حسرت موہانی آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے - حسرت موہانی

کاشفی

محفلین
غزل
آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے
تم یہ تو خوب کارِ پسندیدہ کر چلے
مایوس دل کو پھر سے وہ شوریدہ کر چلے
بیدار سارے فتنہ و خوابیدہ کر چلے
اظہار التفات کے پردے میں اور بھی
وہ عقدہ ہائے شوق کو پیچیدہ کر چلے
ہم بے خودوں سے چھپ نہ سکا راز آرزو
سب اُن سے عرضِ حال دل و دیدہ کر چلے
تسکینِ اضطراب کو آئے تھے وہ مگر
بے تابیوں کی روح کو بالیدہ کر چلے
یہ طرفہ ماجرا ہے کہ حسرت سے مل کے وہ
کچھ جان و دل کو اور بھی شوریدہ کر چلے
 

صائمہ شاہ

محفلین
آنکھوں کو انتظار سے گرویدہ کر چلے
تم یہ تو خوب کارِ پسندیدہ کر چلے

مایوس دل کو پھر سے وہ شوریدہ کر چلے
بیدار سارے فتنہ و خوابیدہ کر چلے

اظہار التفات کے پردے میں اور بھی
وہ عقدہ ہائے شوق کو پیچیدہ کر چلے

ہم بے خودوں سے چھپ نہ سکا راز آرزو
سب اُن سے عرضِ حال دل و دیدہ کر چلے

تسکینِ اضطراب کو آئے تھے وہ مگر
بے تابیوں کی روح کو بالیدہ کر چلے

یہ طرفہ ماجرا ہے کہ حسرت سے مل کے وہ
کچھ جان و دل کو اور بھی شوریدہ کر چلے
 
Top