آنکھوں میں آنسوں بھرا دریا لیے ہوئے (اصلاح اصلاح اصلاح)

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
آنکھوں میں آنسووں بھرا دریا لیے ہوئے
کس سمت جا رہا ہوں‌یہ صحرا لیے ہوئے

چہرے کے تاثرات بتاتے ہین دل کا حال
ہر کوئی اپنے من میں ہے کیا کیا ہیے ہوئے

خیرات دے رہے ہیں زمانے کے سب فقیر
سرکار اپنے ہاتھ مین کاسہ لیے ہوئے

ہر ایک کو محبتین ، تو ملنے سے رہیں
کچھ لوگ ڈھوندتے رہے پیسہ لیے ہوئے

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کرتا ہوں کس سے بات
اندھوں کے شہر میں ہوں میں دیدا لیے ہوئے

خرم تمہارے ضبط پہ حیران ہوں بہت
چپ ہوگئے ہو درد یہ کیسا لیے ہوئے

خرم شہزاد خرم

جلدی سے اصلاح کرے تانکہ میں ایک اور غزل ارسال کروں:grin:
 

الف عین

لائبریرین
خرم
کیا یار تم نون غنہ کا استعمال کرتے نہیں یا غلط کرتے ہو۔۔۔ کریں‘ کی جگہ ’کرے‘۔۔ اور کہیں ں کی جگہ ن۔۔۔۔
حاضر ہے میری رائے:

آنکھوں میں آنسووں بھرا دریا لیے ہوئے
کس سمت جا رہا ہوں‌یہ صحرا لیے ہوئے

آنسوؤں کا دریا اور صحرا؟؟

ذرا مطلب بدلنے کی اجازت ہو تو یوں کہو:
آنکھوں میں جیسے ریت کا دریا لئے ہوئے
دریا کی سمت جاتا ہوں صحرا لئے ہوئے

چہرے کے تاثرات بتاتے ہین دل کا حال
ہر کوئی اپنے من میں ہے کیا کیا لیے ہوئے

تاثرات میں ث پر شدّہ ہے۔ یہاں وزن میں تاث رات آتا ہے۔ یوں بحر میں آ سکتا ہے۔
ہر چہرے پر لکھا ہوا دیکھا ہے دل کا حال

خیرات دے رہے ہیں زمانے کے سب فقیر
سرکار اپنے ہاتھ میں کاسہ لیے ہوئے

سرکار؟ اس سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا مراد حاکم ہے؟ اس کو یوں کریں تو:
اور شہ کھڑے ہیں ہاتھ میں کاسہ ۔۔۔۔۔

ہر ایک کو محبتین ، تو ملنے سے رہیں
کچھ لوگ ڈھوندتے رہے پیسہ لیے ہوئے

پہلے مصرعے میں ’تو‘ میں واؤ کی طوالت اور ’ملنے‘ میں ے کا گرنا اچھا نہیں لگ رہا۔ اگرچہ محاورہ اچھا لگ رہا ہے۔
یہ کیسا رہے گا فاتح اور وارث؟
سب کو محبتیں تو یہاں ملنے سے رہیں

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کرتا ہوں کس سے بات
اندھوں کے شہر میں ہوں میں دیدا لیے ہوئے

دیدا اچھا نہیں لگ رہا۔ عام طور پر دیدہ بھی اضافت کے ساتھ آتا ہے، دیدۂ تر وغیرہ۔ اور دیدا، بلکہ دیدے محض طنزیہ گفتگو میں آتا ہے، کیا دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو۔۔۔
اور اگر دیدا کی جگہ ’شیشا‘ قافیہ کر دو تو شعر کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔

اندھوں کے شہر میں ہوں میں شیشہ لیے ہوئے

خرم تمہارے ضبط پہ حیران ہوں بہت
چپ ہوگئے ہو درد یہ کیسا لیے ہوئے

اگر ’چپ ہو‘ کی جگہ ’چپ رہ گئے ہو‘ کہا جائے تو؟
 

محمد وارث

لائبریرین
خرم صاحب، اعجاز کی صائب اور پُر مغز رائے کے بعد میرے لیے کچھ کہنا تو کفر کے مترادف ہوگا، ان کی باتوں پر غور کیجیئے۔ آپ کے خیالات ماشاءاللہ بہت اچھے ہیں، شعری حسن اور تغزل کیلیئے مشق اور محنت کرتے رہیں اور ہمیں اپنے کلام سے نوازتے رہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
خرم
کیا یار تم نون غنہ کا استعمال کرتے نہیں یا غلط کرتے ہو۔۔۔ کریں‘ کی جگہ ’کرے‘۔۔ اور کہیں ں کی جگہ ن۔۔۔۔
حاضر ہے میری رائے:

آنکھوں میں آنسووں بھرا دریا لیے ہوئے
کس سمت جا رہا ہوں‌یہ صحرا لیے ہوئے

آنسوؤں کا دریا اور صحرا؟؟

ذرا مطلب بدلنے کی اجازت ہو تو یوں کہو:
آنکھوں میں جیسے ریت کا دریا لئے ہوئے
دریا کی سمت جاتا ہوں صحرا لئے ہوئے

چہرے کے تاثرات بتاتے ہین دل کا حال
ہر کوئی اپنے من میں ہے کیا کیا لیے ہوئے

تاثرات میں ث پر شدّہ ہے۔ یہاں وزن میں تاث رات آتا ہے۔ یوں بحر میں آ سکتا ہے۔
ہر چہرے پر لکھا ہوا دیکھا ہے دل کا حال

خیرات دے رہے ہیں زمانے کے سب فقیر
سرکار اپنے ہاتھ میں کاسہ لیے ہوئے

سرکار؟ اس سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا مراد حاکم ہے؟ اس کو یوں کریں تو:
اور شہ کھڑے ہیں ہاتھ میں کاسہ ۔۔۔۔۔

ہر ایک کو محبتین ، تو ملنے سے رہیں
کچھ لوگ ڈھوندتے رہے پیسہ لیے ہوئے

پہلے مصرعے میں ’تو‘ میں واؤ کی طوالت اور ’ملنے‘ میں ے کا گرنا اچھا نہیں لگ رہا۔ اگرچہ محاورہ اچھا لگ رہا ہے۔
یہ کیسا رہے گا فاتح اور وارث؟
سب کو محبتیں تو یہاں ملنے سے رہیں

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کرتا ہوں کس سے بات
اندھوں کے شہر میں ہوں میں دیدا لیے ہوئے

دیدا اچھا نہیں لگ رہا۔ عام طور پر دیدہ بھی اضافت کے ساتھ آتا ہے، دیدۂ تر وغیرہ۔ اور دیدا، بلکہ دیدے محض طنزیہ گفتگو میں آتا ہے، کیا دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو۔۔۔
اور اگر دیدا کی جگہ ’شیشا‘ قافیہ کر دو تو شعر کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔

اندھوں کے شہر میں ہوں میں شیشہ لیے ہوئے

خرم تمہارے ضبط پہ حیران ہوں بہت
چپ ہوگئے ہو درد یہ کیسا لیے ہوئے

اگر ’چپ ہو‘ کی جگہ ’چپ رہ گئے ہو‘ کہا جائے تو؟

بہت شکریہ سر جی آپ کا میں‌جلد ہی نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں‌گا
 
Top