مصطفیٰ زیدی آواز کے سائے

غزل قاضی

محفلین
آواز کے سائے

خبر نہیں تم کہاں ہو یارو

ہماری اُفتادِ روز و شب کی
تمہیں خبر مِل سکی ، کہ تم بھی
رہینِ دستِ خزاں ہو یارو
دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے
کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو
ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں
کہ بے سروسائباں ہو یارو

ہماری اُفتادِ روز و شب کی
نہ جانے کتنی ہی بار اب تک
دھنک بنی اَور بکھر چُکی ہے
عُروسِ شب اپنی خلوتوں سے
سحر کو محرُوم کر چُکی ہے
دہکتے صحرا میں دُھوپ کھا کر
شفق کی رنگت اُتر چُکی ہے
بہار کا تعزیہ اُٹھائے
نگارِ یک شب گُذر چُکی ہے

اُمیدِ نو روز ہے کہ تُم بھی
بہار کے نوحہ خواں ہو یارو

تُمھاری یادوں کے قافلے کا
تھکا ہؤا اجنبی مُسافر
ہر اِک کو آواز دے رہا ہے
خفا ہو یا بےزباں ہو یارو

( مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )
 

فرخ منظور

لائبریرین
آواز کے سائے

خبر نہیں تم کہاں ہو یارو

ہماری اُفتادِ روز و شب کی
تمہیں خبر مِل سکی ، کہ تم بھی
رہینِ دستِ خزاں ہو یارو
دِنوں میں تفرِیق مِٹ چُکی ہے
کہ وقت سے خُوش گُماں ہو یارو
ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں
کہ بے سروسائباں ہو یارو
پہنچ چکے ہو فرات تک یا
سراب کی داستاں ہو یار

ہماری اُفتادِ روز و شب میں
نہ جانے کتنی ہی بار اب تک
دھنک بنی اَور بکھر چُکی ہے
عُروسِ شب اپنی خلوتوں سے
سحر کو محرُوم کر چُکی ہے
دہکتے صحرا میں دُھوپ کھا کر
شفق کی رنگت اُتر چُکی ہے
بہار کا تعزیہ اُٹھائے
نگارِ یک شب گُذر چُکی ہے

اُمیدِ نو روز ہے کہ تُم بھی
بہار کے نوحہ خواں ہو یارو

تُمھاری یادوں کے قافلے کا
تھکا ہؤا اجنبی مُسافر
ہر اِک کو آواز دے رہا ہے
خفا ہو یا بےزباں ہو یارو
 
Top