سرائیکی، پنجابی، ہندکو اور کشمیری زبانوں پر بھی خواہ ایک روزہ ہی سہی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کر کے محبت و یگانگت کو مزید پروان چڑھانے کی کوشش کرے گا۔ ہماری نیک تمنائیں ان تمام دوستوں کے لیے ہیں، جو شجر سایہ دار لگا رہے ہیں۔

ربط
 
Top