آن لائن اجتماعی قربانی 2008

میاں شاہد

محفلین
پڑھتی آنکھوں اور چڑھتی سانسوں کا شاہد کا سلام

دوستو ! کیسے ہیں آپ ؟ امید ہے خیریت سے ہوں گے۔

حج کے مبارک ماہ کی آمد آمد ہے اور پاکستانی عازمین حج کی روانگی کا سلسلہ جاری ہے اور کچھ ہی دنوں میں انشا اللہ حج کا مبارک عمل اور اس کے ساتھ ہی سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے قربانی کا فریضہ بھی ادا کیا جائے گا۔

دوستو! بنوریہ انٹرنیشنل جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی پاکستان کا ایک آن لائن شعبہ ہے اور پاکستان کے صفِ اول کے اسلامی فلاحی اداروں میں شامل ہے اور گذشتہ 25 سال سے دین و دنیا کے حوالے سے تعمیری اور تعلیمی سرگرمیوں میں پیش پیش ہے اس سال بنوریہ انٹرنیشنل کی جانب سے آپ سب کے لئے آن لائن اجتماعی قربانی کا پروگرام شروع کیا گیا ہے تاکہ پاکستان میں اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے احباب اور خاص طور پر دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بغیر کسی دقت اور پریشانی کے اجتماعی قربانی کے سلسلے میں شامل ہونے کا موقع مل سکے اور وہ بغیر کسی دقت اور پریشانی کے نہ صرف قربانی بلکہ صحیح‌معنوں‌میں اسلامی اور شرعی اصولوں کے مطابق منعقد کی جانے والی قربانی کے سلسلے میں شامل ہوکر اس فریضہ کو ادا کرسکیں۔

اس سلسلے میں مکمل تفصیلات بنوریہ انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔

ویب ایڈریس مندرجہ ذیل ہے:
Online Qurbani 2008 Binoria International
 

شمشاد

لائبریرین
بھائی جی یہاں ہی مختصر طور پر لکھ دینا تھا کہ آن لائن قربانی کیسے کرنی ہے، اخراجات کی تفصیل، وغیرہ وغیرہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
گائے کا ایک حصہ ساٹھ امریکی ڈالر
گائے کے سات حصے چار سو بیس امریکی ڈالر
بکرا ایک سو امریکی ڈالر

کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی ہو سکتی ہے۔

اچھی اسکیم ہے۔
 

میاں شاہد

محفلین
بھائی جی یہاں ہی مختصر طور پر لکھ دینا تھا کہ آن لائن قربانی کیسے کرنی ہے، اخراجات کی تفصیل، وغیرہ وغیرہ۔


اس سال قربانی کے لئے مندرجہ ذیل نرخ مقرر کئے گئے ہیں :

گائے ایک حصۃ 4000 روپیہ پاکستانی یا 60 امریکی ڈالر
مکمل گائے 7 حصے 28000 روپیہ پاکستانی یا 420 امریکی ڈالر
بکرا مکمل ایک حصہ 8000 روپیہ پاکستانی یا 100 امریکی ڈالر

رقم کی ادائیگی آن لائن پے پال یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاسکتی ہے جسکی تفصیل ادارے کی ویب پر موجود ہے یا پاکستان میں بذریعہ بنک یا آن لائن بنکنگ کے ذریعے جسکی تفصیل بھی آج رات تک اپڈیٹ کردی جائے گی۔

رقم کی ادائیگی کے بعد ضروری تفصیل ویب پر موجود ای میل لنک سے بھیج دی جائیں تاکہ آپ کو فوری طور پر یہ صرف رقم کی وصولیابی کی رسید بلکہ آپ کے حصے کی تفصیل قربانی کے دن اور ٹائم سے بھی فوری طور پر آگاہ کیا جاسکے۔

کسی بھی قسم کی مذید معلومات کے لئے مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر رابظہ کیا جاسکتا ہے
Qurbani2008@Binoriainternational.com
نوٹ: بذریعہ بنک رقوم کی ترسیل میں قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے کئی کئی روز لگ جاتے ہیں اس لئے پاکستان سے باہر کے احباب سے گذارش ہے کہ اگر ممکن ہو تو پے پال یا کریڈت کارڈ کی آپ شن کو استعمال کریں شکریہ
Online Qurbani 2008 Binoria International
 

تعبیر

محفلین
مجھے ایک بات ہمیشہ پریشان کرتی ہے قربانی کو لیکر

اللہ کو ہمارا روپیہ پیسہ یا قربانی نہیں چاہیے ہوتی ہے کیونکہ یہ سب تو اسی مالک کا ہے ۔اللہ کو صرف ہمارا ایثار اور قربانی چاہیے ہوتی ہے خواہ وہ ایک کھجور ہی کیوں نا ہو ۔
کیا یہ صحیح طریقہ ہوتا ہے یعنی بغیر محنت کیے ثواب کمانا اور نیک بننا ؟؟؟
 

میاں شاہد

محفلین
مجھے ایک بات ہمیشہ پریشان کرتی ہے قربانی کو لیکر

اللہ کو ہمارا روپیہ پیسہ یا قربانی نہیں چاہیے ہوتی ہے کیونکہ یہ سب تو اسی مالک کا ہے ۔اللہ کو صرف ہمارا ایثار اور قربانی چاہیے ہوتی ہے خواہ وہ ایک کھجور ہی کیوں نا ہو ۔
کیا یہ صحیح طریقہ ہوتا ہے یعنی بغیر محنت کیے ثواب کمانا اور نیک بننا ؟؟؟
قربانی درحقیقت سب سے بڑی محنت اور ہمت ہے، اور اللہ کے پاک نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہہ ہمیں اس کا حکم دیا گیا ہے اور ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ حکم ملنے کے بعد صرف اسے تسلیم کرلے
اللہ پاک ہمیں تمام احکامات کو من و عن پورا کرنے کی ہمت اور توفیق دے
آمین
 

میاں شاہد

محفلین
ہم تو ہر سال ایدھی والوں کو قربانی کے پیسے بھیج دیتے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ بہتر طریقہ ہے یہاں لوکل ذبح کرا کر خود کھاتے رہنے سے۔
نیکی اور بھلائی کا ہر کام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے تاہم اس بات کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے کہ جو کام بطور عبادت فرض ہوں انہیں شریعت کی مقررہ حدود میں رہ کر ہی انجام دینا ضروری ہے ، تفلی صدقات آپ جہاں چاہے اور جسے چاہے دیں مگر قربانی ایک فرض عبادت ہے اور اس کی کچھ حدود و قیود ہیں جنکا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اب ایدھی والے قربانی شرعی اصول کے تحت کرتے ہیں اور شریعت کی مقرر کردہ حدقد و قیود کا لحاظ کرتے ہیں یا نہیں ؟ اس پر کوئی حتمی رائے میں نہیں دے سکتا تاہم دین کا کام دین والے ہی بہتر کیا کرتے ہیں اور شک کے مقابلے میں یقین کو اختیار کرنا احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، میرے خیال میں ایدھی کو قربانی اور زکواۃ جیسی عبادات میں شامل کرنا شک والی بات ہے۔

فقط واللہ اعلم
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے درست لکھا میاں شاہد صاحب کہ عبادات میں خیال نہیں چلتا لیکن 'شک' بھی نہیں چلتا۔

ایدھی والوں کی چندے کی رسید پر بجا طور 'صدقے کی قربانی' کا بھی ذکر ہے اور زکوۃ کا بھی، مزید برآں ہر سال عید الضحیٰ کے موقعے پر اجتماعی قربانی باقاعدہ طور پر شرعی اصولوں کے مطابق ادا کی جاتی ہے۔

دخل در نا معقولات کیلیئے معذرت خواہ ہوں اور نہ ہی ایدھی کی کوئی ترغیب دے رہا ہوں لیکن برادرم آپ نے ایک حدیث کا سہارا لیکر اپنے 'قیاس' سے پاکستان کے ایک بڑے رفاحی ادارے کو "دائرہ عبادات" سے بارہ پتھر باہر کر دیا ہے۔
 

میاں شاہد

محفلین
آپ نے درست لکھا میاں شاہد صاحب کہ عبادات میں خیال نہیں چلتا لیکن 'شک' بھی نہیں چلتا۔

ایدھی والوں کی چندے کی رسید پر بجا طور 'صدقے کی قربانی' کا بھی ذکر ہے اور زکوۃ کا بھی، مزید برآں ہر سال عید الضحیٰ کے موقعے پر اجتماعی قربانی باقاعدہ طور پر شرعی اصولوں کے مطابق ادا کی جاتی ہے۔

دخل در نا معقولات کیلیئے معذرت خواہ ہوں اور نہ ہی ایدھی کی کوئی ترغیب دے رہا ہوں لیکن برادرم آپ نے ایک حدیث کا سہارا لیکر اپنے 'قیاس' سے پاکستان کے ایک بڑے رفاحی ادارے کو "دائرہ عبادات" سے بارہ پتھر باہر کر دیا ہے۔
جناب محترم! میں اس مراسلے میں کسی اختلافی معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن آپ کی اس تحریر نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں کم از کم اپنے سادہ لوح اور بھولے بھالے دوستوں کو کچھ تلخ حقائق سے آگاہ کر ہی دوں، اس لئے انتظامیہ سے درخواست کروں گا کہ اس مضمون کی پہلی پوسٹ کو چاہیں تو حذف کردیں اور اسے ایک نئے عنوان سے برقرار رکھیں اور اب انشا اللہ اس مضمون میں ایدھی کے حوالے سے ہی بات ہوگی تاکہ ہمارے سادے لوگ اپنی زکواۃ قربانی اور فطرانے کی عبادات کو جس انداز میں ضایع کر رہے ہیں کم از کم ان کو کچھ نہ کچھ حقیقت نظر آجائے

۱۔ سب سے پہلے تو مجھے کوئی بھی دوست اس بات کا ثبوت پیش کردے کہ ایدھی والے قربانی کہاں کرتے ہیں ؟ کیاکسی نے قربانی ہوتے خود دیکھی ہے؟ ہر سال جتنی قربانیوں کا ذکر ہوتا ہے اُن میں سے درحقیقت ہوتی کتنی ہیں ؟ یقین کریں کہ اگر آپ میں سے کسی نے اس کی کھوج لگائی تو انتہائی شرمناک جواب سامنے آئے گا، مگر یاد رہے جذباتی الفاظ نہیں بلکہ آنکھوں دیکھا ثبوت پیش کیا جائے ۔
۲۔ ہر وہ اجتماعی کام اور عبادت جو شریعت کے احکامات کے تحت ہوتی ہے اسکی نگرانی کے لئے شرعی اور فقہی امور میں ماہر افراد کی موجودگی ضروری ہے جو کہ ایدھی کے پاس دستیاب نہیں ۔
۳۔ زکواۃ، فطرانہ اور قربانی اسلامی عبادات ہیں جبکہ ایدھی کا گذشتہ ریکارڈ جو کہ وقتاًفوقتاً اخبارات کے ذریعے ہمارے سامنے آتا رہا ہے ایدھی کی اسلام بیزاری کو صاف صاف ظاہر کر رہا ہے۔
۴۔ اجتماعی قربانی کے لئے جن شرعی امُور کی موجود گی ضروری ہے اُن سے ایدھی اور ان کا کوئی بھی اہلکار واقف نہیں چناچہ ان شرائط پر عمل کرنا ایدھی انتظامیہ کے لئے ممکن نہیں جس کے نتیجے میں ایدھی کے زیر انتظام اجتماعی قربانی کی شرعی حیثیت مشکوک ہوجاتی ہے۔
۵۔ اور پھر ایدھی کے پاس ایک اور سلسلہ ہے کہ جو لوگ قربانی کا گوشت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں صرف 10 کلو گوشت ملتا ہے اور باقی ایدھی والے رکھ لیتے ہیں ایسی شرط پر قربانی شرعی طور پر باطل ہے۔

یہ کچھ موٹی موٹی باتیں تھیں جو بیان کی گئیں اب ہوسکتا ہے کہہ کچھ دوست جذباتی ہوکر ان کا انکار کرنے اور جواب دینے کی کوشش کریں مگر میں اُن احباب سے صرف یہ گذارش کروں گا کہ پہلے ایک بار تحقیق ضرور کرلیں کہیں یہ نہ ہو کہ آپ ایک غلط بات کے حمایتی بن جائیں ۔

اب کیونکہ اس مضمون میں اختلافی بات شروع ہوچکی ہے اس لئے مٰں ایک بار پھر گذارش کرں گا کہ اس کا عنوان بدل دیں ، اب مجھے اس فورم پر دوستوں کو قربانی کی دعوت دینا کچھ مناسب محسوس نہیں ہورہا، کیونکہ یہ تاثر پیدا ہوگا کہہ شاید میں اپنے ادارے کے مفاد کے لئے ایدھی پر الزام تراشی کر رہا ہوں، اور چلتے چلتے ایک اور بات کہ دوں کہ کچھ عرصہ قبل اخبارات میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ ایدھی صاحب کی ایک زوجہ محترمہ کافی نقدی اور زیوارات لے کر "فرار" ہوئی تھیں، تو وہ "نقدی اور زیورات" کس رقم سے تھے؟ کیا ہماری اور آپ کی زکواۃ اور فطرانوں کا یہی مصرف ہے ایدھی کے پاس؟
 

بلال

محفلین
ہر بندہ اپنے ایک انداز سے سوچتا ہے لیکن یونہی کسی کی سوچ کو رد کر دینا بھی تو کوئی عقل مندی نہیں۔
جیسا تعبیر نے کہا کہ اللہ تعالٰی کو ہمارے روپے پیسے کی ضرورت نہیں۔ میرے بھی کچھ اسی قسم کے خیالات ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر قربانی ہے کیوں اور اللہ تعالٰی نے اس کا حکم کیوں دیا؟ اب کچھ دوست کہیں گے کہ بس اللہ تعالٰی کا حکم ہے تو بس حکم ہے۔ لیکن میرے بھائیوں یہ جواب کوئی مسلمان تو شاید قبول کر لے لیکن غیر مسلم کو کیا جواب دیا جائے گا؟یا پھر ہمارے جو لوگ عقلی دلیل مانگیں گے ان کو کیا دلیل دی جائے گی؟
اگر ان سوالات کے جوابات کا پتہ چل جائے تو یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ اس طرح انٹرنیٹ پر یا کسی کو روپے دے کر قربانی کروا دینا کیسا ہے اور خود ایک جانور لے کر اُس کی دیکھ بھال کرنا پھر جب اُسے خوب پال پوس کر جوان کیا جائے تو اتنی دیر میں اُس سے کچھ نہ کچھ الفت ضرور ہو جاتی ہے پھر اُسے اپنے ہاتھوں یا کم از کم اپنے سامنے صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی رضا کی خاطر ذبح کرنا۔ پھر ایک جاندار کی جان نکلتے ہوئے دیکھنا۔ خون کے فوارے دیکھنا۔ درد دیکھنا۔ تڑپ دیکھنا۔ ہر چیز کو محسوس کرنا۔۔۔ ان سب سے یقینا نئی راہیں کھلتی ہیں۔ عقل مندوں کو اللہ تعالٰی کی کئی نشانیاں نظر آتی ہیں۔ اور پتہ چلتا ہے کہ جن کی وجہ سے یہ سنت آج بھی قائم کی گئی ہے انہوں نے اللہ تعالٰی کے واسطے کونسی قربانی دینے تک کا ارادہ کر لیا تھا۔
رہی بات ایدھی کی تو میں خود عبدالستار ایدھی کے کئی ایک بیانات کی مخالفت کرتا ہوں لیکن میری نظر میں‌جتنے اچھے کام ایدھی کر رہا ہے نہ کوئی مدرسہ کر رہا ہے نہ کوئی اور کر رہا ہے۔ قربانی کے واسطے پیسے چاہے ایدھی کو دیں یا کسی مدرسہ کو سب ایک ہی برابر ہے۔ مزا تو تب ہے جب آپ خود سارے انتظامات کریں اور قربانی کریں۔۔۔
آج پیسے دے کر صرف قربانی کروائی جاتی ہے کل کو پیسے دے کر روزے رکھوائے جائیں گے پھر آہستہ آہستہ پیسے دے کر اپنی نمازیں بھی پڑھوائی جائیں گی۔ پھر پیسے دے کر گناہ بھی بخشوائے جائیں گے۔ کل کو جنازہ پڑھنے کے لئے سپیشل ادارہ ہو گا جو جنازہ پڑھنے والے لوگوں کے حساب سے ریٹ مقرر کرے گا۔ 50 آدمی اگر جنازے میں چاہئے تو 10000روپے، 100 چاہئے تو 18000روپے اور 500 آدمیوں کی قیمت صرف25000روپے اور ساتھ میں 100آدمی بالکل فری جنازہ پڑھیں گے۔ ہے نا زبردست آفر۔۔۔ بندو مرتے جاؤ اور جنازے ہم سے پڑھواتے جاؤ۔۔۔
یہ میرے خیالات و نظریات ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ سب ٹھیک ہوں اور آپ مجھ سے متفق ہوں لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ بحث برائے بحث کرتے جائیں۔
 

بلال

محفلین
میاں شاہد بھائی بہت خوب آپ نے تو ایدھی صاحب کا جلوس نکال دیا۔۔۔
ایدھی صاحب کی زوجہ محترمہ والی بات آپ نے اخبارات میں پڑھی تھی میں نے ایک پروگرام میں خود ایدھی اور بلقیس ایدھی کے منہ سے سنی تھی۔ کیسی عجیب بات ہے ایدھی صاحب کے خود سنانے سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا اور جب انہوں نے سنائی تو واقعہ ایسا بدل کر اخبارات میں پیش کیا گیا کہ آپ نے بھی یہاں اُس کی مثال پیش کی ہے۔ ویسے ایدھی صاحب نے جس طرح خود اپنا واقعہ سنایا تھا میں نہیں سمجھتا کہ کوئی عام انسان اپنی غلطی اس طرح سنا سکتا ہے۔ بلکہ ہمارے سیاست دان اور دیگر معززین تو ہرگز نہیں سنائیں گے۔ ویسے کیسی عجیب بات ہے کہ آپ کا کوئی رشتہ دار آپ دے جائےتو لوگ آپ کو کہیں کہ یہ انسان ہے ہی برا کیونکہ اس کا رشتہ دار اس کو دھوکہ دے گیا ہے۔
ایدھی کی جتنی برائیاں آپ نے گنوائیں ہیں اُن سے کہیں زیادہ میں خود کئی معاملات اور شمالی علاقہ جات کے زلزلہ میں آزما چکا ہوں۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے۔
ہمیں ایک بار بالکل چھوٹا سا ایک بچہ جو مشکل سے چل سکتا تھا سڑک پر جاتا ہوا ملا ہم نے ایدھی سنٹر کو اطلاع کی۔ اُس بچے کے والدین نے بھی ایدھی سنٹر سے رابطہ کیا کہ اگر کوئی بچہ ملے تو ہمیں ضرور بتانا۔ ایدھی والوں نے فورا اُس بچے کے گھر والوں کو خبر کی اور اُن کو ساتھ لے کر رات کے تقریبا 11 بجے ہمارے پاس پہنچے یوں اُن کو اپنا بچہ واپس مل گیا۔ اب آپ بتائیں کہ جس ماں کو اُس کے جگر کا ٹکڑا ایدھی سنٹر کی وجہ سے واپس ملا وہ ایدھی کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہو گی؟ اس طرح کے دو تین مزید واقعات بھی خود ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔ جب کوئی ایمبولینس نہ ہو اور اگر ہو تو غریب کی پہنچ سے دور ہو تو اُسی ایدھی جس کی زوجہ نقدی اور زیورات لے کر فرار ہوئی تھی کی ایمبولینس ملتی ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ ہمیں بھی کچھ بتائیں؟ ایک طرف ایدھی ہمارے پیسوں کا غلط استعمال کرتا ہے اور باقی ٹھیک لیکن اسی غلط ایدھی کی امداد فورا پہنچتی ہے اور جو ہمارے پیسوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور کفر کے فتویٰ جات صادر کرتے ہیں وہ خود تو آج تک ایدھی جیسا کیا بلکہ اُس کے نزدیک ترین بھی خدمتِ خلق کا کام نہیں کر سکے۔
مزید مجھے کوئی بحث اس معاملہ پر نہیں کرنی کیونکہ میں نے ایدھی کو بھی آزمایا ہے اور باقیوں کو بھی اور ایدھی برا ہے، پیسوں کا غلط استعمال کرتا ہے، جیسا بھی ہے لیکن انسان کو کم از کم انسان ضرور سمجھتا ہے
 

میاں شاہد

محفلین
میاں شاہد بھائی بہت خوب آپ نے تو ایدھی صاحب کا جلوس نکال دیا۔۔۔
ایدھی صاحب کی زوجہ محترمہ والی بات آپ نے اخبارات میں پڑھی تھی میں نے ایک پروگرام میں خود ایدھی اور بلقیس ایدھی کے منہ سے سنی تھی۔ کیسی عجیب بات ہے ایدھی صاحب کے خود سنانے سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا اور جب انہوں نے سنائی تو واقعہ ایسا بدل کر اخبارات میں پیش کیا گیا کہ آپ نے بھی یہاں اُس کی مثال پیش کی ہے۔ ویسے ایدھی صاحب نے جس طرح خود اپنا واقعہ سنایا تھا میں نہیں سمجھتا کہ کوئی عام انسان اپنی غلطی اس طرح سنا سکتا ہے۔ بلکہ ہمارے سیاست دان اور دیگر معززین تو ہرگز نہیں سنائیں گے۔ ویسے کیسی عجیب بات ہے کہ آپ کا کوئی رشتہ دار آپ دے جائےتو لوگ آپ کو کہیں کہ یہ انسان ہے ہی برا کیونکہ اس کا رشتہ دار اس کو دھوکہ دے گیا ہے۔
ایدھی کی جتنی برائیاں آپ نے گنوائیں ہیں اُن سے کہیں زیادہ میں خود کئی معاملات اور شمالی علاقہ جات کے زلزلہ میں آزما چکا ہوں۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے۔
ہمیں ایک بار بالکل چھوٹا سا ایک بچہ جو مشکل سے چل سکتا تھا سڑک پر جاتا ہوا ملا ہم نے ایدھی سنٹر کو اطلاع کی۔ اُس بچے کے والدین نے بھی ایدھی سنٹر سے رابطہ کیا کہ اگر کوئی بچہ ملے تو ہمیں ضرور بتانا۔ ایدھی والوں نے فورا اُس بچے کے گھر والوں کو خبر کی اور اُن کو ساتھ لے کر رات کے تقریبا 11 بجے ہمارے پاس پہنچے یوں اُن کو اپنا بچہ واپس مل گیا۔ اب آپ بتائیں کہ جس ماں کو اُس کے جگر کا ٹکڑا ایدھی سنٹر کی وجہ سے واپس ملا وہ ایدھی کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہو گی؟ اس طرح کے دو تین مزید واقعات بھی خود ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔ جب کوئی ایمبولینس نہ ہو اور اگر ہو تو غریب کی پہنچ سے دور ہو تو اُسی ایدھی جس کی زوجہ نقدی اور زیورات لے کر فرار ہوئی تھی کی ایمبولینس ملتی ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ ہمیں بھی کچھ بتائیں؟ ایک طرف ایدھی ہمارے پیسوں کا غلط استعمال کرتا ہے اور باقی ٹھیک لیکن اسی غلط ایدھی کی امداد فورا پہنچتی ہے اور جو ہمارے پیسوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور کفر کے فتویٰ جات صادر کرتے ہیں وہ خود تو آج تک ایدھی جیسا کیا بلکہ اُس کے نزدیک ترین بھی خدمتِ خلق کا کام نہیں کر سکے۔
مزید مجھے کوئی بحث اس معاملہ پر نہیں کرنی کیونکہ میں نے ایدھی کو بھی آزمایا ہے اور باقیوں کو بھی اور ایدھی برا ہے، پیسوں کا غلط استعمال کرتا ہے، جیسا بھی ہے لیکن انسان کو کم از کم انسان ضرور سمجھتا ہے
محترم دوست! میرا موضوع گفتگو فرض اور واجب معاملات سے ہے آپ نے جو باتیں گنوائی ہیں وہ سب نفلی امور سے ہیں اور نفلی صدقہ آپ جسے چاہے دیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا اس لئے آپ کی یہ تحریر اپنی جگہ درست ہے۔

باقی اگر ایدھی سینٹر نے رات کے گیارہ یا بارہ بجے کسی کا بچہ واپس کر دیا تو اس سے ایدھی کو "کھلا لائسنس" تو نہیں مل سکتا نا کہ لوگوں کی زکواۃ اور فطرانے کی رقم سے لدی پھدی دلہن فرار ہوجائے اور لوگ خوش ہوں کہ ہماری زکواۃ قبول ہوگئی؟

انا اللہ و انا الیہ راجعون
 

زیک

مسافر
میں نے محض اپنا قربانی کا طریقہ شیئر کیا تھا۔ نہ کسی پر الزام لگایا تھا اور نہ ہی کسی کو اپنی تقلید کرنے کی ترغیب دی تھی۔

شاہد جس طرح کے الزامات آپ نے ایدھی پر لگائے ہیں ایسے ہی میں بنوری یا کسی اور گروپ پر بھی لگا سکتا ہوں مگر اس کا کوئ فائدہ نہیں۔ میں یہاں امریکہ بیٹھا ہوں اور پاکستان جا کر ایدھی یا بنوری یا کسی اور کو چیک نہیں کر سکتا۔ صرف ان کی بات کا اعتبار ہی کر سکتا ہوں اور ایدھی فاؤنڈیشن پر مجھے اعتبار ہے۔

بلال آپکی قربانی کی لاجک جیسی بھی ہو کچھ situations پر وہ applicable نہیں۔ پاکستان میں بھی آجکل بڑے شہروں میں صرف ایک دن پہلے ہی بکرا خریدا جاتا ہے لہذ پالنے پوسنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں میں شہر میں بکرا، دنبہ یا گائے گھر میں نہیں رکھ سکتا نہ ذبح کر سکتا ہوں۔ اس کے لئے مجھے دور فارم پر جانا ہو گا۔ پھر اسے پالے پوسے گا کون؟ فارم والے تو پھر پیار بھی انہی کو ہو گا۔ دوسرا عام طریقہ یہاں یہ ہے کہ آپ حلال سٹور والوں کو پیسے دو اور وہ بکرے یا گائے کا حصہ آپ کے لئے تیار کر دیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ تو عام دنوں مین گوشت خریدنے والی ہی بات ہے۔ دوسرے چاہے آپ فارم پر ذبح کریں یا حلال سٹور کے ذریعہ آپ کے پاس بے‌تحاشہ گوشت ہو گا۔ آپ اس گوشت کا کیا کریں گے؟ یہاں پاکستان کی طرح گوشت بانٹنے سے تو رہے۔ اور سارا گوشت خود کھانے میں قربانی کا کیا دخل؟ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ کسی رفاہی ادارے کو کہہ دیں کہ وہ آپ کی طرف سے قربانی کر کے کچھ غریبوں ہی کا بھلا کر دے؟
 
Top