زندگی سے محبت اور اس کے احترام کا دوسرا پہلو میری اپنی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ زندگی کے مقصد و جواز پر غور کرتے ہوئے آپ طرح طرح کے نظریات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کائنات کی بے کراں وسعتوں کے کینوس پر آپ کو اپنی ہستی اک ذرہ بے نشاں سے بھی زیادہ حقیر اور بے وقعت نظر آئے۔ آپ کے لیے یہ کم مائیگی اپنی ہستی کی توہین کے طور پر سامنے آسکتی ہے۔آپ سارے حوصلے ہار کر یہ سوچ سکتے ہیں کہ میرے جیسے یا مجھ سے بہتر بھی ہزاروں روز پیدا ہوتے ہیں اور روز ہی مر جاتے ہی تو ایک میرے ہونے نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں زندگی اپنی قدر کھونے لگتی ہے۔ اس سے محبت محض خودفریبی اور قید با مشقت محسوس ہوتی ہے۔ اپنی ہستی کی بے توقیری کے احساس کا جوابی ردعمل زندگی کا احترام بھی حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتا ہے۔ ایسے پریشان کن لمحات آپ سے آپ کی زندگی آپ کے ہاتھوں ہی کسی ان چاہے انجام تک پہنچوا سکتے ہیں۔ سو ہمیں زندگی کے مقصد و جواز کی تلاش میں بہت آگے جانے سے پہلے وہ حدود طے کر لینی چاہییں جن کا پاس رکھنا اس تلاش و تحقیق سے کم اہم نہ ہو۔ میں نے ان حدود کو زندگی سے عہدِ محبت اور اس کے احترام کے نام سے معنون کیا ہے۔ یہ عنوان مجھے یاد دلاتا رہے گا کہ میری دریافتوں سے حاصل کردہ کوئی بھی غیر حتمی یا حتمی نتیجہ مجھے اس عہد کے خلاف نہیں جانے دے گا۔