آن لائن ڈائری لکھیں!!!

بوڑھا بابا امتحانی ہال کے باہر کھڑا تھا اور بلند آواز دعائیں دے رہا تھا کہ اللہ امتحان میں کامیاب کرے.
ہم نے فوراًجیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ پیسے بابا کے ہاتھ پر اس سوچ اور نیت سے رکھ دیے کہ اللہ تعالی کے ساتھ بابا جو سودا کرکے دے رہا ہے وہاں کامیاب امیدواروں کی فہرست میں آجاٶں. ایسا نہ ہو کہ سیٹیں بُک ہوجائیں.
 

عمار نقوی

محفلین
کبھی جب "خانہ تکانی" کرتے وقت کوئی پرانی چیز ہاتھ لگ جاتی ہے خاص طور سے اگر وہ آپ کی اپنی لکھی ہوئی تحریر ہو تو بڑا خوشگوار سا احساس ہوتا ہے۔
 
کبھی جب "خانہ تکانی" کرتے وقت کوئی پرانی چیز ہاتھ لگ جاتی ہے خاص طور سے اگر وہ آپ کی اپنی لکھی ہوئی تحریر ہو تو بڑا خوشگوار سا احساس ہوتا ہے۔
بالکل ٹھیک فرمایا. ایک خوش گوار اور خوش کن احساس ذہن کے خلیوں کو تروتازگی اور فرحت بخشتا ہے. اور لکھے گئے الفاظ اپنے نہیں لگتے. اس سوچ میں ڈال دیتے ہیں کہ یہ میں نے خود لکھے تھے.
 

سیما علی

لائبریرین
مولائےِ کائنات حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا، ’اللہ نے یقین اور اطمینان میں سکون اور خوشی رکھی ہے۔ جو بے یقینی اور بے اطمینانی کا شکار ہوگا وہ دکھی اور غمزدہ ہوگا‘۔ (بہار الانوار، اشاعت 76)۔
 
ڈیرہ اسماعیل خان کا سفر درپیش آیا. ریسٹورنٹ میں دوپہر کے کھانے کے لئے بیٹھا. ہلکا پھلکا کھانا منگوایا. اتنے میں ایک چھوٹا بچہ جس کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی، آیا اور دھیمی آواز میں بولا. جوتے پالش کروانے ہیں؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور سوچا کہ کیا اتنا چھوٹا بچہ کیسے اچھی طرح پالش کرسکتا ہوگا.
ذہن میں مختلف خیالات جنم لیتے رہے. یہ خیال آیا کہ ہر کوئی پیٹ پوجا کے لئے محنت مزدری کرتا ہے لہذا میں نے بچے سے کہا. بیٹا!آپ بیٹھ جائیں. میں آپ کے لئے کھانا منگواتا ہوں. بچہ بولا. میں نے کھانا نہیں کھانا، میں نے پالش کرنی یے. اگر میں کھانا کھاٶں گا تو میرے گھر والے بھوکے رہیں گے....
میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور اپنے جوتے اس کو پالش کے لئے دیے.
 
آخری تدوین:
روڈ پر گاڑیاں مکڑی کے جال کی طرح پھنس گئی تھیں. ہم بھی انہی میں پھنس گئے تھے. بڑی مشکل سے اور وقفے وقفے سے آگے رینگ رہی تھیں. پیدل چلنے والے بیچ بیچ میں سے گزر رہے تھے. ایک چھ سالہ بچہ روڈ کراس کرنے کے چکر ان گاڑیوں کے بیچ میں سے گزرنے لگا. ابھی وہ درمیان روڈ میں پہنچا تھا کہ ایک گاڑی نے حرکت کی، بچہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچ گیا اور خوف و ڈر کے مارے واپس دوڑ لگائی.
ہم یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے. بچے کے چہرے پر خوف پھیلا تھا. اب اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ روڈ کراس کرے. اگرچہ بچے کو ناخوشگوار تجربہ ہوگیا، اس کے معصوم ذہن میں یہ حادثہ محفوظ ہوگیا ہوگا لیکن موجودہ وقت میں اس کا خوف دور کرنا بھی ضروری تھا تاکہ اس کا ذہن اور دیگر جسمانی اعضاء صحیح کام کریں... لیکن اکثر لوگ بچے کو برا بھلا کہہ رہے تھے... کوئی اس بچے کی نفسیات سمجھنے سے قاصر تھا جو کہ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے.
 

سیما علی

لائبریرین
لے زندگی کا خمس علی کے غلام سی
اے موت آ ضرور مگر احترام سے

عاشق ہوں گر ذرا بھی اذیت ھوی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا اپنے امام سے

محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
مولائے کائنات امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ :
*♦قناعت ایسا سرمایہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا♦*
(سید رضی کہتے ہیں کہ)بعض لوگوں نے اس کلام کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ نہج البلاغہ #حکمت_نمبر 464 مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ
 
آن لائن ڈائری ایک ایسا سلسلہ ہے جو مصروفیات کی اس بھیڑ میں لکھاریوں کو ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ جب وہ آن لائن ہوں تو وہ کچھ نہ کچھ شیئر کرسکیں. لہذا روزانہ کی بنیاد پر اس سلسلے میں لکھیں. ایک ہی سطر کیوں نہ ہو لیکن ضرور لکھیں.
 
انصاف، عدل اور قسط میں کیا فرق ہے ؟

ہر زبان میں کسی بھی چیز کا ایک بنیادی نام ہوتا ہے پھر وقت کے ساتھ ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس چیز کے ایک سے زیادہ نام پڑ جاتے ہیں جنہیں ہم مترادف الفاظ کہتے ہیں۔ مثلا اردو میں ٹھنڈا اور یخ دونوں ٹھنڈی چیزوں کیلئے بولا جاتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یخ اس چیز کیلئے بولا جاتا ہے جو زیادہ ٹھنڈی ہو اور جمی ہوئی لگتی ہو پر جمی نہ ہو۔

بالکل اسی طرح عربی میں ہر شے کو ایک بنیادی نام دیا گیا اور پھر اس کی بدلتی ساخت اور کیفیت کی وجہ سے اسے مخلتف نام دئے گئے ہیں تاکہ دیکھنے اور سننے والوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

انصاف کا لفظ قرآن میں نہیں ہے لیکن عرب اسے باقائدہ طور پر اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ انصاف کا روٹ نصف ہے اور نصف کے معنی ہم سب جانتے ہیں کہ نصف آدھے کو کہتے ہیں۔ لہذا کسی بھی چیز کو آدھا آدھا تقسیم کرنا انصاف ہے لیکن اسے عدل نہیں کہا جا سکتا۔

عدل کا روٹ (ع۔د۔ل) ہے۔ اس کا بنیادی معنی ہے کسی چیز کو اس مقام پر رکھنا جس مقام کی وہ حقدار ہو اسی کو وزن قائم کرنا کہتے ہیں یعنی دو بندوں میں اس طرح وزن قائم کرنا جسقدر وہ اس کے حقدار ہوں مثلا ایک روٹی ہے اور اسے ایک مرد اور بچے میں تقسیم کرنی ہو تو اس روٹی کے تین حصے مرد کو دئے جائیں گے کیونکہ اس کا معدہ بڑا ہے اور روٹی کا ایک حصہ بچے کو دیا جائیگا۔ کیونکہ بچے کا معدہ چھوٹا ہے۔ یہ تقسیم ضرورت کے مطابق ہوگی تاکہ دونوں کی ضرورت پوری ہو۔
اگر ان دونوں میں انصاف کرنا ہو تو دونوں کو نصف نصف روٹی دی جائیگی۔

اس مثال سے انصاف اور عدل کے معنی واضح ہوگئے۔ قرآن جہاں بھی عدل کی بات کرتا ہے وہاں یہی فارمولہ اپلائی ہوگا۔ اگر ماں اور بیوی میں عدل کرنا ہو ماں کی ضرورت اور بیوی کی ضرورت دیکھ کر وزن قائم کیا جائے گا۔ ماں اور بیوی میں انصاف نہیں ہوگا بلکہ عدل ہوگا۔ اسی طرح رشتہ داروں اور دیگر عزیر و اقارب کے درمیان بھی قرآن عدل کا حکم دیتا ہے، قرآن نے کہیں بھی انصاف کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

اب سب سے اہم بات قسط کیا ہے ؟
قسط کا مادہ (ق۔س۔ط) ہے۔ اور اس کا معنی ہے کسی کے حقوق اور واجبات ادا کرتے رہنا۔ ہمارے ہاں قسط یا قسطوں پر سامان خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ یہ وہی قسط ہےجو عربی زبان سے آیا ہے۔ لہذا قرآن جہاں قسط کا حکم دیتا ہے وہاں اس سے مراد مستقل بنیادوں پر حقوق کی ادائیگی ہے۔

COPIED
 

ام اویس

محفلین
لکھنے کو تو بہت کچھ ہوتا ہے، خیالات کا ہجوم ، واقعات کی بھرمار مگر ذہن کی کش مکش لکھیں یا نہ لکھیں ۔
لو بھلا !
ڈائری لکھنا اور وہ بھی آن لائن ۔۔۔اس میں انصاف ممکن ہے نہ عدل
صرف ایک پہلو کا اظہار ممکن ہے۔
بھلا کون اپنی خامیاں، غلطیاں اور خطائیں لکھ کر کراماً کاتبین کا مددگار بننا چاہے گا؟
بہر حال !
آپ لکھتے رہیے یعنی قلم کی قسط ادا کرتے رہیے۔
جزاک الله خیرا
 
لکھنے کو تو بہت کچھ ہوتا ہے، خیالات کا ہجوم ، واقعات کی بھرمار مگر ذہن کی کش مکش لکھیں یا نہ لکھیں ۔
لو بھلا !
ڈائری لکھنا اور وہ بھی آن لائن ۔۔۔اس میں انصاف ممکن ہے نہ عدل
صرف ایک پہلو کا اظہار ممکن ہے۔
بھلا کون اپنی خامیاں، غلطیاں اور خطائیں لکھ کر کراماً کاتبین کا مددگار بننا چاہے گا؟
بہر حال !
آپ لکھتے رہیے یعنی قلم کی قسط ادا کرتے رہیے۔
جزاک الله خیرا
کراماً کاتبین کے پاس انسانی تصور سے کہیں زیادہ بہترین آلات ہوں گے. ان کے پاس ریکارڈنگ اور محفوظ رکھنے کے آلات ہوں گے. یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ صرف آن لائن ڈائری سے مدد لیں گے یا یہ ان کے لئے مدد گار ہوگی. بلکہ ہمارے پل پل کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ ہوگی.
 
*** ہماری مَسجِد کا اِمام چور ہے ***

افریقہ کے ایک ملک میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔
اسی سبب ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایا
عالِم جی نے دعوت قبول کی،
اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے،
اور وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا، ۔افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعا کی اور واپس چلے گئے،
مقتدی کی زوجہ نے عالم کے جانے کے بعد,
مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی،
تو اسے یاد آیا کہ،
اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی،
لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی،
اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ،
کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟
شوہر نے جواب دیا: نہیں،
بیوی نے یہ بات شوہر کو بتای کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر آیا ہی نہیں
اور ہمارا بچہ سارا وقت دوسرے کمرے میں تھا،
اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ تو چوری کر نہی سکتا،
بالآخر دونوں اس نتیجہ پر پہنچے کہ:
رقم مہمان نے ہی چوری کی ہے
اور یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی،
کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نے اتنے عزت و احترام کے ساتھ جسے اپنے گهر بلایا،
اور انہوں نے ہی یہ غلط کام کیا،
اس شخص کو تو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا،
نہ کہ چور ڈکیٹ،
غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے حیا کے مارے اس بات کو چهپا لیا،
لیکن درعین حال عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا
تا کہ سلام دُعا نہ کرنی پڑے،
اسی طرح سال گذر گیا
اور پھر رمضان المبارک آگیا،
اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں افطار کے لیے بلانے لگے
اس شخص نے اپنی زوجہ سے کہا کہ:
ہمیں کیا کرنا چاہیئے
مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟
زوجہ نے کہا:
بلانا چاہیئے،
کیونکہ ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو،
ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے،
اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا،
اور جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے مہمان سے کہا:
جناب آپ متوجہ ہونگے کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ میرا رویہ بدل گیا ہے؟
عالم نے جواب دیا:
جی ہاں,
لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں,
تم سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا،
میزبان نے کہا
قبلہ! میرا ایک سوال ہے!
اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے،
پچھلے سال رمضان المبارک میں میری زوجہ نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی،
اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی،
اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی،
کیا رقم آپ نے لی تهی؟
عالم دین نے کہا:
ہاں میں نے لی تهی،
میزبان حیران پریشان ہو گیا،
اور عالِمِ جی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تو،
میں نے دیکها کہ،
کاونٹر پر پیسے رکھے ہوئے ہیں،
چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی،
اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے،
لہذا میں نے وہ نوٹ جمع کئے،
اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ،
ایسا نہ ہو تم وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو،
اور آپ لوگ پریشان ہو جاو،
اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا،
اور اُونچی آواز میں رونا شروع کر دیا،
اور پھر میزبان کو مخاطب کرکے کہا:
میں اس لئے نہیں رو رہا کہ،
تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا،
اگرچہ یہ بہت دردناک ہے
لیکن!
میں اس لئے گِریہ کر رہا ہوں کہ،
365 دن گذر گئے،
اور تم میں سے کسی نے قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها،
اور اگر تم قرآن کو صرف ایک بار ہی کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن میں رکھی مل جاتی،
یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید اٹها کر لایا،
اور جلدی سے کھولا،
تو اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی نظر آئی ،

یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ ،
سال بھر میں بھی قرآن نہیں کهولتے، اور اپنے آپ کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔

*خیالات بدلیں* *معاشرہ بدلیں*
COPIED
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دوست اپنے دوسرے دوست کے پاس گیا اور اپنی مشکلات کا اظہار کر کے کچھ رقم کا تقاضا کیا۔ دوست نے فوراً سے پیشتر اس کی ضرورت پوری کر دی۔ وہ رقم لے کر چلا گیا۔

اس کے جانے کے بعد یہ رونے لگا۔ اس کی بیوی نے کہا کہ جب تمہیں یہ معلوم تھا کہ یہ رقم ڈوب جائے گی، واپس نہیں ملے گی، تو تم انکار کر دیتے۔ اسے رقم نہ دیتے۔

اس نے کہا، "میں اس لیے نہیں رہ رہا کہ میری رقم واپس ملے گی یا نہیں ملے گی، بلکہ اس لیے رو رہا ہوں کہ میرے دوست کے حالات اس نہج پر آ گئے اور مجھے اس کا علم ہی نہیں۔"
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں :

آگاہ ھو جاو ! وہ علم کہ جس میں فہم نہ ھو اس میں کوئی فائدہ نھیں ھے ، جان لو کہ تلاوت بغیر تدبر کے کے سود بخش نھیں ھے ، آگاہ ہو جاؤکہ وہ عبادت جس میں فھم نہ ہو اسمیں کوئی خیر نھیں ہے ۔۔۔۔۔
 
Top