آن لائن ڈائری لکھیں!!!

ہمارے ایک بزرگ دوست جوکہ ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے. اکثر کہا کرتے تھے کہ یار ! ساری عمر ہی ڈرتے رہے۔
پہلے والدین سے، پھر پڑھائی کے زمانے میں استادوں سے، اب نوکری میں افسروں سے اور موت کے خوف سے خدا سے۔
میں نے کہا کہ ملک صاحب! آپ نے بیوی سے ڈرنے کا ذکر نہیں کیا۔
کہنے لگے " ڈر کے مارے"۔
 
تقویٰ اور صبر کا بدلہ.!
"... کیا سچ مچ تم ہی یوسف ہو. اس نے کہا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے. اللہ نے ہم پر فضل فرمایا. جو شخص ڈرتا ہے اور صبر کرتا ہے تو اللہ نیک کام کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا. (90 یوسف)
" تقویٰ اور صبر کرنے والوں کا اجر خدا ضائع نہیں کرتا ".
یہی پورے قصہ یوسف کا خلاصہ ہے.
اللہ تعالٰی کو اس کی ایک واضح مثال قائم کرنی تھی کہ معاملات دنیا.... میں جو شخص اللہ سے ڈرنے والا طریقہ اختیار کرے اور بے صبری والے طریقوں سے بچے، بالآخر وہ اللہ کی مدد سے ضرور کامیاب ہوتا ہے. حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو اسی حقیقت کی ایک نظر آنے والی مثال بنا دیا گیا.
حضرت یوسف علیہ السلام کا کنویں میں ڈالا جانا اور پھر اس سے نکل کر مصر پہنچنا دونوں اللہ کی نگرانی میں ہوا........ اللہ چاہتا تو آپ کو کنویں کے مرحلے سے گزارے بغیر مصر کے اقتدار تک پہنچا دیتا........ لیکن اگر یہ تمام غیر معمولی حالات پیش نہ آتے تو اسباب کی اس دنیا میں یوسف علیہ السلام اس بات کی مثال کیسے بنتے کہ اللہ ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تقویٰ اور صبر کی روش پر قائم رہیں.
 
میں بینک سے قرضہ لینے گیا. بینک ایڈمن خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟
میں نے عاجزی سے جواب دیا کہ میں آپ کی طرح ایڈمن ہوں.
بینک ایڈمن میرے احترام میں کھڑی ہوئی، میرا اور گھر والوں کا حال احوال پوچھا.
پھر گھنٹی بجا کر چائے اور کیک لانے کے لئے کہا. اس کے بعد مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں ایڈمن ہیں؟
میں نے جواب دیا کہ میں واٹس ایپ گروپ کا ایڈمن ہوں
یہ سن کر بینک ایڈمن نے مجھے فوراً بینک سے باہر نکال دیا، حالانکہ میرا دل کیک میں اٹکا ہوا تھا جو بہت لذیذ نظر آرہا تھا !!
 
جب کبھی خون کے رشتے دل دکھائیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کو یاد کر لینا جن کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں پھینک دیا تھا.

جب کبھی لگے کہ تمھارے والدین تمھارا ساتھ نہیں دے رہے تو ایک بار حضرت ابراھیم ؑ کو ضرور یاد کر لینا جن کہ بابا نے انکا ساتھ نہیں دیا بلکہ انکو آگ میں پھنکوانے والوں کا ساتھ دیا.*

جب کبھی لگے کہ تمہارا جسم بیماری کی وجہ سے درد میں مبتلا ہے تو ہائے کرنے پہلے صرف ایک بار حضرت ایوبؑ کو یاد کرنا جو تم سے زیادہ بیمار تھے.*

جب کبھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو شکوہ کرنے سے پہلے حضرت یونسؑ کو ضرور یاد کرنا جو مچھلی کے پیٹ میں رہے اور وہ پریشانی تمہاری پریشانیوں سے زیادہ بڑی تھی ۔*

اگر کبھی جھوٹا الزام لگ جائے یا بهتان لگ جائے ناں ! تو ایک بار اماں عائشہ ؓ کو ضرور یاد کرنا ۔*

اگر کبھی لگے کہ اکیلے رہ گئے ہو تو ایک بار اپنے بابا آدم ؑکو یاد کرنا جن کو اللّٰہ نےاکیلا پیدا کیا تھا اور پھر انکو ساتھی عطا کیا ۔تو تم ناامید نہ ہونا تمہارا بھی کوئی ساتھی ضرور بنے گا ۔*

اگر کبھی اللّه کے کسی حکم کی سمجھ نہ آرہی ہو تو اس وقت نوح ؑ کو یاد کرنا جنہوں نے بغیر کوئی سوال کیے کشتی بنائی تھی پر اللّه کے حکم کو مانا تھا تو تم بھی ماننا.

اور اگر کبھی تمھارے اپنے ہی رشتے دار اور دوست تمہارا تمسخر اڑائیں تو نبیوں کے سردار خاتم النبیین حضرت محمّد صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّم کو یاد کر لینا ۔

تمام نبیوں کو الله نے آزمائش میں ڈالا کہ ہم ان کی زندگیوں سے صبر و استقامت ، ہمت وتقوٰی اور ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کریں ۔

اپنے نبیوں کی زندگیوں کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ انھیں اپنا آئیڈیل بنائیں.

(کاپی)
 
؎ منظر خوبصورت ہے،بصارت دیکھتی ہےیہ
کیوں،کیسے؟کودیکھےجو،بصیرت اسکو کہتے ہیں۔
270d.png
ام عبدالوھاب
270d.png
 
میاں بیوی میں بات چیت بند ہو گئی۔
ایک دن بعد ﺑﯿﻮﯼ بولی: ﻣﯿﮟ 10 ﺗﮏ ﮔﻨﻮﮞ ﮔﯽ، ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﮯ ﺗﻮ ﺯﮨﺮ ﮐﮭﺎ ﻟﻮﮞ ﮔﯽ.

ایک۔۔۔۔
ﺷﻮﮨﺮ ﺧﺎﻣﻮﺵ
دو۔۔۔۔۔
ﺷﻮﮨﺮ ﺧﺎﻣﻮﺵ
تین۔۔۔۔۔
ﺷﻮﮨﺮ ﺧﺎﻣﻮﺵ
چار۔۔۔۔
شوہر خاموش
پانچ۔۔۔۔۔
شوہر خاموش
چھ۔۔۔۔۔
شوہر خاموش
سات۔۔۔۔
شوہر خاموش
آٹھ۔۔۔۔۔
شوہر خاموش

ﺑﯿﻮﯼ نے 9بولتے رونا شروع کر دیا.
ﺷﻮﮨﺮ:
ﮔﻨﺘﯽ ﮔﻨﻮ، ﮔﻨﺘﯽ
ﺑﯿﻮﯼ: ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﺁﭖ ﺑﻮﻟﮯ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ.
۔۔۔ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﺑﭻ ﮔﺌﯽ۔ .
 
ایک باپ کو ڈائری لکھنے کا شوق تھا وہ ہر روز کے واقعات اپنی ڈائری میں لکھتا تھا یہ ہی عادت ایک دن اُس کے کام آئی۔ ایک دن اُس کے بچے نے بڑی معصومیت سے پوچھا اباجی یہ جو دیوار پر پرندہ بیٹھا ہے اُس کا نام کیا ہے؟ ابا جی نے بڑے پیار سے کہا بیٹا یہ کوا ہے بیٹے نے پھر سے سوال کیا نہیں ابا جی یہ کوا نہیں لگ رہا آپ صحیح سے بتائیں یہ کیا ہے؟ اباجی نے پھر سے بڑے ہی پیار سے کہا بیٹا یہ کوا ہی ہے بیٹے نے پھر یہ ہی سوال دوہرا یا اور کم سے کم دس بار یہ ہی سوال دہراتا رہا ابا جی نے بڑے ہی پیار سے دس بار یہ ہی جواب دیا کہ یہ کوا ہے ۔

ایک دن بوڑھا باپ جب اپنی ڈائری پڑھ رہا تھا تو اُس نے یہ واقعہ پڑھا اُس نے سوچا آج میرا بیٹا بڑا ہوگیا ہے آج میں اُس سے پوچھ کر دیکھتا ہوں میرا بیٹا کیا جواب دیتا ہے بیٹا یہ جو دیوار پر بیٹھا ہے یہ کیا ہے بیٹے نے پیار سے کہا اباجی یہ کوا ہے اباجی نے کہا نہیں صحیح نہیں بتا رہے آپ صحیح سے بتاو اِس کا نام کیا ہے بیٹے نے کہا اباجی آپ کو بتایا تو ہے کہ یہ کوا ہے اباجی نے پھر سے پوچھا بیٹا یہ جو دیوار پر بیٹھاہے یہ کیا ہے اباجی آپ کو دو بار بتادیا ہے آپ کو سمجھ نہیں آتی لگتا ہے بڑھاپے میں دماغ کے ساتھ ساتھ نظر بھی کمزور ہوگئی ہے اپنا ٹیسٹ کرواو جاکر ۔

پھر باپ نے اُس کو یہ ڈائری کا ورق دکھایا اور کہا بیٹا ایسے ہی تو نے بھی مجھ سے بچپن میں دس بار ایک ہی سوال پوچھا تھا اور میں نے تجھے دس بار ہی بڑے پیار سے بتایا تھا کہ یہ کوا ہے آج تیری باری تھی بتانے کی ۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
ایک باپ کو ڈائری لکھنے کا شوق تھا وہ ہر روز کے واقعات اپنی ڈائری میں لکھتا تھا یہ ہی عادت ایک دن اُس کے کام آئی۔ ایک دن اُس کے بچے نے بڑی معصومیت سے پوچھا اباجی یہ جو دیوار پر پرندہ بیٹھا ہے اُس کا نام کیا ہے؟ ابا جی نے بڑے پیار سے کہا بیٹا یہ کوا ہے بیٹے نے پھر سے سوال کیا نہیں ابا جی یہ کوا نہیں لگ رہا آپ صحیح سے بتائیں یہ کیا ہے؟ اباجی نے پھر سے بڑے ہی پیار سے کہا بیٹا یہ کوا ہی ہے بیٹے نے پھر یہ ہی سوال دوہرا یا اور کم سے کم دس بار یہ ہی سوال دہراتا رہا ابا جی نے بڑے ہی پیار سے دس بار یہ ہی جواب دیا کہ یہ کوا ہے ۔

ایک دن بوڑھا باپ جب اپنی ڈائری پڑھ رہا تھا تو اُس نے یہ واقعہ پڑھا اُس نے سوچا آج میرا بیٹا بڑا ہوگیا ہے آج میں اُس سے پوچھ کر دیکھتا ہوں میرا بیٹا کیا جواب دیتا ہے بیٹا یہ جو دیوار پر بیٹھا ہے یہ کیا ہے بیٹے نے پیار سے کہا اباجی یہ کوا ہے اباجی نے کہا نہیں صحیح نہیں بتا رہے آپ صحیح سے بتاو اِس کا نام کیا ہے بیٹے نے کہا اباجی آپ کو بتایا تو ہے کہ یہ کوا ہے اباجی نے پھر سے پوچھا بیٹا یہ جو دیوار پر بیٹھاہے یہ کیا ہے اباجی آپ کو دو بار بتادیا ہے آپ کو سمجھ نہیں آتی لگتا ہے بڑھاپے میں دماغ کے ساتھ ساتھ نظر بھی کمزور ہوگئی ہے اپنا ٹیسٹ کرواو جاکر ۔

پھر باپ نے اُس کو یہ ڈائری کا ورق دکھایا اور کہا بیٹا ایسے ہی تو نے بھی مجھ سے بچپن میں دس بار ایک ہی سوال پوچھا تھا اور میں نے تجھے دس بار ہی بڑے پیار سے بتایا تھا کہ یہ کوا ہے آج تیری باری تھی بتانے کی ۔۔۔۔۔۔۔
بہت اعلی.
مولانا تقی عثمانی صاحب کی ایک کتاب میں پڑھا تھا.
 
لوگ سمجهتے ہیں
بادشاہ کامیاب ہوگئے
دولت والے کامیاب ہو گئے
بڑی دگریاں لینے والے کامیاب ہو گئے
اعلیٰ عہدوں والے کامیاب ہو گئے ،
جبکہ میرا اللہ کہتا ہے!

قد افلح المومنون○
️بیشک کامیاب ہو گئے ایمان والے.
129089576_945584672637603_2630905304839755456_n.jpg
 
خلیفہ عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا- اس کی نظر ایک نوجوان پر پڑی- جس کا چہرہ بہت پُر وقار تھا- مگر وہ لباس سے مسکین لگ رہا تھا-
خلیفہ عبدالملک نے پوچھا کہ یہ نوجوان کون ہے؟ تو اسے بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام سالم ہے اور یہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔
خلیفہ عبدالملک کو دھچکا لگا۔ اور اُس نے اِس نوجوان کو بلا بھیجا-
خلیفہ عبدالملک نے پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا مداح ہوں۔ مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہو گی اگر میں تمھارے کچھ کام آ سکوں۔ تم اپنی ضرورت بیان کرو۔ جو مانگو گے تمہیں دیا جائے گا-

نوجوان نےجواب دیا، اے امیر المومنین! میں اس وقت اللہ کے گھر بیتُ اللّٰہ میں ہوں اور مجھے شرم آتی ہے کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔

خلیفہ عبدالملک نے اس کے پُرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ہو گیا۔
خلیفہ نے اپنے غلام سے کہا کہ یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ہو کر بیتُ اللہ سے باہر آئے، اسے میرے پاس لے کر آنا-

سالم بن عبداللہؓ بن عمرؓ جیسے ہی فارغ ہو کر حرمِ کعبہ سے باہر نکلے تو غلام نے اُن سے کہا کہ امیر المؤمنین نے آپکو یاد کیا ہے۔
سالم بن عبداللہؓ خلیفہ کے پاس پہنچے۔

خلیفہ عبدالملک نے کہا، نوجوان! اب تو تم بیتُ اللہ میں نہیں ہو، اب اپنی حاجت بیان کرو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کروں۔
سالم بن عبداللہؓ نےکہا، اے امیرالمؤمنین! آپ میری کونسی ضرورت پوری کر سکتے ہیں؟ دنیاوی یا آخرت کی؟
امیرالمؤمنین نےجواب دیا، کہ میری دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ہی ہے۔
سالم بن عبداللہؓ نے جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین! دنیا تو میں نے کبھی اللہ سے بھی نہیں مانگی، جو اس دنیا کا مالکِ کُل ہے۔ آپ سے کیا مانگوں گا؟ میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ہے۔ اگر اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو میں بیان کرتا ہوں۔

خلیفہ حیران و ششدر ہو کر رہ گیا-
اور کہنے لگا کہ نوجوان یہ تُو نہیں، تیرا خون بول رہا ہے۔

خلیفہ عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سالم بن عبداللہؓ وہاں سے نکلے اور حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ہوئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا. وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا.

’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے۔ اور (اپنا) کھانا اﷲ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوُجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں۔‘‘

(الدهر، 76: 7،)
 
حضرت شافعی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جس نے قرآن کا علم سیکھا اس کی قیمت بڑ ھ گئی جس نے علم فقہ سیکھا اس کی قدر بڑھ گئی، جس نے حدیث سیکھی اس کی دلیل قوی ہوئی، جس نے حساب سیکھا اس کی عقل پختہ ہوئی، جس نے نادر باتیں سیکھیں اس کی طبيت نرم ہوئی اور جس شخص نے اپنی عزت نہیں کی اسے علم نے کوئی فائدہ نہیں دیا۔
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جوشخص علماء کی محفل میں اکثر حاضرہوتا ہے اس کی زبان کی رکاوٹ دور ہوتی ہے
ذہن کی الجھنیں کھل جاتی ہیں اور جو کچھ وہ حاصل کرتا ہے اس کے لیے باعث خوشی ہوتا ہے۔
اس کا علم اس کے لیے ایک ولایت ہے اور فائدہ مند ہوتا ہے۔
 
Top