آغوشِ ستم میں ہی چھپا لے کوئی آکر

فاروقی

معطل
آغوشِ ستم میں ہی چھپا لے کوئی آکر
تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آکر

صحرا میں اُگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے
ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آکر

بِکتا تو نہیں ہوں، نہ مرے دام بہت ہیں
رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آکر

کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے
طوفاں کے ہی کرجائے حوا لے کوئی آکر

میرے کسی احسان کا بدلہ نہ چکائے
اپنی ہی وفاؤں کا صلہ لے کوئی آکر

اتنا تو ہو، پتھرائے ہوئے اشک پگھل جائیں
اپنا ہی مجھے درد سنا لے کوئی آکر

گر جائیں نہ جاگی ہوئی راتیں مرے سرسے
تھوڑا سا تو یہ بوجھ اٹھا لے کوئی آکر

سر کو نہ عدیم آکے کوئی شخص سنبھالے
دیوار ہی کو گرنے سے بچا لے کوئی آکر

(عدیم ہاشمی)
 
Top