آن لائن ڈائری لکھیں!!!

سیما علی

لائبریرین
پشتو کی ضرب المثل ہے ’نرمی سے تم مجھے جہنم میں دھکیل سکتے ہو مگر زبردستی جنت میں بھی نہیں لے جا سکتے۔‘
 
محبت ایک عجب جذبہ ہے جس سے زندگی میں رنگ بھرے جاتے ہیں, خزاں بھی بہار لگنے لگتی ہے, ہر چیز ہر لمحہ ہر پل حسین اور خوبصورت ہو جاتا ہے.
محبت اوس کی صورت
پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
گلوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی، مسکراتی جگمگاتی ہے
محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے
کسی فردوس کی صورت
محبت اوس کی صورت
محبت ابر کی صورت
دلوں کی سر زمیں پہ گھر کے آتی ہے اور برستی ہے
چمن کا ذرہ زرہ جھومتا ہے مسکراتا ہے
ازل کی بے نمو مٹی میں سبزہ سر اُٹھاتا ہے
محبت اُن کو بھی آباد اور شاداب کرتی ہے
جو دل ہیں قبر کی صورت
محبت ابر کی صورت
محبت آگ کی صورت
بجھے سینوں میں جلتی ہے تودل بیدار ہوتے ہیں
محبت کی تپش میں کچھ عجب اسرار ہوتے ہیں
کہ جتنا یہ بھڑکتی ہے عروسِ جاں مہکتی ہے
منڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھر اتی ہیں
نگر میں نا امیدی کی ہوئیں سنسناتی ہیں
گلی میں جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتا
دکھے دل کے لئے جب کوئی دھوکا نہیں رہتا
غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو
یہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہے
کسی ہمدرد کی صورت
محبت
یہ محبت اگر خالق محبت سے ہو جائےجو
رب الودود
حسن حقیقی
محبوب ازل ہے
تو وجود سرسبز ہو جائے.
اس آیت مبارکہ پر غور کریں:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ (سورۃ البقرہ: 165)
ترجمہ: اور ایمان والے تو اللہ سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں.
آئیں اپنے دلوں کو ٹٹولیں. کیا یہ تمام خوبصورت احساسات ہمارے اپنے کریم رب کے لیے ہیں.
جو اپنی ذات میں صفات میں لامحدود ہے. جس کی محبت لا محدود ہے. جس کی محبت کی ہر آنے والے دن ایک نئی لذت ہے.
کل یوم ھو فی شان (سورۃ رحمان : 29)
آئیں واپس اپنے رب کی طرف پلٹیں.
اللہ سے محبت کریں.
اللہ سے محبت اللہ کے ذکر سے دلوں میں بھرتی ہے. اللہ کا ذکر اللہ والوں سے سیکھیں اور ان تمام پیار بھرے جذبات کا لطف اٹھائیں.
جزاک اللہ
 
تجھ سے جو دھیان کا تعلق ہے
پکے ایمان کا تعلق ہے ۔
میری چپ کا تیری ذات سے ،روح اور جان کا تعلق ہے
تو سمجھتا ہے میرے لہجے کو،
اور یہ مان کا تعلق ہے ۔
تجھ سے میرے خیال کا رشتہ،
یعنی وجدان کا تعلق ہے
تو رہتا ہےدل میں یوں جیسے،
گھر سے سامان کا تعلق ہے ۔
 
مریض: - ڈاکٹر صاحب ، یہ 2 انجیکشن کیوں لگارہے ہیں؟

آن لائن ڈگری ڈاکٹر: - ایسا ہے کہ وٹامن B12 کے انجیکشن ختم ہوچکے ہیں ، لہذا B6 کے 2 لگوالیں !

مریض: -شکر ہے B6 کے دو مل گئے ورنہ تو ، B1 کے 12 لگوانے پڑتے ۔
 
میں نے کہا۔۔! بہار ابد کا کوئی سراغ
2754.png
2754.png

جھوم اٹھے فرشتے۔۔! "صلی اللہ علیہ وسلم"
حسن مجسم
نور دو عالم
1f495.png
" صلی اللہ علیہ وسلم "
1f495.png

1f33b.png
1f340.png
1f33b.png
1f340.png
1f33b.png
1f340.png
1f33b.png
1f340.png
1f33b.png
1f340.png
1f33b.png
1f340.png
1f33b.png
 
ایک حاملہ خاتون نے اپنے شوہر سے پوچھا ! ہم اگلے دو مہینوں میں ماں باپ بننے والے ہیں،
بولی اگر بیٹا ہوا، تو کیا منصوبہ ہوگا؟

شوہر نے جواب دیا ! میں اس کو تمام روزمرہ زندگی کی روایات سکھاؤں گا، کھیل، ریاضی، لوگوں کی عزت اور وغیرہ وغیرہ۔

خاتون نے پھر پوچھا:
اگر بیٹی ہوئی تو؟

شوہر نے جواب دیا:
میں اسے کچھ نہیں سکھاؤں گا، بلکہ میں اس سے خود سیکھوں گا۔

میں غیرمشروط محبت سیکھوں گا، میری بیٹی یہ کوشش کرے گی کہ وہ میری پرورش اپنے ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے کرے۔

بالوں کی کنگھی کرنے سے لیکر ڈریسنگ تک،

ابتداءِ گفتگو سے لیکر انتہاءِ گفتگو تک،

نیز کہ وہ میرے ہر کام کو اپنی زاویہ نظر سے تربیت کرے گی۔

وہ میرے لیے دوسروں سے لڑے گی، مباحثہ کرے گی، اس کی خوشی اور غم میری طبیعت پہ منحصر ہوں گے۔

خاتون نے پھر پوچھا.
کیا بیٹا یہ سب کچھ نہیں سکھائے گا آپ کو؟

شوہر نے جواب دیا.
بیٹے میں یہ ساری خصوصیات ڈالی جاتی ہے، لیکن بیٹی ان خصوصیات کیساتھ پیدا ہوتی ہے۔

خاتون نے پوچھا.
لیکن بیٹی تو ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہے گی؟

شوہر نے جواب دیا.
بیٹی ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں رہے گی، لیکن روحانی طور پروہ ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہوگی۔

یہ بات کہہ کر شوہر نے اپنے مکالمے کو ختم کیا کہ بیٹی کے ساتھ بندھن ختم نہیں ہوتا.
 
ایک حاملہ خاتون نے اپنے شوہر سے پوچھا ! ہم اگلے دو مہینوں میں ماں باپ بننے والے ہیں،
بولی اگر بیٹا ہوا، تو کیا منصوبہ ہوگا؟

شوہر نے جواب دیا ! میں اس کو تمام روزمرہ زندگی کی روایات سکھاؤں گا، کھیل، ریاضی، لوگوں کی عزت اور وغیرہ وغیرہ۔

خاتون نے پھر پوچھا:
اگر بیٹی ہوئی تو؟

شوہر نے جواب دیا:
میں اسے کچھ نہیں سکھاؤں گا، بلکہ میں اس سے خود سیکھوں گا۔

میں غیرمشروط محبت سیکھوں گا، میری بیٹی یہ کوشش کرے گی کہ وہ میری پرورش اپنے ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے کرے۔

بالوں کی کنگھی کرنے سے لیکر ڈریسنگ تک،

ابتداءِ گفتگو سے لیکر انتہاءِ گفتگو تک،

نیز کہ وہ میرے ہر کام کو اپنی زاویہ نظر سے تربیت کرے گی۔

وہ میرے لیے دوسروں سے لڑے گی، مباحثہ کرے گی، اس کی خوشی اور غم میری طبیعت پہ منحصر ہوں گے۔

خاتون نے پھر پوچھا.
کیا بیٹا یہ سب کچھ نہیں سکھائے گا آپ کو؟

شوہر نے جواب دیا.
بیٹے میں یہ ساری خصوصیات ڈالی جاتی ہے، لیکن بیٹی ان خصوصیات کیساتھ پیدا ہوتی ہے۔

خاتون نے پوچھا.
لیکن بیٹی تو ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہے گی؟

شوہر نے جواب دیا.
بیٹی ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں رہے گی، لیکن روحانی طور پروہ ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہوگی۔

یہ بات کہہ کر شوہر نے اپنے مکالمے کو ختم کیا کہ بیٹی کے ساتھ بندھن ختم نہیں ہوتا.
بہت شاندار مکالمہ ۔۔۔۔۔۔تخلیق ہے یا انتخاب ہے ؟
 
ہم اس وقت بدترین ذہنیت کا مظاہره کرتے ہیں جب کوئی گمراه انسان راه راست پر آنے کے بعد ہمیں نیکی کی تلقین کرے
اور
ہم اسکا ماضی لے کر بیٹھ جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ جسے چاہے توبہ کی توفیق دیتا ھے۔۔دوسروں کا پردہ رکھیئے ،اللہ بھی آپکا پردہ رکھے گا۔۔۔۔اللہ ہم سبکو نیکی کے راستے پر چلائے۔۔۔۔۔۔۔آمین
 

سیما علی

لائبریرین
لبنانی عیسائی مفکر خلیل جبران بھی حضرت علیؑ کے عاشقوں میں سے ہے۔ اس کے آثار میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ وہ جب بھی دنیا کی عظیم ہستیوں کا ذکر کرتا ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام لیتا ہے۔ خلیل جبران لکھتا ہے کہ علی ابن ابی طالب دنیا سے اس حالت میں چلے گئے کہ ا ن کی اپنی عظمت و جلالت ان کی شہادت کا سبب بنی۔ علی نے اس دنیا سے اس حالت میں آنکھیں بند کیں جب ان کے لبوں پر نماز کا زمزمہ تھا، انہوں نے بڑے شوق و رغبت اور عشق سے اپنے پروردگار کی طرف رخت سفر باندھا، عربوں نے اس شخصیت کے حقیقی مقام کو نہ پہچانا، لیکن عجمیوں نے جو عربوں کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، جو پتھروں اور سنگ ریزوں سے جواہرات جدا کرنے کا ہنر جانتے تھے، کسی حد تک اس ہستی کی معرفت حاصل کی ہے۔

خلیل جبران ایک جگہ تحریر کرتا ہے کہ میں آج تک دنیا کے اس راز کو نہ سمجھ پایا کہ کیوں بعض لوگ اپنے زمانے سے بہت آگے ہوتے ہیں، میرے عقیدے کے مطابق علی ابن ابی طالب اس زمانے کے نہیں تھے، وہ زمانہ علیؑ کا قدر شناس نہیں تھا، علیؑ اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے تھے، مزید کہتے ہیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ علی ابن ابی طالب عربوں میں وہ پہلے شخص تھے، جو اس کائنات کی کلی روح کے ساتھ تھے، یعنی خدا کے ہمسایہ تھے اور علیؑ وہ ہستی تھے جو اپنی راتوں کو اس روحِ کلی عالم کے ساتھ گزارتے تھے۔
حضرت علی علیہ السلام غیر مسلم مشاہیر و علامہ اقبالؒ کی نظر میں | مکالمہ
 

سیما علی

لائبریرین
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں۔
مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی ………. عشق را سرمایۂ ایماں علی
پہلے مسلمان اور مردوں کے سردار علی ہیں، عشق کیلئے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔

از ولائے دودمانش زندہ ام ………. در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام
میں انکے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں، اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔

زمزم ار جوشد ز خاکِ من، ازوست ………. مے اگر ریزد ز تاکِ من، ازوست
اگر میری خاک سے زمزم ابلتے ہیں تو یہ انہی سے ہے اور اگر میری انگور کی شاخ سے مے ٹپکتی ہے تو یہ بھی علی سے ہے۔

از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت ………. ملّتِ حق از شکوہش فر گرفت
انکے چہرہء مبارک سے پیغمبر (ص) فال لیا کرتے تھے اور‍‌ ملّتِ حق نے ان کی شان و شوکت سے عزت حاصل کی۔

قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش ………. کائنات آئیں پذیر از دودہ اش
آپ (ص) نے علی (ع) کو روشن اور غالب دین کی قوت فرمایا، دنیا نے آپ کے خاندان سے آئین اور قانون حاصل کیا۔

مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب ………. حق ید اللہ خواند در امّ الکتاب
اللہ کے سچے رسول (ص) نے آپ کو ابو تُراب کا لقب دیا، اللہ نے قرآن میں آپ کو اللہ کا ہاتھ قرار دیا۔

ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست ………. سرّ اسمائے علی داند کہ چیست
ہر وہ کہ جو زندگی کے رموز جانتا ہے، جانتا ہے کہ علی کے ناموں کے اسرار کیا ہیں۔

شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد ………. ایں گِلِ تاریک را اکسیر کرد
اللہ کے شیر نے اس خاک کو تسخیر کیا اور اس تاریک مٹی کو اکسیر کر دیا۔

مرتضیٰ کز تیغِ او حق روشن است ………. بوتراب از فتح اقلیمِ تن است
مرتضیٰ کہ ا ن کی تلوار سے حق روشن اور آشکار ہوا اور وہ بوتراب یعنی مٹی کے باپ ہیں کہ انہوں نے تن کی سلطنت کو فتح کیا۔

زیرِ پاش اینجا شکوہِ خیبر است ………. دستِ اُو آنجا قسیمِ کوثر است
اس دنیا میں خیبر کی شان و شوکت ان کے پاؤں کے نیچے ہے اور اُس جہاں میں ان کا ہاتھ آبِ کوثر تقسیم کرنے والا ہے۔

ذاتِ اُو دروازہٴ شہرِ علوم ………. زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم
ان کی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اور ان کے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔!!!!!!!!!!!
 
*تین فطری قوانین جو کڑوے ہیں لیکن حق ہیں۔*
‏*پہلا قانون فطرت*
‏ اگر کھیت میں دانہ نہ ڈالا جائے تو قدرت اسے گھاس پھوس سے بھر دیتی ہے۔ اسیطرح اگر دماغ کو اچھی فکروں سے نہ بھرا جائے تو کج فکری اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔
‏*دوسرا قانون فطرت*
‏جس کے پاس جوکچھ ہوتا ہے وہی بانٹتا ہے. *خوش انسان* خوشی بانٹتا ہے۔ *غمزدہ انسان* غم بانٹتا ہے۔ *عالم* علم بانٹتا ہے۔ *مذہبی اور دیندار انسان* دین بانٹتا ہے۔ *خوف زدہ انسان* خوف بانٹتا ہے
‏*تیسرا قانون فطرت*
‏آپ کو زندگی سے جو کچھ بھی حاصل ہو اسے *ہضم کرنا سیکھیں!* اس لئے کہ *کھانا* ہضم نہ ہونے پر بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔ اسی طرح *مال وثروت* ہضم نہ ہونے کی صورت میں ریاکاری بڑھتی ہے.۔ *بات* نہ ہضم ہونے پر چغلی بڑھتی ہے۔
*تعریف* نہ ہضم ہونے کی صورت میں غرور میں اضافہ ہوتا ہے۔ *مذمت* کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے دشمنی بڑھتی ہے۔ *غم* ہضم نہ ہونے کی صورت میں مایوسی بڑھتی ہے۔ *اقتدار اور طاقت* نہ ہضم ہونے کی صورت میں خطرات میں اضافہ ہوتا ہے
‏*میری دعا ہے کہ ۔۔۔*
‏*اللہ تعالٰی* ہماری سوچ کو اچھا کرے، ہمیں آسانیاں، خوشیاں اور علم دین بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے،
 

رومی

لائبریرین
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ میں نے بھی کافی عرصے سے ڈاٸری لکھنا چھوڑا ہے۔ ڈاٸری لکھنے کی اپنی اہمیت ہے۔ اسی کو محسوس کرتے ہوٸے، میں نے آن لاٸن ڈاٸری لکھیں کے عنوان سے لڑی کا انتخاب کیا ہے۔ آپ تمام سے گزارش ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اس لڑی میں ضرور لکھیں۔ خواہ وہ ایک سطر ہی کیوں نہ ہو۔
شکریہ
اللہ نگہبان
میں نے آج دو سطر لکھ دی ہے:)
 
*تین فطری قوانین جو کڑوے ہیں لیکن حق ہیں۔*
‏*پہلا قانون فطرت*
‏ اگر کھیت میں دانہ نہ ڈالا جائے تو قدرت اسے گھاس پھوس سے بھر دیتی ہے۔ اسیطرح اگر دماغ کو اچھی فکروں سے نہ بھرا جائے تو کج فکری اسے اپنا مسکن بنا لیتی ہے۔
‏*دوسرا قانون فطرت*
‏جس کے پاس جوکچھ ہوتا ہے وہی بانٹتا ہے. *خوش انسان* خوشی بانٹتا ہے۔ *غمزدہ انسان* غم بانٹتا ہے۔ *عالم* علم بانٹتا ہے۔ *مذہبی اور دیندار انسان* دین بانٹتا ہے۔ *خوف زدہ انسان* خوف بانٹتا ہے
‏*تیسرا قانون فطرت*
‏آپ کو زندگی سے جو کچھ بھی حاصل ہو اسے *ہضم کرنا سیکھیں!* اس لئے کہ *کھانا* ہضم نہ ہونے پر بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔ اسی طرح *مال وثروت* ہضم نہ ہونے کی صورت میں ریاکاری بڑھتی ہے.۔ *بات* نہ ہضم ہونے پر چغلی بڑھتی ہے۔
*تعریف* نہ ہضم ہونے کی صورت میں غرور میں اضافہ ہوتا ہے۔ *مذمت* کے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے دشمنی بڑھتی ہے۔ *غم* ہضم نہ ہونے کی صورت میں مایوسی بڑھتی ہے۔ *اقتدار اور طاقت* نہ ہضم ہونے کی صورت میں خطرات میں اضافہ ہوتا ہے
‏*میری دعا ہے کہ ۔۔۔*
‏*اللہ تعالٰی* ہماری سوچ کو اچھا کرے، ہمیں آسانیاں، خوشیاں اور علم دین بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے،
امین
 
Top